کرش ۔۔۔ رابعہ الربا

کرش

رابعہ الرباء

اسلام آباد کی خزاں کسی بہار سے کم نہیں ۔ دھوپ سوتی جاگتی رہتی تھی ۔ آسمان گیت گانے لگتا تھا۔ ہوائیں خشک پتوں کے سنک محو رقص ہوا کرتیں تھیں۔ ہوتی یہ ایسا ہی ایک بہار کا دن تھا

اک خبر نے پورے ماحول کو سکوت میں بدل دیا

ملک کے ایک بہت بڑے مذہبی سکالر کو گولی مار دی گئی اور وہ جان کی بازی ہار گئے

اس ایک خبر نے میرا سارا ماضی الٹ پلٹ کر رکھ دیا اسلام آباد میں خزاں کاموسم کسی بہار سے کم نہیں ہوتا۔

لیکن میرے ماضی میں اس سکالر کے حوالے سے خزاں کے کچھ پتے تھے جو یادوں کی ہواؤں میں اڑ رہے تھے۔

دفتر میں شام تک یہی معما موضوع گفتگو بنا رہا  کہ وہ تو ایک مذہبی سکالر تھا ۔ کسی سے اس کی دشمنی نہیں تھی ۔ اس کا ایک الگ نکتہ نظر ضرور تھا  مگر وہ ریاست کو بھی چیلنج نہیں کرتا تھا۔ اس کی ہر کتاب بس آتی تھی اور بہار کی طرح مہک جاتی تھی ۔

تب زمانہ پرنٹ میڈیا کا تھا ۔ قلم کا غذاور قاری ایک ہی دھار تھے ۔میں ابھی یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور اسی طرح ان کا فین تھا جیسے سب اس زمانے میں ان پہ فدا تھے۔

خواتین تو ان کی عاشق تھیں۔انہوں نے اسلام میں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے بہت کام کیا تھا اپنی کتابوں میں ان حقوق کی تفہیم آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق کر کے عورت کو اس کے تمام حقوق دلوانے کی بات کی تھی۔

اگرچہ اس دور میں مجھے بھی سمجھ نہیں آتا تھا کہ عورت کو حق ملنے کا مقصد مرد سے کچھ جبر چھن جانے والی بات ہے ۔

حق ہوتا کیا ہے نا حقی کسے کہتے ہیں۔ لیکن حبس میں ہوا کا تازہ جھونکا  ہر نوجوان کو اچھا لگتا ہے اور تب میں نو جوان تھا

اب جوان رہ گیا ہو ۔جس کے اندر سے کئی بہاروں کےساتھ ساتھ  دوگنا خزائیں گزر چکی تھیں۔

اس خبر نے مجھے میری نو جوانی کے دن یاد کروا دئیے تھے اور میری نوکری کے سرکاری حکم نامے نے ضبط کے جڑ جانے والے لمحوں کو بھی بکھیرنے کی خبر دی تھی ۔

کل سکالر کی نماز جنازہ پہ حفاظتی انتظامات کا سہرا میرے سر سجایا گیا تھا گویا مجھے ہر صورت بےوردی اس جنازے میں شریک ہونا تھا۔ یہ میرے ظرف پہ تھا کہ میں نماز جنازہ پڑھوں یا جنازے پہ اپنے فرائض سر انجام دوں۔

نوکری “یس سر “والی ہو تو “نو ” کا جواز ہی پیدا نہیں ہوتا

لہذا میرے پاس بھی جواب “یس سر ” ہی تھا۔

اسلام آباد کی خزاں بھی بہار ہوتی ہے

رات میں نے گھر فون کر دیا کہ دیر سے آؤں گا اور بیوی بچوں کو منع کر دیا کہ باہر حا لات خراب ہیں ۔باہرنہیں جانا اور کل بچے بھی سکول سے چھٹی پہ ہی ہوں تو اچھا ہے کیونکہ ملک بھر سےجنازے میں بڑی شرکت کی توقع کی جا رہے تھی۔

کچھ لوگو ں کا تو یقین ہو گا اس جنازے میں شرکت کرنا کسی مقدس فعل سے کم نہیں ہے ۔

لیکن کچھ درد میرے سینے میں آج بھی چراغ ہیں۔

میں نے اپنا فرض ادا کر نا تھا سو دفتر سے نکل گیا ۔ مشینی زندگی کے سب کام مشین کی طرح چل رہے تھے۔ وہ جملے ہوتے ہیں وہی جگہیں ہو تی ہیں  بس ایک فرد یا کہیں ایک حاضر سروس کی موجودگی جو کام کر تی ہے ۔ میں وہی کام کر رہا تھا جبکہ میرا دماغ اور دل اپنا کام کر رہے تھے۔ برسوں قبل ایک ماضی تھا جو آج بھی ہو بہو کانپ رہا تھا۔

اسلام آباد کی خزاں کی رات سرد و خنک ہو تی ہے سو تھی مگر آج اس کی زمین پہ اک قتل بھی ہوا تھا مگر نہ آسمان لال ہوا نہ زمین ، نہ کوئی لال آندھی چلی نہ کالی ۔

بس ایک انسان کوکانفرنس ہال سے نکلنے کے بعد گولی مار دی گئی اور گولی مارنےوالے نے اس کے بعد خود کو مار لیا۔ یہ اپنی نوعیت کاایک منفرد واقعہ تھا۔

لیکن انفرادیت تو کہیں بہت دور تک اس کے گا ؤں اور پرانے شہر کے گلی کوچوں تک گئی تھی ملک بھر میں ہو کا عالم تھا ۔نا قابل یقینی کی صورت حال تھی۔ سب کا جیسے سانپ سونگھ گیا تھا

خوشی انسان کے شیرازے بکھیر دیتی ہے اور غم انسانوں کو جوڑنے پھر آن پہنچتا ہے۔

اس غم نے پوری قوم کو  مسلک و مذہب کی تفریق بنا ایک کر دیا تھا۔

غم زندگی کے لئے کتنا ضروری ہے لیکن میری نوکری نے مجھے غم منانے والی کیفیا ت سے اتنے سالوں میں نکال دیا تھا۔

اب میرا کام غم منانے والوں کی حفاظت کر نا تھا کہ کہیں وہ غم کو غصے میں نہ بد ل دیں۔

لیٹا رہا ، چند گھنٹے بعد صبح اندھیرے میں ہی نکلنا تھا ۔ حفاظت پہ معمور افسر کی تیار کی رپورٹ بھی آ چکی تھی  لیکن اس نے کیا لکھا ہو گا تمام ثبوت جانے والا اور لے جانے والا خود ہی مٹا گیا تھا ۔ افسر نے بھی یہی لکھا ہو گا۔

سکالر صاحب سے ہی میں نے سیکھا تھا کہ موت اپنے وقت سے پہلے آ ہی نہیں سکتی  لہذا مجھے یقین ہے کہ انہیں اس بات کا خود بھی یقین ہو گاکہ وہ اپنے وقت پہ اس دنیا سے گئے ہیں۔

ان کی خواہش بھی تھی کہ وہ تریسٹھ سال سے قبل دنیا سے کوچ کر جائیں سو تمنا بھی تعبیر ہو گئی ہے۔ شہادت بھی نصیب ہو گئی ہے۔

ڈرائیور کو میں نے واپس گھر بھیج دیا اور سختی سے منع کر دیا کہ آج کہیں نہیں نکلنا ۔

اب دفتری گا ڑی میرے پاس تھی  نماز جنازہ اور قبرستان کے حالات کا جا کر مشاہدہ کرنا تھا۔ وہاں سے واپسی ہوئی تو شہر میں ٹریفک کی آمد سے لگا لوگ پہنچنا شروع ہو چکے ہیں۔

میرے اندر ایک ہوک اٹھی واہ او میریا ربا

دوپہر تک سب انتظامات مکمل ہو چکےتھے ۔میں جنازگاہ کی راہ داری کے ایک طرف اکیلا بیٹھ گیا کبھی گشت کرتا ادھر نکل جاتا کبھی ادھر ۔ وردی آج کے لئے مناسب نہیں تھی۔ وردی سے نہ ہونے والا بھی الرٹ ہو جاتا ہے۔

نماز جمعہ پڑھی گئی ۔ اب نماز جنازہ کی تکبر ہوئی میں چاہ کر بھی تکبیر کے لئے ہاتھ نہ اٹھا سکا ۔کسی پچھلی صف میں کھڑا رہا اورجسم پہ وہ لمس محسوس ہوتا رہا جو اوائل جوانی میں کبھی محسوس ہوا تھا۔

انسان کسی شیطان سے کم نہیں کس وقت کیا یاد در آتی ہے

نماز ختم ہوئی میں ڈیوٹی پہ واپس آ گیا ۔ کلمہ شہادت سناٹوں میں گونج رہا تھا۔

جنارہ اپنی آخری آرامگاہ کی طرف ایمبولینس میں روانہ کر دیا گیا تھا۔

ہجوم تتر بتر ہو چکا تھا ۔

مقام تدفین پہ محکمہ اپنے فرائض انجام دے رہا تھا جو مجھ سے رابطے میں تھا۔

بد امنی کی گرچہ امیدنہیں تھی  لیکن اداروں نے اپنے فرئض انجام دینے ہوتے ہیں۔ تدفین کے بعد خامشی سے مسافر گھروں کولوٹ گئے۔

شام ہو رہی تھی ہمیں بھی افسران کی طرف سے ویل ڈن کے ساتھ جانے کا حکم نامہ مل چکا تھا۔

لیکن میں گھر جانے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔اک ماضی نے مجھے پکڑا ہوا تھا اور اپنی بیوی کے سامنے میں اس ماضی کی یاد کے ساتھ جانا نہیں چاہتا تھا۔

میں نے ڈرائیور سے کہا کہ مجھے دامن کوہ اتار کر وہ بھی گھر چلا جائے۔

اس نے مجھے دامن کوہ اتار دیا ۔

اسلام آباد کی سرمئی شام یہاں اٹکھیلیاں کیا کرتی ہے جب سے میں یہاں ہوں یہی جگہ مجھے دیوانہ کئے ہوئی ہے۔ پہاڑی کے پر پیچ راستے چڑھتے جانا دونوں طرف اک جنگل میں منگل بسا ہوا تھا۔ دور دور تک ہریالی ہی ہریالی ہے۔ سبز پہاڑوں کی ہیبت الگ ہوتی ہے، سرمئی کا کیف الگ ، مٹیالے پہاڑ الگ احساس دیتے ہیں۔

یہ سب احساس مجھ میں اس وقت بہہ رہے تھے۔ سفر کر رہے تھے۔

میں سیدھا اسی ہوٹل میں گیا ۔جہاں ہمیشہ جاتا تھا ۔جہاں دلوں کی شہزادی کی یاد گار آج بھی لگی ہوئی ہے۔ اس کو یہیں چائے پلا ئی گئی تھی۔

سامنے دور تک اسلام آباد کی روشنیاں دکھائی دیتی ہیں۔ یہ کراچی جیسی روشنیاں نہیں ہیں ۔  نہ یہ روشنیوں کا شہر ہے۔

جب میری پہلی پوسٹنگ ہوئی تو پہلی چائے یہیں پینے آیا تھا۔ اس کے بعد شہر در دشہر سفر در سفر زندگی اک بار پھر اسلام آباد لے آئی تو آمنہ کے ساتھ پہلی بار کافی یہیں پی تھی ۔

لانے والے تو پتا تھا کا فی لانی ہے۔ اس لئے اب مجھے اس رسم سے سہولت مل چکی تھی ۔

دور تک اسلام آباد کے اس نظارے نے دن بھر کا بلکہ دو دن کا بوجھ میرے ساتھ بانٹ لیا تھا۔اس جگہ کی یہ تاثیر ہی شاید مجھے ہر بار اس جگہ کھینچ لاتی ہے۔

اچانک سکوت میں لڑکیوں کی ہنسی کی آواز سنائی دی ۔تین لڑکیان قہقے لگاتے اندر آئیں ادھر ادھر دیکھا اور ایک میز کی طرف بڑ ھ گئیں

ارے اس تصویر کے ساتھ سلیفی بناتے ہیں ۔ایک لڑکی نے یقینا ڈیانا کی تصویر کے ساتھ سلیفی بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا

ایکسکیوز می سر ، سر اگر آپ کو برا نہ لگے تو ہماری سیلفی میں آپ کے سرکی وجہ سے تصویر کا انیگل نہیں بن رہا۔۔۔

دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں تو یاداشت کو دھکا لگا

انعم ؟

میں نے اسے پہچان لیا تھا وہ تقریبا ہو بہو تھی

آدم؟

یس

اوہ اتنے سالوں کےبعد ؟ تم تو بھی بہت بری صحافی ہو گئی ہو۔کئی بار سوچا کسی طرح رابطہ کروں مگر وقت نےساتھہی نہیں دیا۔

ارے کہاں آدم بس جاب ہے اور کام کرنے سے ہنر آجاتا ہے۔

خیر ایسی بھی بات نہیں۔یونیورسٹی سے لگتا تھا کچھ کرو گی ۔

چھوڑو تم سنا ؤ یہاں کیسے؟اچھا پہلے ان سے ملو میری کولینگز ۔ہم آج کے واقعہ کی کوریج کے لئے آئے تھے۔ سوچا اپنی سہیلیوں کو اپنے ماضی سے ملواتی ہوں۔ وہ جگہ جہان بیٹھ کر میں نے لکھنا سیکھا تھا۔

نائیسں ٹو میٹ یو

اور بھئی یہ ہمارے یونیورسٹی کے بیج فیلو ہیں آدم۔

اور وہ ایک آمنہ ہوتی تھی ۔

ابھی بھی ہے ، میری بیوی اور میرے بچوں کی مان بن چکی ہے۔اس نے مسکراتے ہوئے کہا

کیا بات ہے ۔ محبتا ں سچیاں۔۔۔

مگر بیٹھو تو سہی ۔

انعم تم بیٹھو ہم کیونکہ تم دونوں کے پاس کرنے کو بہت باتیں ہم اس ہو ٹل کی تاریخ دیکھنا چاہتے ہیں۔

چلو اچھا ہے۔ہم بھی گپ لگا لیں گے۔

وہ دونوں چلیں گئیں۔

کافی آ چکی تھی ۔ آدم نے تین کافی مزید منگوا لیں۔

تم بتاؤ شادی کی یا نہیں۔

وہ اسے غورسے دیکھنے لگی ۔ یاد کرو تم لوگ یونیورسٹی میں کہا کرتے تھے ۔ میں بیوی سٹف نہیں تو بتاؤ مجھ سےشادی کا رسک کون لیتا۔

ویسے بھی تم ایشائی ایشائی مردوں کی ایک عجیب عادت ہے ان کو غلط وقت پہ نیند آتی ہے اور نامناسب وقت پہ آنکھ کھلتی ہے

اب  اپنا صحافیانی غصہ مجھ پہ تو نہ اتارو۔۔۔

اچھا یہ بتاؤ کیا جس واقعہ کی کوریج کرنے آئیں تھیں۔ آج بھی ان کی اتنی ہی بری فین ہو۔

پہلے تم یہ بتاؤ تم آج بھی ان کے حوالے سے کی گئی بات ٹال جاؤ گے؟

نہیں ، آج نہیں ٹالوں گا تب وقت اور تھا اب اور ہے۔ آج تو میری ڈیوٹی بھی تھی ۔

واؤ تو پہلےنہیں بتا یا پوستنگ یہاں ہے ۔ کتنے بڑے افسر ہو گئے ہو؟

جتنی بڑی تم صحافی ہو اسے تو چھوٹا ہی ہوں نوکری ہے میری تو

اچھا مقابلے کا امتحان دینے والا ، اچھی باتیں سیکھ جاتا ہے ۔

چلوچھوڑو بتاؤ اتنی ہی بڑی فین ہو یا اسے بھی زیادہ ؟

نہیں آدم زندگی کا تجربہ الگ شے ہے ۔ اس نے ذہن پہ جمی وہ ساری گرد اتار دی ہے جن سے حقائق صاف دکھائی نہیں دیتے۔ اب لگتا ہے وہ ایک کلٹ تھے۔

اور جو کل ہو گیا ہے ان کو کلٹ ثابت کرنے کے لئے کیا یہ کافی نہیں؟ جانتے ہو زندگی کے تجربے نے بتایا کہ جو مرد چیخ چیخ کر عورت اور اس کے حقوق کی بات کرتا ہے ۔وہ تو بس اپنا لاشعوری کیتھارسس کر رہا ہوتا ہے۔ اس نے عورت کا حق کہیں مارا ہوتا ہے۔سب انسان اپنے گلٹ پہ اپنی محرومیون پہ چیخ رہے ہیں

بس میں کسی کی بھی فین نہیں ہوں۔ایک حقیقت پسند عورت بن چکی ہوں۔

ہاں ، وہ تو تمہارے کالم کا ایک ایک لفظ بولتا ہے۔

تم پڑھتے ہو

ہاں ناں پڑھتا ہوں۔

کافی تو پیو،ٹھنڈی ہو جائے گی ۔تم یہ بتاؤ کہ تم اس زمانے میں ان کی بات پہ چڑکیوں جاتے تھے۔

سن لو گی ؟

ہاں، اب ہم بچے نہیں رہے۔

باقی کے تین کپ کافی بھی آچکی تھی

آدم نے ایک گھونٹ بھرتے ہو ئے سامنے اسلام آباد کی وستعوں کو دیکھنا شروع کر دیا

انعم ،میں بھی تمہاری طرح ان کا فین تھا۔ بہت کریزی جس سال تمہارا یو نیورسٹی میں داخلہ ہوا یہ ہمارا یونیورسٹی کا چوتھا سال تھا۔نو جوانی تھی ۔ لاہور تھا ہر طرف ان کے چرچے تھے۔ ایک کانفرنس میں میں بھی چلا گیا ۔۔۔ان سے ملنے۔۔۔

میں پتا نہیں آٹو گراف لیناچاہتا تھا ۔ ملنا چاہتا تھا۔نہیں یاد کیا چاہتا تھا

کانفرنس کے بعد جیسا کہ وہ نوجوانوں سے خلوص سے ملا کرتے تھے یونہی میں آگے بڑھا تو ایک سوا ل کر دیا

سر وہ کتاب جس میں آپ نے سب کی نفسیات ہلا کر رکھ دی ہے کیسے لکھی ؟آمد تھی مطالعہ ۔۔۔؟

انہوں نے مجھے کہا” آؑؤمیرے ساتھ گاڑی میں بیٹھو۔۔۔راستے میں بتاتا ہوں”

اس نے کپ کو پرچ میں رکھتے ہوئے سر جھکا لیا

میں ۔۔۔میں خود کو بہت مہان سمجھتے ہوئے۔ان کے ساتھ  گاڑی کی پیچھلی سیٹ پہ بیٹھ گیا ۔

ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کی ۔

وہ بات یوں ہے کہ کچھ بھی اللہ کی رضا کے بغیر نہیں ہوتا بیٹا۔۔

تم تو طالب علم لگ رہے ہو جب عملی زندگی میں آؤ گے توسمجھ جاؤ گے۔

اور انعم میں پینڈو لڑکا سمجھا تھا کہ۔۔۔۔

انعم کچھ ہی دیر میں ان کا وہ ہاتھ جسے وہ کتابیں لکھتے ہیں ان کی گود سے کھسکتے ہوئے میری طرف بڑھا لیکن میں ان کی ذات کے حصار میں قید تھا۔۔۔

مجھےتب محسوس ہوا جب میرے جسم کا ایک نازک حصہ ان کے ہاتھ میں تھا اور وہ اس سے کھیل رہے تھے۔۔۔۔پسینے سے شرابور۔۔ میں نے ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی ۔۔۔ مگر ان کی گرفت بہت مضبوط تھی۔۔۔

میرا جسم ۔۔۔ جیسے جان ہی نکل گئی تھی ۔

ڈرائیور کو اندازہ ہو گیا تھا لیکن اس نے کسی ۔۔۔کسی بھی قسم کے رد عمل کا اظہار تک نہیں کیا ۔۔۔

انعم  کی آنکھیں جھک گئیں۔ اس نے آدم کی آنکھوں سے جوانی کی بے بسی پڑھ لی تھی۔۔۔

ڈرائیور ۔۔ ڈرائیور ۔۔۔جیسے عادی تھا ۔ واقعہ جیسے عمومی تھا۔۔۔وہ لمس وہ نامانوس سا ، میلا سا لمس آج بھی مجھے کاٹتا رہا۔۔۔۔

میں کسی طرح گاڑی کا دروزہ کھولنے میں کامیاب ہو چکا تھا ۔ چلتی مال روڈ پہ گاڑی سے نکل گیا۔۔۔

ان کی بڑ ی سی گاڑی مجھے نیم ۔۔۔ نیم روندتے آگے نکل گئی ۔۔۔۔

انعم کے ہاتھ سے کافی کی پیالی گر کرٹوٹ گئی اور اس کی جھکی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔۔۔۔۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031