کپاس کا کتا ۔۔۔ رابعہ سلیم
کپاس کا کتا
رابعہ سلیم
چالیس سال کا خصم جب بیس بیس سال کی لڑکیوں کے ساتھ ٹی ٹونٹی کھیل رہا ہو تو کیا ضرورت ھے گھر کے آنگن میں چئیر لیڈر بننے کی ۔؟
اس نے تو سدھرنا نہیں ۔ شور مچانے سے بچوں کو گگلی اور باؤنسر کا فرق مفت میں سمجھ آجاتا یے ۔
اسٹیج والی نرگس نے ایک بار کہا تھا ” مرد سرہانے کا سانپ ہوتا ھے ۔غلطی سے چار پیسے آجائیں ، دوجی ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے ۔
شکر ھے میرا شوھر ایسا نہیں ،وہ بہت اچھا ھے ۔
غریبی میں بھی رج کے بیوفا تھا اور فراخی میں تو اور نکھار آگیا ھے ۔
مقدر کھلنے سے پہلے ہی دھوتی کھول کر کندھے پہ رکھ لی ۔اگر اسے اپنی ماں کا ڈر نہ ہوتا تو گھر میں ڈربہ کھول لیتا۔
بیٹے بال بچوں والے ہوں تو مائیں کماؤ پوتوں سے بات کرتے جھجکتی ہیں ۔مگر میری ساس ،بات کرنے سے پہلے ہی پلاسٹک کی چپل دے مارتی ھے.
بیٹوں کو جوتے کا تلا سمجھتی تھی۔بہوؤیں خود ہی جرابوں کی طرح پیروں سے لپٹی رہتیں۔
میں نے سیدھا ان سے جاکر شکائیت کی تو کھلکھلا کر ہنس پڑیں ،کہنے لگیں ۔
“کاکی! کتا کپاس میں سے گذر جائے تو کھیس نہیں بن لیتا ،
پھر بھی آج آلینے دے اس کنجر کو ”
وقار کی کتے خوانی تو قصہ خوانی سے بھی زیادہ یوئی ،
مگر کنجر خانہ وہیں کا وہیں رہا ۔
میرے پاس تین بچے تھے ۔ بچے خود کےبارے میں سوچنے کا وقت کہاں دیتے ہیں ۔سو دھیرے دھیرے میں نے سوچنا ہی چھوڑ دیا ۔
اب ویلے کویلے سے بھی جان چھوٹی ۔
اور تو اور رازداری کا میرا تکلف بھی ختم ہوگیا ۔اب
نئے معاشقوں کے قصے، لڑکیوں کے نام، موبائل پہ تصویریں، روزمرہ کا حصہ بن گئے ۔وقار سب سنا دیتا ۔میں سب سن لیتی ۔ ان کے فون بھی اٹینڈ کر لیتی ۔
“باہر گئے ہیں، آتے ہیں تو بات کرواتی ہوں ”
دھیرے دھیرے میری نظر میں ان سب کی اہمیت پبلک ٹوائلٹ سے زیادہ نہ رہی ۔وقار کی ایک بات اچھی تھی
وہ خود بھی انہیں پینٹ کی اگلی اور پچھلی جیب تک محدود رکھتا تھا ۔کتا،کھیس کے چکر میں نہیں پڑا .
بس مجھے ان پیسوں کا دکھ ہوتا ،جو بچوں کے مستقبل میں کام آ نے تھے۔ اب،گشتیوں کے ہاں جاریے تھے ۔
پھر سوچتی، کماتاھےتو کیا فرق پڑتا ھے !اگر لٹاتا ھے ،تو بھی اسی کی کمائی ھے ۔
اس کا نام فائزہ تھا جس نے میری آواز سنتے ہی بڑبڑا کر فون بند کر دیا ۔تین سال میں پہلی بار ایسا ہوا تھا ۔
عورت کتنی بھی سیدھی ہو ۔لیکن اگر شوھر آئن سٹائن نکل آئے تو ماڑی چنگی سائنس پڑھ ہی لیتی ھے ۔
میں سمجھ گئی یہ ایڈہاک، مستقل ہونے کے چکر میں ھے ۔
دودن بعد رات کو جب وقار کا موڈ خوشگوار تھا میں نے فارمولہ لگایا۔
“فائزہ کی آواز کتنی پیاری ھے “انہوں نے کوئی تاثر نہیں دیا. ۔
اچھی لڑکی تھی ۔فون نہیں کرتی اب “؟میں نے ایک رگ اور دبا کر دیکھی ۔
انہوں نے جھٹ سے نمبر ملایا اور دوچار واہیات جملے، اور مسکراتی گالیاں دیتے ہوئے مجھے اپنی مردانگی کا ثبوت دیا،
میں نے اشارے سے کہا “میری بات کروائیں ”
“لو میری بیوی سے بات کرو ” ادھر سے فائزہ نے شاید چٹا جواب دے دیا تھا ۔اب بات گالیوں سے ہوتی ہوئی ترلوں تک آگئی ۔
مردانگی گئی تیل لینے ۔مجھے یقین ہوگیا کہ دوحصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن ملے نہ ملے پانی یہیں ھے،
انہوں نے فون بند کردیا ۔بندہ سیانہ تھا ۔کچھ کہا نہیں ۔کروٹ بدل پڑا رہا ۔صبح تڑکے ہی میں نے مطالبہ کردیا “چاہے دس اور بھرتی کر لو ۔فائزہ کو چھوڑ دو “؟
“کیوں “؟اسے ایسے احمقانہ احتجاج کی امید نہیں تھی
وہ گشتی مجھ سے اپنا موازنہ کر رہی تھی ۔مجھے سوتن سمجھ رہی ہے.مجھے وہ اچھی نہیں لگتی “میں نے لاڈ سے کہا.
وقار کو میرے اچھے برے لگنے سے کیا فرق پڑتا تھا ۔وہ چلا گیا ۔
رات گیارہ بجے فلم دیکھتے دیکھتے اچانک اس نے فائزہ کو کال کی ادھر ادھر کی ہانک کر فون مجھے تھمادیا ۔
“لو بات کرو”میں سمجھ گئی کہ چڑیل قابو کرکے آیا ھے. ۔میں نے بات کرنے سے صاف انکار کردیا ۔
اس نے بھی زیادہ اصرار نہ کیا ۔دن گذرتے رہے ۔ کاروبار جتنی تیزی سے اوپر گیا تھا ۔دگنی تیزی سے نیچے آیا ۔
دو وقت کی بھی مشکل ہوگئی ۔وقار نے نوکری کرلی ۔
اور بچ بچا ہوگیا ۔
پانچ چھ سال بعد ایک دن بازار میں مجھے وہ نظرآگئی ۔
میں نے قریب جاکر اس سے ہاتھ ملایا ۔وہ اپنی تصویر سے زیادہ سوھنی تھی ۔
شاید وقار نے اسے میری تصویر نہیں دکھائی تھی ۔اس نے مجھے پہچانبے سے انکار کردیا ۔
۔آپ فائزہ ہو “؟ میں نے پوچھا تو، اس نے اثبات میں سر ہلا دیا ۔
“آپ کون “؟
“میں وقار کی دوست ہوں، وقار نے آپ کی تصویر دکھائی تھی ۔”میں نے اپنا تعارف کروایا .
دوچار کھڑے کھلوتے جملوں کے بعد ہم دونوں بازار میں رکھے پتھر کے بنچ پہ آبیٹھیں ۔
“آپ بھی وقار سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “؟ اس نے بیٹھتے ہی پوچھ لیا
“نہیں میرا بس دوست تھا ۔۔۔۔۔ وہ تمہیں چاہتا تھا۔اس نے مجھے بتایا تھا “میں نے اس کے چہرے کے تل کو بغور دیکھا، اصلی تھا ۔
“مجھے لگا تھا کہ تم وقار سے شادی کروگی “؟میں سیدھا مدعے پہ آگئی
” وقار مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا ۔مگر اس کی ماں کا اس پہ بہت دباؤ تھا ۔۔ وہ اسے جائیداد سے عاق کردیتی ،اگر میں، اس سے۔۔۔۔۔” میری ہنسی نکلتے نکلتے رہ گئی ۔
“آخری بار کب ملے تھے تم دونوں “؟میں نے پوچھا تو اس نے گہرا سانس لیا ۔
“تین سال پہلے ۔تب وہ مجھ سے لپٹ کے بہت رویا تھا ”
فائزہ کی آنکھوں میں نمی تھی ۔
میں وہاں سے اٹھ گئی ۔اس سے ہاتھ ملایا اور چل دی ۔
مجھے پندرہ سال پہلے، اپنی سہاگ رات یاد آگئی ۔تب وقار نے مجھے اپنی پہلی محبت کے بارے میں بتایا ،جس کے ساتھ اس کی ماں نے شادی نہیں ہونے دی تھی
وہ کتنا رورہا تھا ۔میں نے بڑی مشکل سے اسے سمیٹا تھا ۔
مگر وہ اب بھی رورہا تھا ۔
کاش میں فائزہ کو بتا سکتی کہ میری ساس کتنی اچھی ھے ۔اور نہ ہی میں اپنی ساس کو بتا سکتی ہوں کہ تمہارا پتر کتنا کمینہ ھے ۔
کتا اب بھی کپاس میں ھے ۔