کھردری انگلیوں کی جنبش ۔۔۔ رابعہ الربا
کھردری انگلیوں کی جنبش
رابعہ الربا
بعض انسانو ں کو انسانو ں کی نہیں، اپنی روحوں کی تلاش ہوتی ہے۔میرا وجود بھی اپنی روح کی تلاش میں ہے۔
پورن ماشی، ماہ کامل، ماہ تمام، بدر کامل، ماہِ تاباں، ماہِ درخشاں، کتنے چاند، کتنے خواب لیے کتنی صدیاں پار کر چکے تھے۔ ہر پورن ماشی پر نجانے کتنے ماہِ کبیر کتنے چکوروں کے کانچ دل چاک کرتے ہوں گے۔ کتنے موسمو ں نے کیسی کیسی انگڑائیاں لی ہوں گی۔تب کہیں کسی ماہ کبیر کی اک جھلک سے کتنے جام چھلک پڑے ہوں گے۔
سنا ہے وہ بھی سْپر مْو ن کی رات تھی،جس کا چاند سو گیا تھااور سورج طلو ع ہونے کو تھا۔ موسم نے سانس لیتے لیتے نجانے اک لمحے کو سانس کیو ں روک لی تھی۔ پھر اک ہچکی سے دھیرے دھیرے اس کی زیست بحال ہونے لگی۔ ہچکی کسی روح کی پرواز کا عندیہ دے رہی تھی۔ پرواز کہا ں سے کہا ں کو تھی؟اس کا تعین نہیں ہوپا رہا تھا۔ بس ابھی سب کچھ ٹھہرا ٹھہرا ساتھا۔ پتو ں پہ سوئی شبنم خشک ہو نے لگی تھی۔ ہو انے ان کی خنکی کو گو د لے لیا تھا۔ اور اِترا اترا کر چلنے لگی تھی۔ سْنا ہے ’آج زمین پر دو روحوں کا ملاپ ہے، اک غیبی آواز سے اس کے جسم میں ٹھنڈی لہریں دوڑ گئیں۔ اند ر سے اک آوازآئی ”اے خیر آ کے ٹھہر جا، روحوں سے روحوں کا ملاپ جان لیوا ہوتا ہے،،۔
اچانک زمان و مکاں بدل گئے۔ کائنات ٹھہر سی گئی۔ اک گھنیرے باغ کی چھوٹی سی جھونپڑی میں وہ دونو ں اک دوجے کے آمنے سامنے کعبے میں سجے،زمانہ جاہلیت کے بتوں کی طرح بیٹھے کائنات کانظام چلتے دیکھ رہے ہیں اور کائنات کا ہر ذرہ رشک بھری نگاہو ں سےانہیں دیکھ رہا تھا۔ لمحہ بھر کو جیسے اندر باہر سناٹا ہو گیا تھا۔ روحیں جسموں میں اتار دی گئی تھیں۔ دونوں نے انگڑائی لی تو جیسے سارے موسم رقص کناں ہوگئے۔
کسی کے نرم ہاتھو ں کی مہک نے اک گرم شال اپنے کاندھوں سے اْتار کر جیسے میرے شانو ں پر رکھ دی ہو۔ تحفظ کا کوئی احساس، گمان میں حقیقت سے زیادہ اذیت ناک تھا۔ تپاک دینے والا اپنے لمس کی مہکتی خوشبو کسی کے ہاتھ پرتازہ چھوڑ جائے تو اِ س کی نمی تنہا راتوں میں آنکھوں کی شبنم بن جاتی ہے اور بستر پرکتنے ہی گلستان کِھلا دیتی ہے، جن کے پودوں پر کلیاں بھی لگتی ہیں۔ مگر حسرت ان غنچوں پر جوبِن کھلے مْرجھا جاتی ہیں۔ راتیں ساون راتوں سے،اماوس راتوں میں بدل جاتی ہیں۔ اور کوئل ہجر الاپنے لگتی ہے۔
سفر موت کی طرف کا ہو تو جوانی کا خالی پن زیادہ یاد آنے لگتا ہے۔ وہ میرے سامنے بیٹھا تھا اور میں اک دفن شدہ نعش کی طرح اپنے وجود کی قبر میں خاموشی سے پھٹ رہی تھی۔ ایک ایک عضو، ایک ایک جذبے کے ساتھ دکھائی نا دینے والے، سْنائی نا دینے والے دھماکو ں کے ساتھ مجھ سے الگ ہو رہے تھے۔
وہ سامنے بیٹھا تھا تو پتا چلا بے بس تمنائیں کس طرح تڑپ بنتی ہیں۔ وہ سامنے بیٹھا تھا تو اْن چاہنے والوں کے جذبو ں کی سچائیاں پھول بن کر کھلنے لگیں، حقیقت کے بگولو ں کی طرح، نرم روئی کے گالو ں جیسی،آسمان کی اْترتی بر ف کی مانند میرے آس پاس بھرنے لگیں۔ جواپنے آنگن میں میری طرح کے پھول کو کھلاہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ سب باتیں کتنی بے معنی تھیں، مگر آج، جب وہ میرے سامنے بیٹھا تھا، اِ ن سب کے معنی ہی بد ل گئے تھے۔ وہ میرے سامنے بیٹھا تھا تو اندازہ ہواخواہش کا سپرم کیسے رحم میں آکر جاگ جاتا ہے۔ کس طرح قرار و اضطرار ہم بستر ہوتے ہیں۔ وہ میرے سامنے بیٹھا تھا تو پتا چلا اْس کی گو د میں موجود اْس کی راج دلاری بالکل اْس جیسی تھی۔ وہ میرے سامنے بیٹھاتھا تو پتا لگا بے بسی کی آگ کا دوزخ کیسے جلتا ہو گااور لا حاصلی کا حاصل نزع کی صورت سولی کیسے چڑھتاہے
۔کچھ تعلق کتنے گہرے اور سْچے میٹھے پانیو ں جیسے ہوتے ہیں۔ شاید کوئی ایسا ہی سْچا موتی ہماری بھی سیپ میں چْھپا بیٹھا تھا۔ زندگی لمحہ بھر میں نجانے کہا ں سے کہاں کا سفر کر جاتی ہے۔ کبھی زمین، کبھی آسمان اور کبھی آسمان سے بھی پرے، کسی خیال کی، کسی ماورائی وادی میں ہمیں تنہا چھوڑ آتی ہے۔
اچانک اک زور کی ٹیس اس کی کمر سے ہوتی، اس کے پیٹ کو چیرتے، اْس کی ٹانگو ں تک گئی۔ اس کا ہاتھ شدت درد سے پیٹ پر آکر حسرت سے ٹھہر گیا۔ تمنا کی چْبھن دل تک گئی اور وہیں دفن ہو گئی۔
آج اس کے بدن کی زرخیز زمین انگڑئیاں لے رہی تھی۔ مگر ساری حقیقتیں بے بسی و بے کسی کی تصویر بنی اس کے سامنے سانسوں سے بھی جدا ہو تے ہوئے خود کلام تھیں۔
میری سوچ کے سارے حْسن، ساری رعنائیاں، سارے کے سارے ساون اور اوس بھری راتوں کی نم چاندنی، برف گرنے کے بعد کی یخ بستہ ہوائیں محض میرے تخلیق وتخیل اور تصور میں رقص کریں گی۔
شاید سامنے بیٹھی مورت کے لیے میرا وجود اْس پھو ل سے زیادہ کیا ہو گا، جو مدھْر ہواؤں میں چلتے چلتے اس کے قدموں میں اچانک آگِراہو۔ مسلنے سے پہلے ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھا ہو، اپنی انگلیو ں کی پوروں سے کھیلا ہو اور جب دل بھر گیا ہو، ہاتھو ں میں مہک بیٹھ گئی ہو تو اچھال کر پھینک دیاگیا ہو اور بس اپنے سیدھے پیر کے جوتے سے مسلتا ہوا آگے بڑھ گیا ہو۔
اس کے لیے تو زندگی اب پرپھیلاکر اڑنے لگی ہے، ابھی تو طوفان کے نشان تک اس کے چہرے کا چاند نہیں بنے۔ ابھی تو آنکھو ں، گالو ں کی معصومیت ما ں کی گو د میں سر رکھ کر سونا چاہتی ہے۔ ابھی تو اس کی آنکھو ں میں نیند با قی ہے۔
اِدھر میرا وجو د میرے اندر ایک قبر میں پڑاتنہانعش کی طرح پھٹ رہا ہے۔ زندگی کے پْل صراط سے گزرتے کبھی اتنی تیز دھار تلوار سے بھی گزرنا پڑے گا کہ پیر ہی نہیں پو ر پو ر لہو لہان ہوکر،زمین کی آبیاری کریں گے۔ یہ میرے تخیل و تصور سے ماورا تھاکہ درد بدن سے سفر کرتا آنسو کے رستے باہر آئے گا نہ اندر کو ئی جگہ بنا پائے گا، حقیقت کی دوزخ میں کوئی بیٹھا حوروں کے نقوش دیکھ رہا ہو گا تو کوئی اس آگ میں جل رہا ہو گا۔ زندگی بذات خود کسی جنت و دوزخ کے منظر سے کم نہیں۔
افکار کے کشکو ل میں کشتی اچانک طوفان سے جا ٹکرائی۔ اک زناٹے سے وہ موم کی مورت دل کے کعبہ سے گری اور آہ و سسکی، روشنی کی رفتار سے بھی تیز سفر کرتی ساتو ں آسمانوں کو پھاڑتی کسی مقام عظیم پر جا کر رو پڑی۔
کسی نرم سی آواز کے تعاقب میں جاتے ہوئے اس نے خود کو اِ س دنیا سے با ہر نکا لا، جہا ں وہ قبر میں پڑی تنہا نعش کی طرح پھٹ رہی تھی۔
آنکھیں چار ہوئیں تو اسے محسوس ہو ا، جیسے وہ اپنی ہی آنکھو ں میں دیکھ رہی ہو۔ اس نے آنکھیں پھیر لیں۔
اس کی نظر جھونپڑی کے دروازے کے عین سامنے جوانی کے بدلے ملنے والے بڑھاپے کی کشتیوں کے سوار ایک جوڑے پر پڑی۔
وہ اپنی جگہ ڈوب رہے تھے۔ ہم اپنی جگہ ڈوب رہے تھے۔ سانس اْدھر بھی پھو لی ہو ئی تھی، سانس یہا ں بھی ہموار نہیں تھی۔ زندگی وہ بھی ہا ر چکے تھے، زندگی یہا ں بھی جیتی نہیں تھی۔
بس فرق تھا، تو دونوں طرف نوعیت کا تھا۔
نوعیت کا فرق ہم میں بھی تو آسکتا تھا۔ اگر وہ میری جگہ آبیٹھتا اور میں اس کی جگہ چلی جاتی۔ تو میری آنکھو ں میں بھی وہی ستارے ٹمٹماتے، جو اس کی آنکھو ں میں اس وقت ٹمٹما رہے تھے۔ میری جوانی بھی یو نہی لہراتی، جس طرح اس کی اس لمحے لہرا رہی تھی۔ مجھے بھی خود پرپیار یو نہی آتا، جس طرح اس کو آرہا تھا۔ وہ جومیری جگہ بیٹھا ہوتا تو اس کا وجود بھی میری طرح قبر میں پڑی نعش کی طرح تنہا پھٹ رہا ہو تا۔ اس کی کمر سے ہوتا درد بھی پیٹ تک آتا اورٹانگو ں سے ہو تا پیروں سے اس کی جا ن نکال دیتا۔ اس کے دل میں بھی کوئی ٹیس آکر ٹھہر جاتی۔ بے بسی و بے کسی کی سولی چڑھا، اپنی ذات کا تماشا دیکھ رہا ہوتا۔
زندگی ہے تو آنے جانے کا نام، مگر اس مختصر سے رستے میں جو زخم یہ لگا دیتی ہے۔ وہ بندے سے زندگی کے معانی چھین لیتے ہیں۔
اس نے آخری بار ان آنکھو ں میں دیکھا تو آنکھو ں نے دیکھنے سے انکار کر دیا۔ اس کو لگاجیسے وہ اپنی ہی آنکھو ں میں جھانک رہی ہے۔ اس نے آنکھیں تو پھیرلیں مگر اس کا سارا وجود اپنی نگاہو ں کے ساتھ لے آئی۔ اس کا پورا بدن اس کی آنکھو ں کا ساتھی بنا ہوا تھا۔ آنکھو ں کی شرماتی سرخی گا لو ں، ہاتھو ں، بازوؤں اور ہر عضو پہ پھیلی ہوئی تھی۔ نگاہیں اس نے جھکا لی تھیں اور دونوں ہاتھ اپنی ٹانگو ں کے درمیان قید کر دیے تھے کہ کہیں کو ئی اِ ن کی تقدیر نا پڑھ لے۔
وہ اس مردانہ حیا پر مر مٹی تھی۔ حیا مرد پر بھی کتنی جچتی ہے۔ اس کا اسے خود بھی اندازہ نہیں۔کیونکہ مصنوعی پن نے فطرت کو دفن کر دیا ہے۔مردانگی کے نام کے جھوٹے جھنڈوں نے اس کا مردانہ فطری حْسن چھین لیا ہے۔ مگر پھر بھی وہ اپنی آخری نگا ہ کے ساتھ اس کی حسین تصویر اپنے ساتھ لے آئی تھی۔لیکن سوچتی رہی کہ کہیں میرے خیالات کی لہریں تو اس تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔ سچائیوں کا یہ سفر درد بھرا تھا، کہیں اس کو درد تو نہیں ہو رہا ہے۔
اچانک اس نے جانے کی اجازت چاہی۔ وہ اْٹھی اور ساتھ چل دی ۔ “نا میں نے اسے آنے کو کہا تھا، نا جانے سے روک سکتی تھی، ” وہ یہ سوچتے ہوئے، سامنے بیٹھے بوڑھے جوڑے کو رشک سے دیکھتے ہوئے آگے بڑھ گئی، جو اپنے جو ڑوں کے دردوں کی، بلڈ پریشر اور نجانے کو ن کون سی بیماریو ں کی باتیں کر رہے تھے۔کچھ قدم ہی ساتھ چل کر وہ باہر کو نکلے تھے کہ جذبو ں کا کھیل کھیلنے والی قوم کی ایک ہستی کہیں سے نمو دار ہوئی ”اللہ جوڑی سلامت رکھے۔،،
یہ سْن کر اس نے زور سے ہنس دیا۔ مگر وہ اپنی ذات میں اس جسم کی طرح پھٹ گئی، جسپر خود کش بارود بندھا ہو تا ہے۔ اس کے جذبات گوشت کے لوتھڑوں کی طرح باغ میں چاروں طرف بکھر گئے۔ اس کی ہنسی بہت دیر تک کا نو ں میں گونجتی رہی۔
وہ اس کے ساتھ چل دی۔ اس کا دل چاہا کاش و ہ اس کے کاندھوں پر ایک شال ڈال دے، کاش وہ اس کے کاندھے پر دھیرے سے اپنا ہاتھ رکھ کر، اسے اپنے ساتھ لگا لے، کا ش وہ اس کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چھپا کر اپنے ساتھ لے جائے۔ مگر یہ سب ”کاش،، تھے۔اس کاش سے اس کی کھردری اور جامد انگلیو ں میں جنبش ہوئی۔ لیکن ’کاش‘ کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ وہ یہ سب حقیقتیں جانتی تھی۔
وہ بہت مضبوط پہاڑ کو ریزہ ریزہ کیے جا رہا تھا اور سمجھ یہ رہا تھا کہ کسی پتھر سے مل کر آیا ہے، جس کے چہرے پر نا تمنا کی کوئی کلی کھلی، نا حسرت نے آنسو بہائے، نا کوئی چشمہ پھْوٹا، نا کوئی خوشبو بکھری۔ مگر پتھروں سے بھی تو چشمے پھوٹ پڑتے ہیں۔
چند قدم چلنے کے بعد وہ مقنا طیس کے غیر ضروری حصے کی طرح اْس سے الگ ہو گئی۔ اْسے پتا تھا یہ آخری بار ہے،مگر اْس نے اْس کی طر ف ایک آخری نگاہ بھی نہیں ڈالی کہ قدم رْک گئے۔ تو کوئی ہاتھ تھامنے والا بھی نہیں ہو گا۔ وہ قبر میں پڑی تنہا نعش کی طرح تنہا رہ گئی۔
پھر رات ہو گئی۔ وہ صبح کا اخبار ہاتھ میں لیے پتھرائی آنکھو ں سے پڑھنے کی کوشش کر تی رہی۔ مگر اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ کچھ سْنائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کے کانو ں میں ایک ہنسی کی آواز، آنکھو ں میں ایک صورت تھی۔اخبار کی اک سرخی پہ اس کی نظرٹھہر گئی تھی۔
”اب اتنا بڑا چاندڈیڑھ صدی بعد دکھائی دے گا۔ چاند بہت حسین رنگو ں میں دکھائی دیا۔چاندنیلا اور سْرخ تھا۔ مگر یہ چاند گرہن کی رات تھی۔،،