بلیکی ۔۔۔ نعیم بیگ
بلیکی
نعیم بیگ
کئی ایک راتوں سے مسلسل جاگنے کی وجہ سے آج صبح جب میری آنکھ کھُلی تو جسم میں کسل مندی تھی ۔ دل چاہ رہا تھا کہ دفتر سے چھٹی کر لی جائے۔ آنکھیں ملتے ہوئے میں نے کمرے میں نظر دوڑائی تو میری چارپائی کے نیچے فرش پر بلیکی سو رہی تھی۔ میرے جاگنے اور چارپائی کے چرچرانے پر وہ ذرا سی کسمسائی اور پھر پہلو بدل کر سو گئی۔ میرے سامنے رات کا پورا منظر گھوم گیا۔
فراز میرا جگری ، آجکل مڈل ایسٹ سے آیا ہوا ہے۔ اسکول سے شروع ہوتی ہماری دوستی کوئی بیس ایک سال پرانی تو ہوگی۔ ہر روز اسکا کوئی نیا پروگرام بنتا اور ہم رات گئے تک گھر پہنچتے۔ جیسے کل رات اس نے موڈ بنا لیا کہ وہ بازارِ حسن ضرور جائے گا ۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم نوجوانی کے ابتدائی دنوں میں کبھی کبھار اس طرف نکل جایا کرتے تھے لیکن ہمیشہ مایوس ہی واپس لوٹے کیونکہ ہماری خواہشات کچھ عجیب نہیں تو مشکل ضرور ہوتیں ، ہم اکثر ایک ہی بات کہتے ۔ یار۔۔۔ لونڈیا کم عمر اور خوبصورت ہوگی تو بات بنے گی ورنہ واپسی، یوں کم عمر ی و خوبصورتی کی تکرار و تلاش میں سرگرداں ہم اکثر گھوم پھر کر شہزادی تمباکو پان چباتے ناکام و نامراد واپس نکل پڑتے ، خوبصورتی کی خواہش تو اپنی جگہ ، لیکن کم عمری کی کوئی خاص وجہ اس وقت ذہن میں نہ تھی البتہ اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم بازار سے شاید جسم خریدنے جاتے ہی نہیں تھے ، بلکہ تلاش کچھ اور تھی۔
بعد میں فراز مڈل ایسٹ چلا گیا اور میں اچھی نوکری کی تلاش میں تھک ہار کر محکمہ ایجوکیشن میں کلرک لگ گیا تھا ۔ ایک بوڑھی ماں تھی، وہ بے چاری میری شادی کی خواہش دل میں لئے چل بسی ، اور یوں میں اب کرایہ کے گھر میں تنہا رہتا تھاجو ایک تنگ سی بند گلی کے آخر میں تھا۔ گمان غالب ہے کہ یہ کمرہ نما گھر کسی وقت ملحقہ گودام کے چوکیدار کاہو گا ۔ گھر کے سامنے اور دائیں جانب کپڑے کے گودام تھے جو کبھی کبھار سامان کی آمد و رفت پر ہی کھلتے۔ بائیں جانب گلی سے باہر نکلتے ہوئے تین اور گھر آمنے سامنے تھے ۔ اس لحاظ سے ہماری چھوٹی سی گلی شاہراہ عام نہ ہونے کی وجہ سے دن اور رات کو ویران ہی رہتی ۔
ہاں البتہ اس علاقے میں آوارہ کتوں کی ایک فوج رہتی تھی جو مجھ جیسے رات بھر سڑکیں ناپنے والے شخص کے لئے ایک بڑا خطرہ تھا، لیکن یہ ایک محض اتفاق تھا کہ میں جب بھی ان کتوں کے پاس سے گذرتا تو وہ بجائے بھونکنے کے مجھ پر اس طرح غراتے کہ معلوم ہوتا کچھ کہہ رہے ہیں اور کبھی کبھار تو میں واقعی ان کے پاس سے گزرتے ہوئے اگر انہیں ڈانٹ پِلادیتا تو وہ ہمیشہ پیچھے کی طرف دُبک جاتے۔ مجھے یوں لگتا جیسے وہ مجھے پہلے سے جانتے ہوں یا جان پہچان ہو۔
ادھر کئی ماہ پہلے کی بات ہے کہ میں ایک رات جب دیر سے گھر پہنچا تو دیکھا کہ ایک کالے رنگ کا کمزور سا لاوارث پِلا گھر کے باہر بیٹھا اونگ رہا تھا ۔ مجھے دیکھ کر اس نے ہلکی سی آواز میں بھوں بھوں کیا۔ میں سمجھ گیا کہ بھوک کے مارے یہاں بیٹھا ہے۔ میں نے اندر سے ڈبل روٹی کے ایک دو سلائس دودھ میں ڈبو کر اس کے سامنے ڈال دئیے ۔ کچھ دیر تو وہ سونگتا رہا پھر اس نے فوراً کھانا شروع کر دیا۔ بعد میں یہ معمول ہو گیا کہ وہ سارا دن ناجانے کہاں غائب رہتا لیکن شام ہوتے ہی گلی کی نکڑ پر میرا انتظار کرتا۔ جونہی میں گلی کے اندر داخل ہوتا وہ بھوں بھوں کرتا، دم ہلاتا میرے پیچھے چل پڑتا، اور جب تک میں گھر میں داخل ہوکر اسے کچھ نہ کچھ کھانے کو نہ دیتا یہ بھوں بھوں کرتا رہتا اور پھر کھا پی کر باہر گلی میں میری کھڑکی کے نیچے پڑا رہتا۔
جس دن مجھے یہ نظر نہ آتا تو میری نظریں بھی اسے ڈھونڈتی رہتیں ، مجھے یوں محسوس ہوا کہ ہم دھیرے دھرے ایک دوسرے کے عادی ہوتے جا رہے تھے۔
اب یہ پِلا چھوٹا سا بچہ نہ رہا تھا بلکہ اس نے چند ہی مہینوں میں اپنا قد کاٹھ نکال لیا تھا ۔ میں نے پکارنے کی خاطر اسکا نام اسکے رنگ کی وجہ سے بلیکی رکھ دیا تھا۔ میں جب بھی اسے بلیکی کہہ کر پکارتا ، یہ بھاگ کر آتا اور میرے قدموں میں لوٹ پوٹ ہو جاتا۔ اس کا چہرہ کچھ لمبوترا سا تھا لیکن سب سے اہم بات اس کی بڑی بڑی براؤن آنکھیں تھی جن کے گرد کالے رنگ کے دائرے تھے۔ یوں لگتا تھا کہ کسی حسین عورت کی آنکھیں اسکے چہرے پر لگا دی گئی ہیں ۔۔۔ اس کتے میں یہی ایک بات میری دلچسپی کا باعث تھی، میں جب بھی اسے دیکھتا تو یوں محسوس ہوتا کہ وہ برابر میری آنکھوں میں جھانک رہا ہے۔ لیکن اب اس کی ایک بات کچھ دنوں سے مجھے مسلسل پریشان اور میری رات کی نیند خراب کر رہی تھی کہ یہ رات بھر گلی کی نکڑسے پہلے پھولوں کی باڑھ کے پیچھے دُبکا بھونکتا رہتا ۔ کئی ایک بار میں نے باہر نکل کر اسے ڈانٹا تو یہ چپ کر گیا لیکن کچھ دیر بعد پھر وہی ۔۔۔ بھونکنا شروع کر دیتا۔
کل رات جب میں فراز کے ساتھ بازارِ حسن سے حسبِ معمول ناکام و نامراد واپس لوٹا تو گلی میں مڑتے ہو ئے دیکھا کہ چند ایک آوارہ کتے بلیکی کی طرف اچھل اچھل کر بھونک رہے ہیں اور بلیکی خوف زدہ سا ہو کر گلی میں اِسی باڑھ کی اوٹ میں چھپا ان پر بھونک رہا ہے ۔ میں نے آگے بڑھ کر ان کتوں کو ہاتھ سے ڈراتے ہوئے بھگا دیا۔
اسی اثنا میں کونے والے گھر سے پاجامے میں ملبوس ایک شخص نکلا اور اس نے کہا ۔۔ ’’ جناب ۔۔۔ آپ اس کتیا کو یہاں سے بھگا دیں ۔ یہ سارے کتے اس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔ کئی ایک دنوں سے یہ سب یہاں جمع ہو جاتے ہیں اور رات بھر بھونکتے رہتے ہیں۔ ہماری تو راتوں کی نیند خراب کر رکھی ہے انہوں نے مل کر۔‘‘
’’ کیا کہا ۔۔۔ کتیا؟
کیا یہ کتیا ہے؟ ‘‘ میں نے حیرت سے مڑ کر بلیکی کی طرف دیکھا ۔ میرے لئے یہ ایک انکشاف ہی تھا کہ بلیکی ایک کتیا ہے۔ یکلخت اسکی چمکدار بیضوی براؤن آنکھیں میرے ذہن میں گھوم گئیں۔
اسکی آنکھوں میں وہ سارے خواب جو ایک کتیا دیکھ سکتی ہے ، مجھے نظر آنے لگے۔
میں اِن صاحب کو اچھا کہہ کر گھر کی جانب مڑ گیا ۔ جب میں دروازہ کھول رہا تھا تو بلیکی میرے قدموں میں لوٹنے لگی۔
آج میں نے اسکے چہرے پر اطمینان کی وہ گہری لہر دیکھی جو شاید میرے آ جانے سے اسکے جسم و جاں میں دوڑ گئی تھی۔ میں نے اسے رات کا کھانا دیا اور پھر خود بستر پر لیٹ گیا۔ خیالات کا جوار بھاٹا میرے ذہن میں ابھر رہا تھا ، مجھے حیرت تھی کہ مجھے پہلے یہ خیال کیوں نہیں آیا کہ یہ کتیا ہو سکتی ہے۔ کیا میں نے بلیکی کی طرف غور سے دیکھا ہی نہیں تھا ؟
ابھی انہی خیالوں میں گم تھا کہ بلیکی نے باہر پھر بھونکنا شروع کر دیا ۔ مجھے ساری بات سمجھ آ چکی تھی۔ میں نے دروازہ کھولا اور بلیکی کی طرف دیکھا جو دروازے پر میری طرف پیٹھ کئے نکڑ پر جمع آوارہ کتوں پر بھونک رہی تھی ، میں نے نیچے جھک کر اس کے پاس سرگوشی کی ۔۔۔ ’’ بلیکی۔۔۔ سنو! اندر آ جاؤ ۔۔۔ ‘‘ بلیکی نے مڑ کر مجھے دیکھا، اسکی بڑی بڑی براؤن آنکھوں کی نمی میں ڈوبے دو ٹمٹماتے ستارے مجھے دکھائی دئیے۔
وہ مڑی اور گلی کی نکڑ پر جمع کتوں کی طرف منہ کر کے ایک بار زوردار بھونکی اور پھر لپک کر اندر آگئی، میں نے جھک کر اسے گود میں اٹھالیا اور اپنی چارپائی پر لیٹا دیا۔