دوپٹہ ۔۔۔ رابعہ الربا

دوپٹہ

رابعہ الرباء

اے نازو

……اے نازو……

جا ذرا نکڑ والی دکان سے جا کر بیسن تو لا

دے پچاس روپے کا۔

وہاں تکیے کے نیچے پیسے پڑے ہیں۔۔ جا میری بیٹی ۔۔۔ جلدی کر ۔۔۔۔

دس سالہ نازو سے بھجے لہجے سے کہا

نہیں اماں تو خود چلی جا میں نہیں جانے کی۔

جاتی ہے یا لاؤں جوتا……تیرے باپ نے آتے ہی پکوڑے مانگنے ہیں خود کچھ کرتا نہیں ادھر نمبر لگا……

ادھر نمبر لگا۔

یہ کوئی دھندہ ہوئے ہے بھلا……مجرودی کرے، پسینہ بہائے تو پتا لگے میری ہڈیوں کا سیک کیسے نکلے ہے سارا دن

وہ بڑبڑاتے ہوئے پھر چیخی۔۔……پکوڑوں کی لت اپنی جگہ

اے، اُٹھ جا اب لے بھی آ

اچھا اماں آتی ہوں

بچے پھر بچے ہی ہوتے ہیں ۔ پل بھر میں بھول جاتے ہیں

اے اللہ تجھے اُٹھائے جلدی کر……تیرا ابا آنے والا ہو گا۔ تندور والے

،دیکھ چنی لےکر جانا۔۔۔

لے یہ پچاس روپے۔ سارے کا بیسن لے آئیو۔ اے گولی ٹافی نہ لینے بیٹھ

جانا۔

 ……طرف گئی سارے پیسوں کا لائیو۔ نازو پیسے لے کر جو …… تو پیچھے سے ایک کرخت آواز نے اس کے قدم روک لئے۔

اے کم بخت ماری دوپٹہ لے کر جا……تو اب کونسی کاکی رہ گئی ہے رے۔ گیارہویں سال میں لگ گئی ہے۔ ابے نے دیکھ لیا ناں تو جان نکال دے گا تیری اور میری بھی۔۔۔۔۔

میری کم بختی علاحدہ آئے گی……اللہ ماری…… مر جانی نہ ہو تو

…… میرے مقدر بھی پھوڑ دئیے پیدا ہو کر……  نہ آگے اولاد جمی

تونے تو۔۔۔۔۔

نازو بھاگتی بھاگتی مُڑی اور چارپائی پہ پڑا دوپٹہ اٹھایا۔ ماں کے بتائے سلیقے سے سر پر لیا اور سینے کو حصہ کو دوپٹے کی اوٹ میں چھپا لیا جو ابھی نوعمری میں تھا۔ پیچھے کی طرف دوپٹے کا پَلو اپنی لمبائی کی وجہ سے اس کی کمر سے کچھ نیچے تک لہرانے لگا۔

کم سنی اور ناسمجھی کی اداؤں میں مست گلی میں نکل گئی۔

ہمجولی سلمی نے اس کا رستہ روک لیا۔

آ نازو سٹاپو کھیلیں۔

نہیں امان مارے گی۔۔۔اس نے بیسن لانے کو کہا ہے۔۔ ابا بھی آنے والا ہے وہ بھی کہتا ہے اب تو بڑی ہو گئی ہے گلی میں نہ کھیلا کر۔۔۔

نازو بھاگتی کھیلتی اٹھکیلیاں کرتی جا رہی تھی۔ نہ دھوپ کی پروا، نہ لُولگنے کا ڈر۔۔۔۔

شہنشاہی بے فکری کی عمر میں دوڑتی ہوئی دکان ہی پہنچی

بَھا……یہ پچاس روپے کا بیسن دے دے۔

اور اس نے اماں کے دئیے پچاس روپے آگے بڑھا دئیے۔

دکدکان سے باہر پڑے بینچ پر ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا سگریٹ کے کش سے لطف اندوز ہورہا تھا۔

دکان دار نے اسے پیسے پکڑ کر ایک طرف ڈبے میںرکھ دیئے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں دونوں عیارانہ  مسکرائے۔۔۔

……جلدی کر……مجھے جانا ہے۔

نازو چھوٹی تھی مگر لڑکی تھی اسے ان وائبز کا احساس ہوجاتا تھا مگر ابھی نہ اس کے پاس بتانے کو لفظ تھے نہ ابھی وہ جانتی تھی کہ یہ خطرہ کیسا ہے جو اس کے سرسے پیر تک منڈلا رہا ہے۔

اے آج تو تُو بڑی سَوہنی لگ رہی ہے……چُنی کس نے بنوا دی ہے۔

ہائے ہائے یہ لال جوڑا تجھے ابے نے بنوا کر دیا ہے ؟

دکان دار نے بیسن لفافے میں ڈالتے ہوئے زبان بند نہ رکھی نہ اس کی آنکھ بیسن پہ تھی بلکہ اس کی آنکھیں تو نازو کو تاڑ رہیں تھیں۔

اتنے میں اس ادھیڑ عمر شخص نے اس کی چنری کا پَلو پکڑ کر بل دینے شروع کئے۔

اوئے ہوئے اس کا تو کپڑا بھی بڑا ملائم ہے رے۔

ہاں بھئی ماں لائی ہو گی کسی گھر سے اس کی ماں

۔ بڑے بڑے گھروں میں کام کرتی ہے۔

اور پھر وہ آہستہ آہستہ چُنی کو پیچھے کی طرف لے گیاکہ چُنی اب صرف اس کے گلے اور سر کا محاصرہ کئے ہوئے تھی۔

نازو نے چُنری کو گلے سے ذرا نیچے کیا جیسے اسے چبھن کا احساس ہو رہا ہو۔ اتنے میں بَھا نے اسے منچلے عیار و مکار انداز میں دیکھا

  ”لے کھا“ایک ٹافی دیتے ہوئے کہا

 بیسن دیتا ہوں۔

بَھا کی نگاہوں کی مشین نے نازو کو برہنہ کر دیا۔ اس کااندازہ  اس کی مٹکتی نگاہوں اور خشک لبوں پر زبان پھیرنے سے ہو رہا تھا۔

اس ادھیڑ عمر شخص نے محسوس کیا شاید وہ مایوس یا ناکام سا رہ گیا ہے۔

اس کو بھی ہوس دیدار نے مضطرب کیا۔ کہنے لگا۔

اے نازو……ادھر دیکھ یہ کیا ہے……!

تھی تو ابھی وہ بچی ہی۔۔۔ یہ زبانکے پیچ و خم کہاں سمجھتی سکتی تھی ۔

نازو اچانک حیرت زدہ مڑی

بزرگ نے

اس کے آغاز شباب کے نظری بوسے لئے۔

یہ لے نازو تیرا بیسن

وہ بیسن لینے مڑی تو بَھا نے بیسن کا لفافہ آگے بڑھا کر اوپر کو اٹھا دیا۔

پکڑ……اب اس کو پکڑ بھی لے۔

وہ لفافہ کچھ اور اوپر لے گیا۔ نازو لفافہ پکڑنے کے لئے اچھلی تو اس کے انجان خاموش شباب کی انگڑائیوں نے بَھا اور بوڑھے کی نگاہوں کے مقدر چمکا دئیے۔

عیاد دکان دار نے لفافہ آگے بڑھاتے ہوئے اچانک اس کی بیدار ہوتے شباب کو چھو لیا وہ گھبرائی ہوئی پسینے سے شرابور پیسن کا لفافہ پکڑ کر بھاگ گئی۔

ایک آواز اسے سنائی دیتی رہی آ جا ۔۔ آ تجھے ٹافی دوں۔۔ آ جایا کرٹافی لینے۔۔۔ ایک آواز ۔۔ایک قہقہے کی آواز۔۔۔ اسے کے ذہن سے پورے جسم تک سفر کرتی رہی

۔۔ایک ڈر کی آواز ۔۔۔

آجایا کر تجھے ٹافی دوں گا۔

……………………

جلدی یونیفارم چینج کروعارفہ۔ واپس بھی آنا ہے اور سودا سلف بھی بہت لینے والا ہے۔ پھر مجھے گھر آکر کھانا بھی پکانا ہے۔ تمہارے ابو اوربہن بھائیوں کو آتے ہی روٹی چاہئے ہوتی ہے نا۔

اچھا امی جی آرہی ہوں۔ کپڑے تو بدل لوں۔ اب ایسی بھی کیا جلدی۔ آپ تو بس ہوا کے گھوڑے پہ سوار رہتی ہیں۔

یہ ہوا کا گھوڑا کیا ہے اب؟اپنی میٹرکی اپنے پاس رکھا کرو مجھے یہ نئے نئے لفظ نہ بتایا کرو۔ تمہارے ابا نے ایسے ہی رکھا ہے تم بھی مجھے یونہی رہنے دو۔

اُف امی جی میں نے کیاکہہ دیا یہ تو عام سا محاورہ ہے۔

عام ہو گا تمہارے لئے۔ میرے لئے سانپ پے سانپ سمجھیں تم ؟

میں نے نہیں سنا آج تک۔۔۔۔

سنیں گی کیسے امی آپ؟

 آپ نے توخود کو خود ہی ملازمہ کا رتبہ دے رکھا۔ سارا دن کام، شام کو شوہر کے آرام کی فکر اور بچوں کی خوراک پوشاک کا مسئلہ اور رات کو مزدوروں کی طرح تھک کر چارپائی پر پڑ جاتی ہیں۔ نہ کسی کو آپ کی پروا ہوتی ہے نہ ہی آپ کروانے کی کوشش کرتی ہیں یہی المیہ ہے ہمارے سماج کی  عورت کا

بس کرو یہ بَک بَک۔ لو چادر اور چلو۔۔۔

دیکھ تو رہی ہیں آپ۔ لے تو رہی ہوں چادر مصیبت۔ اتنی بڑی چادر تو مجھ سے سنبھالی بھی نہیں جاتی۔ اُف مجھ سے بھی بڑی ہے۔

بس کرو بس۔ میں نے ساری عمر برقع لیا ہے۔ تمہارے ابو نے تو ہمارا برقع نہ اتروایا۔ ہم کیوں تمہاری چادر چھوٹی کریں۔ یوں بھی تمہارے باپ بھائیوں کی کوئی عزت ہے۔ اب تمہارے کہنے پہ اس کو نیلام کر دیں؟۔

سبحان اللہ امی جی۔ باپ بھائیوں کے بغیر بھی کوئی بات کر لیا کیجئے۔

عارفہ تو شدید روایات سے شدید نفرتتھی جو بڑھتی ہی جا رہی تھی جب سے وہ کالج گئی تھی تب سے زندگی کے نئے معانی اس پہ وا ہو گئے تھے۔وہ زندگی کو نئے طرز اور ڈھب سے سمجھنے کے قابل ہو گئی تھی کہ اس کا خیال تھی اس کی  استانیاں کھلی لائبریریاں اور چلتی پھرتی کتابیں اور فلسفے ہیں۔

عارفہ نے کپڑے کی چادر سے خود کو ڈھانپ لیا۔ جس چادر میں عورت کا حسن حسینہ کے نقاب کی طرح چغلی تو کھاتا ہے مگر آکسیجن اس میں داخل ہونے والے مسام نہیں ہوتے۔ وہ چادر کہ جس میں گرمی بھی لگے تو ایجاد کرنے والے کے لئےدیدار ہے اور دیدار کے لئے ہی اس کو ایسے کپڑے سے بنایا جا تا ہے جس میں گرمی لگے اور عورت تلملائے اور بے اختیار چادر کھسک کھسک جائے۔

مرد بھی عجب مخلوق ہے۔ اپنے مطلب کے تمام ہُنر ایجاد کر لیتا ہے اور خود سے ہی ڈرتا ہے ۔ ڈر میں ایجادات کرتا ہے ۔ایجادات سے نیا نتیجہ نکلتا ہے وہ اس میں قید ہو جاتا اور پھر اس کے رد بلا کے لئےننئی ایجاد کرتا ہے۔اس سارے گھن چکر کو عورت نے برتتے برتتے  حقیقت جان کر قبول کر لیا ہوا ہے۔

عارفہ کا دماغ ہر وقت کام کرتا رہتا تھا اس لئے وہ جسمانی طور پہ تھک بھی جلد جاتی تھی ۔

امی آہستہ چلیں میں تھک گئی ہوں۔

اتنا وقت نہیں ہے کہ آہستہ چلوں۔ سارا سامان لینے والا ہے اور ہاں سردیاں آنے سے پہلے ایک چادر لینے کا بھی سوچ رہی ہوں۔

آپ۔۔۔……اوہ ہو، امی جی آپ چادر تو الماری میں رکھنے کو لیتی ہیں۔

تمہارے ابو آنے جانے جو نہیں دیتے کہیں۔ میں سوچتی ہوں چل کسی کی شادی مرگ پر ہی پہن لوں گی۔ اب گھر کے کاموں کے ساتھ چادر تولی نہیں جا سکتی نا۔

اچھا امی وہ آج کل ستاروں والی شیشوں والی چھوٹی چادریں بھی آئی ہوئی ہیں مجھے بھی وہ لے دیجئے۔ کالج میں لڑکیاں لیتی ہیں۔

بیٹا وہ لڑکیاں اور گھروں کی ہوتی ہیں۔ تمہارے ابو اور بھائی ایسے کپڑے پسند نہیں کرتے۔

تو امی آپ نے پھر ایسے کالج میں کیوں داخل کروایا۔

فیشن کے لئے نہیں کروایا داخل۔ اچھی تعلیم کے لئے داخل کروایا ہے۔ آج کل لوگ پڑھی لکھی لڑکی کا رشتہ مانگتے ہیں۔

امی کے سرد لہجے میں ایسے کہا جیسے وہ نہیں چاہتیں تھیں کہ عارفہ کالج جائے۔۔۔

امی آپ آہستہ تو چلیں۔

اچھا اچھا لو بازار آبھی گیا۔ وہ رہی چادروں کی دکان۔

اے بھائی یہ کالی والی سادہ گرم چادر تو دکھانا۔

بہن جی یہ تو پرانا فیشن ہے۔

بس بس تمہیں جو کہا ہے وہی دکھاؤ۔

پرانا فیشن ہی ہےہمارے مقدر اس کے ابا کہاں پہننے دیں گے

وہ کو بڑبڑانے کی عادت پڑ چکی تھی اس نے اپنے اندر اتنی تنہائی جمع کر لی تھی کہ بڑبڑانےکے سوا کچھ نہ بچا تھا

جی بہن جی۔ آپ نے کچھ کہا۔

نہیں بھائی تم سے نہیں کہا۔عورت ایک تہذیب کے خواب دیکھتی ہے مگر اس کی دولت کو قبول کر لیتی ہے تہذیب کو رد کر دیتی ہے تو اس کے پاس شکوئے اور تنہائیاں ہی رہ جاتی ہے۔ دولت کون چھوڑتا ہے۔۔۔

دکان دار نے چادر کھول کر پھیلا دی۔۔

چادر ہاتھ میں لیتے ہوئے اس نے پوچھا کیا قیمت ہے اس کی ؟

بس یہی پانچ سو ہزار۔ آپ سے کیوں پیسے زیادہ لینے ہیں۔ پرانے گاہک ہیں ہمارے۔

نہیں بس تین ہزار ٹھیک ہیں۔ میں تین ہزار ہی دوں گی۔ دینی ہے تو دو ورنہ رکھو اپنے پاس۔

اچھا دیں تین ہزار ہی دیں۔ صرف آپ کو دے رہا ہوں اتنے میں، آپ نے کسی کو بتانا نہیں ۔۔۔اور یہ باجی کے لئے کچھ نہیں لینا ؟

تم اپنے کا م سے کام رکھو۔۔ یہ لو تین ہزار ۔۔۔۔

اس نے تلخ لہجے میں جیسے تلوار نکال کر اسے تھما دی ہو۔

چادر لے کر دونوں ماں بیٹی نے کریانہ کی دکان سے مہینے بھر کا سودا سلف لیا اور واپس گھر کوچل دیں۔

اُف امی بہت وزنی ہے یہ سب۔

اتنا بھی نہیں ہے۔ میں نے بھی تو اٹھایا ہوا ہے اور تم توابھی نوجوان ہو۔ ایسی باتیں نہیں جچتی تم پر۔۔۔

اپنی چادر ٹھیک طرح لو۔ سر پر لو۔ کسی نے دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی۔

ایسی قیامتیں بھی شاید عورت خود ہی ایجاد کر لیتی ہے کیونکہ یہ قیامت باتوں سے آگے تو کبھی عارفہ نے دیکھی نہیں تھی  اس لئے اسے قیامت پہ یقین نہیں تھا۔

اچھا اچھا کرتی ہوں۔ یہ سودا اٹھاؤں یا چادر سنبھالوں۔

بس تم تو نجانے کیوں اس چادر کو اتارنے پہ لگی ہو بی بی، تم بھول جا ؤ میں ایسا ہونے نہیں دوں گی ۔ساری عمر پردہ کروایا ہے تہمارے باپ نے ، اب اس کی بیٹی بھی پردہ ہی کرے گی۔ یہ کالج والج کے ماحول کو وہیں تک رکھنا ، گھر مت لانا بی بی ۔۔۔آج کان کھول کے سن لو۔۔۔

امی ایسی بات نہیں ہے۔

اچھا جلدی چلو۔

 دونوں جلدی جلدی سڑک پار کرنے لگیں عارفہ چادر سر پر لٹکانے میں مصروف تھی کہ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی آئی اور عارفہ سے ٹکرا گئی۔ سارا سامان بیچ سڑک کے بکھرا پڑا تھا۔ عارفہ بے ہوش پڑی تھی۔ سر سے خون نکل رہا تھا، اور بے خبر گاڑی کہیں آگے نکل چکی تھی ٹریفک رک گئی تھی۔

ہائے یہ کیا ہو گیا؟ آئے ہائے

اس کی ماں چِلّاتے چِلّاتے اس کے سر پر چادر اوڑھا رہی تھی۔ جلد ہی مجمع اکٹھا ہو گیا۔

ہائے کوئی مدد کرے……میری بیٹی

قریب کی ڈسپنسری کا ورکر مجمع کو چیڑتا ہوا نکلا اور عارفہ کی نبض پریشانی سے دیکھی اس کے سر سے نکلے خون نے سڑک کو سرخ کر دیا۔

اس ورکر نے اس کی آنکھیں پاؤں چیک کئے۔

بی بی صبر کرو صبر۔ اور اس نے عارفہ کی چادر کے پَلو سے اس کا چہرہ ڈھانپ دیا

اس نے ایمبولینس کو فون کیا عارفہ کو ہسپتال پہنچایا ۔ماں بھی ساتھ ہی چل دی مگر خون بہت نکل چکا تھا۔ عارفہ کو ہوش نہیں آرہا تھا۔

کچھ دن وہ کوما میں رہی اور اس کے بعد وہ اسی سفید چادر سے منہ ڈھانپے ایمبولینس میں گھر آ گئی۔

وہ جوانی جو فلسفے لے لے کے اڑ رہی تھی ایک چادر کی نذر ہو گئی ۔اس نے آسمان سے زمین میں سو کر پردہ کر لیا۔

اس کی ماں کے سب خواب شاید پورے ہو گئے تھے مگر عارفہ اپنے خواب ساتھ لے گئی

……………………

Oh Joly yar why you dont understand?

تم یہاں کھڑی رہو گی اور دوپٹہ سٹیج کے ایک طرف بکھرا رہے گا۔ Dont Move

وہ ایک بار پھر سیٹج پہ پریکٹس کر رہی تھی ۔وہ بوجھل بوجھل تھی

اس لئے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا

Yes Start! Ok Come……Come……Now!

اسی دوران ایک گیت کی دھن ہال میں بہار بن جاتی ہے، کچھ ہی لمحے میں گانا شروع ہو جاتا ہے ۔ جولی بھی اپنے مقررہ مقام پہ آکر درست انداز میں کھڑی ہو جاتی ہے۔ نعیم ہاتھ کے اشارے سے میوزک، لائٹس، ماڈلز اور ورکرز سے کام کروانے اور سب کو کنٹرول کرنے میں مگن ہے۔ اس کی تمام تر توجہ ماڈلز کی پرفارمنس اورمیوزک پہ مرکوز ہے کیونکہ لائٹس سٹیج تو اس کی منشاء کے عین مطابق تیار ہو چکے ہیں۔

Stop….. Stop….. Please جولی ڈیئر

نعیم نے رسیلے غصے میں جولی کو روکا۔۔۔

change your face expressions

جولی اپنے چہرے پہ عجیب تاثر دیتی ہے تو نعیم اس کو ہاتھ کے اشارے سےکہتا ہے۔

نعیم سمجھ نہیں پا رہا کہ جولیا آج سٹیج پہ اچھا پرفارم کیوں نہیں کر پا رہی ۔

جولی کے مُڑتے ہی ایک لمحاتی وقفے سے دوسرا گانا فضاؤں میں مہکتا ہے۔

ہوا میں اُڑتا جائے

مورا لال دوپٹہ مَل مَل کا

مورا لال دوپٹہ مَل مَل……ہو جی……ہو جی

گیت کی دھن کے ساتھ ہی فاریحہ  سیٹج پہ روشنی کی طرح جگمگاتی ہوئی موجود ہوتی ہے

 وہ اپنا ریشمی سُرخ و سبز دوپٹہ لہراتے سٹیج کے درمیان میں اپنے مخصوص انداز سے کھڑی ہو جاتی  ایک لمحے میں اپنے دوپٹے کو کئی انداز بدلتی ہے مگر نعیم کو اس میں پرفیکشن کا احساس نہیں ہوتا۔

Stop…… No, fareha dear No…..!

 نعیم سٹیج پہ آکر اس کا دوپٹہ پکڑتا ہے اور سمجھاتا ہے کہ درمیانی حصہ گردن کے قریب ہوگا اور کچھ فاصلے سے دونوں ہاتھوں میں دوپٹہ پکڑنا ہے۔ اور اس کی کمر پہ

دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے کہتا ہے

بس کمر کو بل دینا ہے

اور سٹیج سے اتر جاتا ہے۔۔۔ ڈیس اٹ۔۔

دوبارہ سے فاریحہ دوپٹہ لہراتے، کمر لچکاتے آتی ہے۔ لمحوں میں دوپٹے کے انداز بدلتی چلی جاتی ہے۔ اس کے جاتے ہی عُرفی مالٹا رنگ کے چوڑی دار پاجامے اور کلیوں والے پوری آستین کے کُرتے لمبی چوٹی اور روایتی زیورات سے لدی سٹیج پہ آتی ہے تو ایک اور گانا سماعتوں کو گدگداتا ہے۔

چُنی کیسری تے گوٹے دیاں تاریاں

رُتاں ملن دیاں آئیاں، سنوں دین ودائیاں

چَناں ساریاں …………

نعیم عُرفی کو اس کی کارکردگی پہ انگوٹھے کے اشارے سے مبارک دیتا ہے، اور سراہتا ہے۔

عُرفی کے بعد نوشی بلیو جینز اور شرٹ میں سفید دوپٹہ کاندھے پہ بکھرے آتی ہے۔ تو ایک دھن توجہ اپنی طرف مبذول کرواتی ہے۔

اگر کرے دل تیرا، آ رنگ دے دوپٹہ میرا

___ نوشی کے آتے ہی نعیم کو ایک بار پھر سٹیج پہ آنا پڑتا ہے۔

Oh God Noshi, Look at here! اور نعیم اُسے پرفارم کر کے بتاتا ہے کہ اس دوپٹے کو کیسے سنبھالنا ہے ۔ Body Movemen

نوشی دوپٹہ صرف ہاتھ میں پکڑنا ہے۔ ”In you left hand“

دوپٹہ نوشی کے ہاتھ میں پکڑاتے اس کی نظر نوشی کے لباس پہ پڑتی ہے۔ تو وہ چِلا اٹھتا ہے۔

”What is this Noshi? You should be careful about undergarments.

نوشی کوئی جواب دئیے بغیر اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی ہے اور نعیم غصے میں سٹیج سے اتر جاتا ہے۔

نوشی کے دوبارہ پرفارم کرنے کے بعد نیہا پیلے چوڑی پاجامے، چست شرٹ اور نیلے کام دار دوپٹہ میں سٹیج پر  آتی ہے اس کے کُھسے کی ہلکی ہلکی چُوں چُوں اور پائل کی مدھم آواز ماحول میں ایک لمحے کو سنسناتی خوبصورتی پیدا کر دیتی ہے لیکن یہ سنسناہٹ ایک گانے سے معدوم ہو جاتی ہے۔

نیلا دوپٹہ پیلا سوٹ

کہاں چَلی تُو دل کو لُوٹ…………

نیہا کی اچھی کارکردگی نعیم کے مزاج کو بہتر کر دیتی ہے۔ نعیم اس کو کہتا ہے Well done ھاتھ کے اشارے سے

 نیہا مسکرا کر جواب دیتی ہے۔

ماڈلنگ جتنا رومانوی کام دیکھنے میں لگتا ہے اتنا ہی پروفیشنل و خشک کام ہے ۔انسان کم مشین زیادہ بن جا تا ہے ۔ چند گھنٹوں کے لئے کئی ماہ ضائع ہو جاتے ہیں اس کے بعد بھی جب تک ریٹ کارپٹ سج کر رات گزر نہ جائے کچھ ہو جانے کا خدشہ برقرار رہتا ہے۔

نئی دھن کے ساتھ ہی شانی کھِلتے گلابی رنگ کے لَونگ سکرٹ، بغیر آستین کے گہرے گلے کی شرٹ پر خوبصورتی سے نو رنگوں کا دھاری دار دوپٹہ لئے سٹیج پر آتی ہے۔ اس کی چال میں پروفیشنلزم ہے اور گانے کے نو رنگ اس کی کارکردگی میں بھی موجود ہیں۔

دوپٹہ تیرا نو رنگ دا

ہائے نی میرا دل منگ دا…………

آخر میں ایک سوپر ماڈل ماہا جس نے نئی طرز کا آسمانی لباس پہن رکھا ہے۔اس کا سفید دوپٹہ 

 اس کے زیر سایہ اس کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ مدھم سُروں کا گانا فضاؤں سے سماعتوں سے ٹکرا رہا ہے۔

لاگا چُنری میں داغ

چھپاؤں کیسے؟…………

اس طرح یہ فائنلl ریہرسل ختم  ہوتی ہے، کئی ماہ کی شدید اور تکھا دینے والی محنت کے بعد یہ دوپٹہ فیشن شو بہت کامیابی سے ریم کی زینت بنتا

شہر بھر کی ،ملک بھر کی معزز بیگمات ، فیشن جنونی حسینائیں، فیشن کالجز کی طالبات، ملکی و غیرممالک کے ڈیزائنرز بڑی تعداد میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سب موجود ہیں۔افتتاح ایک  ایم پی اے ز، ایم این اے ، خاتون سے کروایا جاتا ہے۔ شو کے افتتاحیہ کلمات اس فیشن شو کا اہتمام کرنے والی خاتون ادا کئے۔

ان کے مطابق اس شوکا مقصد معاشرے میں تہذیب کو دوبارہ زندہ کرنا اوریہ بتانا ہے کہ پاکستان کی پہچان میں دوپٹہ کی کیا اہمیت ہے ۔اس اہمیت میں اضافہ اس وقت بھی ہوا جب پاکستان ایشیائی اور برصغیر کے ساڑھی کلچر سے علیحدہ ایک دوپٹہ کلچر کے حوالے سے بین الاقوامی پہچان بنا۔ جب پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے بین الاقوامی سطح پر دوپٹہ متعارف کروایا۔

اس خاتون کے سٹیج سے اترتے ہی ایک لمحے کے لئے روشنیاں گُل ہو گئیں اور جب سٹیج دوبارہ روشن ہوا تو جَولی سٹیج کے درمیان کھڑی تھی اور اس کا دوپٹہ سٹیج کے ایک طرف بکھرا ہوا تھاآج جولی ہشاش بشاش تھی۔ اس کو دیکھتے ہی ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ گانے کی دھن پہ سب اپنے انداز سے جھومنے لگے۔

انہیں لوگوں نے لے لینا دوپٹہ میرا

انہیں لوگوں نے

انہیں لوگوں نے۔۔۔

تالیوں کی گونج سے دل جھوم رہے تھے ۔پوری دنیا کا میڈیا داد پیش کر رہا تھا زندگی اپنے ہر رنگ میں

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031