زرد گلاب ۔۔۔ رضیہ سجاد ظہیر
زرد گلاب
رضیہ سجاد ظہیر
ہاں یہ وہی تصویر ہے— وہی جو نہ جانے کب سے ہمارے کھانے والے کمرے میں لگی تھی— وہی جو نہ جانے کب سے ہمارے کھانے والے کمرے میں لگی تھی— یہ وہی ہے، بڑی سی بھاری تصویر جو تقریباً آدھے دیوار کو گھیرے تھی، یہی فریم اس وقت بھی تھا، یہی چوڑا سنہری فریم جس میں کٹاؤ کی جالی بنی تھی۔ ویسے اس کی پالش جا بجا سے گھس گئی تھی۔ لیکن خود تصویر کی رونق میں کوئی فرق نہیں آیا تھا— پس منظر میں سیاہی اور سرخی کا وہی میل تھا جیسے رات کا بڑھتا ہوا اندھیرا، سورج کی ڈوبتی ہوئی سنہری سرخی پر بڑھتا چلا آ رہا ہو، سامنے رکھی میز پر گہرے سبز رنگ کا میز پوش جس کی چمک سے ظاہر ہوتا تھا کہ پلش یا مخمل کا ہے، اس پر رکھا ہوا بڑا ساکٹ گلاس کا گول پھول دان جس کے ایک حصے پر کھڑ کی سے آتی ہوئی روشنی کی ڈلک پڑ رہی تھی، اس سے لگا ہوا بڑے بڑے رنگ برنگے گلابوں کا ایک گچھا——اور پھول دان کے قریب، میزپوش پر پڑا ہوا ایک زرد گلاب!
شاید اسی لیے مصور نے اس کا رنگ زرد بنایا تھا کہ سب سے پہلے مرجھانا اس کی قسمت تھی—— اپنے ساتھیوں سے چھوٹ کر، باقی سب پھولوں سے بچھڑ کر، وہ کیسے گر پڑا تھا! کیوں کر وہ اکیلا ہو گیا تھا، کتنا مجبور اور بے بس لگتا تھا وہ۔ کچھ ایسا بھی محسوس ہوتا کہ جیسے باقی سارے گلاب اسی کو حسرت سے تک رہے ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتے، ان کا بس نہیں چلتا کہ اسے اٹھالیں اسے پھر اپنے ساتھ گچھے میں ملالیں۔
میں اس تصویر کو بہت چھوٹی عمر سے دیکھتی آئی تھی—— اسی کے نیچے آتش دان تھا اور اس کے اور آتش دان کے بیچ پتھر—— وہ سنگ مرمر کا پتلا سا پتھر جس پر کئی عزیزوں کی تصویریں تھیں، آتش دان میں جاڑے ہوتے تو لکڑیوں کی چٹختی چنگاریاں اڑاتی آگ سلگا کرتی تھیں اور ابا مرحوم کبھی کبھی وہاں بیٹھ کر ہم لوگوں کو میر انیسؔ کا کلام سنایا کرتے تھے۔ جب آگ کے شعلے لپکتے تو ان کی لہک اس زرد گلاب پر پڑتی، جب روشنیاں گل ہو جاتیں تو بھی وہ زرد گلاب اندھیرے میں دکھائی دیا کرتا اور صبح تڑکے جب سورج کی پہلی کرن روشن دان سے جھانکتی تو ذرا دیر کو اس گلاب میں جان سی پڑ جایا کرتی۔
گھر میں سب سے زیادہ چہل پہل اسی کمرے میں ہوتی تھی، خاندان بھر کسی موقع پر اکھٹا ہوتا، پارٹیاں ہوتیں، شعر گائے جاتے، لطیفے سنائے جاتے۔ کبھی کبھی جب بڑے نہ ہوتے تو ہم بچے دروازے، کھڑکیاں، روشنیاں بند کر تکیہ فائٹ اور ڈارک روم کھیلتے۔ ایسے میں کبھی کبھار میری نظر ایک دم اس گلاب پر جا پڑتی اور میں کھیلتے کھیلتے ٹھٹک کر رک جاتی—— کیسے یہ سب سے الگ ہو گیا؟ کیا اچھا ہوتا جو یہ بھی پھول دان میں لگا رہتا، اس میں سب رنگوں کے گلاب ہیں، یہی نہیں ہے اس کو کوبں نہیں لگا دیا—— شاید لگا تو رہا ہی ہو گا مگر ٹوٹ کر گر گیا—— کیسے ٹوٹا ہوگا؟
مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں نے چپکے سے اس زرد گلاب کو چھونے کی کوشش بھی کی تھی، ایک چھوٹی سی میز کھسکا کے اس پر کرسی رکھ کے میں اس پر چڑھی، ہاتھ بڑھا کر میں نے اسے چھوا، پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ ٹھنڈا ٹھنڈا ہے اور بس، قریب سے دیکھنے میں وہ اتنا دل کش بھی نہیں لگتا تھا جتنا دور سے، بس ایک زرد رنگ کا کھردرا سا دھبہ لگتا تھا۔
پھر ایک دن ناشتہ کرتے میں میں نے امی سے پوچھا تھا، ’’امی، یہ تصویر کس نے بنائی تھی۔‘‘ میری امی بہت کم سخن تھیں—— چپ رہیں!
ابا نے ایک بار ان کی طرف دیکھا، پھر میری طرف دیکھا اور بولے، ’’بیٹی، یہ تمہارے ماموں نے بنائی تھی۔‘‘
’’کون، باقرماموں نے؟‘‘
’’نہیں—— تم نے اپنے ان ماموں کو نہیں دیکھا، وہ تصویریں بناتے تھے اور بیمار رہتے تھے، یہ تصویر انھوں نے تمہاری امی کو تحفہ دی تھی، وہ تمہاری امی کے چچا زاد بھائی تھے۔‘‘
’’مگر ابا یہ تصویر مجھے اچھی نہیں لگتی۔‘‘ میں نے کہا۔
امی نے چونک کر میری طرف دیکھا۔ ’’کیوں جان بیٹی، تجھے کیوں نہیں اچھی لگتی؟‘‘
’’امی یہ ماموں نے اس زرد گلاب کو گچھے سے نکال کر نیچے کیوں پھینک دیا ہے؟ وہاں کیوں نہیں لگایا، پھولدان میں؟ ابا یہ ایک کیسے ان سب گلابوں سے الگ ہو گیا؟‘‘
ابا کھڑے ہو گئے، انھوں نے ایک بار مڑ کر تصویر کو دیکھا، پھر امی کو، وہ چپ چاپ سر جھکائے بیٹھی تھیں، پھر ابا نے مجھے پیار کیا اور کالج چلے گئے۔
میں کرسی پر بیٹھی دلیہ کھاتے کھاتے اسے دیکھتی رہی۔
شفق کا پس منظر، روشنی پر بڑھتا اندھیرا، ہرے پلش کا میزپوش جیسے تازی قبر پراگی ہوئی چمک دار مخملی گھاس، اس پر دمکتے کٹ گلاس کا پھول دان، رنگ برنگے گلابوں کا گچھا—— اور سب سے الگ، سب سے دور، سب سے بچھڑا، مرجھاتا ہوا—— وہ ایک زرد گلاب!
پھر وقت قطرہ قطرہ کر کے ٹکتا رہا—— اور وہاں آ کر تھم گیا جہاں مجھے تار ملا کہ امی کا انتقال ہو گیا۔ وہ چند ہی دن بیمار رہی تھیں اور انھوں نے مجھ کو آنے کے لیے بھی منع لکھوا دیا تھا کہ چھوٹے چھوٹے دو بچوں کو لے کر کہاں اتنی دور کا سفر کرے گی، میں اچھی ہو جاؤں گی تو خود ہی جاؤں گی—— اس لیے میں اس وقت پہنچی جب کہ ایک ستون کے گرنے سے ساری عمارت کھنڈر ہو چکی تھی، گھر میں صرف ایک فرد کم ہوا تھا مگر وہ گھر کی ساری رونق اپنے ساتھ لے گیا تھا۔
میرے ابا نے ان کی ہدایت کے مطابق ان کے کمرے کی کنجی مجھے دی، ’’لو بیٹی ، غالباً ہر چیز پر لکھا ہو گا کہ اسے کیا کیا جائے اس لیے تمہیں کوئی زحمت نہ ہوگی۔ یہ سب انتظام تمہاری ماں نے اس وقت کیا تھا جب وہ ایسی کچھ زیادہ بیمار بھی نہیں تھیں، پر غالباً ان کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ وہ بچیں گی نہیں۔‘‘
جب میں کنجی لے کر کھانے والے کمرے سے ہو کر امی کے کمرے میں جانے لگی تو میں نے دیکھا کہ وہ تصویر وہاں نہیں ہے، آتش دان خالی تھا۔ البتہ جتنی دور تک وہ ٹنگی رہتی وہاں کچھ مٹی اور جالے کی ہلکی سی لکیر اسی کے ناپ کے مطابق ایک چوکھٹا سا بناتی ہوئی کھنچی ہوئی تھی—— دل کو ایک دھچکا سا لگا— ایسا کوئی وقت یاد نہ تھا کہ جب وہاں وہ تصویر رہی نہ ہو۔ الٹے پاؤں ابا کے پاس برآمدے میں آئی، ’’ابا—— وہ گلابوں والی تصویر آپ نے آتش دان پر سے کیوں اتروادی؟‘‘
وہ بولے، ’’بیٹی—— وہ تمہاری امی نے خود اتروائی تھی، اپنے کمرے ہی میں اس کو بھی رکھوا گئی ہیں۔‘‘
میں نے امی کا کمرہ کھولا——
اپنے کسی مرے ہوئے پیارے کی چیزیں سنگوانے سے زیادہ سوہان روح کوئی دوسرا فرض نہیں، کبھی ان چیزوں پر پیار آتا ہے کہ اس کی تھیں، کبھی ان سے نفرت محسوس ہوتی ہے کہ اس سے وفا نہ کی تو کس سے کریں گی۔ ایک ایک چیز کے ساتھ یادوں کا ایک طوفان سا اٹھتا چلا آتا ہے کہ اس کی تھیں، کبھی ان سے نفرت محسوس ہوتی ہے کہ اس سے وفا نہ کی تو کس سے کریں گی۔ ایک ایک چیز کے ساتھ یادوں کا ایک طوفان سا اٹھتا چلا آتا تھا کہ—— کب خریدی تھی، کہاں خریدی تھی، کتنے شوق سے لی تھی، گھر پر لا کر کس چاؤ سے خوش ہو ہو کر سب کو دکھائی تھی—— یہ فلاں نے دی تھی، سالگرہ پر، نئے سال پر، عید پر، شادی کی سالگرہ پر—— ہر چیز پر چٹ لگی تھی—— کس کو دی جائے، کب دی جائے، کیوں دی جائے، پلنگ پر جو بستر، ریشمی لحاف اور دولائی تھی اس تک کے متعلق ہدایت تھی—— پورے کمرے میں اگر اور لوبان کی خوشبو بسی تھی جس سے کچھ پر اسرار سا روحانی ماحول بھی تھا، کچھ گھٹن سی بھی تھی کہ جس سے جی گھبراتا تھا۔
سب سامان دیکھ کر میں کمرہ بند کرنے کے لیے الٹے پاؤں دروازہ کے پاس کھسکی تو میری کہنی اس دیوار سے ٹکرائی—— کواڑ کے پاس والی دیوار سے ہی ٹکی ہوئی وہ زمین پر رکھی وہ اور بھی زیادہ بڑی لگ رہی تھی، اس پر باریک بادامی کاغذ لپٹا ہوا تھا جو ستلی سے بندھا تھا۔
ایک دم میرا دل چاہا کہ اسے دیکھوں، برسوں امی کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے وہ ہمیشہ سامنے لگی نظر آیا کرتی تھی، جب بھی میں میکے آتی تھی تو وہ آتش دان پر دکھائی دیتی، اکثر اس کے نیچے کھڑے ہو کر امی نے مجھ کو پہنچے، پر سینے سے لگایا تھا، جاتے وقت پیار کر کے خدا حافظ کہا تھا——— وہ تصویر جیسے امی کے وجود کا ایک حصہ تھی اسے دیکھے بغیر ایسا محسوس ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ میں امی کے گھر آئی ہوں۔
میں نے اس پر بندھی ستلی کھولی، پھر کاغذ ہٹایا، سنہری فریم کے ایک کونے میں جہاں پالش کافی ادھڑی ہوئی تھی، ایک چھوٹا سا پرزہ، تہہ کیا ہوا فریم اور تصویر کے ایک سرے کے بیچ میں اٹکا ہوا تھا—— میرا دل دھڑکنے لگا—— کہیں امی نے یہ تصویر بھی تو کسی کو دینے کی وصیت نہیں کر دی ہے، ان کی فیاضی سے کیا دور، کسی کو بخش گئی ہوں! لیکن یہ تو میرے سوا کوئی نہیں لے سکتا۔ میں یہ کسی کو نہیں دینے دوں گی—— ڈرتے ڈرتے میں نے تہہ کیا ہوا پرزہ نکالا، اس پر اوپری تہہ پر میرا نام لکھا تھا!
کانپتے ہاتھوں اور بہتے آنسوؤں کے ساتھ میں نے وہ پرزہ کھولا، آنسوؤں کی چلمن سے الفاظ دھند لے دھند لے دکھائی دے رہے تھے۔
لکھا تھا—— ’’زرینہ بیٹی—— تم نے ایک دفعہ مجھ سے پوچھا تھا کہ یہ زرد گلاب گچھے سے الگ کیسے ہو گیا۔ اس وقت تم بہت ننھی سی تھیں، میں تم سے کیا بتاتی—— اور پھر بہت سی باتیں انسان کبھی اپنی زبان پر لا نہیں سکتا، اپنی اولاد سے بھی نہیں کہہ سکتا۔ پر وقت آج تمہیں یہ سمجھائے گا کہ کوئی کس مجبوری اور بے بسی کے ساتھ اپنے پیاروں سے الگ ہوتا ہے۔ کوئی بھی پھول گچھے کو چھوڑنا نہیں چاہتا، مگر اسے چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ تصویر مجھے اپنی سب چیزوں سے زیادہ پیاری ہے۔ اس لیے یہ تمہارے واسطے ہے، میرا تو اب کوئی گھر نہ ہوگا مگر خدا تمہارے گھر کو سلامت رکھے۔ اسے اپنے کھانے کے کمرے میں آتش دان پر لگانا اور اس سے سدا پیار کرنا۔
——تمہاری امی
ہاں تو یہ وہی تصویر ہے، شفق کا پس منظر، روشنی پر بڑھتا اندھیرا، ہرے پلش کا میزپوش، جیسے تازی قبر پر اگی ہوئی چمک دار مخملی گھاس، اس پر دمکتے کٹ گلاس کا پھول دان، رنگ برنگے گلابوں کا گچھا—— اور سب سے الگ، سب سے دور، سب سے بچھڑا، مرجھاتا ہوا—— وہ ایک زرد گلاب!