خواب سراب ۔۔۔ راشد جاوید احمد
خواب سراب
راشد جاوید احمد
اس نے خواب میں دیکھا کہ خواب دیکھ رہا ہے۔ سجے سجائے کمرے میں مرد و زن اعلی لباس میں ملبوس خش گپیوں میں مصروف ہیں۔ قہقہوں کی آواز نمایاں ہے اور ماحول میں آسودگی ہے۔ وہ خواب میں خواب دیکھ رہا ہے اور اسکا سارا زور ان آنکھوں پر ہے جن سے وہ خواب دیکھ رہا ہے کہ وہ ان سجے سجائے کمروں کے اندر جانے کا اہل نہیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ جگمگائے ماحول میں خوشیاں، تہواروں پر لگائی جانے والی جلتی بجھتی روشنیوں کی طرح چمک دمک رہی ہیں۔ وہ دروازے سے ہی لوٹ آتا ہے کہ نہ اندر جانے کا اذن ہے نہ ٹھہرنے کا۔ تمام شب کی دکھن، بے کلی اور سبک خوابی سمیٹ کر وہ اجل گرفتگی محسوس کرتا ہے تب اسے خیال آتا ہے کہ وہ تو خواب میں خواب دیکھ رہا ہے۔ پھر اسے یوں لگتا ہے کہ صبح کی زرتار روشنی میں باغیچے میں کھلے پھول مہک اٹھے ہیں لیکن یہ اس کی نظر کا دھوکا ہے، سورج تو گہنا گیا ہے اور تاریکی بڑھنے لگی ہے۔ وہ اس تاریکی میں اپنی آنکھوں کے پپوٹے ملتا ہے تو اسے کمرے کی کھڑکیاں ، دروازے نظر آنے لگتے ہیں ۔
کمرے کے اندر ایک طرف کتابوں کے ساتھ پھول دان رکھا ہے جس میں رکھے پھولوں پر پڑی گرد کی تہہ سے وہ اندازہ لگاتا ہے کہ کسی نے ان کو کسی کی یادگار کے طور پہ رکھا ہوگا۔ کتابوں کے ساتھ ساتھ دیواروں پر لگی پینٹنگز بھی ہیں۔ پنکھا، دوا کی شیشیاں اور اسکی تصویر سب اپنی اپنی جگہ موجود ہیں لیکن دکھائی نہیں دیتیں۔ یہ اسکے ساتھ ایک عرصے سے ہو رہا ہے۔ دن رات کے آنے جانے میں، اسکی دنیا کے اس عجائب خانے میں کبھی شیشے دھندلے ہو جاتے ہیں کبھی منظر غائب۔ وہ سورج کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اسکی بات نہیں سنتا اور کبھی تارے آنکھیں بدل لیتے ہیں۔
وہ خواب میں خواب دیکھ رہا ہے کہ منزل پیچھے رہ گئی ہے اور اس کی امیدیں ، آسیں دم توڑ رہی ہیں یا پھر اس کی آنکھیں ہی درست طور پر دیکھ نہیں پا رہیں۔ اسکے ذہن کے کسی گوشے میں ادھورے رہ جانے والے خواب بھی کلبلاتے ہیں۔ پھر وہ کیا دیکھتا ہے کہ ریت کا ایک دریا ہے جو کسی سیلابی ریلے کی مانند اس کی طرف بڑھتا چلا آ رہا ہے ۔۔۔۔ یا شاید وہ خود اس ریت کے دریا کی طرف گامزن ہے۔ چلو کسی منزل کے عنوان تو ملے، وہ سوچتا ہے، پر درد ہی سہی، رنجور ہی سہی، مسافت زخموں سے چور ہی سہی۔زخم تو اور بھی بہت ہیں جن کو وہ خود سہلا نہیں سکتا کہ ایسی کوئی بھی کوشش ان کو گھاو میں بدل دیتی ہے۔ وہ انہیں بن روئے آنسووں کی طرح سینے میں چھپا کر رکھتا ہے۔ اس کی آنکھیں ساری عمر نہیں رویئں۔ نیند سے خالی آنکھوں میں سپنے بھرے ہیں جو کم نہیں ہونے پاتے تو ایسے میں وہ خواب میں خواب دیکھتا ہے تو منظر پھر دھواں دھواں ہو جاتا ہے اور اس تک آنے والی روشنی کو روک لیتا ہے۔ وہ چھو کر دیکھنا چاہتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ کی پوریں لمس کے احساس سے عاری ہو چکی ہیں۔ وہ کچھ ایسی گو مگو کی کیفیت میں ہے کہ اس وقت کوئی بھی چہرہ، کسی بھی سوچ کا پیکر، کوئی جذبہ، کوئی احساس تک اپنی حقیقی شکل میں قائم نظر نہیں آتا۔ شاید چاروں طرف اندھیرا گہرا ہو گیا ہے۔ وہ بے ارادہ ادھر ادھر بازو پھیلاتا ہے تو بے سمتی بھی اس کی اس حرکت پر مسکراتی ہے۔ وہ بہت سی ٹھوکریں کھا کر سنبھلتا ہے لیکن چلتا رہتا ہے کہ چلتے رہنا اسکا مقدر ہے۔
کبھی اسے لگتا ہے کہ وہ آنکھ مچولی کھیل رہا ہے یا اس کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلی جا رہی ہے۔ سب کونوں کھدروں میں چھپے ہیں۔ چھپ جانا کتنا آسان ہوتا ہے اس نے سوچا۔ کسی تہہ خانے، کسی کوٹھڑی، کسی بالا خانے میں ، سائے یا دھوپ میں یا کسی کی بانہوں میں ۔۔۔۔ لیکن چھپنے کی سب جگہیں پر ہو چکی ہیں۔
اب اس کے سامنے ایک دیوار ہے۔ جس کے پیچھے کالے دھویئں کا ایک درخت سیدھا کھڑا ہے جہاں دیوار، دیوار سے ملتی ہے اور خوابوں میں ڈھلتی ہے،وہاں دیوار کی ریخوں میں سے اسکی خواہشیں پھوٹ نکلتی ہیں۔ وہ درزوں میں اگی ان خواہشوں کی سٹاک ٹیکنگ کرنے لگتا ہے تو دیوار خاک کی مانند گر جاتی ہے اور خواہشیں اس کے ملبے تلے دب جاتی ہیں۔ اس کالے دھویئں میں اسے کوئی ہیولا سا نظر آتا ہے۔ خدو خال تو وہیں ہیں۔ وہی آنکھیں جن کے بہتے پانی میں اسکی محبت کے پر بھیگے تھے۔ جو اس کے دل کی شاخ پر بیٹھ کر گنگناتی تھی اور اسکی محبت کو اپنے سینے کی چوٹیوں میں سمیٹ لیتی تھی ۔۔۔ لیکن یہ کیا ۔۔۔ اسکے ہاتھ پاوں سلامت نہیں ہیں۔ نہیں وہ یہ منظر نہیں دیکھنا چاہتا اور زور سے سر جھٹکتا ہے تو اس سجے سجائے کمرے کی دیواروں سے پھوٹتے قہقہے ایک بار پھر اسے اس جگمگاتے ماحول میں روشن خوشیوں کی طرف کھینچتے ہیں لیکن اسے اندر جانے کا اذن نہیں۔
اس نے خواب میں دیکھا کہ خواب دیکھ رہا ہے۔ اپنی اپنی جگہ پر موجود چیزیں اسے دکھائی نہیں دیتیں۔ وہ چیخ اٹھتا ہے کہ اس کی بینائی کو کچھ ہو گیا ہے۔ اس کی چیخ کی آواز اسکی آنکھ سے ٹکراتی ہے جو سب دیکھتی ہے، ہنستی ہے اور کہتی ہے خواب سراب ہے اور اس کی وجہ تم ہو۔