
شاہ موش (افسانے) صائمہ ارم ۔۔ تاثرات۔۔ راشد جاوید احمد
شاہ موش اور دوسری کہانیاں
افسانہ نگار ۔۔ صائمہ ارم
تاثرات ۔۔ راشد جاوید احمد
ڈائری کی ضخامت کا سا یہ افسانوی مجموعہ کچھ برس قبل شائع ہوا تھا، لیکن یہ میرے مطالعے کے لیے حال ہی میں دستیاب ہوا۔ اس میں کل چھ افسانے شامل ہیں
شاہ موش۔
لب گور۔
داغ دار۔
چھوٹی پہلوان۔
صرف ایک سگریٹ
دینو بابا۔
یہ تمام افسانے معاشرے کے نچلے اور متوسط طبقے کی معاشی کشمکش، اخلاقی پستی، انسانیت کی بے حسی، رشتوں کی کمزوری، اور غربت کے پیدا کردہ مسائل کو موضوع بناتے ہیں۔ مثال کے طور پر، “جیدے” کا “شیدے” کو قبرستان میں چھوڑ دینا، معاشرتی بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط کی ایک علامت ہے۔ صائمہ ارم کے تخلیق کردہ کردار ہمارے اردگرد ہی موجود ہیں—ایسے کردار جن کی ذہنی کیفیات دگرگوں ہیں، جو حقیقت اور وہم میں تمیز نہیں کر پاتے۔ ان افسانوں میں بیوروکریسی، طاقت کی ہوس، اور کرپشن جیسی تلخ سچائیاں بھی نمایاں ہیں
“شاہ پوش” میں طبقاتی تفاوت اور رشتوں کی دراڑیں سماجی ناہمواری کی عکاس ہیں۔ کردار کا ماضی اس کے حال پر غالب آ جاتا ہے، جس سے اس کی ذہنی حالت مزید ابتر ہو جاتی ہے۔ خوف اور وہم اس کے زوال کی نشانیاں ہیں۔ ” داغ دار “میں جدید شہری خاتون کی نفسیاتی اور سماجی کشمکش کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا ہے، جہاں وہ تنہائی، سماجی دباؤ، اور داخلی بے چینی کا شکار ہے۔ یہ کردار اپنی آزادی اور معاشرے کے دقیانوسی تصورات کے درمیان پِسا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ” دینو با با” میں ایک غیر مسلم کا مسلم اکثریتی معاشرے میں شناخت کا بحران دکھایا گیا ہے، جہاں ” رفعت ” جیسی کردار سماجی دباؤ کے باعث اس نوجوان کی حمایت نہیں کر پاتی، حالانکہ دل سے وہ اس سے ہمدردی رکھتی ہے۔
کردار نگاری اور اسلوب
افسانوں میں کردار نگاری پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ کہیں سادہ دل مظلوم، کہیں محنت کش، تو کہیں اقلیتی ہونے کے باعث سماجی دھکم پیل کا شکار کردار نظر آتے ہیں۔ ” بڑے بھیا ” جیسے مذہبی شدت پسند بھی ہیں، جو عوام کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ بعض کرداروں کے مکالمے میں تسلسل کی کمی ان کی ذہنی گھٹن کو اجاگر کرتی ہے۔ نفسیاتی پیچیدگیوں، سیاسی و سماجی شعور، اور علامتی اسلوب نے ان افسانوں کو منفرد بنا دیا ہے۔ تاہم، کہیں کہیں بیانیہ غیر ضروری طوالت کا شکار ہو جاتا ہے، جس سے قاری کی توجہ منتشر ہو سکتی ہے۔ بعض مقامات پر واقعات کی پیچیدگی اور اختتام کی غیر واضحیت بھی محسوس ہوتی ہے۔
زبان اور اثر انگیزی
افسانوں کی زبان سادہ، پراثر اور مقامی رنگ لیے ہوئے ہے۔ مکالموں اور بیانیے میں مخصوص لہجے اور محاوروں کا استعمال قاری کو حقیقت کے قریب لاتا ہے۔ ” قبرستان”، ” تانگہ”، ” آگ کا واقعہ”۔ ” گاڑی”، “گرم پانی کا غسل”، ” داغدار قمیص’ اور ” فقیر” جیسے علامتی استعارے کہانیوں کو گہرا تاثر عطا کرتے ہیں۔ یہ افسانے معاشرتی حقائق، خاص طور پر غربت کے زیرِ اثر انسانی اخلاقی گراوٹ کو بے نقاب کرتے ہیں۔ “اکبر، شیدا، جیدا، استانی جی، شوکت ملک” جیسے کردار اپنی تمام تر انسانی کمزوریوں اور خوبیوں کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ مذہبی منافقت، دولت مندوں کی خود غرضی، غریبوں کی مجبوریاں، جنسی تفریق، معاشی ناانصافی اور فرقہ وارانہ تشدد پر گہری تنقید بھی موجود ہے۔
اگرچہ یہ افسانے جدید فکشن کا حصہ نظر تو آتے ہیں، لیکن کہیں کہیں واقعات اور کرداروں کا تسلسل ٹوٹتا محسوس ہوتا ہے۔ بعض فیصلوں کے پیچھے جذباتی یا معاشی محرکات کو گہرائی سے نہیں دکھایا گیا۔ ” دینو با با ” کا مبہم اختتام قاری کو تشنگی کا احساس دلاتا ہے۔ اسی طرح “گاڑی دھونے کے واقعے” کی طوالت اور “فقیر کے ساتھ مکالمے” کی غیر واضحیت فنی خامیوں کا سبب بنتی ہیں۔
یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ “شاہ موش” کے عنوان سے فاطمہ ثریا بجیا کی ایک بچوں کی کہانی بھی موجود ہے، جو ایک اتفاقی مماثلت ہے۔
مجموعی طور پر، یہ افسانے معاشرتی شعور بیدار کرنے اور فنکارانہ انداز میں انسانی المیوں کو پیش کرنے میں کامیاب ہیں، البتہ کہیں کہیں فنی چابکدستی میں مزید نکھار کی گنجائش موجود ہے۔