بڑی کھڑکیوں والا فلیٹ ۔۔۔ راحیلہ خان

بڑی کھڑلیوں والا فلیٹ

راحیلہ خان

مالک مکان نے گھر خالی کرنے کا حکم صادر کر دیا تھا۔ وہی مکان مالکوں کا پرانا بہانہ، انہیں اپنے بیٹے کے لئے ضرورت ہے۔ اب یہ ایک اور کار مشکل سر پر آن پڑا تھا۔ دوسرا مکان ڈھونڈنا کوئی آسان امر ہے۔ نہیں صاحب جس پہ پڑی ہو وہی جانے۔

میں عموماً اپنے پندرہ سالہ بیٹے کو ہر قسم کے فیصلے میں شامل کرتا ہوں۔ بھئی آگے چل کر گھر کا سربراہ اسے ہی بننا ہے تو نوعمری سے ہی تربیت ہو جائے۔

شام کی چائے ہم سب اکٹھے پیتے ہیں ہماری خوش دامن آئی ہوئی تھیں، اس لئے بیگم نے چائے کے ساتھ لوازمات کا بھی اہتمام کیا تھا۔ چائے کے دوران ہم نے اپنے صاحبزادے کو مخاطب کر کے کہا ”منظر میاں! اتوار کو معرکہ آرائی کے لئے تیار رہنا“

”معرکہ آرائی؟ کیا کہ رہے ہیں ابا“

ہاں تو بیٹا مناسب مکان تلاش کرنا معرکہ آرائی سے کم نہیں۔ میں نے اسٹیٹ ایجنٹ سے بات کرلی ہے۔ صبح ناشتہ کر کے نکلیں گے تاکہ دن کی روشنی میں دیکھ لیں۔ مکان لیتے وقت روشنی اور ہوا کے گزر کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔

خوش دامن جو کہ رحمت شیریں کی رس ملائی سے انصاف کرنے میں مشغول تھیں ہماری طرف متوجہ ہو کر بولیں ”ائے نوشے میاں، مکان دیکھنے کے لئے تم صرف منظر میاں کو لے جاؤ گے؟ پندرہ سال کا بچہ کیا مشورہ دے گا۔ ہماری خوش دامن آج تک ہمیں نوشے میاں ہی کہہ کر مخاطب کرتی ہیں حالانکہ سہرا اتارے ہوئے سولہ سال بیت گئے۔ نوشے میاں سن کر ہمارا دل ایک بار پھر سہرا سجانے کو ہمک اٹھتا۔ لیکن پھر خیال آتا کہ ایک بار سہرا باندھ کر جو قید بامشقت ڈھو رہے ہیں دوبارہ کی ہوس نہیں ہونی چاہیے۔ خیر ہم نے ان سے کہا

” منظر مرد بچہ ہے، چھٹپن سے ہر مسئلے میں اس کو ساتھ رکھتا ہوں تاکہ دنیا و مافیہا کے صنائع بدائع اس پر کھلیں، بصیرت حکمت اور لیاقت میں اضافہ ہو اور مستقبل میں فیصلہ سازی کرتے ہوئے علم الیقین کے ساتھ عین الیقین بھی حاصل رہے“

”آپ ہی کہو ہو، اپ ہی سمجھو ہو۔“ خوش دامن جھلا کے بولیں۔
منظر نے کہا ”نانی اماں عیش دہلوی نے اسی بات کو یوں کہا ہے
کلام میر سمجھے اور زبان مرزا سمجھے
مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے
اگر اپنا کہا تم آپ سمجھے تو کیا سمجھے
مزا کہنے کا جب ہے، اک کہے اور دوسرا سمجھے
”اب تم اپنی بیاض کھول کر نہ بیٹھ جاؤ“ نانی نے نواسے کے لتے لئے۔

پھر ہم سے گویا ہوئیں۔ ”دیکھو میاں مکان کو گھر عورت بناتی ہے اس لئے مکان دیکھنے کے لیے ثمینہ کو ساتھ لے کر جاؤ“ ۔

ہمارے اور ثمینہ کے مزاج میں اتنا بعد تھا کہ ہمیں ڈر تھا کہ اتوار کا پورا دن گزر جائے گا اور کسی ایک پر اتفاق رائے ہونا ممکن نہ ہوگا مگر حکم خوش دامن مرگ مفاجات کے مصداق راضی برضا ہونا پڑا۔

اتوار کی صبح ناشتے میں حلوا پوری، چنے اور آلو کے پراٹھے دیکھے تو ماتھا ٹھنکا ”یا اللہ خیر اتنا اہتمام ہمارے لئے تو نہیں ہو سکتا“ اور ہمارا قیاس بالکل درست ثابت ہوا۔ ابھی چینک سے کشمیری چائے انڈیلی ہی تھی کہ بنا دستک دیے خوش دامن اندر آتی دکھائی دیں۔ بیگم صاحبہ کو ان کی آمد کا ضرور علم ہوگا تبھی تو لذت کام دہن کا انتظام کیا گیا تھا۔ بس ہمیں چونکانا مقصود تھا۔ پوریوں کے پرے تمام کرنے کے بعد قافلہ لے کر گوہر نایاب یعنی اچھے مکان کی جستجو میں نکلے۔

اسٹیٹ ایجنٹ نے چار چابیاں اٹھائیں اور ہمیں پہلا مکان دکھانے چلا۔ یہ چھ منزلہ عمارت کی چوتھی منزل پر واقع ایک فلیٹ تھا۔ لفٹ انتہائی تنگ تھی۔ ہم چار بمشکل ٹھس کے کھڑے تھے۔ غیر مرد کو پہلو میں جگہ دینے پر بیگم ہرگز راضی نہ ہوئیں اس لئے اسٹیٹ ایجنٹ کو وہیں چھوڑ کر چوتھی منزل پر چلے گئے مگر وہاں پہنچ کر یاد آیا کہ چابی تو اسی کے پاس ہے۔ اگلے پھیرے میں آنے میں اسے ایک طویل عرصہ لگا یا پھر اس تاریک اور سیلن زدہ راہداری میں انتظار کرتے ہمیں ایسا محسوس ہوا۔

راہداری کے سب سے آخر میں فلیٹ نمبر 408 کا تالا کھول کر اندر داخل ہونے تو مانو ساری کلفت دور ہو گئی۔ کشادہ اور روشن کمرے، فراخ دریچے، صاف ستھرے غسل خانے، وسیع لاونج۔ ہمیں تو فلیٹ پسند آیا تھا۔ منظر نے اپنی رائے محفوظ رکھی تھی۔ ماں اور نانی کا عندیہ جان کر ہی لب کشائی کرتا۔ تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد بیگم لوٹیں تو ان کے بشرے پر منظوری کے کوئی تاثرات نہیں تھے۔

”چلیں دوسرا مکان دیکھتے ہیں“ ۔
”اماں اچھا تو ہے یہ گھر“

”کیا خاک اچھا ہے اتنی بڑی بڑی کھڑکیاں ہیں کہ پورا آدمی کود جائے۔ ویسے ہی جب لڑائی ہوتی ہے تمہارے ابا اوپر سے کودنے کی دھمکی دیتے ہیں۔“

اب انہیں میں کیسے بتاتا کہ میری رفیق حیات! ایسی گیدڑ بھبکیاں دے کر شوہر بیگم کی محبت ناپتے ہیں۔

بایں ہمہ دوسرا مکان دیکھنے چلے۔ دو منزلہ مکان کی اوپری منزل تھی۔ مالک مکان نچلے حصے میں مقیم تھے۔ اسے اس بنا پر رد کر دیا گیا کہ اوپر کو جانے والا زینہ اتنا تنگ اور چکردار ہے کہ اوپر جاتے جاتے انہیں خفقان قلب ہونے لگا۔ مزید یہ کہ مالک مکان ہر وقت سر پر مسلط۔ مہمان کیوں آئے؟ پانی کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ شور شرابا ہوتا ہے۔ کیلیں ٹھونک کر دیواریں خراب نہ کریں۔ اب دیواروں پر مکہ مدینہ کی تصویریں اور اللہ رسول کے طغرے نہ لگائیں تو گھر میں نحوست طاری رہتی ہے۔

تیسرا مکان حیدری مارکیٹ سے الٹے ہاتھ والی گلی میں تھا۔ اچھے کشادہ مکان ہیں اس طرف۔ بازار، بس اسٹاپ، ہسپتال، اسکول سب قریب، نکڑ پہ تندور بھی تھا۔ اور کیا چاہیے مگر وائے ناکامی یہ مکان بھی فہرست میں سے اس لئے قلم زد کر دیا گیا کہ کمرے تو کشادہ تھے مگر باورچی خانہ لیلی کی انگلیوں اور مجنوں کی پسلیوں کی طرح پتلا اور ٹیڑھا تھا۔ نعمت خانہ کہاں رکھا جائے مٹکا کہاں دھریں۔ ہم نے کہا ریفریجریٹر لا دیں گے۔ آپا جان کی طرح لاونج میں رکھ لینا۔ نعمت خانہ اور مٹکے کی ضرورت ندارد۔ خوش دامن کہنے لگیں ”دیکھو بھئی خاتون خانہ کا سارا وقت تو باورچی خانے میں گزرتا ہے۔ باورچی خانہ دل کو بھائے تو پکانے میں دل لگتا ہے۔ اور دل لگا کے پکاؤ تو ہی ذائقہ آتا ہے ورنہ تو عورت سر سے بلا اتارتی ہے اور ہم بدمزہ کھانوں کا سوچ کر ہی بے مزہ ہو گئے۔

چوتھا اور آخری مکان مشہور بیکری کے اوپر چار کمروں کا فلیٹ تھا۔ ہوادار اور صاف ستھرا تھا۔ باورچی خانہ بہت کھلا تھا۔ اس لئے کہ ہال کمرے کے ہی ایک کونے میں کاؤنٹر اور چولہا لگا دیا گیا تھا۔ وہ کیا کہتے ہیں اسے اوپن کچن۔ شام ہو چلی تھی سڑک اور سیڑھیاں ناپ ناپ کر ٹانگیں شل ہو گئی تھیں۔ سوچا چلو اب تو گوہر مقصود ہاتھ آ گیا لیکن امیدوں پر اوس پڑ گئی جب بیگم نے ناک سکوڑ کر کہا ”اوئی اللہ، کس قدر مہک آ رہی ہے بیکری کی، اس میں دن رات کیسے رہا جائے گا اور بیکری کے چوہے پائپ سے چڑھ کر باورچی خانے کے برتنوں میں الگ وبال مچائیں گے۔ اس تصویر کشی پر ہمیں تو سوچ کر ہی ابکائی آ گئی۔

دن بھر کی خواری کے بعد گھر پہنچے تو تھکاوٹ سے بے دم تھے۔ ہم نے بیگم سے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا اگلے اتوار کو آپ ساتھ نہیں جائیں گی اور اگر آپ نے ضد کی تو ہم کل ہی جا کر چوتھی منزل کے بڑی کھڑکیوں والے فلیٹ کا بیع نامہ دے آئیں گے۔ بیگم کچھ نہ بولیں مگر نائٹ بلب کی قلیل روشنی میں بھی ہم نے ان کو سہمتے دیکھ لیا تھا۔

(بشکریہ ہم سب )

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930