زیست ِ محالاں ۔۔۔ نودان ناصر
زیستِ محالاں
نودان ناصر
شام نے دُکھ اوڑھ لیا ہے
رات اک طوائف کی سسکی میں
چھپ کر بین کرتی ہے
پرندے وقت کا گرز اُٹھائے
ماتمی پروازیں بھرتے ہیں
سوال آسماں کی چادر پہ داغ ہیں
اور جواب زمین کے پیالے میں تیرتی مکھیاں ہیں
وجود کے شمشان میں اک لاش اُگ آئی ہے
آگ جلنے کے لئے لہو کی بتی مانگتی ہے
خوشیاں سسرال میں پھنس گئی ہیں
راحتیں میکے میں رستہ تکتی ہیں
زمانہ اپنے میلے میں سرکس دکھاتا ہے
عبس کی تلاش میں بھٹکتے ہیں
حبس کی قاش سے پاوں زخمی ہیں
میت گاڑی کو روکو
اور اس سے پوچھو
کہاں سے آرہے ہو
کہاں جارہے ہو؟
Facebook Comments Box