کافکا کی موت کے سو سال بعد۔۔راشد جاوید احمد

کافکا کی موت کے سو سال بعد

جولائی 1883 تا جون 1924

راشد جاوید احمد

فرانز کافکا، ایک جرمن زبان کے مصنف، جس کے تخلیقی کاموں نے جدید ادب پر گہرا اثر ڈالا ہے، کو ایک سو سال کاعرصہ گزر چکا ہے۔ اس کی تحریریں، جیسے کہ “میٹا مورفوسس” اور “دی ٹرائل”، ابھی بھی ہمارے دلوں اور دماغوں میں زندہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کافکا کا کام آج کے دور میں بھی متعلقہ ہے؟ اس پر جب میں نے سوچا تو مجھے  کافکا کی ادبی خصوصیات، اس کے موضوعات اور ان کی آج کے دور سے کافی مطابقت نظر آئی۔

کافکا کے کاموں میں اجنبیت اور بیگانگی کے موضوعات بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کی کہانیاں اکثر ایسے کرداروں کی عکاسی کرتی ہیں جو سماج میں اپنی جگہ تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ “میٹا مورفوسس” میں، گریگور سامسا کی مثال لیجیے، جو ایک دن کیڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے اور سماج اور خاندان دونوں سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ آج کے دور میں، جب لوگ ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا، اور تیز رفتار زندگی کی وجہ سے ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں، کافکا کے یہ موضوعات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ لوگ آج بھی اپنے ارد گرد کی دنیا میں اجنبی محسوس کرتے ہیں، اور کافکا کی تحریریں ان کے اس احساس کو بیان کرتی ہیں۔

کافکا کی کہانیاں بیوروکریسی اور ظلم کے خلاف بھی احتجاج کرتی ہیں۔ “دی ٹرائل” میں، جوزف کے کا کردار جو بغیر کسی وجہ کے گرفتار ہوتا ہے اور ایک بیوروکریٹک نظام میں پھنس جاتا ہے جو اسے کسی قسم کی وضاحت فراہم نہیں کرتا۔ دیکھا جائے تو آج کے دور میں، جب حکومتیں اور ادارے مزید پیچیدہ اور غیر شفاف ہو چکے ہیں، قااری کو کافکا کی کہانیوں میں اپنی مشکلات کی جھلک نظر آتی ہے۔ ہم لوگ آج بھی نظام کی بربریت اور عدم شفافیت سے پریشان ہیں، اور کافکا کی کہانیاں اس پریشانی کو آواز دیتی ہیں۔

پھر میں نے دیکھا کہ کافکا کی تحریریں وجودی اضطراب کو بھی پیش کرتی ہیں، جیسا کہ اس کے کرداروں کی بے یقینی اور بے معنویت کی حالت سے ظاہر ہے۔ آج کے دور میں، جب دنیا بھر میں تبدیلیاں اور چیلنجز تیزی سے بڑھ رہے ہیں، بہت سے لوگ اپنی زندگی کے معنی اور مقصد کے بارے میں سوالات کر رہے ہیں۔ کافکا کی تحریریں ہمارے اس اضطراب کو سمجھنے اور بیان کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ اس کی کہانیاں ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ انسانی وجود کی پیچیدگی اور غیر یقینی کو ہم کیسے سمجھ سکتے ہیں۔

کافکا کے کام میں ہمیں  معاشرتی تبدیلیاں نظر آتی ہیں  اور ان کے اثرات  آج کے دور میں بہت اہم ہیں۔ “دی کیسل” میں، ایک آدمی ایک قلعے تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن اسے مسلسل رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہانی ان لوگوں کی مشکلات کو بیان کرتی ہے جو معاشرتی اور ادارتی تبدیلیوں کے درمیان اپنی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کے دور میں، جب لوگ مختلف ثقافتی، معاشرتی، اور معاشی تبدیلیوں کا سامنا کر رہے ہیں، کافکا کی تحریریں ان کی مشکلات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

میری دانست میں کافکا کا کام آج بھی متعلقہ ہے کیونکہ اس کی تحریریں انسانی تجربات کی بنیادی اور آفاقی حقیقتوں کو بیان کرتی ہیں۔ اجنبیت، بیوروکریسی، وجودی اضطراب، اور معاشرتی تبدیلیوں کے موضوعات آج بھی اتنے ہی اہم ہیں جتنے کافکا کے زمانے میں تھے۔ اس کے علاوہ، کافکا کی ادبی خصوصیات اور اس کا منفرد انداز آج کے قارئ کے لئے بھی دلکش ہیں۔ اس لئے، کافکا کا کام نہ صرف آج کے دور میں متعلقہ ہے بلکہ مستقبل میں بھی لوگوں کو اپنی مشکلات اور تجربات کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930