آو پیار کریں ۔۔۔ صبا ممتاز بانو
آو پیار کریں
( صبا ممتاز بانو )
وہ چوہدری صاحب کی رہنمائی میں ایک کھلے بازار سے گزرنے کے بعد نسبتًاایک تنگ گلی میں داخل ہو چکی تھی۔ یہ راستہ اس کے لیے اجنبی نہیں تھا۔ اس کااس راستے سے کئی بار گزرنا ہوتا تھا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس پلازے کے تہہ خانے میں پرانی کتابوں کا اتنا بڑا گودام ہو گا۔
کئی با رگزرتے ہوئے اس کی نگاہ پڑتی تو تھی لیکن چھوٹی چھوٹی پرنٹنگ مشینوں کی دکانوں نے پرانی کتابوں کے اس ذخیرے کو اپنے دامن میں اس طرح چھپا رکھا تھا کہ اس کا صرف سر ہی نظر آتا تھا جس پر لکھا تھا۔”آ کاش بک سنٹر۔“ دھڑ تو دکھتا ہی نہیں تھا۔ا س لیے وہ اس گودام کی موجودگی سے بے خبر ہی رہی تھی حالانکہ اولڈ بک سنٹر سے اس کا واسطہ کبھی کبھار پڑ جاتا تھا۔
ایک دفعہ اسے کوئی کتاب چاہیے تھی۔اس نے نئی کتاب کی بجائے پرانی خریدنے کو ترجیح دی ۔ابھی اولڈ بک سٹالز کے پاس پہنچ بھی نہیں پائی تھی کہ متعدد آوازوں نے اسے جکڑ لیا۔ وہ سب اسے پرانی کتابوں کی تگڑی خریدار سمجھ کر پرکشش نعرے لگا رہے تھے۔سب کی کوشش تھی کہ وہ اسے اپنی طرف کھنچنے میں کامیاب ہو جائیں۔
وہ ایک سیلز مین کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی، اسے اپنا مدعا بیان کیا۔ اس نے اس کے ہاتھ میں پکڑی چٹ پکڑی او ریہ جا، وہ جا۔
”باجی، میں ابھی یہ کتا ب لے کر آیا۔ آپ یہیں کھڑے رہیں۔“ وہ جاتے جاتے اسے ہدایت کر رہا تھا۔
”اگر یہاں کتاب نہیں تو رہنے دو۔ میں کسی اور سٹال سے لے لوں گی۔“ اسے انتظار کرنے میں تامل تھا۔ سو اس نے تاویل گھڑی۔
”آپ فکر نہ کریں۔ میں دو منٹ میں آیا۔“ اس نے اسے تسلی دی اور چھلاوے کی طرح غائب ہو گیا۔
ایک منٹ، دو منٹ، تین منٹ، وہ تنگ آکر جانے ہی والی تھی کہ وہ اس کے سامنے آکھڑا ہوا۔اس کے ہاتھ میں اس کی مطلوبہ کتابیں تھیں۔ یہ تھا اس کا اولڈ بک سٹال سے پہلا تعارف۔ آج پھر اسے کچھ کتب کی ضرورت تھی۔وہ رکشے سے اتری تو رستے میں داتا صاحب سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ ان کو سڑک کنارے کھڑے کھڑے اپنا ہدیہ عقیدت پیش کیا اور قبولیت اور عدم قبو لیت کی سوچ سے بے نیاز ہو کر گامے شاہ کی طرف چل پڑی۔سڑک پار کی تو سامنے ہی اردو بازار تھا۔
وہ سیدھا چوہدری اکیڈمی پہنچ گئی۔ بہت سی نامور اور کلاسک کتب کی اشاعت کا سہراپبلشر چوھدری برکت علی اور ان کے سپوت چوھدری خالد صاحب کے سر تھا۔ بابائے اردو کہلانے والے نخیف سے چوہدری خالد صاحب اب اپنی عمر کی آخری سیڑھی پر کھڑے تھے۔ان کے بیٹوں کو ادب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ دکان اپنے آخری مکین کے ساتھ ٹھنڈی آہیں بھرتی رہتی تھی۔ بابائے اردو ان آہوں سے بے نیاز ہو کر سب کا دکھ سکھ بانٹتے رہتے تھے۔اس دکان میں ان کی چہلوں سے زندگی تھی۔
اسے یادپڑتا تھا کہ یہ چند سال قبل کی بات تھی کہ جب اس نے اردو بازارمیں کچھ عرصے کے لیے ملازمت شروع کی تھی۔ روز کے آنے جانے سے ایک مصنفہ کے طور پر اس کا تعارف دکانداروں میں بڑھا۔پھر جانے یہ کس ساعتِ مبارک کی معراج تھی کہ اسے انبیا ء کی میراث مالِ مفت کی طرح ملنے لگی۔ سارا اردو بازار اس کا اپنا ہو گیا۔ وہ جہاں سے چاہتی، کتاب اٹھا لیتی۔ پڑھتی تو واپس کر آتی۔ سب مسکرا کر اس کے ہاتھوں میں کتاب دے دیتے تھے اور بغیر ماتھے پر بل ڈالے اس سے واپس لے لیتے تھے۔کئی دفعہ تو کتاب اسے تحفتہ ً مل جاتی تھی۔ دوستوں سے کتاب لینے کے لیے پیسے ادا نہیں کیے جاتے۔یہ اصول اسے اچھی طرح ازبر کرادیا گیا تھا۔اردو بازار نے اس کے شوق کا بوجھ اٹھا لیاتھا۔
پھرحوادثِ زمانہ کے ہاتھوں ملازمت چلی گئی لیکن شناسائی رہہ گئی۔ آج وہ کورس کی کتابیں خریدنے کے لیے آئی تھی۔
چوہدری صاحب کی معیت میں ایک طویل سنسان راہ گزر سے گزرنے کے بعد جب وہ احاطہ شاہدریاں میں واقع تہہ خانے میں اس پرانی کتابوں کے ذخیرے میں پہنچی تو اسے یہ کوئی جادو نگری ہی لگی۔
”اچھا تو یہ ہے وہ ”آکاش بک سنٹر “ جہاں سے لڑکے کتابیں لینے آتے ہیں اور ان کے گاہک باہر سڑک پر ان کا نتظار کرتے ہیں۔ کتنے گم شدہ لوگ ہیں ہم بھی۔ یہاں آنے جانے کے باوجوداتنے بڑے بڑے گودام ہماری نگاہوں سے چھپے رہتے ہیں“۔
دکاندار مصروف تھا۔ گول چہرے،تیکھے نقوش، موٹی آنکھوں اور گھنی مونچھوں والے لڑکے آکاش نے ان کا ہنس کر استقبال کیا۔ وہ دونوں اب دکان میں رکھے واحد سٹول پر بیٹھ چکے تھے۔چوہدری صاحب نے اسے ہرممکن رعایت کا کہا۔ جونہی اس نے تابع داری کا عندیہ دیا ۔ چوہدری صاحب اسے منزل قصود پر چھوڑ کر چلے گئے۔وہ چپ چاپ دیکھنے لگی۔
لوگ علم کے خزانے کی کنجی کے پاس آرہے تھے۔ جو جس کتاب سے ہم کلام ہو نا چاہتا تھا۔ اسے ساتھ لے جاتاتھا۔ نہ جانے کتنی ہی کتابیں یہاں ایسی تھیں جو برسوں سے خاموشی کا جوگ پالے بیٹھی تھیں اور سراپا انتظا ر تھیں کہ کوئی آئے اوران سے بھی باتیں کرے۔
دکان میں اکا دکا گاہک آجارہے تھے۔ گاہک آتے تو وہ ان کی طرف متوجہ ہوجاتا۔ وہ چلے جاتے تو وہ اس کو دیکھنے لگ جاتا۔
” آپ ناول پڑھتی ہیں جی۔“ ایک سوال اس کی زبان پر آہی گیا۔
”ہاں، ناول پڑھ لیتی ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔
” اچھا۔ کس قسم کے۔“ وہ جاننا چاہتا تھا۔ اس نے اس کے اس سوال کو سمجھتے ہوئے فورا جواب دیا۔ ”۔ میں سماجی، تاریخی اور ادبی ناول پڑھتی ہوں۔“
” آپ رومانٹک ناول نہیں پڑھتیں۔“ اسے اس کے دو ٹوک جواب پر بہت مایوسی ہوئی تھی۔
” نہیں مجھے رومانٹک ناول اچھے نہیں لگتے۔“ اس نے کھرا کھر اسچ سنایا۔
”کیوں۔ وہ تو بہت اچھے ہوتے ہیں جی۔“ اس نے اسے محبت کی اہمیت کا احساس دلانے کی کوشش کی۔
”بس مجھے اچھے نہیں لگتے۔“ اس نے اپنا دھیان پکارتی ہوئی کتابوں کی طرف لگادیا۔
” آپ کیا کرتی ہیں جی۔۔“ اس کے لہجے میں اشتیاق تھا۔
” میں جاب کرتی ہوں۔“ اس نے جواب دیا۔
” کہاں۔“ یہ سوال تو لازمی تھا۔
”میں ایک چینل پررائٹر ہوں۔“ میں نے اسے تولتی ہوئی نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔
ابھی وہ مزید اس سے بہت کچھ پوچھنے کے موڈ میں تھا لیکن گاہک آگئے۔ وہ فوراان کی طرف لپک گیا۔اسے اس کے پروفیشنل انداز نے بہت متاثر کیا۔وہ بھی علم نگری کی سیر کرنے لگی۔
کتابوں کاایک جہاں آباد تھا۔ اِدھر بھی کتابیں، اُدھر بھی کتابیں، مگر اس کے مطلب کی کتابیں بہت کم تھیں۔
زیادہ کتابیں نصاب کی تھیں۔ علمی ادبی اور تحقیقی کتابوں کا قحط تھا۔ وہ خاموشی سے آکر دوبارہ سٹول پر بیٹھ گئی۔ ابھی لڑکا اس کی مطلوبہ کتب لے کر نہیں آیا تھا۔ اسے انتظار تو کرنا تھا۔ اس نے موبائل پکڑا اور فیس بک پر مصروف ہو گئی ۔
اب دکان میں صرف وہ دونوں تھے ۔ وہ فیس بک کھولے پوسٹس پڑھ رہی تھی۔ وہ ایک دم کاونٹر سے جھک کر اس کے موبائل کو دیکھنے لگا۔
اس کے اندر کا تجسس اس کے چہرے پر عیاں تھا۔ وہ اس کے اند رکی چھپی ہوئی عورت کو جاننا چاہتا تھا۔ پہنچ کا پہلا پڑاؤ جاننے کی منزل پر ہی تو ہوتا ہے۔مرد جب کسی عورت تک پہنچنا چاہتا ہے تو پہلے اسے
جاننے کی کوشش کرتا ہے۔
اس نے اپنا کمنٹ لکھنا جاری رکھا۔ وہ لکھ رہی تھی اور وہ پڑھ رہا تھا۔ اپنی تلاش میں ناکام ہونے کے بعد وہ ایک شکست خوردہ مرد کی طرح دوبارہ اپنے کاونٹر کے پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔ لڑکا ابھی تک نہیں آیا تھا لیکن چائے والا ایک اچھی چائے کے ساتھ آگیا تھا۔ باتوں باتوں میں جب اس نے اسے بتایا کہ وہ خود بھی لکھتی ہے تو اس نے اس کے ناں ناں کرنے کے باوجوداس کے لیے چائے منگوا لی تھی۔ وہ تو اس کے لیے اردو بازار کے باہر توے پر پکنے والی گرما گرم فش بھی منگوانا چاہتا تھا لیکن اس کے منع کرنے پر وہ بازآگیا۔
ابھی ابھی تو وہ چوہدری صاحب کی دکان پر بیٹھ کر نان چنے کھا کر آئی تھی۔ اب پیٹ میں گنجائش ہی کہاں تھی ورنہ اردو بازار کے باہر لگنے والے مچھلی بازار کے اچھے ہونے کی گواہی تو خودا س کے پیٹ نے کئی بار دی تھی۔ یہ ذائقہ اسے نہ صدیق مچھلی والے کی مچھلی میں ملا تھا اور نہ بشیر مچھلی والے کی مچھلی میں۔
اس نے چائے کا سپ لیتے ہوئے اسے دوبارہ کتابوں کی یاد دہانی کرائی تو اس نے کہا کہ کتابوں کو تلاش کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ جتنا بھی وقت لگتا۔ بچوں کے لیے کتابیں تو خریدنا تھیں۔ یہ ماں راج نہیں، سکول راج تھا۔ اگر انہوں نے کہا تھا کہ یکم کو کتابوں کے ساتھ سکول آئیں تو پھرٹل ٹلاؤ کیسا۔
” یہ آپ کے بچوں کی کتابیں ہیں۔ ؟“ اب وہ اس کی ذات کے متعلق جاننا چاہتا تھا۔
”ہاں۔ ایک میری بھتیجی ہے اور دوسری میری بیٹی۔“ اس نے بادل نخواستہ جواب دیا۔
اس کا خیال تھا کہ اب وہ پوچھے گا کہ اس کے خاوند کیا کرتے ہیں مگر وہ خاموش رہا۔ اس نے کچھ دیر اس کے اس سوال کا انتظار کیا اور پھر دوبارہ اپنے موبائل کی طرف متو جہ ہوگئی۔ ایک سکوت سا کمرے میں چھایا ہوا تھا۔ بارش کی وجہ سے گاہک بہت کم تھے۔ اگر کوئی آتا بھی تھا تو وہ مین بازار کے سٹالز پر چلا جاتا تھا۔ یہاں تو اکا دکا خاص گاہک ہی آتے تھے۔ وہ اب بھی اس کے چہرے پر وہی سوال ڈوھنڈ رہی تھی جو وہ پوچھنا بھول گیا تھا۔
” آپ ایم اے راحت صاحب کو پڑھتی ہیں۔“ وہ ایک سوال پھر لے آیا تھا۔
” ہاں جب موڈ ہو تو۔ ان کا ناول کالا جادو مجھے بہت اچھا لگا تھا۔“
اس نے کمرے میں چھائے ملجگے اندھیرے کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔ ”رات کو یہ گودام کتنا ڈراؤنا ہو جاتا ہوگا۔ کتابوں پر تو پہلے ہی سایے ہوتے ہیں۔“
اس کی بات سن کروہ ایک ریک کی طرف بڑھا۔ اس کے اوپر والے خانے میں رکھی ہوئی ایک کتاب اٹھائی۔ اس پر سے گرد جھاڑی اور اس کے ہاتھوں میں ”ایم اے راحت کا ناول ”آؤ پیار کریں“ تھما دیا”۔اچھا تو انہوں نے رومانٹک ناول بھی لکھے تھے۔“اس نے ناول کو سرسری سا دیکھا اور دوبارہ کاونٹر پر رکھ دیا۔ وہ اسے اسی ریک میں رکھ آیا جہاں سے اٹھایا تھا۔
وہ کاونٹر پر پڑی کتاب ”سلاطین ِدہلی “پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔ اس نے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔”اپنا واٹس اپ نمبر دے دیجیے۔جب بھی کوئی اچھا ناول یا کتاب آئی میں آپ کو اس کی تصویر واٹس اپ کردیا کروں گا“۔
اس کا سوال اسے اچھا نہیں لگا لیکن وہ خاموش رہی۔ ابھی تو لڑکا اس کی مطلوبہ کتب بھی نہیں لایا تھا۔ اس نے اس کو نمبر لکھوا دیا۔ وہ بے تابی کے ساتھ اسی وقت اسے واٹس اپ پر سرچ کرنے لگا۔اتنے میں ایک سانولا سلونا سا لڑکا کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں اس کی تمام کتب تھیں۔ آکاش نے تمام کتابوں کا بل بنایا۔ اس نے پرس سے پیسے نکالے اور اس کی طرف بڑھا دئیے۔ اس نے کتابوں کو تھیلے میں ڈالا۔
ایک الوداعی نگاہ دکان کی طرف ڈالی۔ وہ گاہکوں کو کتابیں دکھانے میں مصروف تھا۔ اس نے اس کی طرف دیکھا تک نہیں۔ وہ مطمئن ہوگئی۔” میری سوچ غلط بھی تو ہو سکتی ہے۔ہر مرد ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی ہمیں کچھ اور دکھتا ہے مگر ہو تا کچھ اور ہے۔“
رات ہو نے سے پہلے ہی وہ کتابوں کی سلطنت سے دور نکل آئی تھی۔ اب پرہجوم راستے تھے اور تنہامسافر۔ گھر کی دہلیز پر رکھا سکون کادیا اس کی ہی راہ تک رہا تھا۔ وہ تھکن سے نڈھال بستر پر لیٹ گئی۔ اس نے فیس بک اوپن کی۔ کچھ وقت اسے دیا پھر واٹس اپ آن کیا۔ وہ چونک گئی۔لڑکے کی تصویر ہی نہیں، سٹیٹس بھی بدل چکا تھا۔”آکاش بک سنٹر‘‘ اب ” آؤ پیار کریں “ میں بدل چکا تھا۔