چودھویں کا چاند ۔۔۔ رابعہ الربا

چودھویں کا چاند

رابعہ الربا

” ارے۔ تم تو پری وش ہو۔ اپنی تصویر سے بھی حسین۔”

لگتا ہے اد خوب رو کے لیے ہی بچی رہیں آج تک۔

ورنہ تم جیسی لڑکی کو کون چھوڑ سکتا ہے ؟

یہ جملہ پری وش کے دل میں تیر کی نوک کی طرح لگا۔ مگر وہ بولے جا رہی تھی۔

” ورنہ تم جیسی لڑکی کو کون چھوڑ سکتا ہے۔۔۔۔ کوئی کمی نہیں سر سے پاوں تک، حسن، تعلیم، سلیقہ ، خاندان

کوئی کمی نہیں ۔۔۔ پری وش

اس نے تو جب سے تمہاری تصویر دیکھی ہے ۔ ان لوگوں سے تو صبر ہی نہیں ہو رہا۔

وہ یہ قصیدہ خاموشی سے سنتی رہی۔

اور آنٹی کا شوہر سامنے صوفے پہ بیٹھا پری وش کو یوں دیکھ رہا تھا جیسے اپنی بیوی کا گلا گھونٹ کر، دفن کیے بنا، پری وش پر چڑھ جائے گا۔ وہ حجاج بن یوسف اتنا دلیر تھا کہ بیوی تو کیا، پاس بیٹھے پری وش کے باپ بھایئوں کی نگاہوں سے بھی اسے کوئی غرض نہ تھی۔

پری وش غصے سے سرخ ہونے لگی۔ جوں جوں ضبط بڑھ رہا تھا، سرخی بھی بڑھ رہی تھی۔

” ارے پری وش۔ تم کچھ بول کیوں نہیں رہی ہو۔ ؟

آنٹی آپ نے بتایا نہیں کہ موصوف کتنا پڑے ہوئے ہیں اور کہاں سے؟

آنٹی مسکرا کر بولی. لو بھلا لڑکوں کی بھی کوئی تعلیم پوچھی جاتی ہے ارے بھائی سارا بیکن ہاؤس اپنا ہی ہے اس کا۔

اس نے آنٹی کو پوری آنکھیں کھول کر حیرت سے دیکھا

بیکن ہاؤس کی بلڈنگ اپنی ہی ہے ،بیکن ہاؤس والوں کو کرائے پہ دی ہے اور ڈیفنس میں دو کنال کی کوٹھی ہے ایک فارم ہاؤس بھی ہے وہ بھی اسی کے نام ہے۔ اکلوتا ہے۔ بس تم اپنا ہی سمجھو۔ امریکن نیشنل ہے۔ بس ذرا باہر کے کھانے کھا کھا کے آدمی لگنے لگا ہے۔ بیوی ہوتی تو خیال رکھتی۔۔۔۔۔۔ حجاج بن یوسف نگاہوں کی توبہ کھڑے بتا رہا تھا

پری وش نے اوپر سے نیچے تک حجاج بن یوسف کو مردانہ وار دیکھا  توسافٹ ڈرنک سے بھرا گلاس اس کے ہاتھوں میں کپکپانےلگا۔

 اس نے فورا چلنے کا فیصلہ کیا۔ میز پر گلاس رکھتے ہوئے بولا

آپ اپنی والدہ کو جلد بلا لیں فیصل آباد  دور ہی کتنا ہے

اس کی بیوی کی اونچی ہیل رگ کے پھندنوں میں الجھ گئی۔ اتنے میں سب کمرے سے باہر نکل چکے تھے۔ اس خاتون نے پرورش کے قریب ہو کر کہا

” سنو بال سیدھے کروا لینا آج کل کرل فیشن میں نہیں

ہیں اور یہ فراک  نہ پہننا آؤٹ ڈیٹڈ ہے فٹنگ والی قمیض پہننا۔ سمجھ رہی ہو ناں بیٹا ذرا ابھار نظر آئیں تو لڑکوں کو لڑکی اچھی لگتی ہے اونچی ہیل پہننا ۔ لڑکوں کو لمبی لڑکی پسند ہوتی ہے تمہارا تو قد ویسے بھی چھوٹا ہے۔ “

اس نے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے ایک بار پھر گھر کا طائرانہ مشاہدہ کیا اور شرارتی لہجے میں بولی جیسے اس کا اپنا رشتہ آ رہا تھا اور وہ 16 سال کی ہے

“وہ خود بھی ساتھ آئے گا کل”؟

یہ کہہ کر آنٹی بھی باہر نکل گئیں

پری وش غصے میں تلملارہی تھی۔ مگر خاموش تھی۔ عورت کے جملے اس کے اندر اوراُبال اور  ابھار پیدا کر رہے تھے۔

” اس کا واٹس ایپ اور فیس بک نہیں ہے آنٹی ؟ “

“ارے بیٹا شریف لڑکے کب فیس بک استعمال کرتے ہیں”

“بس روبرو دیکھتے ہیں”

“اور ذات کیا ہے ؟” اوراس  کے ساتھ لان میں چلتے ہوئے مسلسل سوال کر رہی تھی

مردوں کی اب ذات پات کب دیکھی جاتی ہے

اب تو دیکھا جاتا ہے کہ مرد ہے ناں ؟  ہائے اب تو مردوں کا فقدان ہی پڑ گیا ہے یا “گے ” ہوتا ہے یا تیسری جنس۔

یہ سوچنا چھوڑ دو بیٹا۔ اب صرف شادی کی جاتی ہے

وہ یہ کہتے ہوئے گاڑی میں بیٹھ گئی

بیکن ہاؤس

فٹنگ والی شرٹ

گولڈن سیدھے بال

اونچی ہیل

اوپر نیچے کے ابھار

وہ ساری رات کمرے میں خود سے الجھتی رہی آج گولیاں بھی اسے وادیءآغوش میں نہیں لے جا رہی تھیں۔  خود سے لڑتے نہ جانے کب آنکھ لگ گئی۔ اسے اپنی کم علمی کا علم ہو چکا تھا۔ اتنے میں آنٹی کے فون آنے لگے۔ وہ اتنی صبح بات نہیں کرنا چاہ رہی تھی مگر گھنٹی تھم ہی نہیں رہی تھی آخر اس کو اٹینڈ کرنا پڑا آنٹی قصیدہ پڑھنا چاہ رہی تھیں۔

وہ خود پہ ضبط کرتے ہوئے تحمل سے بولی

“آنٹی پلیز جو کہانی آپ مجھے کل سنا کر گئی تھیں۔ آپ شاید بھول رہی ہیں ہمیں ان کہانیوں کے درد کے لیے منتخب کیا گیا ہوتا ہے انشاءاللہ جلد میں بھی ریمپ پر آ جاؤ ں گی تو آپ انہیں لے کر ضرور آئیے گا۔ البتہ  کل کے اخبار میں بیکن ہاوس والوں کو ان کی اوقات بھی یاد دلوا دی جائے گی۔ تاکہ وہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کریں۔ عمارتیں بھی تعلیم یافتہ کر لیں تو ہم جیسے جاہل لوگ سنگ باری سے بچ جائیں شاید۔

لیکن بیٹا میری بات تو سنو

“آنٹی پلیز وہ بہت اچھا لڑکا ہے امیر ہے اسے کوئی اچھی لڑکی مل ہی جائے گی”

آنٹی کو اس کی باتوں کی چبھن سمجھ میں نہیں آرہی تھی

مگر سنو تم اپنی عمر تو دیکھو

عمر میری ہے آنٹی آپ فکر نہ کریں ۔ فگرمیرا ہے جس کو میں کسی اور کے لئے نمونہ نہیں بنا سکتی رشتوں کی بھیک سے بہتر وہ تنہائی ہے جو کبھی چاند بن جاتی ہے تو کبھی سورج۔۔۔

اور آنٹی آپ کے تجربے میں اضافہ کرنے کی میری عمرنہیں۔  مگر میرے بعد کی نسل کا مجھ پر قرض ہے۔ سنیے

شوہر مرد نہیں ہوتا خمیر ہوتا ہے عورت کا خمیر جو ہمیں صرف موت کے  وقت یاد آتا ہے  جب کہتے ہیں کہ جہاں کا خمیر تھا وہی میں مل گیا۔ یہ میتھ ہے۔  دلیل بھی دینا چاہتی ہوں کہ میں ایک منہ پھٹ لڑکی ہوں۔ جب ایک لڑکی کا جنازہ اٹھتا ہے یا اس کی ڈولی تو ایک ہی دعا پڑھی جاتی ہے

یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ آنکھ سے نکلا ضبط کا  آنسو صاف کیا۔

اس کے بعد شام تک فون کی گھنٹی بجتی رہی۔ رات ہوتے ہی اس نے اس نمبر کو اندھیرے کے حوالے کردیا۔ آسمان کی طرف دیکھا۔

چاند آج چودھویں کا تھا ۔

Start

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031