بھتہ وصولی ۔۔۔ قُرب ِ عباس
بھتہ وصولی
قرب عباس
یوں تو میں جنازوں میں شرکت نہیں کیا کرتا لیکن آج اکبر ولی کے جنازے میں محض اس لیے شریک ہوا کہ اسے دفن ہوتا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکوں۔
اس نےکس قدر رعب سے بغیر کوئی لفظ کہے، بغیر کوئی کیس لڑے، لوگوں کی اس زمین پر اپنی جگہ گھیر لی ہے کہ وہ اسکا کرایہ دے گا نہ ٹیکس۔۔۔اور صدیوں۔۔۔ جب تک کہ اس کی قبر کا نشان مٹ نہیں جاتا۔۔۔ اس کی ملکیت اس دوگز کے ٹکڑے پر قائم رہے گی۔ نہ کوئی اس پر حق شفع کا مقدمہ کر پائے گا اور ناہی اسے گریبان سے پکڑ کر یہ دھونس جمائے گا کہ ؛
“تُوں نے جو جگہ گھیری ہے۔۔۔ وہ میری ہے۔۔۔”
میں اپنے اپارٹمنٹ کا تالا کھول رہا تھا کہ میری توجہ ایک عمررسیدہ، اداس آنکھوں والے، ڈھلکے چہرے والے لاغر سے شخص کی جانب مبذول ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں کارل مارکس کی تصویر والی ایک موٹی کتاب تھامی ہوئی تھی اور کھانستے ہوئے اپنے اپارٹمنٹ کا تالا بند کر رہا تھا۔
مجھے اس علاقہ میں کرائے پر گھر لیے چند ماہ ہوئے تھے لیکن میں نےاس کو نہیں دیکھا تھا، کچھ یہ بھی وجہ تھی کہ میں باہر صرف اسی وقت نکلتا ہوں کہ جب آفس جانا ہو، واپسی پر بازار سے اپنی ضروریات کی چیزیں بھی ساتھ لے آتا ہوں۔۔۔ اس مصروف زندگی میں کوئی دوست نہ کوئی رشتہ دار سو میرے پاس جو چند گھنٹے بچ جاتے ہیں گھر میں پڑا کہانیاں لکھتا رہتا ہوں ۔
شاید وہ اس دن میری دلچسپی کا سبب نہ بن پاتا اگر میں اس کے ہاتھ میں کتاب نہ دیکھتا، مجھے اندازہ ہوا کہ اس شخص کو ادب و فلسفہ سے ضرور لگاؤ ہے ۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کیوں نہ اس کے تجرباتِ زندگی اور علم میں سے کچھ نہ کچھ چُرا لیا جائے۔
میں نے اپنا دروازہ دوبارہ مقفل کیا اور اس کی جانب قدم بڑھائے؛
“ھیلو سر۔۔۔”
اس نے اپنی اداس آنکھوں سے میری جانب کچھ دیر دیکھاجیسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو؛
“ھیلو۔۔۔ آپ۔۔۔”
“سر میرا نام قربِ عباس ہے، آپ کے ساتھ والے اپارٹمنٹ میں رہتا ہوں۔”
“اچھا اچھا۔۔۔ خوشی ہوئی جان کر۔”
اس نے بااخلاق انداز میں جواب دیا اورپھر سیڑھیوں کی جانب چلنے لگا۔ میں بھی ساتھ ہو لیا؛
“سر کارل مارکس کو پڑھ رہے ہیں؟”
وہ رُک گیا اور میری جانب دیکھتے ہوئے بولا؛
“جی پڑھ چکا ہوں۔۔۔ یہ تو ایسے ہی بس واک کے بعد سوچا کچھ دیر بینچ پر بیٹھ کر مطالعہ ہوجائے۔” وہ پھر مسکرایا۔
اس دن کے بعد میری اکبر ولی کے ساتھ آتے جاتے بات چیت ہونے لگی، نظریات کے معاملے میں بالکل شفاف انسان تھا اس لیے نشست بھی خوب رہتی۔ میں نے اپنے چند افسانے بھی پڑھنے کے لیے دئیے جو اسے پسند آئے اور پھر سلسلہ چل نکلا۔
جب میں پہلی مرتبہ اس کے گھر گیا تو کمرے میں ڈھیروں کتابیں اور اخبار بکھرے پڑے تھے۔ ہر شے بے ترتیب تھی، کھانے کے برتن ، چائے کا کپ نجانے کب سے میز پر رکھے ہوئے تھے۔ اس کا کمرہ بھی اس کی زندگی ایسا تھا۔ بکھرا بکھرا۔۔۔ الجھا الجھا۔۔۔ خاموش۔۔۔ اور پرانا۔۔۔
ایک دن اس نے سگریٹ سلگایا اور کہنے لگا؛
“قُربِ عبّاس۔۔۔ ہم ایک ماچس کی ڈبیا بھی خریدتے ہیں تو اس پر بھی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔۔۔ کس لیے۔۔۔؟”
اس سوال کا جواب تو ہر شہری جانتا ہے ، میں نے بھی اس سطحی سوال کا عام سا جواب دے دیا؛
“سر کیوں کہ حکومت ہمیں سہولیات مہیا کر سکے۔۔۔ سب جانتے ہیں۔”
“ہاں۔۔۔ لیکن کون سی سہولیات؟ صحت۔۔۔ تعلیم۔۔۔ سڑکیں۔۔۔ تحفظ۔۔۔ یہ ہے کہاں۔۔۔ میرا تو جب ایک ایک پیسہ حکومت کی طرف جاتا ہے تو یہ بھتا وصولی لگتی ہے۔۔۔ کہ جیسے کسی غنڈے کو جان بچانے کے لیے ادا کر رہے ہوں۔”
بات تو ٹھیک تھی، ہم سب جانتے بھی ہیں لیکن کیا کِیا جائے۔۔۔ سو میں نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس نے دوبارہ کہنا شروع کیا؛
“میں پہلے سگریٹ کا ایک پیکٹ پیا کرتا تھا۔ اپنی پینشن۔۔۔” اتنا کہہ کر وہ رکا اور طنزیہ انداز میں ہنسا؛
“اپنی پینشن۔۔۔ جو پینتس سال میں نے سرکاری نوکری کر کے اپنی ہڈیوں کے کھوکھلا ہونے تک محنت کے عوض حاصل کی ہے۔۔۔ جس رقم میں میری روٹی تک پوری نہیں ہو پاتی۔۔۔” وہ پھر دوبارہ اسی انداز میں ہنسا؛
“سگریٹ کا ایک پیکٹ لیتا تھا۔۔۔ پھر میں نے روز صبح کی واک کرتے ہوئے دیکھا کہ جوان عورت سڑکوں پر اخبار بیچ رہی ہے۔۔۔ میں نے کافی عرصہ ہوا اخبار پڑھنا ترک کر دیا تھا۔۔۔ لیکن اس سے اخبار خریدنے لگا۔۔۔ وجہ تم تو سمجھتے ہی ہوگے۔۔۔ مجھے ان تھوڑے سے پیسوں کا اتنا ہی فرق پڑا تھا کہ بس روز کے پانچ سگریٹ کم کرنے پڑے۔۔۔ ”
وہ کچھ دیر خاموش رہ کر کش لگاتا رہا اور پھر ایش ٹرے میں راکھ کو جھاڑتے ہوئے بولا؛
“پانچ سگریٹ اس دن کم کر دیئے تھے۔۔۔ اور پانچ اس دن جب میں نے پھول بیچنے والے بچے سے ایک پھول خریدنا شروع کر دیا۔۔۔ اس ایک پھول سے بھی مجھے کوئی کام ہے نہ کوئی لگاؤ۔۔۔ بس خرید جو لیتا ہوں ۔۔۔ قبرستان سے گزرتے ہوئے اپنے بیٹے اور بیوی کی قبر وں کے درمیان وہ پھول رکھ کر کچھ دیر وہاں رکتا ہوں۔۔۔ اور گھر لوٹ آتا ہوں۔۔۔”
میں نے کبھی اسکی ذاتی زندگی کے بارے میں نہیں پوچھا تھا، مجھے بالکل بھی اندازہ نہ تھا کہ وہ اپنی بیوی اور بیٹے کو کھو چکا ہے۔میرے اندر تجسس پیدا ہوا کہ میں ان کے بارے میں پوچھوں لیکن اسکا افسردہ چہرہ دیکھ کر خاموش رہا۔
“قُربِ عبّاس۔۔۔ میرے ارد گرد بہت کچھ ایسا ہے کہ میں صرف چند سگریٹ گھٹا کر کچھ نہیں کرپاتا۔۔۔ ایک تو میں سگریٹ بہت سستے خرید کر پیتا ہوں دوسرا۔۔۔ دس سے کم تو پی بھی نہیں سکتا۔” اس کے چہرے پر بے کس و مجبور سی مسکان ابھری۔
میرے اور اس کے سگریٹ کے دھوئیں سے بھرے کمرے میں کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر میں کہنے لگا؛
“آئی ایم سوری سر۔۔۔ میں نہیں جانتا تھا کہ آپ کی وائف اور بیٹا نہیں رہے۔ اگر آپ اپنے ذاتی معاملات میں اس چھوٹی سی دخل اندازی کو برا نہ جانیں تو میں آپ کی فیملی کے بارے میں جاننا چاہوں گا۔”
اس نے ایش ٹرے پر جمی آنکھیں بہت آہستگی کے ساتھ اٹھا کر میری جانب دیکھا؛
“کیا جاننا چاہو گے دوست۔۔۔ بتانے کو ہے بھی کیا میرے پاس۔۔۔ زندگی ہے اور بس گزار رہا ہوں۔۔۔ ”
پھر میرے سگریٹ کے پیکٹ کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا؛
“سگریٹ لے سکتا ہوں؟”
“جی جی سر۔۔۔ ” میں نے ڈبیا اٹھا کر اس کے سامنے کردی۔
“تھنکس۔۔۔ میرے ختم ہوگئے ۔” سگریٹ سلگایا اور پھر کرسی کے ساتھ اپنی کمر ٹکا لی؛
“میرا بیٹا۔۔۔تمہاری عمر کا ہی تھا۔
میں نے اپنی پوری عمر میں بس دو ہی کام کیے ہیں، پیسہ پیسہ جوڑ کر ایک یہ گھر بنایا۔۔۔ دوسرا بیٹے کی تعلیم پر توجہ دی۔ وہ ہونہار تھا، میری محنت کو ضائع نہیں کیا اس نے بھی۔۔۔ لائق تھا۔۔۔ تعلیم مکمل ہوئی تو اسے ایک پرائیویٹ فرم میں اچھی جاب مل گئی تھی۔ ہمارے دن سنور گئے تھے۔ میری ریٹائرمنٹ ہوگئی اور سکون سے اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ رہ رہا تھا۔
اکثر سوچا کرتا تھا کہ اب جا کر سکون ملا ہے۔۔۔ ابھی ایک سال ہی گزرا تھا۔۔۔ کہ وہ گھر لوٹ رہا تھا۔۔۔ شام کا وقت تھا۔۔۔ بازار میں کچھ لوگوں کی آپس میں لڑائی ہو رہی تھی۔۔۔ گولی چلی اور وہ اس کی زد میں آگیا۔۔۔ ”
اس نے سگریٹ کا ایک لمبا سا کش لگایا اور اسے ایش ٹرے میں دبا کر بجھا دیا؛
“میں تھانے میں رپورٹ درج کروانے کے لیے ۔۔۔ چکر کاٹنے لگا۔ کچھ عرصے کے بعد مجرم پکڑے بھی گئے۔۔۔ میں نے کیس کو فالو کرنا شروع کیا۔۔۔ پتہ چلا کہ وہ اسی علاقے کی مضبوط سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔ مجھے دھمکیاں ملنے لگیں۔۔۔ میں تو شاید نہ رکتا مگرمیری بیوی بہت ڈر چکی تھی، اس کے اصرار پر میں خاموش ہو کر گھر بیٹھ گیا۔ ویسے بھی بیٹا تو جا چکا تھا۔۔۔ اس عمر میں بیماری کی حالت میں مجھ سے یہ تھانے کچہریوں کے چکر کہاں کاٹے جاتے تھے۔
رہ گئے ہم دونوں بوڑھے میاں بیوی۔۔۔ کرنے کو بات نہ کہنے کو کچھ۔۔۔ خاموشی اور سکوت سا چھا گیا زندگیوں پر۔۔۔ پینشن ہم دونوں کے لیے کم پڑ رہی تھی۔سوچا جو ترکے کی زمین ہے۔۔۔ اس بیچ کر فکس ڈپازٹ کروا دوں۔۔۔ جو عمر رہ گئی ہے کم از کم روٹی تو سکھ سے کھا سکیں۔۔۔ میرے حصے کی زمین کئی سال سے میرے بھائی کاشت کر رہے تھے۔۔۔ انھیں جب یہ پتہ چلا کہ میں زمین بیچ رہا ہوں تو ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ خریدنا چاہتا ہے۔۔۔ میں نے اس سے بطور بیانہ معمولی سی رقم لے کر زمین اس کے نام لکھوا دی۔۔۔ بھائی تھا۔۔۔ مجھے امید تھی کہ وہ اپنے وعدے پر مجھے پیسے ادا کر دے گا۔۔۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔۔۔بہت عرصہ مطالبہ کرنے کے بعد۔۔۔ پنچائیتیں بھگتنے کے بعد۔۔۔ عدالت کا رخ کیا۔۔۔ اور پھر پورا ایک سال۔۔۔ ایک سال ذلالت سہتا رہا۔۔۔ تھک ہار کر میں نے کیس ختم کر دیا۔۔۔ اور رشتہ داری تو خیر پہلے سے ہی ختم ہوچکی تھی۔۔۔”
وہ جو کچھ پل کی خاموشی تھی، ہماری سگریٹوں کا دھواں تھا۔۔۔ مجھے حد سے زیادہ گھٹن کی شدت کا احساس دلانے لگے تھے ۔اکبر ولی کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔۔۔ نہ کوئی کرب، نہ کوئی دکھ۔۔۔ نہ حسرت۔۔۔نہ گلہ۔۔۔ کچھ بھی تو نہ تھا اس کے چہرے پر۔۔۔ وہ دوبارہ بولا؛
“بے چاری نے پوری عمر دکھ میں کاٹی تھی، اس کو تو میں شریکِ حیات نہیں۔۔۔ شریکِ دکھ کہا کرتا تھا۔۔۔ جگہ جگہ میرا حوصلہ بڑھاتی آئی تھی۔۔۔ پر پھر وہ تھک گئی۔۔۔ ہار گئی۔۔۔ ٹوٹ گئی ۔۔۔ اور مٹی کو اوڑھ کر سکون سے بیٹے کے پہلو میں سو گئی۔”
اکبر ولی نے فلسفہ و ادب کی دنیا سے باہر نکل کر آج زندگی کی کس قدر تلخ حقیقت کا رُخ دکھایا تھا۔۔۔میں اسے جھوٹی تسلی و حوصلہ دینے سے بھی قاصر تھا۔
“قُربِ عبّاس۔۔۔ ہم ٹیکس کیوں دیتے ہیں؟
ہمیں بدلے میں کیا چاہیے ، کیا مل رہا ہے؟
زندگی ہر طرف پامال ہے۔۔۔ رسوا ہے۔۔۔ اتنی منتشر ہے کہ کیا کہوں۔۔۔
تعلیم۔۔۔
تحفظ۔۔۔
انصاف۔۔۔
صحت۔۔۔
یہ ۔۔۔ یہ سب اپنی اتنی عمر کاٹ کر بھی میں نے کہیں نہیں دیکھے ۔۔۔ ”
جو سوال مجھےشروع میں معمولی سا لگا تھا۔۔ ۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ پھیل کر اتنا بڑا ہوجائے گا کہ مجھے کچھ کہنے کو ایک لفظ تک نہ ملے گا۔
کچھ ہی عرصہ گزرنے کے بعد اکبر ولی کی حالت ایک رات اتنی بگڑ گئی کہ اسے میں سرکاری اسپتال لے گیا۔۔۔ وہاں کچھ روز گزار کر وہ شکستہ حال گھر واپس آیا، میں نے اس کو ایک کاندھے کا سہارا دیا ہوا تھا ، ہم بہت آہستہ قدموں کے ساتھ چلتے ہوئے دروازے پر آکر رکے۔۔۔ جیب میں سے چابی نکال کر میں اُس کے اپارٹمنٹ کا تالا کھولنے لگا تو مجھے ساتھ کھڑےاکبر ولی کا بیمار سا قہقہہ سُنائی دیا، پھر یہ الفاظ:
“ہونہہ۔۔۔ بھتا وصولی۔۔۔ انکی ماں کی۔۔۔”
میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو اسکی غصے سے بھری آنکھیں دروازے کے بائیں جانب چسپاں نوٹس پر جمی ہوئیں تھی۔۔۔ جہاں لکھا ہوا تھا؛
نوٹس قبل از سیل پراپرٹی/تالا بندی
ہر گاہ بذریعہ نوٹس آپ کو مطلع کیا جاتا ہے کہ پراپرٹی مذکورہ بالا کے ذمہ مبلغ 15942 روپےپراپرٹی ٹیکس بقایاجات ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ کو تمام نوٹس ہائے دئیے جا چکے ہیں اور اس سلسلہ میں متعلقہ انسپکٹر متعدد بار آپ سے مل چکے ہیں اور تمام نوٹس ہائے کی تعمیل کرواچکے ہیں لیکن تاحال وصول پراپرٹی ٹیکس نہ ہوئی ہے۔ آپ پراپرٹی ٹیکس مذکورہ دیدہ دانستہ طور پر جمع کروانے سے گریزاں ہیں جو کہ خلاف قانون ہے۔
لہذا آپ کے مفاد میں ہے کہ آپ مورخہ16 مارچ تک دفتر حاضر ہوکر زرمطالبہ پراپرٹی ٹیکس مبلغ 15942 روپے داخل خزانہ سرکار کروائیں ورنہ پراپرٹی مذکورہ بالا سیل/ قرق کردی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!
یُوں تو میں جنازوں میں شرکت نہیں کیا کرتا لیکن آج اکبر ولی کے جنازے میں محض اس لیے شریک ہوا کہ اسے دفن ہوتا اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ سکوں۔
اس نے۔۔۔اس نے کس قدر رعب سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔