تحفہ ۔۔۔ رابعہ الربا
تحفہ
رابعہ الربا
وہ دلہن بنی سمٹی بیٹھی تھی۔ کپکپاہٹ، بے چینی ، تھرتھراہٹ، سنسناہٹ نے اسے اندر سے بے چین کیا ہوا تھا۔
اس نے اس رات کے بہت سے واقعات سن اور پڑھ رکھے تھے لہذا خوف کی ایک ہلکی سی لہر بھی آتی جاتی تھی۔ اس نے سن رکھا تھا کہ اس رات عورت دوبارہ جنم لیتی ہے۔
جب وہ کمرے میں آیا تو یک دم یہ سب کیفیات غائب ہو گیئں۔ وہ لمحہ بھر میں ہی پر سکون ہو گئی۔ اسے خود سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہوا ہے۔
پھر وہ دھیرے سے قریب آیا اور اس نے دیکھ کر نظریں جھکا لیں، ہاتھ تھاما اور کہنے لگا، ” کیا تحفہ دوں ؟ جو کہوگی دوں گا، یہ وعدہ ہے میرا۔ “
وہ مسکرانے لگی۔
جانتا ہوں تم حیران ہو رہی ہو کہ تحفہ بھی بھلا مانگ کر لیا جاتا ہے۔ وہ بھی آج کی رات، تو جناب بات یہ ہے کہ ہم زبردستی کے قائل نہیں۔ یہ بھی کیا ہوا کہ شوہر جو چاہے لا کر تحفے کے عوض بیوی کا مالک بن بیٹھے۔
نہیں ، میں ایسا نہیں ہوں۔
ایک عورت اپنے مقام اور مرتبے سے خود آشنا ہوتی ہے۔ اس کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے معیار کے مطابق تحفہ قبول کرے۔
اس نے مسکراتی قلقاریاں کرتی آنکھوں سے اسے دیکھا۔
ہاں مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تم سوچ رہی ہو کہ شادی سے پہلے تو تمہارا یہ روپ مجھے معلوم نہیں تھا۔ تو میری جان یاد رکھنا مرد کا اصل روپ شادی کے بعد ہی نظر آتا ہے۔ یوں ہی عورت کی حقیقت کا علم بھی شادی کے بعد ہی ہوتا ہے۔
اچھا اب بولو کیا تحفہ دوں ۔۔۔۔؟
کیا مانگوں آپ سے ۔ جو میرا حق تھا وہ تو آپ نے خود ہی لکھو بھی دیا اور ادا بھی کر دیا اور اب تحفہ بھی ۔۔۔۔
میری جان میں نے اصلی شرعی مہر لکھوایا ہے، اپنی حیثیت کے مطابق، تمہارے مرتبے کے مطابق ۔۔۔
میں کم ظرف نہیں ہوں کہ رقم لکھواتا، ادا نہ کرتا، وہ ڈی ویلیو ہو جاتی، شرع کے گندمی نام پر تمہیں فارغ کر دیتا اور خود درندہ بن بیٹھتا۔ یاد رکھنا شادی کے وقت ہی مرد کے مہر سے مرد کے ظرف کا علم ہو جاتا ہے۔ اچھا ۔۔۔ اگر یہ حق بھی میں تمہیں دیتا تو تم کیا لکھواتیں ؟
” میں مہر میں بھی تمہارا نام لکھواتی ۔ “
اس کی یہ بات سنتے ہی اس کی آنکھیں نم ہو گیئں۔
” پاگل ہو۔ بھلا میں یہ کیسے ادا کر سکتا تھا ؟ “
” مجھے چھوڑنے کا ارادہ بھی کرتے تو تم ہی ملتے ناں ” وہ مسکرائی۔
” اچھا بتاو ناں، تحفہ کیا لو گی ؟ “
” سوچ لو۔ پھر دینا پڑے گا” وہ شوخی سے بولی
” ہاں یار دوں گا، کہو ناں ۔”
میری خواہش ہے کہ اگر میں تم سے قبل مر جاوں ، بلکہ پہلی خواہش ہی یہ ہے کہ تم سے پہلے یہاں سے منتقل ہو جاوں تو تم مجھے آخری غسل دو گے۔ “
” پاگلوں والی باتیں کیوں کرتی ہو۔ ابھی تو زندگی کا آغاز ہوا ہے۔ “
یہ کہتے ہی دونوں کی آنکھیں نم ہویئں اور دونوں لمحہ بھر میں ایک ہو گئے۔
” مجھے، سچ میں، تمہارے سوا کچھ نہیں چاہیئے “۔۔۔۔ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔
” اچھا اور اگر میں دوذخ میں چلا گیا اور تم جنت میں، تو ؟ ” اس نے مزاح میں بات بدلنا چاہی۔
” تو میں اللہ سے کہوں گی کہ یا اسے بلا دے یا مجھے پہنچا دے۔ “
یہ سنتے ہی اس نے اسے گلے لگا لیا۔
ایسا کچھ نہ ہوا جس سے وہ ڈر رہی تھی۔ بلکہ جو ہوا اس سے وہ جنت کا سا سفر کرنے لگی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اتنا سکون ۔۔۔۔۔۔ اتنی راحت بھی زندگی کا حصہ ہے۔ وہ جس زندگی سے خوف زدہ تھی اسکی عافیت سے آشنا ہو رہی تھی۔
یوں زندگی دھیرے دھیرے آگے بڑھنے لگی۔ چھوٹا سا گھر گلستان بن گیا۔ باد نسیم و سر سر کے جھونکے اس کو سہلاتے اور گلاب اور رات کی رانی کی مہک اسے خوشبو دار رکھتی۔
اسے خوشبو بہت پسند تھی۔ اس نے کچن تک پھول ہی پھول لگا رکھے تھے۔ موتیا، جھمکا، ٹولپ، ڈوگ فلاور، سن فلاور، گیندا اور کچنار۔ ہر پودا، بیل اور درخت خوشبودار تھے۔
قدرتی رنگوں سے گھر سجا ہوا تھا، برتن نفیس تھے۔ فرانس کا شیشہ اور یو کے کا ڈیزائن اور سٹائل اسے پسند تھے۔
اسے رائل سٹائل بھاتا تھا۔ پرچ پیالی کو مگ پر ترجیح دیتی تھی۔ کٹلری کے لیے کریزی تھی۔ پلاسٹک البتہ اسے پسند نہیں تھا۔ لیکن کھانا پکانے کے برتنوں میں بہت دلچسپی تھی۔ مٹی اور لوہے کے برتن استعمال کرتی۔ فرنیچر میں بھی چنیوٹی اور گجراتی کو ترجیح دیتی۔
پھر لوگوں کے سوالوں کا دور شروع ہو گیا۔ مگر اس کو صرف نعمان کی پرواہ تھی۔ دونوں کے ٹسٹ صحیح تھے لیکن پھر بھی کوئی پھول اور برتن توڑنے والا گھر نہیں آیا تھا۔ وہ مہمان جسے پالتے پوستے والدین بھول جاتے ہیں کہ یہ مہمان ہیں، انہیں ایک دن زندگی کے سفر میں شامل ہونے کے لیے اڑنا ہے۔
نعمان نے اسے بارہا سمجھایا کہ جب مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں تو تم ڈیپریس کیوں ہوتی ہو۔ دیکھو ہم کتنے پر سکون ہیں ۔ وہ والدین بھی تو ہیں جو اولاد کی آزمائش میں ہیں۔ یا پھر اولاد کے بعد بھی ان کی آپس میں نہیں بنتی۔ ان کی محبت کے شریک آ جاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔ بس یہ سمجھو کہ شاید ہم اس امتحان کے اہل نہیں۔
وہ ہمیشہ یہ کہہ کر اسے سینے سے لگا لیتا اور وہ اس میں سمٹ کر شکر کے دو آنسو بہا لیتی۔ وقت یوں ہی سفر کرتا گیا اور امید کے سارے پل بظاہر گزر گئے۔
پھر اچانک امید بھر آئی۔
خزاں میں پھول
دونوں مظطرب ہو گئے کیونکہ شاید دونوں کے درمیان اب کسی تیسرے کی جگہ ہی نہیں بچی تھی۔ شروع سے ہی وہ بیمار رہنے لگی۔ نعمان نے کئی بار چاہا کہ سب ختم کرادے لیکن وہ نہیں مانی کہ یہ قتل ہوگا۔ یہ تکلیف تو شاید عمر کا تقاضہ ہے یا پھرہر کسی کو ہوتی ہوگی۔ لیکن ہونی تو ہونی تھی۔ تیسرے مہینے وہ بستر کی ہو گئی۔ نعمان نے دفتر سے چھٹیاں لے لیں۔ وہ بہت کچھ کر سکتا تھا مگر یہاں بے بس تھا۔ اس نے ڈاکٹر سے مشورہ بھی کیا ۔ بظاہر کوئی اتنی بڑی بات نہیں لگ رہی تھی۔ ڈاکٹر نے ہر طرح سے تسلی دی۔
لیکن نعماں کا دل مطمئن نہ تھا۔
مطمئن تو وہ بھی نہیں تھی۔
اور آخر دل ۔۔۔۔ آخر دل بند ہو گیا۔
پانچویں مہینے کی ایک رات کے آغاز کے بعد اس نے دن نہیں دیکھا اور نعمان کی باہوں میں آخری ہچکی لے کر سو گئی۔
اسے لمحہ بھر میں پہلی رات یاد آ گئی۔ یہی وقت تھا جب اس نے تحفہ مانگا تھا۔ خواہش کا اظہار کیا تھا۔
مگر جب تحفہ دینے کا وقت آیا تو بہت سے فتوے آ گئے۔ علماء نے ، سماج نے، خاندان نے اجازت نہیں دی۔ اسے ہار ماننا پڑی۔
اس کی تو دونوں خواہشیں پوری ہو گیئں مگر نعمان اسے بس اتنا کہہ سکا
” مجھے معاف کر دینا ، میں تمہیں پہلا تحفہ ہی نہ دے سکا۔ “