جمع شدہ لڑکی ۔۔۔ مسلم انصاری
جمع شدہ لڑکی
مسلم انصاری
“میں جب سفر سے لوٹا تو گھر کا صحن بند خطوط سے ڈھکا ہوا تھا
(اس) نے آخری خط اپنی زندگی کے تیسویں سال کی سالگرہ پہ لکھا تھا
خط کا متن کاٹی ہوئی پتنگ کی طرح صفحے پہ گرا ہوا تھا
لفظ خزاں کے موسم میں سوکھے پتّوں کی طرح ایسے روندے ہوئے تھے کہ مانو ان پر سے پورے شہر کے لوگ گزرے ہوں
خط کا لہجہ بارش میں بنے کیچڑ کی طرح گدلا تھا
میں نے اسے بہت سی عینکیں باری باری لگا کر پڑھنا چاہا مگر وہ سمجھ نہیں آیا
میں ایک بار پھر سے سفر پہ نکل گیا
اس لڑکی کی تلاش میں جس نے متن میں کچھ لکھا ہی نہیں تھا ۔۔۔۔”
میں نے ایک لڑکی جمع کی
ایسی لڑکی جس کی آزادانہ رائے کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا
ہاں میں نے ہی ایک لڑکی جمع کی
مختلف چیزوں سے اس کے جسم کے مختلف اعضاء چنے
مجھے یاد ہے اس کا گھر جس کے زینے تنگ اور بند تھے
اس کے گھر کا دروازہ جو اپنا رنگ کھونے لگ گیا تھا
چھت کی جانب جاتی لکڑی کی پر خطر سیڑھیاں جہاں اس نے کبھی کبوتروں کو پالا اور ان کو دانہ ڈالا تھا
کچے پلستر کی دیواریں جہاں سے میں نے اس کے جسم کے پہلوؤں کو جمع کیا جب وہ تھک کر دیوار سے جا لگتی تھی
ایک کمرے کی پشت سے لگا شیشہ جہاں کبھی استعمال کیے گئے کنگے کے دندانوں میں اس کے گھنگھریالے بالوں نے دم توڑا تھا
میں نے وہ اٹھا لئے
فرش پہ پھیلے اس کے پیروں کے نشانات بس ایک کمرے سے دوسرے کمرے کی ہی جانب جاتے تھے
اس نے تیس سال کی زندگی دو کمروں کے بیچ گزاری تھی وہ چھت پر نہیں جاتی تھی
اسے لگتا تھا کہ اس کے پر کاٹے ہوئے ہیں
آسمان اس کی مسکینی کے آگے طنز کرتا ہے
نا ہی وہ کبھی گھر کے نیچے بنے سٹور روم میں گئی جہاں دو لوگوں کا جوڑا رہتا تھا
کہنے کو تو وہ اس کے اپنے تھے مگر ان میں سے ایک نے کبھی اس سے بات نہ کی
اور دوسرے نے اس لڑکی کو یہ احساس دلایا کہ وہ یہاں ہے ہی نہیں
غرض اس کے پیروں کے نشانات اوپری منزل کے کمروں میں بھاگتے رہے
میں نے انہیں جمع کرلیا
وہ کروشیا بنتی تھی
اس کا عرصہ بیتا ہوا تھا
کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ اس کے جسم کے اندر بہت سے دھاگوں کی گانٹھیں لگ گئیں ہیں
جسے کوئی کھولنے نہیں آنے والا
میں نے ان گنت کروشیوں سے اس کے پورے اکھٹے کرلئے
جائے نماز سے اس کی پیشانی،ناک،دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں کو اکھٹا کر لیا
اس کے مرحوم باپ کی تصویر پہ دئے گئے بوسے سے اس کے ہونٹ اچک لئے
اس کے بستر اور تکئے سے جہاں اس کے رونے نے دھبے بنا ڈالے تھے وہیں اس کا وہ تکیہ بھی تھا جس سے چمٹ کر وہ سویا کرتی تھی
میں نے اس کے گالوں اور بازوؤں کو اٹھا لیا
اس کے داہنے گال کا ڈمپل واضح ہوگیا
(خطوط لکھنے والی لڑکی مکمل ہونے کے قریب پہنچ گئی)
وہ بس سال کے کچھ ہی دن گہنے پہنا کرتی تھی
میں نے وہ زنگ آلود جیولری بکس الماری کے نیچے کھسکایا ہوا پایا
اس میں کچھ ہی بُندے اور لاکٹ تھے
اس کی مرحوم ماں کی چھوڑی ہوئی چند ایک چوڑیاں تھیں
شادی شدہ بہنوں کی جانب سے تحفوں میں ملے بریسلٹس اور باپ کی جانب سے بنواکر دی گئی انگوٹھی تھی
اس ڈبّے سے میں نے اس کے دُودھیا رنگی کانوں، اٹھی ہوئی گردن اور کمزور کلائیوں کو اٹھاکر جمع شدہ لڑکی سے ملادیا
الماری میں لٹکے خالی ہینگروں سے اس کے خدوخال اٹھالئے
سلیقے سے ایک جانب تہ لگائی چادر سے اس کے انداز کو اٹھالیا
دراز میں کاغذات کے نیچے دبائی ہوئی ڈائری سے اس کی باتوں اور آوازوں کو جمع کرلیا
اب باری تھی اس کے جسم کے چند ایک حصوں کی
وہ بھی آسان سا عمل تھا
نچلے سٹور روم میں رہنے والے جوڑے نے اسے جو کپڑے احسان جتلاتے ہوئے دئے تھے
جو اس نے سالہا سال پہنے پھاڑے رفوکرے اور پھر پہنے
ایسے کپڑے جو اتنے پرانے ہوگئے کہ اس کے جسم سے چپک گئے تھے
مگر اس نے پھر بھی انہیں سنبھال کر تکئے کے پاس رکھا ہوا تھا
کسے معلوم کے اس نے اتنی تنہائی دیکھی تھی کہ رات میں کبھی کبھار اٹھ کر ان کپڑوں سے بات کرنے لگ جاتی تھی
اسے لگتا تھا کہ ان کپڑوں کے اندر بھی کوئی ہے
میں نے انہیں کپڑوں سے اس کے جسم کے مخصوص اعضاء کو دھیرے سے ایک ایک کرکے اٹھا لیا
وہ سارے حصے سوکھے ہوئے تھے
ان پہ تسلیوں کے مرہم لگے ہوئے تھے
میں نے ان سبھی اعضاء کو جمع کی گئی لڑکی میں اکٹھا کردیا
وہ پوری ہوگئی
میں نے اسے گھما پھرا کر اوپر سے نیچے تک بغور دیکھا
سب جزء مکمل اور درست بیٹھے تھے
مگر
مگر اس کی آنکھیں کہیں نہیں ملیں
پورے گھر میں نہیں
دونوں کمروں میں بنی کھڑکیوں سے باہر جھانکتی ہوئی بھی نہیں
میں نے بخوبی تلاشی لی
ہر دیوار، دروازہ، دراز اور دہلیز دیکھ لی
ہر الماری، آئینہ، البم اور آہٹ دیکھ لی
یہاں تک کہ اس کے سن پیدائش سے لے کر سفری سلسلوں، تکلیفوں سے ہوتے ہوئے ہنسی مزاح پھر رویوں اور موت تک کے ہر دور کو اٹھاکر دیکھ لیا
ہر جگہ چھان ماری
ہر شئے الٹ پلٹ کر دی
اس کی آنکھیں نہیں ملیں
مجھے اس کی آنکھیں کہیں نہیں ملیں
اس نے اپنے سارے خطوط آنکھوں پہ لکھے تھے
انتظار نے اس کی آنکھیں کھا لی تھیں اور نگل لی تھیں
آزادی، شادی، خوشی کی آہٹ و طلب، رویوں میں اس کی مطلوب اہمیت، اپنوں سے نا بچھڑنے کی خواہش اور روز نئی امید کے ساتھ اٹھنے نے اور روز کی طرح ایک جانور کی مانند دن بتانے کے ساتھ رات ہوجانے نے ۔۔۔
ان سب نے ایک ساتھ ملکر اس کی آنکھوں کو پھندا لگا دیا تھا
اس کی آنکھیں ہار گئیں
میں نے سفر سے لوٹ کر واپس وہ تیسویں سالگرہ پہ لکھا خط کھولا تو اس میں لکھا سب واضح ہوگیا
اس میں لکھا تھا کہ اب جب جب میں روتی ہوں مجھے لگتا ہے آنسو ختم ہوگئے ہیں
مگر اگلی بار جانے پھر کہاں سے آجاتے ہیں
اب آنکھیں ساتھ نہیں دے رہیں
ان میں درد رہتا ہے
دوست!ان میں درد رہتا ہے!!
سامعین!!
میری دوست نے خودکشی نہیں کی بس ۔۔۔
میری دوست نے ہنسنا چھوڑ دیا ہے
بولنا چھوڑ دیا ہے!!