مریم گزیدہ ۔۔۔ نسیم انجم

مریم گزیدہ

نسیم انجم

وہ دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے ڈرے اور سہمے ہوئے انجانی منزل کی طرف بڑھے چلے جارہے تھے، راستہ ناہموار اور پتھریلا تھا، کہیں کہیں ڈھلان یا کوئی گڑھا آجاتا تب بڑھیا اپنے بڈھے کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیتی، اس کا کمزور، نحیف بدن دولخت ہوا جاتا۔ خمیدہ کمر مزید جُھک جاتی اور ٹانگیں کانپنے لگتیں، سردی کی وجہ سے دانتوں کا باجا بھی مسلسل بجتا رہا۔

آ، اندر کو گھس آ، بڈھے نے اپنے گرم کوٹ کا ایک حصّہ آگے کی طرف پھیلادیا، بڑھیا نے اپنا سر اس کے سینے پر اور سیدھا ہاتھ اس کی کمر کے گرد ڈال دیا، بڈھے نے بڑھیا کے بالائی جسم کو اپنے کوٹ سے اچھی طرح ڈھانپ دیا۔

”سردی تو کم ہوئی، پر دکھائی نہ دے“ بڑھیا منمنائی۔

”تُو کاہے کو دیکھے، میں ہوں نا دیکھنے کے لیے، بس تو میرے ساتھ ساتھ قدم بڑھاتی رہ۔“

”نہ بابا، میرا دم گھٹے“ اس نے کوٹ سے اپنا سر نکال لیا۔

”ٹھیک ہے تو، تو اپنا باجا بجا۔“

وہ تو بجے گا، بڑھیا کے منہ سے ”سی سی“ اور ”ٹک ٹک“ کی آوازیں مسلسل نکل رہی تھیں۔

”جوانی چلی گئی، پر تیرے نخرے نہ گئے“ بڈھا کھسیانا سا ہورہا تھا۔

”تم تو میرے بڑھاپے کے یوں طعنے دے رہے ہو، جیسے تم ابھی تک نوجوان ہو“ بڑھیا نے ”آلات موسیقی“ کو قابو میں کرتے ہوئے بہ مشکل الفاظ ادا کیے۔

”ہاں! میں اب بھی جوان ہوں، دیکھ نہیں رہی تیز ہوا میں بھی آگے بڑھتا چلا جارہا ہوں، تیری طرح جھولے میں نہیں بیٹھا“ بڈھے نے اعتماد اور رعب دار لہجے کے ساتھ جواب دیا۔

”تم! میری توہین کررہے ہو، اچھا ہوتا جو میں اپنی بیٹی ”رجائ“ کے گھر چلی جاتی، وہ میرا ویزا بھیجنا چاہتی تھی، پر میں نے ہی منع کردیا، میں نے اپنے آپ سے عہد جو کرلیا تھا کہ ساری عمر تمہارا ساتھ نبھاﺅں گی، اب سوچتی ہوں، غلطی کر بیٹھی۔“

”تو کیا رجاءنے مجھے نہیں بلایا تھا؟“ بڈھا چہکا۔

”بھئی اس نے اپنے ماں باپ کو بلایا تھا، آخر بیٹی جو ہوئی“ بڑھیا نے بات اچک لی۔

”اس نے ہم دونوں کو بلایا ضرور تھا، پر میں اپنا وطن، اپنا گھر، اپنے لوگ چھوڑ کر سات سمندر پار کیوں جاتا، مجھے تو اپنی ہی مٹی پیاری لگے اور میں اس میں ہی دفن ہونا چاہتا ہوں۔“

”میں بہت تھک گئی ہوں“ بڑھیا چلتے چلتے رُک گئی۔

”اری نیک بخت! ابھی سے تھک گئی، ابھی تو منزل بہت دُور ہے۔“

وہ دونوں پگڈنڈی پر بیٹھ گئے، بڈھے نے بیگ اور بڑھیا نے چٹائی کی ٹوکری زمین پر رکھ دی۔

”چندا!“ بڈھے کے لہجے میں دنیا جہاں کا پیار سمٹ آیا۔

”کیا ہے؟“ وہ پیار کے ساگر میں ڈوب گئی۔

”ایک کپ چائے تو پلا۔“

”تم تو یوں کہہ رہے ہو، جیسے میں باورچی خانے میں کھڑی ہوں، سیانے ٹھیک ہی کہہ گئے ہیں کہ بچے بوڑھے برابر ہوتے ہیں“ بڑھیا نے موقع پاکر چوٹ کی۔

”لے لیا بدلا، تجھے یہ نہیں معلوم؟ سیانوں نے یہ بھی کہا ہے کہ صورت پر نہیں سیرت پر جانا چاہیے، پر میں تھا سدا کا گاﺅدی، تیری شکل پر مرمٹا، تو سدا کی زبان دراز تھی، اور آج بھی ہے“ بڈھا انگاروں پر لوٹنے لگا۔

”تمہارے مزاج میں تو شروع ہی سے گرمی ہے، عمر ڈھل گئی، پر مزاج نہ بدلا۔“

یہ تو نے کیا عمر، عمر کی رٹ لگا رکھی ہے، میری عمر صرف ساٹھ سال ہے چھ سات آٹھ سال تو ایسے گزرے ہیں، بلکہ پوری عمر ہی یوں گزری ہے کہ پتا ہی نہ چلا، اور ایک بات اور سن مرد، اس عمر میں کبھی بوڑھا نہیں ہوتا، البتہ عورت پھونس ہوجاتی ہے“ بڈھا جوش میں آکر کھڑا ہوگیا۔

”تمہاری عمر کے سب گزر چکے ہیں “ بڑھیا اگلے پچھلے تمام بدلے اُتارنے پر تلی ہوئی تھی۔

”وہ میری عمر کے نہیں تھے، ہم جماعت ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سب کی تاریخ پیدائش ایک ہو، اور پھر وہ سالے اپنی موت آپ مرے ہیں۔ ادریس نشئی ہوگیا تھا اور عرفان کو مرغن غذائیں کھانے سے فرصت نہیں تھی، مرنے سے پہلے فٹ بال میں ڈھل گیا تھا، میں تو اکثر اسے کک مار کر کہتا، ابے چل گراﺅنڈ میں“ بُڈھا مسکرانے لگا، ”اور اس بے چارے قاضی مسرور کو اس کے بیٹے بہو ٹرسٹ چھوڑ آئے، اسی وقت کے لیے والدین اپنا خون پلا کر پروان چڑھاتے ہیں، اس کا بدلہ اولاد اس طرح سے دے؟ بے چارہ یہ ہی صدمہ جھیل نہ سکا“ بڈھے پر یاسیت طاری ہوگئی۔

اسی اثناءمیں بڑھیا نے تھرماس اور دو کپ ٹوکری سے نکال کر باہر رکھ لیے تھے، پھر وہ چائے اُنڈیلنے لگی، اور نرمی سے بولی۔

”کچھ کھانا ہے تو نکالوں؟“

”ہاں خستہ پوریاں اور دو چار پکوڑے نکال لے، لیکن پہلے تھوڑا سا پانی دے دے“ بڈھے نے تمام ہتھیار میدان جنگ میں پھینک دیے اور خود میدان سے خالی ہاتھ لوٹ آیا۔

”تیرے ہاتھ میں ذائقہ اب تک ہے“ بڈھے کے لب و لہجے میں مٹھاس گھل گئی۔

”اب تک ہے کا کیا مطلب؟“ بڑھیا ترش ہوتے ہوتے رہ گئی، پھر اس نے اپنے آپ کو جلد ہی سنبھال لیا اور بڑے رسان سے بولی۔

”ذائقہ ہی تو ہے، اسی ہتھیار کو لے کر میں تمہارے دل میں اُتری اور تمہیں فتح کرلیا۔“

”ارے فتح تو میں نے تجھے اس دن کیا تھا جب تو بڑے بھیا کی شادی میں آسمانی غرارہ قمیص پہن کر ہمارے گھر جلوہ گر ہوئی تھی، آسمان تلے تو بالکل آسمانی پری لگ رہی تھی، یوں لگتا تھا کہ ابھی پر کھلے اور تو ابھی اُڑی، تجھے یاد ہے چندا تیری آﺅ بھگت کرکے میں نے تجھے چند ہی گھنٹے میں شیشے میں اُتار لیا تھا۔“

”تیرا چاند چہرہ، گھٹاﺅں جیسے بال، میں تو لُٹ گیا تھا، ایک دل ہی تو تھا پاس میرے جو مجھے کنواریوں کے پیچھے دوڑاتا اور میری درگت بنواتا، سو اس دن وہ بھی گیا۔“

”اچھا ہی ہوا جو ایک جگہ کا ہورہا، ورنہ زندگی بھٹکتے گزر جاتی۔“

بڈھا مکمل طور پر ماضی کا حصّہ بن چکا تھا اور بڑھیا سرنیہوڑائے خوشیوں کے جھولے میں بیٹھی محبت کی پینگ بڑھا رہی تھی۔

”ارے! اندھیرا ہونے والا ہے، چل اب اُٹھ کھڑی ہو“ بڈھے کو جیسے ہوش آگیا، لیکن بڑھیا کے چہرے پر موسم بہار کا عکس اب بھی نمایاں تھا۔ پھر اس نے اپنے نین کٹوروں میں بہت سے پیار کے دیپ جلائے اور بڈھے کو اپنا ہاتھ تھما دیا، بڈھے نے اسے سہارا دے کر اُٹھایا اور وہ دونوں انجانی منزل کی سمت چل دیے۔

”تُو نے میری ”راڈو“ گھڑی تو رکھ لی نا؟“ بڈھا تشویش سے بولا۔

”کیوں نہ رکھتی، تمام قیمتی چیزوں کی پوٹلی بنا کر چینی کے ڈبے میں چھپا دی ہے۔“

”اور ڈبا تو، تُو اپنے ساتھ لائی ہے نا۔“

”بالکل لائی ہوں“ بیگ میں دھرا ہے۔

”چندا! مجھے یاد ہے جب ہم تقسیم ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آرہے تھے، اس وقت بھی ہمارا قیمتی اثاثہ ہمارے پاس تھا۔“

”ہاں یاد ہے“ بڑھیا نے سرد آہ بھری، ”بلوائیوں نے جب ہماری ٹرین رُکوائی تھی تو سکھنیوں نے کس طرح عورتوں کے جسم کی تلاشی لی اور میری شلوار کے نیفے میں اڑسے ہوئے تمام زیورات نکال لیے، ہائے مرے دل پر تو بجلی گر گئی تھی، اماں ابا نے اپنی لاڈلی کو کیا کیا نہ دیا تھا، پری بند، بازو بند، چمپا کلی، پازیب، چھلّے، بچھوے، چوڑیاں، ہنسلی، کنگن، جھمکے۔“

”اور تجھے ہمارے گھر سے کچھ نہ ملا تھا“ بڈھا چراغ پا ہوگیا۔

”کیوں نہ ملا تھا، وہ بھی ان ہی زیورات میں شامل تھا، اب دو دو دفعہ ایک ہی چیز کا نام لینا کون سی دانائی کی بات ہے“ بڑھیا نے نرمی کو برقرار رکھا۔ ”ان بدبخت سکھ عورتوں نے پوٹلی اس زور سے کھینچی کہ کنگن کے کناروں سے میرے پیٹ کی کھال چھل گئی۔ کئی دنوں تک خون رستا رہا۔“ ”شکر کر جانیں بچ گئیں ورنہ تو لاکھوں مسلمان شہید ہوئے۔“

”ہاں! جس کو اﷲ بچالے“ بڑھیا نے سرد آہ بھری۔

”اندھیرا کافی پھیل گیا ہے، بس جلد سے جلد ٹھکانے پر پہنچ جانا چاہیے، مجھے اندھیرے سے بڑا خوف آتا ہے۔“

بڑھیا نے جھرجھری بھری۔

”ٹھکانہ ہے کہاں؟“ بڈھے نے سوال کیا۔

”تو ہم کہاں جارہے ہیں؟“

”تو بوجھ! دیکھیں آج تیری ذہانت؟“

”شاید کسی دوسرے شہر کی طرف۔“

”پاگل ہوئی ہے کیا، شہر سے نکل کر شہر میں جانا سوائے حماقت کے اور کچھ نہیں۔“

”تو پھر شاید ہم گاﺅں، دیہات کا رُخ کریں ہیں؟“

”نہیں، وہاں جانا بالکل ٹھیک نہیں، وہ لوگ پیسے اور جائیداد کی خاطر ہم لوگوں کو کاراکاری کرکے ماردیں گے۔“

”اس عمر میں؟“ بڑھیا نے کھیسیں پھاڑیں۔

”وہ لوگ عمر ومر کچھ نہیں دیکھتے، پیسہ ہتھیانے کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں“ بڈھے نے دانائی کے گھوڑے دوڑائے۔

اچھا؟ بڑھیا نے ٹھنڈی سانس لی، ہندوستان کے سوا اب جگہ ہی کون سی بچی ہے؟ بڑھیا سوچ بچار کے بعد بولی۔

”ارے چپ!“ بڈھا طیش میں آگیا، ”ایمان سے تو کبھی بالکل پٹری سے اُتر جاتی ہے، اب ہم پرائے ملک جا کر کیا کریں گے؟ تجھے یاد نہیں گجرات کا واقعہ، نہتے کشمیریوں پر ان کا ظلم و ستم اور بھی دوسرے سیکڑوں واقعات۔“

”آخر ہم کب تک پیدل چلیں گے؟“ بڑھیا نے موضوع بدل دیا۔

”ٹیکسی کیوں نہیں کرلیتے“ بڑھیا منمنائی۔

”گھر چھوڑنے سے پہلے تجھے ہر بات سے آگاہ کیا تھا، کوئی بھی قابل اعتبار نہیں، ہم دونوں کے خوف زدہ چہروں کو دیکھ کر ٹیکسی ڈرائیور ہمیں جان سے مار دے گا اور ہمارا اسباب لوٹ لے گا، میں ایک بار نہیں کئی بار ڈسا گیا ہوں۔“

بڑھیا چلتے چلتے رُک گئی اور لمبے لمبے سانس لینے لگی ”مجھ میں اب چلنے کی سکت نہیں ہے“ پھر وہ ہری ہری گھاس پر پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی۔ تھرماس سے پانی نکال کر پیا اور اُداسی سے بولی۔

”آخر ہم نے اپنا سجا سجایا گھر کیوں چھوڑ دیا، وہ گھر جس میں ہم نے زندگی کے تقریباً پچاس سال گزارے تھے، آخر کیوں؟“

”یہ تو مجھ سے پوچھ رہی ہے؟“ بڈھے کو حیرانی نے اپنے اندر اتار لیا۔

”پھر کس سے پوچھوں؟“

”تجھے نہیں معلوم؟ کیوں نہیں معلوم؟“ بڈھا تلخ ہوگیا۔

”گھر کے در و دیوار پر خوف کے سائے لہرانے لگے تھے۔ اس ڈر اور خوف نے ہمارے گھر میں ناجائز قبضہ جمایا ہوا تھا، زندگی کا ہر پل بھاری تھا۔“

”بس ہر گھڑی یوں ہی محسوس ہوتا جیسے کوئی گھر میں چھپ کر بیٹھا ہے اور مجھے اکیلا پا کر ذبح کر ڈالے گا، چھری کی نوکیلی نوک، پستول اور بندوق کی نال ہر دم میرے سامنے رہنے لگی تھی، ہر لمحہ ٹھنڈے ٹھنڈے پسینے میرے بدن سے پھوٹتے“ وہ خودکلامی میں مبتلا رہی، پھر ایک دم چونک کر بڈھے کی طرف دیکھنے لگی۔

”تو کیا اندر اور باہر کے ماحول سے تم خائف نہ تھے؟“ بڑھیا چڑچڑی سی نظر آنے لگی تھی۔

”میں نے کب کہا کہ میں خوف سے آزاد تھا، ہمارے گھر تین دفعہ ڈاکہ پڑا، ڈاکو علیشا اور رجاءکا سارا جہیز لوٹ لے گئے، یہی شکر کہ ہماری اور ہماری بچیوں کی جانیں بچ گئیں، تُو نے اس دن بڑی ہی عقل مندی کا مظاہرہ کیا اور ڈاکوﺅں کو الماری کی چابیاں پکڑا دیں۔“

”پھر کیا کرتی، اس کے علاوہ چارہ نہ تھا۔“

”ہاں، ہاں، تُو نے اچھا کیا۔ میں، میں تیری تعریف ہی کررہا ہوں۔“

لیکن ڈکیتی کے بعد ہر دن مجھے ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی گھر میں کود گیا یا پھر گرل کاٹ کر اندر آگیا ہے، بڑھیا خوف سے لرزنے لگی۔

”چندا! جب سے بچیاں باہر گئی ہیں، ہم لوگ تنہا رہ گئے ہیں، ایک تو تنہائی دوسرے حالات نے اس قدر خوف زدہ کردیا ہے کہ جینا مشکل ہورہا ہے۔ جب سے اس پروفیسر اور اس کی بیوی کا قتل ہوا ہے، اس وقت سے یوں ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمیں بھی کوئی آکر اسی طرح قتل کر جائے گا۔“

”قتل تو اور بھی ہوئے ہیں فلیٹ میں لیڈی ڈاکٹر کا اور اس عورت کا جس کے بچے باہر رہتے تھے۔“ بڑھیا نے اٹک اٹک کر بمشکل کہا، چونکہ اس کے منہ کا باجا پھر بجنے لگا تھا۔

”میرے لیے تو گھر باہر دونوں ہی ایک سے ہیں۔ گھر میں حفاظت نہیں تو باہر کون سی ہے؟ شہر کے حالات بہت خراب ہوچکے ہیں“ بڈھے نے سرد آہ بھری اور پھر خالی خالی نگاہوں سے اپنے اطراف میں دیکھنے لگا۔

”کاش! ہمارے بھی بیٹے ہوتے تو آج ہم یوں دربدر نہ ہوتے۔“

”شکر کر نہیں ہیں!“ بڈھے نے بڑھیا کی بات کا مختصر جواب دیا۔

”کیوں؟“ بڑھیا سوالیہ نشان بن گئی۔

”دیکھو! اگر بیٹے ہوتے تو یا تو حوالات میں ہوتے یا پھر قبر کی آغوش میں۔“

”ایسے تو نہ کہو“ بڑھیا رنجیدہ ہوگئی۔

”ارے نادان! جب ان کا وجود ہی نہیں، تو پھر تو خواہ مخواہ غم زدہ ہورہی ہے۔“

بڈھے نے عقل و دانش کے دیپ جلانے کی کوشش کی۔

”پھر بھی؟“ بڑھیا سوکھے ہونٹوں پر زبان پھیرنے لگی۔

”بھئی بات یہ ہے چندا آج کل جوان لڑکوں کو چھوڑتا ہی کون ہے، کچھ کو سیاست دان اور کچھ کو دہشت گرد لے اڑتے ہیں اور کچھ بے چارے بے قصور پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں یا فائرنگ اور دھماکوں کی زد میں آجاتے ہیں اور بے چارے بوڑھے ماں باپ اپنی جوان اولادوں کا غم سہتے سہتے زندہ درگور ہوجاتے ہیں۔“

”اگر بیٹے حادثے سے بچ جائیں، تب وہ اپنی جورو کے کہنے پر اپنے ضعیف و لاچار والدین کو محتاج خانے چھوڑ آتے ہیں“ اچھا ہی ہوا ہم اولادِ نرینہ سے محروم ہی رہے، ورنہ بہو صبح و شام ہمارے سروں پر جوتے مارتی اور پوتے پوتیوں کے دلوں میں ہمارے لیے نفرت پیدا کرتی۔“

”کہتے تو تم ٹھیک ہی ہو“ بڑھیا کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی۔

”میرا خیال ہے کہ ہمیں اب کہیں پناہ لے لینی چاہیے“ بڑھیا رومال سے اپنی آنکھوں کے آنسوﺅں کو جذب کرنے لگی۔

”یہی میں سوچ رہا ہوں، دیکھو وہ سامنے روشنی نظر آرہی ہے شاید یہی ہماری منزل ہو، بس قدم تیز بڑھالے۔“

تھوڑی دیر چلنے کے بعد وہ روشنی کے گھر کے قریب پہنچ گئے تھے۔

”تُو باہر ٹھہر، میں اندر جا کر پوچھتا ہوں۔“

”بس جی رات گزارنی ہے“ بڈھا سفید داڑھی والے سے بولا۔

”تیرے ساتھ زنانی بھی ہے؟“

”ہاں جی وہ تو ہے، ہم دونوں ہی ایک دوسرے کا سہارا ہیں۔“

”زنانی کی اجازت نہیں ہے“ سفید داڑھی والے نے دروازہ بند کرلیا۔

”کیا ہوا؟“ بڑھیا کی پیشانی پر فکر کی لکیریں نمودار ہوئیں۔

”کچھ نہیں، یہ دیکھ سامنے جو گھر زیر تعمیر ہے نا، اس میں رات بسر کرلیتے ہیں پھر صبح میں روشنی والے گھر کے اطراف میں کوئی گھر کرایے کے لیے تلاش کرلوں گا، اس جگہ اور اس بستی سے بہتر ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، میں ایسی ہی پُرسکون اور پُرنور جگہ کی تلاش میں تھا، بس یہ سمجھ لے کہ میرے مالک نے خود بخود ہمیں منزل پر پہنچادیا ہے۔“ پھر وہ دونوں مکان کی طرف دبے قدموں چل دیے۔

”میرا خیال ہے وہ جگہ بہتر ہے“ بڑھیا نے کوٹھری کی طرف اشارہ کیا۔ وہ دونوں کوٹھری میں داخل ہوگئے، کوٹھری کی چار دیواری پر چھت نہیں تھی، پورے چاند کی روشنی کوٹھری میں اُتر آئی تھی، ہر چیز واضح نظر آرہی تھی، بڑھیا نے بیگ سے کمبل نکالا اور ایک کونے میں بچھے ہوئے ٹاٹ کے اوپر بچھا کر اپنا سامان رکھ دیا اور پھر وہ دونوں پیر پھیلا کر بیٹھ گئے۔

”بس سے اُترنے کے بعد بھی ہم نے بہت لمبا سفر کیا ہے“ بڈھا کانوں کے گرد لپٹے ہوئے مفلر کو کھولتا ہوا بولا۔

میرا خیال ہے کچھ کھا لیتے ہیں، بھوک بہت زوروں کی لگی ہے، بڑھیا نے بڈھے کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔

ہاں، ہاں بھوک اور فکر دونوں ہی مجھ پر غالب ہیں۔ پھر بڈھا کھانے پینے کی چیزیں نکالنے لگا، بڑھیا نے المونیم کی پلیٹوں میں نمک پارے، شامی کباب، آم اور شیرمال نکال کر رکھ دیے‘ ابھی وہ بسم اﷲ کرنا ہی چاہتے تھے کہ انھیں قدموں کی آہٹ سنائی دی، انھیں ایسا لگا جیسے کئی لوگ روشنی والے گھر کے قریب آکر کھڑے ہوگئے ہوں۔

بڑھیا کونے میں دبک گئی، بڈھا بھی اس سے قریب ہوگیا۔

”دیکھو! مجھے ان لوگوں کے سر نظر آرہے ہیں، آخر یہ لوگ اندر کیوں نہیں جاتے ہیں؟ باقی تو سب“ ابھی بڈھا جملہ بھی مکمل نہیں کرسکا تھا کہ ”اﷲ اکبر“ کی صدا بلند ہوئی۔

”میں بھی جاﺅں؟“ بڈھا اُٹھ کھڑا ہوا۔

”نہ، نہ، میں اندھیری کوٹھری میں ایک منٹ نہیں گزار سکتی، تم تو جانو، میں نے گھر ہی اس لیے چھوڑا تھا۔“

”آخر خوف ہمارا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتا“ بڈھا سوچتا ہوا بولا۔

صدا کو بلند ہوئے دو منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ ایک زوردار دھماکا ہوا، پھر دردناک چیخیں ، آہ و بکا، لوگوں کی آمدورفت بڑھنے لگی۔ بڑھیا نے بڈھے کا ہاتھ پکڑا اور وہ دُور کھینچتا ہوا لے گیا، وہ لوگ دوڑتے چلے جارہے تھے، ”پکڑو، پکڑو جانے نہ پائیں“ ان دونوں نے مڑ کر دیکھا، ہجوم ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔

وہ لوگ مزید تیز بھاگنے کی کوشش کرنے لگے، بوڑھی ہڈیاں کب تک دوڑتیں، دونوں لڑکھڑائے پھر پتھریلی اور ناہموار زمین پر لڑھکتے ہوئے ایک گہرے کھڈ میں جاگرے اور دنیا کے ہر خوف سے آزاد ہوگئے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930