رنگ ۔۔۔ نیئر مصطفیٰ
رنگ
نیئر مصطفیٰ
سرمد کی زندگی میں اتنا بہت کچھ پہلی بار ہورہا تھا۔ ساری رات، الجھے بکھرے خیالوں کی ایک عجیب سی رو اس کا منہ چڑاتی رہتی اور وہ پاگلوں کی طرح اس کا تعاقب کیے جاتا۔
صبح کوئی شرارتی ڈاکیہ کچھ ٹوٹے پھوٹے عکس اور دھندلی سی تصویریں پوسٹ کر جاتا۔
اسکول میں بھی کوئی خاص لطف نہیں رہا تھا۔ سارے ہمجولی ا سے مضحکہ خیز بونےدکھائی دیتے۔ وہ ہر وقت اضطراب اور غصے کی ملی جلی کیفیت سے دوچار،کچھ نہ کچھ سوچتا ہی رہتا۔ کئی بار بالخصوص لیکچر کے دوران ضبط کی ساری حدیں پھلانگ جاتا۔ اس کا جی چاہتا کہ بیچ سے ایک ایک کر کے سارے بستے اٹھا لائے اور تختہ سیاہ پر دے مارے پھر زور زور سے چیخ ہے اور چیختا ہی چلا جائے۔
۔ پٹائی کا خوف بھی آہستہ آہستہ کم ہونے لگا تھ۔ا۔ وہ چشمِ تصور سے دیکھتا کہ ماسٹر جی اس کے دماغ کی تلاشی لیتے ہوئے ایسی ہی کسی بات پر غصے میں آگئے ہیں۔ پھر وہ زور سے دھاڑتے اور اسے اتنا پیٹتے کہ بید کی لچکیلی شاخ ٹوٹ جاتی مگر وہ مسکراتا ہی رہتا۔
سکول سے واپسی پر اس کا جی چاہتا کہ ناک کی سیدھ میں چلتا جائے اور اتنا چلے کہ نڈھال ہوکر گر پڑے۔ یا بھٹک کر کسی اور دنیا میں جا نکلے۔ نئی دنیائوں کو کھوجنے کی خواہش آہستہ آہستہ جڑ پکڑتے اتنی توانا ہوگی کہ ایک روز چھٹی کے بعد گھر جانے کی بجائے بانو بازار کی طرف چل پڑا۔
ابتدا میں تو بغاوت اور آزادی کے احساس نے خوب لطف دیا مگر چونکہ وہ پہلی بار اس طرح گھر سے باہر نکلا تھا لہذا نت نئے اندیشے سر ابھارنے لگے۔ خاص طور پر اسے بردہ فروشوں کا خیال آیا جو اسکول سے بھاگے ہوئے بچوں کو اغوا کرکے ان سے بھیک منگواتےہیں۔
۔ جوں جوں بازار قریب آتا گیا اس کی حالت غیر ہوتی گئی وہ اتنا بڑا ہجوم دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا ایک بار تو وہ یہ سوچ کر لرز گیا کہ کہیں انسانوں کا یہ سیلاب اسے زندہ ہی نہ نگل جائے۔ اس کا جسم ایک نرم لجلجے وجود سے ٹکرایا ، سارے اندیشے بھک سے اڑ گئے۔ اس کی معصوم نگاہیں بڑی بے باکی سے اٹھیں اور اپنے مد مقابل کھڑی تیکھے نقوش والی دوشیزہ کے نشیب و فراز میں کھبتی چلی گئی۔ وہ تو جلدی سے” سوری” کہہ کے بھیڑ میں گم ہو گئی مگر سرمد کا جی چاہا کسی
کسی اندھے بھینسے کی طرح زور زور سے ٹکرائے اور راستے میں آنے والے ہر نرم گدیلے جسم سے ٹکراتا پھرے۔
بازار کا ایک چکر لگانے کے بعد وہ ایک پتلی سی گلی کے دہانے پر جارکا۔
یہاں زیادہ تر رنگریزوں اور چوڑی فروشوں کی دکانیں تھیں۔ اس کی نگاہیں پھیلنے لگیں۔ تنگ مووی والی شلواروں میں پھنسیبھاری بھاری رانوں والی لڑکیاں بڑے دُلار سے چوڑیاں پہن رہی تھیں۔ دفعتا اس کی چکراتی ہوئی نظر سامنے کھڑے رنگریز اس کی چکراتی ہوئی نظر سامنے کھڑے رنگریز پر جا اٹکی۔ وہ سادہ اور بے رنگ کپڑوں کو مٹھی سے بل دیتا ایک بڑے سے کڑھاؤ میں ڈال رہا تھا کافی دیر تک وہ کڑھاو میں ہاتھ چلاتا رہا یہاں تک کہ رنگین چادروں کا ایک ڈھیر نکل آیا۔ پھر وہ انہیں زور زور سے جھٹکے لگا۔
سرمد نے اپنی رانوں میں کچھ لپکتا ہوا سا محسوس کیا۔ وہ بھوکی نگاہوں سےآس پاس چلتے رنگین کپڑوں کو دیکھے گیا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ ان سب کو مٹھیوں میں بھیج کر نچوڑ سکتا ہے۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کئی سفید فربہ رانیں دبوچیں اور انہیں کسی نامعلوم کڑھاؤ میں غرق کرتا چلا گیا۔۔ وہ بار بار یہی عمل دہراتا رہا حتیٰ کہ اس کی سانسیں اتھل پتھل ہو گیئں اور بدن سلگ کر دھواں دینے لگا۔
۔ جلد ہی اس کی بے ترتیب سانسوں میں ٹھہراؤ آنے لگا ۔ پھر وہ اپنے بکھرے خیالات اور بھٹکتی نگاہوں پر شرمندہ ہوتا، تیز تیز قدموں سے گھر کی جانب چلتا گیا۔
گھر پہنچتے ہیں وہ سو گیا
ہمیشہ کی طرح وہ عصر کی اذانیں سن کر جا گا اور بیٹ پکڑے گراؤنڈ کی طرف چل پڑا۔ کرکٹ تو وہ پہلے بھی کھیلتا تھا مگر آج تو کچھ اور ہی بات تھی۔ جب وہ بال پکڑ کر بھاگتا تو اسے یوں لگتا جیسے اس کا بدن سکڑ کرچیتے کی مانند ہو گیا ہو۔ بیٹنگ کرتے ہوئے بھی اس کے دل میں خواہش ابھری کہ گیند کو بازووں کی پوری قوت سے ضرب لگائے۔ اتنی شدید ضرب کہ وہ سینکڑوں ٹکڑوں میں بٹ جائے یا اڑتی ہوئی کسی دور افتادہ ویرانے میں جاگرے۔
۔ کرکٹ نے اس کااضطراب کم کرنے کے بجائے مزید بڑھا دیا۔ مغرب کے بعد گھر لوٹا تو بلاوجہ چھوٹے بھائی کی پٹائی کردی۔۔ والد نے سرزنش کی تو ایک دم غصے میں آکر سیمنٹ کی پختہ دیوار پر مکے رسید کرنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے وحشیانہ مکوں کی طاقت سے دیوار اور بھر بھرا کے گر پڑے گی۔ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا تو ایک دم اس کا دل بھر آیا اور وہ اپنی ہتھیلیوں میں سر چھپائے روتا گیا۔
ماں اس کے رونے کی آواز سن کر دوڑی چلی مگر جونہی اسے چھوٹے کے لئے آگے بڑھی، سرمد ایک دم پیچھے ہٹ گیا۔ ایسا تو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنی ماں کے لمس سے دور بھاگنا چاہتا تھا۔
یہاں تک کہ وہ اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔
وہ انتہائی کرختگی سے ماں کا ہاتھ جھٹکتا اپنے کمرے کی جانب دوڑ گیا، اس نے چٹخنی چڑھائی اور بستر پراوندھا لیٹ گیا۔۔
کچھ دیر وہ ساکتت رہا۔ پھر اس کے ادھر ادھر رینگتے ہاتھوں نے ایک تکیے کو دبوچا اور زور سے بھینچ لیا۔ اگلے ہی لمحے وہ اسے توڑتا مڑوڑتا اپنی پھڑکتی رانوں کے عین نیچے لے آیا۔
رنگ ریز چادر نچوڑتا اور جھٹکتا رہا۔
تھوڑی دیر بعد سرمد آئینہ کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بالکل برہنہ تھا۔