نروان ۔۔۔ نیئر مصطفیٰ

نروان

نیئر مصطفیٰ

اضطراب اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا، تشنگی ناقابل برداشت ہو گئی اور نیند کی دیوی کو روٹھے ہوئے ہفتہ ہو چلا تو اس نے زندگی میں پہلی بار بڑے چاو سے اکٹھے کئے گئے سامان  تعیشات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے سنگ مر مر سے بنے محل کو الوداع کہہ کر کسی انجانی ڈگر پر چل پڑا۔

اس نے منبر پر بیٹھے خطیب سے سکون کی شاہراہ کا راستہ پوچھا اور پہلو میں ذہنی خلفشار سمیٹ کر لوٹ آیا، شاعر سے اپنے مسئلے کا تذکرہ کیا اور کھوکھلے جذباتی دلائل کا جواب ایک استیزایئہ قہقہے سے دیتا ہوا آگے بڑھ گیا، فلسفی سے ملاقات کا نتیجہ تجرید کی ایک بے ڈھنگی عمارت کی تعمیر تھی جس نے اس کے لا شعور کی چولیں ہلا ڈالیں، موسیقار اسکے سامنے سے وہی صدیوں پرانی دھنیں بجاتا ہوا گزر گیا جن میں اب کوئی کشش اور مدھرتا باقی نہ رہی تھی، وہ چلتا ہوا شہروں کی حدود سے باہر نکل آیا۔

وہ زمان و مکان کی کیفیتیوں سے بے نیاز ہو کر چلتا رہا۔ اس کی جوتیاں گھس گئی تھین، پاوں متورم ہو گئے، کپڑے چیٹھڑوں کی صورت تن پر جھولنے لگے، بال مٹی سے اٹ گئے اور چہرے کے خدوخال گرد نے گہنا دیئے یہاں تک کہ وہ ایک وسیع و عریض جنگل میں جا پہنچا۔

وحشت اب اس کے اختیار سے باہر ہو چلی تھی۔ اس نے ایک نعرہ مساتنہ بلند کر کے تن کے چیٹھڑے اتار پھینکے اور پتوں کا لباس پہن لیا۔

اس نے درختوں کی سرگوشیاں سنیں، کلی کا چٹکنا دیکھا، دھنک کے رنگ گنے اور چاندنی سے کلام کیا مگر سب بے سود۔ فطرت کی مہربان آغوش میں کہیں کوئی غیبی اچارہ تھا بھی تو اس کو نہ مل پایا ۔ ہر نئے دن کے ساتھ افق کے اس پار سے ابھرنے والا سورج امید کا استعارہ بن کر طلوع ہوتا اور مایوسی کی علامت بن کر ڈوب جاتا ۔ تھک ہار کر اس نے آنکھیں موند لین اور اکڑوں بیٹھ کر تپسیا شروع کر دی۔—— جسم سے دل اور دل سے روح تک رسائی کی تپسیا۔

بالآخر اس نے دل اور فروح دونوں جہانوں تک رسائی حاسل کر لی مگر المیہ یہ ہوا کہ دونوں ہی اندر سے خالی نکلے۔ تہی دامانگی کا احساس اتنا گہرا اور گھمبیر تھا کہ خودی اور بے خودی ، امید اعر مایوسی، سبھی اپنے مفہوم کھو بیٹھے اور جب سکوت اور کلام میں فرق نہ رہ جائے تو شہر اور جنگل ایک ہو جاتے ہیں۔

وقت آ گیا تھا کہ مکتی کو دیوانے کا خواب اور نروان کو مجذوب کی بڑ قرار دے کر واپسی کی راہ اختیار کی جائے ۔۔۔۔ سفر شروع ہوا۔

اسے معلوم تھا واپسی کا راستہ سہل نہ ہوگا۔ بچے اسے دیکھ کے تالیاں بجاتے، لونڈے لپاڑے پتھر مارتے، شرفا راستہ بدل لیتے اور عورتیں حقارت سے دیکھےیں۔ پہلی بار وہ اپنی بد ہیئتی پر کڑھا اور محل کی جانب بڑھتے قدم تیز سے تیز تر ہوتے چلے گئے۔ آخر کار وہ اپنے محل کی دہلیز پر جا پہنچا۔

کچھ دیر تک وہ اپنے عالی شان محل کی دیواروں کو بہ غور دیکھتا رہا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا۔کچھ بھی تو نہ بدلا تھا۔ مگر جونہی اس نے محل کی چوکھٹ پہ پہلا قدم رکھا، رائیگانی کا احساس ایکدم اپنی پوری شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ اسے یوں لگا جیسے اب تک وہ محض ایک دائرے میں گھومتا رہا ہو اور یہ خیال اتنا ہیبت ناک تھا کہ اس کا نحیف بدن، ہوا کی زد پر آئے پتوں کی طرح کپکپانے لگا۔

ٹھیک اسی لمحے، ایک مدھم سی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ اس نے فورا آواز کے تعاقب میں نظریں دوڑائیں۔ سامنے فٹ پاتھ پر میلی سی چادر میں لپٹا، ایک شیر خوار بچہ رو رہا تھا۔

فٹ پاتھ کی دوسری جانب ایک پکھی واسن دوڑتی ہوئی آئی اور اس میلے کچیلے بچے کو اپنی چھاتیوں سے لپٹا کر دودھ پلانے لگی جو ایکدم یوں خاموش ہو گیا جیسے کبھی رویا ہی نہ ہو۔ آسمان سے نور کا ایک ہالہ اترا اور ان کے مدقوق اور پیلے چہروں پر روشنی بن کے جگمگا اٹھا۔

نروان کی تلاش میں نگری نگری پھرنے والے سیلانی نے اپنے سنگ مر مر سے بنے سفید محل کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر یہ سارا منظر دیکھا اور نروان کی حقیقت جان گیا۔

( افسانوی مجموعہ۔۔ معنی کی تلاش)

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.