گلوریا جینز ۔۔۔ سعدیہ بتول

گلوریا جینز

( سعدیہ بتول )

” پھر کیا سوچا تم نے ؟ “

” ہوں ۔۔۔ سوچوں گی۔ “

 “مجھے ڈر لگتا ہے۔ تم سوچ چکی ہو لیکن اعتراف کرنے سے ڈر رہی ہو۔ تمہیں شاید اندازہ ہی نہیں ہے کہ تمہارا فیصلہ تمہاری آنکھوں میں بہت واضح ہے۔ تم جتنا چھپا رہی ہو وہ اپنے ہونے کا اتنا ہی پتا دے رہا ہے۔ “

” کیا کروں میرے اندر کی کشمکش لگتا ہے مجھے ختم کر دے گی۔ “اس لمحے وہ بھہت بے بس دکھائی دے رہی تھی۔

” اگر تم ایک بار سچائی کا اقرار کر لو تو ساری بے چینی اور یہ خود ساختہ خوف سمٹ جایئں گے۔ “

” بھلا میری عمر اب ان باتوں کی ہے’ آبگینے نے کافی کا گھونٹ لےذوہیب کی جانب پر سوچ انداز سے دیکھا۔

” تم یہ سوچنے کی بجائے یہ سوچو کہ جوانی سے زیادہ تنہائی بڑھاپے میں ہے۔ کیا تمہیں اکیلے پن سے ڈر نہیں لگتا ؟ ‘

” ڈرنے ہی تو لگی ہوں اپنے آپ سے، لوگوں سے، ہر آہٹ سے۔ کالج سے گھر جاتی ہوں تو گھر کی وحشت اور ویرانی میرے گرد ایک جال سا بن دیتی ہے جس سے تمام رات میں الجھتی رہتی ہوں اور خود کو چھڑانے کے جتن کرتی ہوں۔ میری چیخین اور گھٹی ہوئی سسکیاں میرے من کی دیواروں سے ٹکرا کر گونجتی ہیں۔ میرے خواب شیشے کے فانوس کی مانند یکدم روشن ہوتے ہیں اور میرے قدموں میں گر کر پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی کرچیوں سے خود ہی لہو لہان ہوتی رہتی ہوں۔ “

” میں تمہاری کیفیت سمجھ سکتا ہوں۔ میں بھی تو ایسے ہی کرب سے گزر رہا ہوں۔ کیا میں نہیں جانتا تنہائی کا کرب کیا ہوتا ہے ؟۔ خود ہی روٹھنا پھر خود ہی منانا، لوگوں کے طنزیہ چرکوں سے زخمی دل پر از خود پاہا رکھنا، من کی اداسی کو مصنوعی مسکراہٹ کی تہوں میں چھپانا، کس قدر دشوار ہے یہسب، مجھ سے بہتر بھلا کون جان سکتا ہے۔ ” اعتراف کی اس گھڑی میں اس کی رندھی ہوئی آواز اس کے جملوں پر سچائی کی مہر ثبت کر رہی رھی۔

” خاموشی میں کس قدر شور ہوتا ہے۔  ۔۔۔۔۔  ہے نا ذوہیب ؟ کبھی تم نے خاموشی کا شور سنا ہے ؟ ” آبگینے کی گہری سوچ میں ڈوبی اواز ابھری۔

” ہان جیسے سمندر کی سطح بظاہر پر سکون اور ساکن نظر آتی ہے لیکن اس کی تہوں مین چھپے طوفان اسے اندر ہی اندر چیر رہے ہوتے ہیں با لکل ایسے ہی خاموش دکھائی دینے والا وجود اپنے اندر کے طوفانوں سے بر سر پیکار ہوتا ہے۔ اندر سے اٹھنے والی آوازیں ، کچوکے اور قہقہے بہت ہولناک ہوتے ہیں۔ باہر اگر شور ہو تو ہم جگہ بدل لیتے ہیں لیکن آبگینے ! اس تلاطم سے کوئی کہاں بھاگے ؟ کوئی راہ فرار بھی تو نہیں۔ ” اس کی لہجے میں پسپائی تھی۔

” تم ٹھیک کہتے ہو، باہر کی جنگ سے زیادہ اندر کی جنگ ہولناک اور گھائل کر دینے والی ہوتی ہے۔ میں خود لفظوں کے گھوڑے بنا کر دوڑاتی رہتی ہو۔ ان کی ٹاپوں کی آواز،  لگتا ہے ، میرے اعصاب شل کر دے گی۔ گزری ہوئی یادیں مجھے اس قدر ماضی کے گرحوں میں کھینچ لیتی ہیں کہ اپنے حال سے بے خبر ہو جاتی ہوں۔ عجیب سی وحشت ہونے لگتی ہے جیسے چھت پر لگا پنکھا ابھی میرے اوپر گر پڑے گا۔ کبھی لگتا ہے الماری سے کوئی سانپ یا بچھو نکل کر مجھے ڈس لے گا۔ کبھی گہری نیند سے چونک کر اٹھ جاتی ہون اور مجھے لگتا ہے چھت پر کوئی دھم سے کودا ہے اور کھیڑیاں پہنے سیڑھیوں سے اترتا چلا آ رہا ہے۔اب تم ہی بتاو کوئی فرق ہے بھلا مجھ میں اور کسی نفسیاتی مریضہ میں ؟ ” اس کی آنکھوں میں اداسی گہرہ ہونے لگی۔

” ایسا مت کہو۔ تمہارے پاس اب بھی ایسا بہت کچھ ہے جس پر تم فخر کر سکو۔ “

” میں نے کب انکار کیا ہے۔ ہاں میرے پاس فخر کرنے کے لیے واقعی بہت کچھ ہے۔ ” اس کا لہجہ استہزایئہ تھا۔ ” میرے باپ گل زمان خان کا نام جس کے سبب میری شادی نہ ہو سکی کیونکہ ان کے برابر خاندان اور جایئداد والا موجود نہیں تھا اور وہ اپنے سے کم حیثیت کو اپنے برابر بٹھانے کا حوصلہ نہ رکھتے تھے۔ میری ماں کے خاندانی زیورات جن میں اصلی موتی جڑے ہیں لیکن میں انہیں کبھی نہ پہن سکی۔ بھلا بن بیاہی لڑکیان بھی کبھی اتنے بھاری زیور پہنتی ہیں ۔ میری اتنی پرانی حویلی جو آسیب زدہ ہونے کے باعث آثار قدیمہ میں شمار ہونے لگی ہے اور بہت سی آرائشی اشیا ء جو اب انٹیک کے درجے پر فائز ہیں۔ حویلی کے ڈرایئنگ روم میں لگی ایک بندوق ہی کئی لاکھ کی ہے لیکن میرے کس کام کی ؟ ہنہ، تم جانتے ہو میں نے حویلی کیوں چھوڑی؟ بولتے بولتے اس نے چونک کر پوچھا

” نہیں میں نہیں جانتا۔ “

” مجھے یوں لگتا تھا جیسے میں بھی ایک اینٹیک بن چکی ہوں۔ ایک بے جان اور ساکت شئے۔ مجھے اس خوف نے آن گھیرا تھا کہ لوگ کسی قیمتی شئے کی مانند مجھے کسی قید خانے میں نہ چھپا دیں یا پھر میری دولت ہتھیانے کے لیے میری جان نہ لے لیں۔ اسی لیے ایک چھوٹا سا گھر لے کر رہ رہی ہوں، صرف اسی بہانے کہ لوگ مجھے انسان سمجھیں، کسی کام کے لیے ہی سہی، کوئی مجھے پکارے تو سہی، زندہ انسانوں سے میرا کوئی رابطہ تو ہو۔”

” تمہارے رشتہ دار وغیرہ۔۔۔؟ “

” کسی کو مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں وہ سب ہڈی کے بھوکے ہیں اور مجھے کتے پالنے کا شوق نہیں۔ “

کچھ توقف کے بعد ذوہیب بولا، ” میرے بارے میں تو تم جانتی ہی ہو جب ان کا انتقال ہوا تو میں کالج میں پڑھتا تھا۔ پھر ایک ٹیچر کے طور پر کیریئر کا آغاز کیا ۔ گھر کا کرایہ ، چھوٹی بہنوں کی تعلیم اور شادیاں، سب نپٹاتے نپٹاتے بال سفید ہو گئے۔ ساری جوانی غربت اور ذمہ داریوں سے لڑتے لڑتے تمام ہو گئی۔ اب معقول پنشن ہے، گھر بھی ہے گاڑی بھی ہے، دکانوں کا کرایہ بھی آ جاتا ہے۔ ہر چیز ہے بس میں وہ نہیں رہا۔ ”

” تمہاری بہنیں اور ان کے بچے تم سے ملنے آتے ہیں ؟۔”

” بہت کم۔ اگر آیئں بھی تو اپنے کسی کام یا مطالبے کے لیے آتے ہیں۔ ان کے خیال میں میری زندگی بہت مکمل اور آسودہ ہے۔ وہ صرف ظاہری ٹھاٹ کو دیکھتے ہین۔ انہیں میرے دل میں جھانکنے کی فرصت نہیں۔ میں ان کے لیے بلینک چیک ہوں جس سے کبھی بھی حسب ضرورت رقم نکال سکتے ہیں۔ “

” میں سوچ رہی ہوں کہ اب تو دن کالج میں اور شام اس کیفے میں گزر جاتی ہے، چند سال بعد جب ریٹائر ہو جاوں گی تو وقت کیسے کٹے گا ؟ ‘

” آبگینے ! کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم دونوں اپنیا تنہایئاں بانٹ لین۔ جن لوگوں کو ہماری پرواہ نہیں ہم بھی ان کی رواہ کرنا چھوڑ دین۔ کاروبار اور مادی اغراض سے ہٹ کر کوئی تعلق قائم کر سکیں؟ ” ذوہیب نے کافی کا مگ میز پر رکھتے ہوئے سوالیہ نگاہیں آبگینے کے چہرے پر ٹکا دین۔’

” شاید تم تھیک کہہ رہے ہو۔”

” میں یقیننا ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ “

” تو اس کا مطلب ہے، کل سے میری کافی کا بل تم دوگے ؟ ‘

” اور کل سے ہم دونوں، دو کی بجائے ایک گاڑی مین آیئں گے۔ یار اس کیفے کی پرکنگ بہت ہی چھوٹی ہے۔ “

گلوریا جینز سے نکلتے ہوئے دونوں با لکل خاموش تھے لیکن اس خاموشی میں اک نئی گنگناہٹ سرایت کر گئی تھی۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930