خواب زار میں سمفنی ۔۔۔ نیئر مصطفیٰ

خواب زار میں سمفنی

نیر مصطفیٰ

میں نے ایک طویل انگڑائی لی اور اپنے پرشکن بستر کی سلوٹیں درست کیے بغیر فلیٹ سے باہر نکل آیا۔ اگرچہ میں ایک گرم اونی چادر میں ملفوف ہو کے نکلا تھا مگر اس کے باوجود یخ بستہ ہوا

کے جھونکوں نے خفیف سی کپی طاری کر دی ۔ موسم کے ریڈ سگنل کو یکسر نظر انداز کر دینا ہر گز آسان نہ ہوتا اگر میں پہلی بار اس راستے پر نہ نکلا ہوتا لیکن یہ سفر تو جنم جنم کا تھا۔ کتنی بار مخمور برسات حاملہ بادنوں کی قبا پہنے پائن اور دیودار کے جنگلوں میں شیمپیئن کی پھواریں برسانے آئی تھی اور میں واپسی کے خوف سے بے نیاز ، گیلی مٹی پر اپنے قدموں کے نشان ثبت کرتا چلا گیا تھا۔

ناسٹیلجیا کے چلبلا تے گلاب ایک ایک کر کے میری بصارتوں سے ٹکرائے اور مجھ میں ایک نئی جون پھونک کے چلے گئے ………….

کچھ ہی دیر بعد میں پنڈی پوائنٹ پر تھا جہاں میری نگاہوں کے عین سامنے مارگلہ کی دل فر یب پہاڑیاں عاجزی اور تمکنت کا حسین امتزاج لیے دعوت نظارہ دے رہی تھیں۔ بادلوں کے معصوم گا لے ہوا کے دوش پر یوں تیر رہے تھے جیسے ننھی منی پر یوں کے غول اٹکھیلیوں میں مگن ہوں ۔ ایک نوخیز لڑکے نے سرف ملے پانی کی ڈبیا میں اسپرنگ بھگو کر آہستگی سے پھونک ماری تو ست رنگے بلبلوں کی نازک چادر ہرطرف شفاف لہریئے بنائی چلی گئی۔

میں اپنی جار تنہائیوں کے کاندھے میں ہاتھ ڈالے اس الو ہی خواب زار کو دیکھے گیا جو اصل میں حقیقت کا پر تو تھا۔ شاید یہ خود سپردگی کی کیفیت کچھ ہی دیر میں زائل ہوجاتی مگر بارش کی بوندیں ، دھنک کے رنگ اور رم جھم کی آواز میں اتنی بے ساختی کے ساتھ اس منظر نا مے میں داخل ہوئیں کہ میں نے کسی عالم بے خودی میں ، کاندھے پر لٹکےلیدر کیس سے وائلن نکالا اور ایک کومل سی چھن چھیڑ دی ………. پھر یوں ہوا کہ مقدس دیوانگی روح کے آداس گوشوں میں ناچنے لگی

اور ہزاروں سادھو اوم نام کا ورد کرتے چلے گئے۔

شاید مجھے کسی ان دیکھے درد نے بھگو کے رکھ دیا تھا.

سچے سرنے آ لکسی سے جمائی لی اور کروٹ بدل کے سو گیا …………..

“اس کا مطلب تو یہ ہوا بلھے شاہ ابھی خودشناسی کی منزل سے کوسوں دور ہے۔” ایک مبہم سوچ دھونی رمائے قہقہائی مگر اس وقت تک سینکڑوں بلبلے آہنی میخوں میں پروئے جا چکے تھے

سچا سُر ایک طویل انگڑائی لے کر بیدار ہوا اور میں اپنے وجود کی قید سے باہر نکل کر دھمال ڈالنے لگا۔

میں جا نتا تھا کہ اب کیا ہوگا ؟ …………….

ایک جم غفیر اکٹھا ہو کر سر دھننے لگا ،نوخیز کلیاں مسکرا اٹھیں، شیر خوار بچے قانقاریاں مارنے لگے، ارغوانی شرابوں کے پیالے آنسوؤں سے ڈبڈبا گئے اور ایک مجہول سا لڑ کا دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔

اور جب میں اپنے سائے کو مٹھی میں پکڑے واپس اپنے جسم میں پہنچا تو سر کہیں غائب ہو چکا تھا۔ میں نے روح کے سبھی گوشوں کو تھپتھپایا مگر ایک گھمبیر خاموشی اس بات کی غمازتھی کہ تلاش بے سود ہوگی ۔ اور میں جنم جنم کی تکان سے اٹھ کر پتھریلی زمین پرڈھے سا گیا۔

اسی لمحے کوئی راگ امین میں کھنکھنایا اور میں نے بے اختیار پیچھے مڑ کر دیکھا۔

 وہ سچا سُر  ہی تھا مگر اس با رنسوانی قالب میں ڈھل کر آیا تھا………….

میں پلک جھپکائے بغیر دیکھے گیا ۔ اس کے نقوش میں اتنا کنٹراسٹ تھا کہ جیسے کسی مصور نے مشرق کی حیا اور مغرب کی شوخی کو یکجا کر دیا ہو اور موزارٹ کی دھن ذا کر کے طبلے پر مچلنے لگی۔ آنکھیں ایسی کہ گویا شرابی غزل کے مخمور قافیے اور سرا پ ایسا کہ جیسے راگ د بیک کے آتشی لپیٹے۔ بیضوی چہرے پر غلام فرید کی کافیوں جیسی سادگی ، رنگ یوں کہ جیسے کسی نے میدے میں چٹکی بھر اُبٹن گھول دیا ہو اور زلفیں ایسی کہ گویا ریشم کی ملائم تاریں۔

وہ ٹھمری کی طرح  نزاکت سے چلتی ہوئی میرے مقابل آ کے کھڑی ہو گئی۔

کچھ دیر تک وہ یونہی ساکت رہی۔ پھر اس کی آنکھوں میں شناسائی کی رمق لہرائی تھی۔

” آپ ساحر ہوناں  ؟“ اس نے وفور مسرت سے چلاتے ہوئے کہا۔

“ہاں شاید”۔  میں اس کے چہرے سے نظریں ہٹائے بغیر بولا۔

وہ میری آنکھوں کی محویت بھانپ کر مسکرائی تھی اور ایک بدلی نے سورج کو اپنی اوٹ میں چھپالیا۔ پھر وہ بولتی چلی گئی۔ اس نے بتایا وہ میرے گیتوں سے عشق کرتی ہے اور میری آواز سے کیونکہ ان میں جتنی سچائی ہے یہ اس جہاں کے لگتے ہی نہیں اور یہ کہ وہ میرا ہر گیت بار بار سنتی ہے وغیرہ وغیرہ اور اسی طرح کی دوسری باتیں … شاید میں نے سب کچھ سنا تھا۔ شاید کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔ بس اتنا یاد ہے جلترنگ بجتے رہے، نغمے بکھرتے رہے۔

پھر اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور میں نے اس کے رسیلے ہونٹوں کو بہت نرمی سے چوم لیا تھا۔

لمحہ ء موجود کی گرفت سے آزاد ہوئے تو گزرے کل کی بپتا چھڑ گئی۔

ہم کتنی با رمل کے ہنسے اور کتنی بار ہی مل کے روئے ۔۔۔۔  میں ایمسٹرڈیم کے ایک بڑے سے بال میں لکس ایوارڈ کی ٹرافی تھا مے مجمع کی طرف دیکھ کے مسکرایا تو اس نے بھی وکڑی کا نشان بنایا تھا اور جب وہ گلے میں گولڈ میڈل پہنے کانووکیشن ہال کی سیڑھیوں سے اتری ، تو میں اسے محبت بھری نگاہوں سے تک رہا تھا۔ مگر نہیں، مجھے اس سے محبت کرنے کا کوئی حق نہیں تھا

کیونکہ میں نے پکچرے کے ایک غلیظ ڈھیر پر جنم لیا تھا…. ایک جینوئن حرامی جو پوری زندگی رشتوں کے لیے بلکتا ر ہا …………….

لیکن آنسوتو فقط میری ہی پلکوں سے گزرے تھے اور لہو اس کی رگوں کو چھیل کر آنکھوں سے ٹپکنے لگا تھا۔

یہ کیا تھا؟ ……. وہ میرا ہاتھ تھا مے ، میری زندگی کے ہر اس گوشے میں دیوانہ وار چلتی گئی جو آج سے قبل اس نے دیکھا ہی نہیں تھا …….( شاید آدم اور حوا کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا ہو )………… پھر ہم بھی جدا ہو گئے مگر نگلتے سمے میں نے اسے سمفنی کہہ کے پکارا تھا اور وہ ہنس دی تھی۔

اس کے بعد ہم روز ہی ملنے لگے تھے۔ ہم نے وقت کے کتنے ہی جگنو تھیلیوں میں قید کیے اور پلکوں میں سجاڈالے۔

ایک بار میں نے پتریاٹہ سے سرف ملے پانی کی ڈبیا خریدی تھی اور جب ہم چیئر لفٹ میں بیٹھے تو میں اسپرنگ سے بلبلے بنا بنا کے اس کے چہرے کی جانب اچھالتا گیا تھا…….. وہ خفا ہوگئی تھی۔

کتنی ہی بار وہ مجھ سے خفا ہوئی اور میں نے اسے get well soon کا کارڈ دے کر منایا تھا۔

پھر دو دن بعد، جب ہم Red Onion میں بیٹھے منچورین کھا رہے تھے ، نو خیز لڑ کیوں کا ایک ہجوم سا امڈ آیا۔ اور جیسے ہی میں انھیں دیکھ کر شرارت سے کننکارا تو مفتی نے مجھے فلرٹ کہہ کے چھیڑ ا تھا۔ میں خفا ہو گیا تھا۔

کتنی ہی بار میں اس سے خفا ہوا اور اس نے مجھے دھونس بھرے بوسوں سے رام کیا۔

ایسے ہی کسی ایک پل میں مجھے ادراک ہوا کہ سُر کی تلاش اصل میں جنت کی جستجو ہے اور میری جنت میرے بازوؤں میں کسمسا أشھی۔

اور پھر اماؤس کی رات آ گئی۔

حسن کی روشنی ابھی عشق کی تپش سے پگھلی بھی نہیں تھی کہ موت کے بھیا نک سایوں نے چاند کو نگل لیا۔

کہنے کوتو وہ ایک عام سی رات تھی۔

ہم مال روڈ کے ایک نسبتا کم گنجان ریسٹورنٹ میں بیٹھے Enrique کا گانا سن  رہے تھے۔ میرے پہلو میں اورنج فلیور کا شیشہ دھرا تھا ، اس کے ہاتھوں میں ہاٹ کریم  کافی کا مگ۔

اسی لمحے سیل فون کی میسج ٹون بجی۔

 ایک دوست نے لطیفہ بھیجا تھا۔

 اور جونہی میں نے اسے یہ لطیفہ  سنایا تو اچانک وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دی تھی۔

 ” آج کے بعد شاید ہم کبھی نہ مل سکیں۔”  ۔ اس کے چہرے پر دنیا جہان کا کرب سمٹ آیا تھا۔

” میر اتو ابھی مرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔” میں نے ہنسی میں بات ٹالنے کی کوشش کی۔

وہ پتھر ائی آنکھوں سے میرا چہرہ دیکھے گئی تھی .. پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھی اور پاگلوں کی طرح میری آنکھیں چومنے لگی۔

“تمہارے بغیر جی نہیں پاوں گی ساحر؟‘‘ میراگر بیان جھنجھوڑے بار بار وہ یہی  ایک جملہ دہراتی گئی۔

“کل پاپا مجھے لینے آرہے ہیں اینڈ آئی ہیو ٹو گو “ اس نے جدائی کی خبر سنائی اور مظلومیت کی اسٹیمپ لگا کر میری طرف پوسٹ کر دی۔

” انھیں تمہارے نگر ہونے پر اعتراض ہے۔ ” شاید اس نے اپنے باپ کی وکالت کی تھی۔

” اور تم بھی تو نہیں چاہو گے ناں کہ میں انھیں ہرٹ کروں ۔‘‘ اس نے پرکار گھمائی اور ایک نیا دائرہ کھینچا۔

میں خاموش رہا۔ بولنے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں ۔ ایک جینوئن حرامی جو اتفاق سے میراثی بھی ہو۔ اے ڈاکو مینٹڈ سن آف بچ……… (میں نے ان کہے شبدوں کے نوکیلے پتھر اٹھائے اور اپنی ذات کو سنگسار کر دیا)۔

اس رات جب میں اور سمفنی ریسٹورنٹ سے باہر نکلے تو ہم دو مختلف دنیاؤں کے باسی تھے۔ ہم سر جھکائے چلتے گئے یہاں تک کہ وہ موڑ آ گیا جس کے ایک جانب میرا فلیٹ تھا اور دوسری جانب اس کا ہوٹل۔

تو یہ ہے میری محبت کا dead end……….. کہانی سے لپٹی ہوئی آخری گرہ………..( دور کہیں سے ماتم کی آواز یں گونجیں اور پوری کائنات بین کرنے لگی )……….. .

مجھ میں اتنی ہمت تھی ہی نہیں کہ میں اس کے ماتھے پر ایک الوداعی بو سه ثبت کر پاتا………….. میری یک رخی سوچوں کا انجام بے بسی کے ایک کٹیلے احساس کے سوا اور ہو بھی کیا سکتاہے۔

آخر کار ایک صورت نکل ہی آ ئی ۔ میں نے سمفنی کے گرد بازو حمائل کیے اور خوابوں کی وادی میں اتر گیا ۔ دھند کی ایک لہر ہمیں اپنے سینے پر بٹھائے آسمان تک لے گئی۔ پھر میں نے آسمان کی مانگ سے کچھ تارے توڑے اور اس کی زلفوں میں اٹکا دیئے۔

اماؤس کے گھپ اندھیرے منہ پھاڑ کر ہنسے اور میری سادگی پر پھبتیاں کستے چلے گئے۔

دهند چھٹنے لگی تھی

دفعتا ، تیز ہوا کا ایک جھونکا آیا اور میری کایا کلپ ہوگئی۔

 اب میں چودھویں کا چاند تھا …….

سمفنی نے بہت دلار سے میری روشن جلد سہلائی اور مجھے اپنی کنواری بہتھیلیوں میں جکڑ لیا پھر شاید اس نے مٹھی بند کر لی تھی !!

کٹھ پتلی نے آخری بارتھر کنے کی کوشش کی مگر ڈوریاں کٹ چکی تھیں۔

( مانمی آرکسٹرا کی آواز تیز تر ہوتی چلی گئی)۔

الوداعی موڑ سے کچھ پہلے ، میں نے اسے بازوؤں میں دبوچا اور نشیب میں کود گیا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031