رقیب سے ۔۔۔ نیئر مصطفیٰ

رقیب سے۔

نئیر مصطفیٰ

”ہر شہر کا اپنا اپنا مزاج ہوتا ہے پیارے!“ سہیل نقوی نے ہمیشہ کی طرح ایک نئی پخ نکالی۔میں سٹپٹا کے رہ گیا۔ ”شہر ہے میرے دوست! کوئی انسان تھوڑی ناں ہے؟“ یوں تَو میں بھی نشے میں تھا لیکن نشہ ابھی رگوں میں دوڑتا پھرتا تھا، سر پہ نہیں چڑھا تھا۔

”شہر بھی تَو بالکل انسانوں جیسے ہوتے ہیں محترم ضربِ کلیمی!……کچھ دھڑکتے ہوئے تَو کچھ تڑپتے ہوئے، کچھ زندہ تَو کچھ مردہ، کوئی شاندار تَو کوئی حقیر، گھٹیا، ذلیل، کمینہ اور پاجی۔“ سہیل کی آواز میں ایک عجیب سی گھمبیرتا اُتر آئی۔

”اپنے اسلام آباد کو ہی دیکھ لو!……اِس کا مزاج سمجھنا ہو تَو کسی امیر باپ کی بگڑی ہوئی تنک مزاج بیٹی کو دیکھ لو۔ایسی لڑکیاں بہت بدنصیب ہوتی ہیں پیارے۔تنہائی کے کرب سے بلبلاتی رہ جاتی ہیں۔ شوہر تَو خریدا بھی جا سکتا ہے۔محبوب کو مگر جیتنا پڑتاہے۔ اور جتیناآسان نہیں میرے دوست! اِس کے لیے اکثر ہارنا پڑتا ہے…… اسلام آباد بھی تَو تنہا ہے نا!…… اِس بھڑوے کو نہ تَو جیتنا آتا ہے نہ ہی ہارنا!…… نہ تَو کوئی اس سے رشتہ بنا پاتا ہے،نہ یہ کسی کو خود سے رشتہ بنانے دیتا ہے!…… قسم کھا کے بتا جان عزیزی! تمہیں یہاں ڈیڑھ سال ہونے کو ہیں۔ کبھی ایک لمحے کے لیے بھی یہ شہر تمہیں اپنا لگا……کہ جس کی گود میں سر رکھ کر سویاجا سکے؟ ……کہ جس کو گلے سے لگا کر رونے کو جی چاہے؟“

”اَٹر نان سینس ہے لالے،مگر ہے مزیدار۔چل یہ بتا اپنا چہار چیزاست تحفہ ملتان کیسا ہے؟“

”ہاہاہا!…… صبح کے بھولے مجھے پتا تھا اب تَو سید ھا گھر کو جائے گا۔لے تَوپھر سن۔ملتان بالکل تمہارے جیسا ہے!“

”میرے جیسا؟…… لو! یہ کیا بات ہوئی بھلا؟“

”بات ہوئی ناں!…… ملتان ایک پچیس سال کا لڑکا ہے جس کی اداس آنکھوں میں اُس کی عمر کہیں رک سی گئی ہے مگر اُس کے بدن پر وہی عمر دگنی رفتار سے بھاگ رہی ہے۔یہ لڑکا جو بے سمت ہے،جس کے پاس راستہ نہیں، منزل نہیں، کنارہ نہیں،پتوار نہیں،یوں لگتا ہے جیسے کسی نے اِس کی ساری جمع پونجی چھین کر اِسے کسی اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہو اور باہر نکلنے کا راستہ خاردار تاریں لگا کر بند کر دیا ہو۔“

”ویل،آئی سی مسٹر سہیل نقوی!…… اور لاہور کے بارے میں کہا کہتی ہے آپ کی بکواس تھیوری؟“

”لاہور،منٹو کی رنڈی جیسا ہے میری جان۔وہی جو ’ہتک‘ میں تھی۔’ہتک‘ تَو پڑھا ہے ناں؟ “

”پتا نہیں!…… پڑھا بھی ہے تَو یاد نہیں رہا۔“

”ہتک بھی کوئی بھولنے کی چیز ہوتی ہے بھلا!……لاہور سوگندھی ہے جو آوارہ کتوں کو گود میں بٹھا کر کھانا دان کرتی ہے،دَلّوں کو سر چھپانے کا ٹھکانہ دیتی ہے،کمینوں اور پاجیوں کو محبت سے سینت سینت کے رکھتی ہے،پھر کوئی سور کا بچہ آتا ہے اور اُس کے منہ پر تھوک کے چلا جاتا ہے،اُس کے ہونے کا انکار کر دیتا ہے بھڑوا!“

”جب پڑھا ہی نہیں تَو اپلائے کیسے کروں؟…… تھوڑا آسان نہیں ہو سکتا؟…… پہیلیوں کا تناسب ہی کچھ کم ہو جائے؟“ ”ہوں!…… چل تَوپھر ایک اور انداز میں دیکھتے ہیں پیارے! لاہور سوگندھی تَو ہے ہی، لاہور غزالہ عارف بھی ہے۔اب یہ مت کہنا کہ غزالہ عارف کو نہیں جانتے!“

”غزالہ عارف؟…… غزالہ عارف؟…… نام تَو پہلے بھی سنا ہے!…… مگر کہاں؟…… اوہ یس!……غزالہ عارف!……اپنا یار احمد حسن!“

”بالکل ٹھیک پہنچا ہے میری جند!……اِس کہانی میں غزالہ عارف لاہور بھی ہے اور سوگندھی بھی…… اور جانتا ہے اِس کہانی کا بھڑوا کون ہے؟…… تیرا اور میرا یار احمدحسن!“

۔

احمد حسن کو میں تب سے جانتا ہوں جب وہ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے تیسرے سال میں تابڑ توڑ سپلیوں اور نا کام معاشقوں کی تاب نہ لاتے ہوئے مشرف بہ جماعت ہو گیا تھا اور اپنی سرسبز انقلابی تقریروں اور تحریروں کے باعث طلبہ کے ایک خاص حلقے میں لیجینڈ کی حیثیت اختیار کر گیا تھا ۔ میں بائیں بازو کا قائل تھا لہٰذا احمد حسن کے سیاسی افکار کو ناپسند کرتا تھا تا ہم اُس کی شائستگی ، نفاست ،کثرت مطالعہ،خوش ذوقی ، حسِ مزاح اور وسعتِ قلبی کا مداح اورمعترف بھی تھا ۔

انٹر یونیورسٹی تقریری مقابلہ جات کے دوران اُس سے تعلق کی ابتدا ہوئی۔ میں گورنمنٹ کالج لاہور کی نمائندگی کرتا تھا ، وہ یو آئی ٹی کا پہلوان تھا، خوب گھمسان کا رن پڑتا ، منچلے سٹیاں بجا بجا کر تھک جاتے،لڑکیاں آنچل لہرائے جاتیں، تالیاں بجتیں ، نعرے لگتے ، ہوٹنگ ہوتی، آخر میں وہی پہلے انعام کا حق دار بنتا ، مجھے رنراپ پرہی اِکتفا کرنا پڑتا۔

بات رقابت سے شروع ہوئی تَو آشنائی تک پہنچنے میں دیر نہ لگی ۔ پہلے پہل پھکڑپن اور ابتذال سے ہر ممکن حد تک پرہیز کیا گیاتاہم یہ متانت اور سنجیدگی کی کہانی زیادہ دیر نہ چل پائی۔نظریاتی مباحثے اور علمی مقابلے بتدریج چٹکلوں اورپھبتیوں میں تبدیل ہوتے چلے گئے۔ سیاسی وابستگیوں کا مضحکہ اڑانے کے بعد ایک دوسرے کی زبان ، رنگ اور قومیت کو رگیدا گیا ۔ پھر وہ لمحہ بھی آگیا جب ہم نے ایک دوسرے کو تمام خوبیوں اور خامیوں کے سا تھ قبول کر لیا۔ اُنہی دنوں انکشاف ہوا کہ احمد حسن بھی اولڈ راوین ہے ( گورنمنٹ کالج کی نسبت نے ہماری دوستی کے رشتے کو مزید تقو یت فراہم کی ) ۔

احمد حسن کا فلسفہ ء حیات و ممات نہایت عجیب و غریب اور بیماری کی حد تک بڑھی ہوئی رومانویت پر مبنی تھا۔ چونکہ وہ دکھ کو خوشی پرمقدم جانتا تھا لہٰذا وصل سے کہیں زیادہ ہجر کا قائل تھا۔یک طر فہ محبت کرنے اور نبھانے میں اپنی مثال آپ تھا( یہ یک طر فہ محبت بھی اُس کی اپنی کوئی ذہنی اختراع تھی جس کا پہلا اور بنیادی اصول یہ تھا کہ فریقِ ثانی کو اِس کی ہوا تک نہ لگنے دی جائے) ۔ وہ حد درجہ بڑھی ہو ئی حساسیت،خود پسندی اور انسان دوستی جیسی بظاہر متضاد خصوصیات کا ملغوبہ اور آمیزہ تھا لہٰذا اُس کا ہر تعلق جلد ہی ایک پُرپیچ اور پُر تکلف سر گرمی میں بدل جاتا جو فریق ثانی سے کہیں زیادہ اُس کے اپنے لیے باعثِ آزار ہو جاتا ، تاہم وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو بھاری پتھر کو چوم کر رکھ دینے کے بجائے اُسے مسلسل چومنے پر یقین رکھتے ہیں۔

دیکھا جائے تو ہم دو بالکل مختلف دنیائوں کے باسی تھے ۔ احمد حسن جتنا دِقت پسند اور ایذا طلب تھا میں اتنا ہی آسان کوش اور کھلنڈرا واقع ہو ا تھا۔وہ ایک وقت میں ایک ہی محبت کو سہارنے اور ہجر کے تسلسل سے لطف اندوز ہونے کی بات کرتا تھا جب کہ میں فوری اور مسلسل وصال کا داعی تھا ، اور اِس سارے عمل میں تو حید کا ہرگز قائل نہ تھا۔ اِس تضاد میں چونکہ ایک تشکیل بھی مضمر تھی لہٰذا احمد حسن تنظیمی سیاست کو خیر بادکہہ کر سلسلہ ہائے تعلیم میں جُت گیا ، جس کے فوراً بعد اُس کی سپلیوں اور یک طرفہ محبتوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی ۔ انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کرنے کے بعد وہ یو۔ ای۔ ٹی۔ لاہور میں ہی بطور لیکچرار خدمات سر انجام دینے لگا ۔ تھوڑے عرصے بعد اُسے ڈبیٹنگ اور ڈرا میٹک سو سائٹی کا ٹیچر انچارج بنا دیا گیا ۔

میں نے بھی جیسے تیسے ڈگری مکمل کر لی تاہم ڈگری کی تکمیل کے فوراً بعد کچھ ایسے خاندانی اور نیم خاندانی معاملات درپیش آئے جن کی بنا ء پرلاہور کو الوداع کہہ کر اپنے آبائی شہر ملتان واپس آنا پڑا۔ یوں جو انی کی امنگوں اور سر شاریوں سے بھر پور ایک روشن اور تابناک عہد اپنے اختتام کو پہنچا ۔

۔

میں نے پہلی بار غزالہ عارف کا نام احمد حسن کی زبانی سنا تھا۔ احمد حسن نے بتایا کہ غزالہ عارف انجینئرنگ یونیورسٹی میں فرسٹ ائر کی طالبہ ہے،ملتان سے تعلق رکھتی ہے،نہایت حسین و جمیل ہے،عمدہ شعری ذوق رکھتی ہے، میری باضابطہ فین ہے اور ملاقات کی متمنی ہے۔ میں اُن دنوں ایف۔ ایم ون او تھری ملتان سے منسلک تھا اور ”لذتِ سنگ“ کے نام سے ایک لیٹ نائٹ شوکیا کرتا تھاجو کمسن لڑکوں اور لڑکیوں کے حلقے میں کافی معروف تھا،چنانچہ احمد حسن کی زبانی یہ ساری تفصیلات جان کرنہ تَو حیرت ہوئی، نہ تجسس کی کوئی چنگاری بھڑکی،تاہم ازراہِ مروت میں نے اُس سے وعدہ کرلیا کہ اگلی بار جب یو۔ای۔ ٹی آؤں گا تَو لگے ہاتھوں غزالہ عارف سے بھی ملاقات کرتا جاؤ ں گا۔

چند دنوں بعد فیس بک پر آن لائن ہوا تَو غزالہ عارف کی فرینڈ رِیکوئسٹ آئی ہوئی تھی۔سرسری سے انداز میں پروفائل کا معائنہ کیا تَو احمد حسن کی باتیں درست معلوم ہوئیں۔دو سے تین پوسٹس ایسی تھیں جو اُس نے مجھے اور احمد حسن کو اکٹھے مینشن کی ہوئی تھیں،جن میں سے ضیاء محی الدین کے تحت اللفظ میں فیضؔ کی نظم ”رقیب سے“ اور استاد نصرت کی آواز میں ”نی سیو اَساں نیناں دے آکھے لگے!“ میں نے فوراً ہی لائک کر ڈالیں۔

جلد ہی لاہور جانا ہو ا،یو ای ٹی بھی گیا،احمد حسن کے پاس حاضری بھی دی،تاہم غزالہ عارف کے حوالے سے کوئی بات نہ ہوئی۔اُنہی دنوں والد صاحب پر فالج کا حملہ ہوا تَو گھر کی ساری ذمہ داریاں ایک دم سے مجھ پر آن پڑیں۔غزالہ عارف تَو کیا خاک یاد رہتی، غمِ روز گار کے جھمیلوں میں احمد حسن اور لاہور بھی فراموش ہوتے چلے گئے۔

۔

پرائیویٹ ریڈیو کی نوکری میں شہرت تَو تھی مگر آمدنی کے ذرائع نہ ہونے کے برابر تھے۔مالکان کا رویہ بھی ہتک آمیز تھا۔پھر معاملہ صرف کمپیئرنگ تک محدود نہ تھا،اشتہارات کا انتظام بھی خود کرنا پڑتا۔اشتہارات کا انتظام ہو جاتا تَو تنخواہ مل جاتی ورنہ اگلے مہینے یا مہینوں تک التواء میں چلی جاتی۔مالی ابتری ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔تنگ آ کر کچھ اورکرنے کا سوچا۔ سب سے پہلے تَو ایجو کیٹر بھرتی ہونے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ قرعہ فال مگر ہر بار سائنس والوں کے نام نکلا۔ ادب اور سماجی علوم والوں کے لیے نوکری کے تمام دروازے بند ہو چکے تھے۔مجھ پر ہی کیا مستزاد، میرے کسی بھی کلاس فیلو کی دال نہ لگی۔ایک بار ٹھنڈے دماغ سے اِس ساری صورتحال کا معروضی تجزیہ کیا تَو ایجوکیٹر کی نوکری پر تین حرف بھیجے اور سیاسی خانوادوں کے طواف شروع کر دیے۔ہر پانچ کوششوں کے بعد ایک مرتبہ گوہرِ مقصود ضرور ہاتھ آجاتا،یعنی پیر نظام الدین راشدی سے ملاقات کا شرف مل جاتا،جو نہ صرف ہمارے حلقے کے ایم۔ این۔ اے تھے بلکہ ایک معروف گدی کے سجادہ نشین بھی تھے۔پیر صاحب اِتنے خوش طبع انسان تھے کہ مجھے دیکھتے ہی واپڈا، سوئی گیس اور کسٹمز میں نوکری دلوانے کا وعدہ کرلیتے۔جس روز نسبتاً بہتر موڈ میں ہوتے تَو وعدے کے ساتھ ساتھ کسی عرضی پر احکامات بھی تحریر کر دیتے۔ موڈ مزید اچھا ہوتا تو اپنے پی۔ اے سے فون بھی کرا دیتے۔یکے بعد دیگرے اُن کے قلمی و زبانی احکامات ہوا میں تحلیل ہوتے گئے اور میری ایک درجن سے بھی کچھ زائد عرضیاں داخل دفتر ہو گئیں تَوپیر سائیں کا گھٹنا چھوڑ کر افسر شاہی کی چوکھٹ پکڑ لی۔

اگلے کچھ مہینوں میں ہر رنگ ونسل کے پاپڑ بیل ڈالے: عدالتوں اور کچہریوں کے چکر لگائے، بااثر دوستوں کی منتیں کیں،نائب قاصدوں اور اہلمدوں کے ترلے کیے مگر سب بے سود۔بالآخر کمیشن کے امتحان دینے کی ٹھان لی۔دو سال تک ہر صوبائی اور وفاقی مقابلے کا امتحان دینے کے بعد قسمت نے یاوری کی اور فاقہ مستی رنگ لے آئی تَو پی۔آئی۔ڈی میں بطور انفارمشن آفسیر تقرری ہوگئی۔یوں بےروزگاری کا ایک قبیح دور انجام پذیر ہوا اور خاکسار اپنا بوریا بستر باندھے،اسلام آباد جا پہنچا۔

۔

چناب سے بچ نکلے تَو راوی میں جا ڈوبے۔میں جو لاہور اور ملتان کی محفلوں اور مجلسوں کاشیدائی تھا،اسلام آباد کی اجاڑ تنہائیوں میں دل نہ لگا پایا۔یہاں کی سماجی زندگی نہایت روکھی پھیکی اور بے جان تھی جس میں جنیوئن ہیومن ریلیشن کے امکانات نہ ہونے کے برابر تھے۔جبراً دل لگانے کی کوشش کی تَو اکتاہت بڑھتی چلی گئی۔بیزاری مزاج کا مستقل حصہ بننے لگی تَوتبادلے کی کوشش میں جت گیا۔ تبادلہ تَونہ ہو پایا۔ اچھی بات مگر یہ ہوئی کہ اُنہی دنوں سہیل نقوی سے ملاقات ہو گئی،جو اولڈ راوین،میرا اور احمد حسن کا مشترکہ دوست،اور قائد اعظم یونی ورسٹی میں سوشیالوجی کا لیکچرار تھا۔

۔

”تَو مسٹر ضرب کلیمی!یہ بتاؤ غزالہ عارف کے بارے میں اور کیا جانتے ہو؟“ سہیل نقوی نے سوشل ہٹس کے ایک نسبتاً سنسان گوشے میں لاہور، سوگندھی اور غزالہ عارف کے باہمی تعلق کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کی۔

”بس اِتناکہ احمد حسن کی جونئیر یا سٹوڈنٹ تھی۔اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔“

”یہ لاعلمی بھی بہت کمال کی چیز ہے میرے دوست!…… دنیا میں جتنی بھی خوشی اور اطمینان ہے سب اِسی کی بدولت ہے! …… آدمی مسکرا سکتا ہے، خواب دیکھ سکتا ہے، محبت کر سکتا ہے،دھوکا کھا سکتا ہے،امید اوریقین جیسی فحش اور بے ہودہ لگژری افورڈ کر سکتا ہے!……کبھی کبھار تَویوں گماں ہوتا ہے جانِ عزیزی، زندگی محض لاعلمی کے سہارے گزاری جا سکتی ہے!…… جان کر صرف متلی کی جا سکتی ہے، لہو تھوکا جا سکتا ہے،راکھ اڑائی جا سکتی ہے، اور بس!“

”وہ تَوٹھیک ہے مگر اِس ساری خرافات کا غزالہ عارف اور احمد حسن سے کیا کنکشن بنتا ہے؟“میں ایکدم جھنجھلا گیا۔

”بنتا ہے ناں میری جان! غزالہ عارف بھی تمہاری طرح خوش فہمی اور خوش گمانی کا چلتا پھرتا اشتہار تھی۔کچھ عمر کا تقاضا بھی تھا۔پتا نہیں کب اُسے احمد حسن سے خوب افلاطونی والی محبت ہو گئی۔ احمد نے پہلے تَو اُسے نظر انداز کیا مگر جب وہ ٹس سے مس نہ ہوئی اور اُس کے پیچھے ہاتھ دَھو کر پڑی رہی تَو موصوف کے ذہن میں خیال آیا کیوں ناں بہتی گنگامیں ہاتھ دَھو لیےجائیں۔ تاہم ایک بار ہاتھ دَھو لینے کے بعد گنگا اُس کے پیچھے پڑ گئی کہ مجھے بیاہ کرلے جاؤ وغیرہ اور اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تَو کورٹ میرج ہی کر لو۔ احمد حسن مگر جائے و قوعہ سے یوں فرار ہوا کہ قدموں کے نشان تک نہیں چھوڑے۔“

میں نہایت بے یقینی سے سہیل نقوی کا چہرہ دیکھے گیا۔پھر اگلے ہی لمحے احمد حسن کا دھندلا سا عکس جھلملایا اورمیں نے بے اختیار نفی میں سر ہلادیا۔

سہیل نقوی کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ بکھرتی چلی گئی۔

۔

دیرسے ہی سہی مگرتبادلے کی کوشش بار آور ثابت ہوئی۔ملتان میں ایک متحرک اور بھرپور زندگی میرا انتظار کر رہی تھی۔میں نے مصوری کی نمائشیں دیکھیں، مشاعروں کی نقابت کی، موسیقی کے پروگرام اٹینڈ کیے اورہمہ قسم ادبی،نیم ادبی اور سماجی محافل میں شریک ہوا۔اِس دوران کچھ نئے دوست بھی بنے مگر سب سے قریبی تعلق اسد علی کے ساتھ استوار ہوا۔

اسد علی روزنامہ “خبریں” کے میگزین سیکشن کا انچارج تھا اور نہایت غیر معمولی حسِ مزاح کا حامل تھا۔ہم روزانہ شام کو سات بجے کے لگ بھگ جلال مسجد پارک میں اکٹھے ہوتے، چالیس سے پچاس منٹ واک کرتے، پھر گول باغ کے کسی بنچ پر آلتی پالتی مار کے بیٹھ جاتے اور رات گئے تک گپیں ہانکتے رہتے۔

۔

موسم کے دیوتا نے یکایک اپنے لچکیلے بازو لہرائے اور حلق سے ایک زور دار آواز برآمد کی تَو بارش بھری صبحوں اور موسلا دھاری راتوں نے دھرتی کے گرم سینے پرنم ہونٹوں کے گلدستے ڈھیرکردئیے۔

برسات کی ایک نسبتاً کم ابر آلود شام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، میں اور اسد علی معمول سے کچھ زیادہ لمبی واک پر نکل گئے۔

”احمد حسن کو تَوجانتے ہی ہوگے؟“ اسد علی کے سوال میں استفسار کا عنصر کم اور انکوائری کا تناسب زیادہ تھا۔ پھر سوال اِتنا اچانک تھا کہ مجھے پوری طرح سے حیران ہونے کا موقع بھی نہ مل پایا۔

”ہاں!“ میں نے اختصار کو غنیمت جانا۔

”کیسا آدمی ہے؟“

”بہت نفیس، خوش اخلاق، شائستہ، باذوق اور شریف النفس۔“

”واقعی؟“ اسد علی یوں حیرا ن ہوا جیسے میں نے کوئی ماورائے عقل بات کہہ ڈالی ہو۔

”ہاں تَو اور کیا!……کالج ٹائم کا لنگوٹیا دوست ہے، بس کئی سالوں سے رابطے منقطع ہیں۔“

”جب دوست ہے تَو پھر رابطے کیوں منقطع ہیں؟…… اور اِس انقطاع کا ذمے دار کون ہے؟…… آپ؟…… یا جناب؟ “

مجھے یوں لگا جیسے اسد علی ایک ہی لخطے میں میگزین انچارج سے کرائم بیٹ کا انچارج بن گیا ہو۔

”اِس پرکبھی سوچا نہیں۔ ایک دو بار کوشش کی تَو اُس کے نمبر نے رِسپانڈ نہیں کیا۔چھ سال پہلے یو۔ ای۔ ٹی لاہور میں لیکچرار تھا۔ اب تَو یہ بھی نہیں پتا کہ پاکستان میں ہے یا پردیس کو پیارا ہو گیا۔“

” تَوحضورِوالا فیس بک یا ٹوئٹر اکاؤنٹ بنانے کے بارے میں کبھی نہیں سو چا؟…… بس انگوٹھا گھماتے جاؤ اور دنیا کے کسی بھی کونے پر بیٹھا آدمی،بوتل کے جن کی طرح آپ کے سامنے حاضر!“

”فیس بک کا اکاؤنٹ تَو تھا۔کچھ عرصہ استعمال بھی کیا۔پھرپاس ورڈ گم ہو گیا۔دوبارہ اکاؤنٹ بنانے کوجی ہی نہیں چاہا۔“

”تَو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ اب سوسائٹی ہی آپ کا سوشل میڈیا ہے اور نان سوشل میڈیا بھی؟“

”ہم پرانی طرز کے آدمی ہیں لالے! ای میل سے زیادہ میل ملاپ پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ بھی ہاتھ سے جاتا رہے تَو صبر کا دامن تھام لیتے ہیں …… آپ یہ بتائیے احمد حسن کا ذکرِ خیر ایکدم کہاں سے برآمد ہو گیا؟“

”ایک نمبر کا فراڈیا اور نوسر باز ہے آپ کا دوست!“

”فراڈ؟کیسا فراڈ؟“

اسد علی یقیناً کوئی بڑا انکشاف کرنے والا تھا۔میں نے بدن کے ہر عضو کو کان بنا ڈالا۔

”محبت میں فراڈ! وہ بھی اپنی ہی ایک سٹوڈنٹ کے ساتھ …… غزالہ عارف!…… نام تَو سنا ہو گا؟“ اسد علی نے کسی ماہر شعبدہ باز کی طرح ہیٹ سے کبوتر نکالا اور میری جانب اچھال دیا۔

”اب یہ غزالہ عارف کون ہے اسد بھائی؟“ میں ایکدم بَھولا بن گیا۔

”دوست ہے لالے! فیس بک پر ملی تھی۔اُسی نے تَو بتایا ہے آپ اور احمد حسن جگری دوست ہوا کرتے تھے۔یہ بھی بتایا کہ احمد حسن نے پیار کا پتا پھینک کر اُس کی عزت لوٹ لی اور شادی کا جھوٹا وعدہ تک نہیں کیا۔“

میری آنکھوں کے سامنے احمد حسن کی دھندلی سی شبیہہ لہرائی۔

جس احمد حسن کو میں جانتا تھا وہ کون تھا؟

جس احمد حسن کو میں نہیں جانتا تھا اُسے باقی لوگ کیسے پہچان گئے تھے؟

غزالہ عارف دراصل ہے کون؟ اورآخریہ درد کی کون سی سطح ہے جس کا دیوانگی بھرا بہاؤ، اُسے بار بار اپنے زخموں کو کریدنے پر اُکسا رہا ہے؟

پھر ایک آخری سوال یہ بھی تَو ہے کہ میں کون ہوں اور اِس ساری کہانی میں میرا کردار کہاں پر فٹ بیٹھتا ہے؟

۔

اولڈ راوینز ایلو مینائی کی طرف سے ایک ٹیکسٹ میسج موصول ہوا جس کے تحت گورنمنٹ کالج لاہور کی ڈیڑھ سو سالہ تقریبات کے سلسلے میں ایک خصوصی پروگرام کا انعقاد کیا جا رہا تھا ___

اقبال ہال کی نچلی منزل پر ایک چھوٹے سے کمرے کی کھڑکی کھلی تَو سامنے سفید کبوتروں کا ایک مست الست جوڑا غٹر غوں کیے جار ہا تھا۔ شدید دھند والی سردیوں کی ایک رات میں اِسی کمرے کے ایک کونے میں دھری چارپائی پر لحاف میں سر دے کر چلغوزے کھاتے ہوئے ایک کمسن لڑکے نے زندگی میں پہلی بار چشمِ تصور سے اپنی چائلڈ ہڈ فینٹیسی کے ہونٹ چومے اور پھر اِسی لحاف میں چھپ کرخوب رویا جب ایک ادھیڑ عمر بدصورت آڑھتی کے ساتھ اُس کا نکاح طے پا گیا۔ ایمفی تھیڑ کی سیڑھیوں پر تنہا بیٹھا وہی کمسن لڑکا خلا میں نظر یں گاڑے، کچھ سوچتا ہے اور مسکرا دیتا ہے۔ اُس کی آنکھوں میں دنیا کو بدلنے کے خواب چھپے ہیں۔پھر ایک پولیس والے نے اُس کے پچھواڑے پر لات رسید کی تَو سارے خواب ہتک کے شدید احساس سے جنم لینے والی طوفانی لہروں کے بھنور میں پھنس کر ڈوب گئے۔

میری آنکھیں اپنے ماضی کی بلیک اینڈ وائٹ فلم کے دھندلے پرنٹ سے بلونگڑوں کی طرح جھانکتے مناظر کو بار بار دیکھتی ہیں اور میں اُس روشن آنکھوں والے لڑکے کی موت کا سوگ مناتا ہو ں،جو دنیا کو بدلنے نکلا تھا مگر ایک روز خود اُسی خرابے میں گر کر مر گیا۔

میں اندر ہی اندر ایک فیصلہ کرتا ہوں،چھٹی اپلائے کرتا ہوں اورسٹیشن لیوو کی کنفر میشن لیے بغیر لاہور کے لیے نکل پڑتا ہو ں ____

کالج لائبریری کی کسی بک شیلف میں اب بھی ”اینیمل فارم“ کا وہ نسخہ ضرور موجود ہو گا جسے پورا پڑھ لینے کے بعد تکمیل کے کسی احساس سے سر شار ہو کر میں نے ناول کے اختتامی صفحے پر اپنے دستخط کر ڈالے تھے!

کیا اب بھی گوالمنڈی میں کوئی اُداس بیرا ہمارا انتظار کرتا ہو گا؟

باغِ جناح کے دالانوں میں ہمارے قدموں کے نشان باقی ہیں یا وقت کی تیز آندھیو ں نے اُنہیں ہمیشہ کے لیے مٹا ڈالا؟

میں یادوں کی دھنک پرچلتا ہوا وقت سے ذرا پہلے آپہنچا ہوں یا باقی لوگ ہمیشہ کی طرح دیر کر چکے ہیں؟

شناسا چہروں کی تلاش میں اِدھر اُدھر بھٹکتا ہوں، تمام چہرے اجنبی دکھائی دیتے ہیں، اُن سب کی نگاہیں بھی تَو کسی آشناکی تلاش میں بھٹک رہی ہوں گی!____ اور میری نگاہوں نے بالآخر اُسے پالیا ہے!____وہ اب بھی تقریباً ویسا ہے،بس تھوڑی توند نکل آئی ہے!____ چہرے پر ایک گھمبیر اُداسی کا ہالہ،اُسے پہلے سے کہیں زیادہ پر کشش دکھا رہا ہے!____ اُسی لمحے ہماری نظریں ٹکراتی ہیں!____وہ ایک پل کو ٹھٹھک جاتا ہے اورمیری جانب یوں دیکھتا ہے جیسے کسی معصوم بچے کو اس کا گمشدہ کھلونا مل گیا ہو!____پھر وہ میری طرف دوڑ پڑتا ہے اور ہم بغل گیر ہو جاتے ہیں۔

”ضربِ کلیمی عرف ہامون جادوگر! تَو اب بھی ویسے کا ویسا ہی ہے، یعنی ایک نمبر کا ڈھکن!“احمد حسن کی دبنگ آواز میرے کانوں سے ٹکرا کر ایک باز گشت میں ڈھل جاتی ہے اور وقت کے گمشدہ کنارے آپس میں تحلیل ہونے لگتے ہیں ____

”احمد حسن عرف حسنی مبارک! سناؤ کیا حال ہے؟“میں اپنی آواز کی گرمجوشی دبانے میں ناکام رہتا ہوں۔

” خود ہی دیکھ لو جانِ عزیزی!…… تمہارے سامنے تَو کھڑا ہوں۔ “احمد حسن کھلکھلااٹھتا ہے۔

”کدھر دفع ہو گئے تھے!……میں نے کئی بار فون کیا! ……ایک دو بار بیل جاتی رہی!…… پھر وہ نمبر ہی آف ہو گیا۔“ میں اٹک اٹک کر اپنی بات پوری کرتا ہوں۔

آج پہلی بار یہ عقدہ کھلا ہے کہ ایک ہی وقت میں محبت اور نفرت کا بوجھ اُٹھانا پڑ جائے تَوآدمی کا دَم نکل جاتا ہے۔

وہ کچھ کہنے کے لیے لب کھولتا ہے، سرجھٹکتا ہے، پھر سختی سے اپنے ہونٹ بھینچ لیتا ہے۔

”کیوں نہ کچھ باتیں کسی آئندہ کے لیے رکھ چھوڑیں ضربِ کلیمی!……آج تَوڈار سے بچھڑے ہوئے پرندوں کی اپنے اپنے گھونسلوں میں واپسی کی شام ہے۔“میں احمد حسن کے چہر ے پر دکھ کے بادل اُترتے دیکھتا ہوں۔

”جو بھی ہونا ہے، آج ہونا ہے!…… اور یہ بات تم بہت اچھی طرح سے جانتے ہو!“ میری آواز ایک دم کچھ کرخت سی ہو گئی۔

احمد حسن نے زخمی نگاہوں سے میری جانب دیکھا اور دوسری جانب منہ پھیرلیا۔

”تَو پھر سنوجانِ عزیزی!……تمہیں توشاید یاد بھی نہ ہو۔ایک بار میں نے تم سے ملتان کی ایک لڑکی کا ذکر کیا تھا۔“

اعصاب کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔احمد حسن نے چند قدم آگے بڑھ کرپہلا وار کر ڈالا۔

”وہی غزالہ عارف!…… جسے تم نے ایک استعمال کئے ہوئے کنڈوم کی طرح فلش میں بہا دیا؟“ میں نے لفظوں کا پستول اٹھایا اور سیدھا فائر کھول دیا۔

”میں نے؟…… ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا ہا۔“

احمد حسن ہنستا چلا گیا____ ہذیان، دیوانگی، دکھ، شکوہ، بے چارگی:اُس کی ہنسی میں کیا نہیں تھا!

ایکدم لفظوں کا پستول ہاتھ سے چھوٹ کر دور جا گرا۔

”میں نے کہاں جانِ عزیزی،اُس نے مجھے استعمال کیا!…… جانتے ہو وہ میری پہلی،آخری اور اکلوتی محبت تھی!…… زندگی میں پہلی بار میں نے کسی کو پانے کی خواہش کی!…… اور پا بھی تَو لیا تھا!…… مگر کیا پا لینا محض اِس کو کہتے ہیں کہ چند لمحوں کے لیے کوئی آپ کے بدن سے بدن ٹکرا کر جسموں کو بے بسی سے ہچکولے کھاتے دیکھے؟…… نہیں میری جان اِسے پانا نہیں،اِسے کھونا کہتے ہیں!……میں ہجر کا بچاری تھا،میرا وصل ادھورا ہی رہا۔“

اُس کے ایک ایک لفظ میں سچ کا زہر چھپا تھا ؛ میرے جسم میں سوئیاں سی چبھنے لگیں۔

”تَو سہیل نقوی! …… پھر وہ کیا تھا؟“ میں کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں بڑبڑایا۔

”غزالہ عارف مجھے چھوڑ کر سہیل نقوی کے پاس ہی تَو گئی تھی۔ مجھے یقین ہے اُسے بھی تشنگی کے سوا کچھ نہیں ملا ہو گا!“ احمد حسن پاگلوں کی طرح ہنستا گیا۔

”اور اسد علی؟…… اسد علی تَو کہیں تھا ہی نہیں؟“ایکدم لفظوں نے بغاوت کر ڈالی۔ اندر کا سارا شور جیسے ایک خفیف سی سر گوشی میں ڈھل گیا۔

”اسد علی کون؟ تمہارا کوئی نیا دوست؟“

اچانک اُس کے حلق سے ایک طویل قہقہہ برآمد ہوا۔

”ضرب ِکلیمی عرف ہامون جادو گر، تُو وہی ڈھکن کا ڈھکن رہا!……تجھے اِتنی سی بات سمجھ میں نہیں آئی کہ وہ اصل میں تجھ سے محبت کرتی تھی!…… پتا نہیں کیسے تُو اُس کی چائلڈ ہڈ فینٹیسی بن گیا اور وہ اِتنی توانا عورت ہے کہ آج تک اُسی پرچھائی کا تعاقب کر رہی ہے!……ہم تم تَو عک کے بیجوں جیسے ہیں، ایک ذرا کوئی زور سے پھونک مار دے تَو آخری سانس تک ہواؤں میں اڑتے پھریں،وہ مگر برگد کے پیڑ کی طرح زمین کے سینے میں پیوست ہے میری جان!“

”تمہارا دماغ چل گیا ہے حسنی مبارک! …… غزالہ عارف اگر واقعی مجھ سے محبت کرتی ہوتی تَو اسد علی،سہیل نقوی اور تمہاری جانب قدم بڑھانے کے بجائے سیدھا مجھ سے رابطہ کیوں نہ کرلیتی؟“ ایکدم میری آواز میں جنون اُتر آیا۔

”کیوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا ڈیئر!……شاید یہ اُس کی عقیدت ہو!……شایدیہ محبت کا کوئی نیا انداز ہو!……شاید وہ ہجر کو وصال سے مقدم جانتی ہو!……ہر طرف شاید ہی شاید بکھرے پڑے ہیں یہاں،حتمی جواب ویسے بھی کہاں ملتا ہے پیارے!“

اُسی لمحے احمد حسن کے موبائل فون کی رنگ ٹون بجی:

”نی سیو اَساں نیناں دے آکھے لگے!“

ایک بھولی بسری آواز نے کانوں کے راستے دل میں نقب لگائی ____میں نے چونک کر احمد حسن کی جانب دیکھا مگر اُس کی آنکھوں میں اُمڈتی ویرانی دیکھ کر بے اختیار نظریں چرا لیں۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031