خزاں گزیدہ ۔۔۔۔ رشید امجد
Rasheed Amjad is a prominent Urdu fiction writer, critic and scholar. He has many short stories to his credit by now and is appreciated by the literature lovers
.خزاں گزیدہ
رشید امجد
قیدی کو اس حالت میں لایا گیا کہ گلے میں طوق اور پاﺅں میں زنجیریں، زنجیروں کی چھبن سے پاﺅں جگہ جگہ سے زخمی ہوگئے تھے اور ان سے خون رس رہا تھا۔ طوق کے دباﺅ سے گردن کے گرد سرخ حلقہ بن گیا تھا جو کسی وقت بھی پھٹ سکتا تھا۔
قیدی طوق کے بوجھ اور پاﺅں کی زنجیروں کی وجہ سے سیدھا کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔ نیم وا کمر جھکائے جھکائے اُس نے میز کے پیچھے بیٹھے شخص کو خالی آنکھوں سے دیکھا، نہ کوئی سوال نہ کوئی تمنا۔
میز کے پیچھے سے آواز آئی۔ ”معلوم ہے کہ تمہیں موت کی سزا ہوگئی ہے۔“
قیدی نے اثبات میں سرہلانے کی کوشش کی لیکن طوق کی بندش سے درد کی ایک لہر پورے جسم میں دوڑ گئی۔
قیدی نے ہونٹوں پر زبان پھیری، ذرا تری ہوئی تو آواز نکلی۔۔۔ ”ہاں“۔
کچھ دیر خاموشی رہی، پھر قیدی بولا۔۔ ”لیکن میری جان میرے جسم میں نہیں۔“
میز کے پیچھے سے گھورتی آنکھوں نے سوال کیا۔۔۔ ”توکہاں ہے؟“
”اس طوطے میں جو یہاں سے ہزار میل دور ایک کچے صحن میں پیپل کے پیڑ کی شاخ سے لٹکے ہوئے پنجرے میں ہے۔“
حکم ہوا ”پنجرے کو تلاش کیا جائے۔“
قیدی کو دوبارہ اس چھوٹی سی کوٹھری میں بند کردیا گیا جس کی دیواریں اور چھت اسے دبا دبا کر ریزہ ریزہ کرنے کے منتظر تھیں۔ نیم روشنی والی اس کوٹھری میں اتنی جگہ بھی نہیں تھی کہ قیدی ٹانگیں پھیلا کر بیٹھ سکے۔ گردن سیدھی کرتا تو ٹانگوں پر دباﺅ پڑتا، ٹانگیں پھیلانے کی کوشش کرتا تو طوق گردن کو دبانے لگتا۔ ایک زنگ آلود دروازہ اور بہت اوپر چھوٹا سا روشن دان، جس سے روشنی رینگ رینگ کر اندر آتی تھی۔
”طوطا مل گیا تو۔۔۔۔“ اکڑوں بیٹھے بیٹھے پتھر ہوئے قیدی نے سوچا۔
”لیکن طوطا انہیں نہیں مل سکتا۔“ سوکھے پپڑی زدہ ہونٹوں پر جو کچھ آیا اُسے مسکراہٹ تو نہیں کیا جاسکتا۔
”مرنا یا نہ مرنا تو اب بے معنی ہے۔“ اس نے سوچا اور پھر خود سے پوچھا۔۔۔”لیکن اب تک یہ تو بتاتا ہی نہیں گیا کہ میرا جرم کیا ہے؟“
پوچھا۔۔۔ ”میرا قصور کیا ہے؟“
میز کے پیچھے گھورتی آنکھوں میں سرخ ڈورے ابھر آئے۔ ”یہ بتانا ہمارا کام نہیں۔“
ہزاروں میل دور، کچے صحن میں پیپل کی ہری شاخ کے ساتھ لٹکے پنجرے میں بند طوطے کی تلاش جاری تھی۔ چند دنوں میں کئی پنجرے جمع ہوگئے۔ انہیں پتھر کی دیوار کے ساتھ ترتیب سے رکھ دیا گیا۔ قیدی کو لایا گیا۔
میز کے پیچھے سے گھورتی غضبناک آنکھوں نے پوچھا۔۔ ”کس طوطے میں تمہاری جان ہے؟“
طوق کے دباﺅ سے دبی گردن کو گھماتے ہوئے قیدی نے ایک اییک پنجرے کو دیکھا، تادیر چُپ رہا پھر بولا۔ ۔۔۔ ”ان میں سے کسی میں بھی نہیں۔“
تاسف ہوا کہ ان کی محنت اکارت گئی۔ تھوڑی سی خوشی بھی کہ اصل طوطا انہیں نہیں مل سکا۔
حکم ہوا۔۔۔ ”ان سارے طوطوں کو ماردو اور اصل طوطے کو تلاش کرو۔“
قیدی نے کہا۔۔۔ ”لیکن مجھے میرا قصور تو بتادو۔“
”یہ ہمارا کام نہیں“۔ آواز کی گرج میں غصے کے ساتھ ناکامی کی نمی بھی شامل تھی۔“
قیدی کو اسی نیم تاریک چھوٹی سی کوٹھری میں لایا گیا جہاں ٹانگیں پھیلانے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔
اکڑوں بیٹھے، طوق سے گردن کی اینٹھن کو محسوس کرتے قیدی نے سوچا۔ ”کبھی بہ کبھی تو اصل طوطا مل ہی جائے گا، آخر کب تک؟“
چند روز بعد قیدی کو باہر نکالا گیا۔ سنگی دیوار کے ساتھ پنجروں کی قطاریں لگی تھیں۔ ان میں بند کچھ طوطے مضطرب تھے۔ کچھ پُرسکون۔
حکم ہوا۔۔۔ ”ایک ایک کرکے سب کی گردنیں مڑوڑ دو۔“
تڑپتے طوطوں کے درمیان کھڑے قیدی کے پاﺅں کی زنجیروں نے اب اس کے ٹخنوں کا گوشت ادھیڑ دیا تھا اور طوق نے گردن کے گرد بنے سرخ حلقے کو زخم میں بدل دیا تھا، نیم مردہ آواز میں پوچھا۔۔۔ ”لیکن میرا قصور تو بتایا جائے؟“
گرجدار آواز میں بے بسی تھی۔۔۔ ”یہ ہماری ذمہ داری نہیں۔“
ایک ایک کرکے سب طوطے گردنیں تڑوا بیٹھے تو قیدی کو دوبارہ اس نیم تاریک کوٹھری میں، جسے کوٹھری کہنا مذاق تھا، بھیج دیا گیا۔
”شائد اس بار اصل طوطا پکڑا جائے“۔ قیدی نے سوچا۔ ٹانگیں پھیلانے کی کوشش کی تو درد سے بلبلا اُٹھا۔ گردن سوکھی لکڑی کی طرح اکڑ گئی تھی۔
”شائد ٹوٹنے ہی والی ہے۔ اس نے سوچا۔ ”اور طوطا۔۔۔۔
چند دن بعد قلعے کے تہہ خانے میں سنگی دیوار کے ساتھ کئی پنجرے اور ان پنجروں میں بند، کچھ پھڑپھڑاتے، کچھ نیم مضطرب اور کچھ مطمئن طوطے قیدی کے منتظر تھے، اصل طوطا ان میں بھی نہیں تھا۔
گرجدار آواز میں اب جھنجھلاہٹ آگئی تھی۔ ”اور طوطے لاﺅ۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔“
طوطے آتے رہے، قیدی کو نیم تاریک کوٹھری سے جو اب وہ قبر کی طرح لگ رہی تھی، نکالاجاتا، لیکن اصل طوطا نہ ملا۔
”اور۔۔۔۔“ گرجدار آواز کا غصہ نیم پاگل پن میں بدل گیا تھا۔
”لیکن جناب اب کوئی طوطا کہیں باقی نہیں رہا۔“ ڈرتی ڈرتی آواز میں جواب دیا گیا۔
تادیر خاموشی رہی
”تو یہ جھوٹ بولتا ہے، اس کی جان کسی طوطے میں نہیں، لٹکادو اسے“۔
قیدی نے پوچھا۔۔۔ ”اب تو میرا قصور بتادیا جائے۔“
گرجدار آواز میں تحکم تھا۔۔۔ ”پہلا قصور تو معلوم نہیں لیکن اب تمہارا قصور یہ ہے کہ اصل طوطا نہیں مل رہا۔“
قیدی کے گلے سے طوق اترا تو سکون سا ملا، طوق کی جگہ اب پھندا ڈالا جارہا تھا، اس سے پہلے کہ جلاد رسی کھینچتا، ٹین ٹین کرتا ایک طوطا فضا میں نمودار ہوا اور قیدی کے گرد منڈلانے لگا۔
”پکڑو ۔۔۔۔ مارو“ گرجدار آواز میں گرم جوشی اور مایوسی دونوں تھے۔۔۔ ”یہی وہ طوطا ہے“۔
قیدی کو بھول کر سب طوطے کو پکڑنے، مارنے کے لئے ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں گر گر پڑے۔ طوطا کچھ دیر ٹیں ٹیں کرتا فضا میں اڑتا رہا، پھر ایک اونچے روشن دان سے نکل کر فضاﺅں میں گُم ہوگیا۔
قیدی تمام تکلیفوں سے آزاد ہوگیا تھا لیکن آخری لمحے تک اُسے معلوم نہ ہوسکا کہ اس کا قصور کیا ہے؟
شاید اس کا ہونا ہی اس کی سزا تھا؟
Wonderful !
Artistic freedom.