ملاقات ۔۔۔ صبا ممتاز بانو
ملاقات
صبا ممتاز بانو
یہ ایک خنک رو دن تھا ۔ فلک پر گھٹائیں مستیاں کررہی تھیں ۔ کالی سرمئی بدلیاں مجھے وادی کشمیر کے حسین نظارے یاد دلارہی تھیں جنہیں میں نے اپنے دل کے آنگن میں چھپا رکھا تھا ۔ جب دیکھنے کو من کرتا تو ایک جھانک سے جیسے سارا منظر میری نگاہوں کے سامنے کھڑا ہوجاتا ۔
میں جنت نظیر وادی میں گزارے لمحات کے سرور میں مدہوش تھی جب وہ میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا ۔ اس کی آمدکامجھے انتظار تھا ۔
وہ ایک مرد مجاہد تھا، صفِ اول کا مرد مجاہد ۔ دشمن اس کے خوف سے تھراتا تھا ۔ وہ اب تک کئی مورچوں پر کامیاب حملہ کرچکا تھا ۔ جونہی اسے اپنے اطلاعی یونٹ سے دشمن کی نقل و حرکت کی اطلاع ملتی ، وہ ان پر ٹوٹ پڑتا ۔ وہ اب تک کئی دشمنوں کو جہنم واصل کرچکا تھا ۔ ان تما م کمینہ خصلت لو گوں کو جن کی سرشت میں حرام زدگی کا خمیر تھا،جو نہتے لوگوں پر گولیوں کی برسات کرتے تھے، جو جنگ میں کسی اصول کے قائل نہ تھے ،جو بے کس اور مجبور لوگوں کی عورتوں کے پاک جسم سے اپنے گندے اجسام کی آگ بجھاتے تھے ۔ وہ ان سب کو ختم کردینا چاہتا تھا جنہوں نے اس کی دھرتی ماں کو چھلنی چھلنی کردیا تھا ۔ وہ جانتا تھا کہ اپنی ماں کو آزاد کرانا اکیلے اس کے بس کی بات نہیں لیکن وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے ۔ ایک ایک جوان کی شہادت تاریخ آزادی کو نیا خون فراہم کرتی ہے ۔ اسی لیے تو وہ لڑتا رہا ۔ برسوں دشمنوں سے برسر پیکار رہا اور عزت و ناموس اس کا مقدر بنی ۔
جب میں نے اسے پہلی بار دیکھا تھا تو وہ عمر رسیدہ تھا ۔ اب اس کے چہرے پر بڑھاپے کی تہیں تھیں ۔ میرے دل کو یہ دیکھ کر ٹھیس سی لگی ۔
’’کیا وہ اس غلام جنم کا آخری بوڑھا تھا ۔ ‘‘
اس کے چہرے سے اضطراب جھلک رہا تھا ۔ ’’ عدن بٹ ، یہ زندگی کی کہانی کب تک سینے میں لیے پھرو گے ۔ بتاڈالو ۔ دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا ۔ ‘‘
اس نے میر ی شہ پاتے ہی اپنے گلے کو کھنکار کر صاف کیا ۔
’’ میں ا س وطن کا بیٹا ہوں جہاں پرندوں کی چہچہاہٹ ، ہواءوں کی سرسراہٹ اور صاف رواں پانی کی گنگناہٹ ہے ۔ جہاں تازہ پھلوں کا رس معدے کوسب آلائشوں سے پاک کردیتا ہے ۔ جہاں پھولوں کی خوشبوسانسوں کو معطرکر دیتی ہے ۔ جہاں پہاڑوں پر برف کی ملکاءوں کا راج ہے ۔ جہاں شادابی چناروں کو رونق بخشے ہوئے ہے ۔ جہاں حور شمائل عورتیں ہیں جن کے چہرے کی شگفتگی دیکھ کر انسان کھوجاتا ہے ۔ جہاں بلند شرح تعلیم بچوں کی کتابوں سے محبت کا ثبوت ہے ۔ ‘‘
وہ اپنے وطن کی تعریف میں رطب اللسان تھا ۔ میں بھی اس کے ساتھ ساتھ پربتوں اور آبشاروں کی حسین وادی کشمیر میں پہنچ گئی تھی ۔
یہ آزاد کشمیر کا تفریحی دورہ تھاجس میں ہم نے تولی پیر ، راولا کوٹ اور چند دوسرے علاقوں کی سیر کی تھی ۔ تاحد نگاہ سبزہ ہی سبزہ اور فلک پوش پہاڑجن پر جمی ہو ئی برف نے میری تمام گم گشتہ یادوں کو اکھیڑ ڈالا تھا ۔ زمین پرسفید موٹی موٹی مرغیاں اپنے پر پھیلائے پاس سے گزرتیں تو من ان کو پکڑنے پر بیاکل ہو جاتا ۔ اونچے نیچے راستے ، گھومتے گھماتے پہاڑ اور ان کے درمیان تربیت یافتہ خچر وں کے قافلے ۔ جو ایسے ایسے راستوں سے گزرتے کہ انسان ڈرکر اپنی آنکھیں موند لے اور خود کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دے ۔
آزاد کشمیر کی سیر کرتے ہوئے ایک سوال میرے من میں کئی بار سمایا ۔ ’’ اگر یہ خطہ اتنا خوب صورت ہے تو وہ کتنا حسین ہو گا جس پر کالے دیویوں کا قبضہ ہے ۔ اس سوال کا جواب مجھے اپنے ساتھیوں سے یہی ملا ۔
کہ ’’یہ جنت کا صرف ایک ٹکڑا ہے ۔ پوری جنت تو ادھر ہے جو ہمارے پاس نہیں یا جدھر ہم نہیں ۔ ‘‘
اسی سفر کے دوران ایک پہاڑ پر گم صم بیٹھے عدن بٹ پر میری نگاہ پڑی تو میں نے شرارتاً اسے کہا ۔
’’ مسٹر گُم صم، تم تو ادھر کے ہی ہونا ۔ پھر کیا سوچ رہے ہو ۔ تم تو ان سب کے پاس ہو ۔ یہ وادیاں پربتوں کی شہزادیاں روز ہی تو تم ان سے باتیں کرتے ہوگے ۔ ‘‘
ہاں اس جنت وادی نظیر کا عدن بٹ مجھے اسی آزاد خطے میں ملا تھا جہاں گلاب روشیں قدم قدم پر کھلتی تھیں ۔ جہاں نیلگوں پہاڑ سرمئی آنچل کی طرح لگتے تھے اور میرا دل چاہتا تھا کہ میں یہ آنچل اپنے سر پر اوڑھ لوں ۔
میں خوش رنگ نظارے اپنی آنکھوں میں بسائے لاہور لوٹ آئی تھی لیکن جاتے جاتے میں عدن کو اپنا ایڈریس دینا نہیں بھولی تھی ۔ میں اس کی کہانی لکھنا چاہتی تھی ۔ مجھے یقین تھا کہ ایک دن جب وہ بہت ٹوٹ پھوٹ جائے گا تو وہ ضرور میرے پاس آئے گا ۔ انسان کے اندر کا لاوا ہمیشہ نکلنے کی تلاش میں ہوتا ہے ۔
ایسا ہی ہوا تھا ۔ آج عدن بٹ میرے سامنے تھا جو وادی کشمیر کے اس حصے کا تھا جو ہمارا ہو کر بھی ہمارے پاس نہیں تھا یا جہاں ہم نہیں تھے مگر جہاں عدن کے ماں باپ تھے ۔ جہاں اس کے بھائی بہن تھے ۔ جہاں اس کے دوست رشتہ دار تھے ۔ وہ ان سب کو چھوڑ کر اس حصے میں آبسا تھا جو ہمارے پاس تھا ۔
عدن کی آنکھیں خلا میں گم تھیں ۔ وہ الفاظ کو جرات کے نگینوں سے جڑ رہاتھا اور میں ساکت بنی اس کے لب ہلنے کی منتظر تھی ۔
’’ میرا بچپن کشمیر میں گزرا ۔ آنکھ کھلتے ہی وادی کو کالے دیوں کی قید میں پایا ۔ میں اپنے وطن سے ان کالے دیوں کو بھگا دینا چاہتا تھا ۔ میں نے بچپن میں ہی ان کوچت کرنے کی ٹھان لی لیکن میرے گھر میں کوئی بھی یہ نہیں چاہتا تھا ۔ میرا پولیس افیسر باپ تو میری اس سوچ کے سخت خلاف تھا ۔ وہ لہو لہو وادی میں اپنے بچوں کی شانتی چاہتا تھا ۔ مجھے بھی لہو سے محبت تھوڑی تھی لیکن لہو صرف ہمارا ہی کیوں بہے ۔ جانیں ہماری ہی کیوں جائیں ۔ بازو ہمارے ہی کیوں کٹیں ۔ آنکھیں ہماری ہی کیوں بینائی کھوئیں۔ جسم ہمارے ہی کیوں مفلوج ہوں ;238; ۔ مجھے غاصبانہ نظام سے نجات کاکوئی اور راستہ نظر نہیں آتا تھا ۔ ایک جہاد ہی تھا جو میرے بس میں تھا ۔
انتہائے ظلم و ستم نے اپنے کئی ساتھیوں کی طرح مجھے بھی اپنی کتابیں پھینک کر اس جنگ میں کود نے پر مجبور کردیا ۔ میں اپنی دلیری اور ذہانت کی بدولت بہت جلد اپنا مقام بنانے میں کا میاب ہو گیا ۔ سفر جاری رہا ۔ جنگ ہو تی رہی ۔ آزادی ہاتھ نہ آئی لیکن غلامی کو بھی ہم نے قبول نہیں کیا ۔ دراصل یہ سفر تو سوچ کا تھا ۔ قبولیت کا تھا ۔ غلامی کو امن سمجھو تو آزاد ہو اور موت سمجھو تو مقہور ہو ۔ میں مرتے مرتے جان تو دینا چاہتا تھا لیکن غلامی کا تمغہ سینے پر سجانانہیں چاہتا تھا ۔ میں خوب لڑا بھڑا ۔ میں نے بہت سوں پر وار کئے ۔ بدلے میں کئی بار خود بھی زخمی ہوا لیکن کسی کے ہاتھ نہیں آیا ۔ ایک دن میرا نشانہ چوک گیا، ایک دن بندوق میرے ہاتھ سے گرپڑی ا ور ایک دن میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا ۔ ہاں میں اعصابی کمزوری کی عفریت میں آچکا تھا ۔ جسے دشمن فتح نہ کرسکا ۔ اس کے اپنے ہی اعصاب نے اسے شکستہ کردیا ۔ ‘‘ عدن کی آواز رندھ گئی تھی ۔
میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا ۔ مجھے یقین تھا کہ آنسو اس کی آنکھوں میں ماتم کررہے ہوں گے ۔ ایک مرد مجاہد کے ہاتھوں میں جب بندوق نہ رہے توآنسو اس کی آنکھوں میں بسیرا کر لیتے ہیں ۔ میں اس کا دکھ سمجھ رہی تھی ۔ میں نے اسے رونے دیا ۔
’’ میں ا ب وادی کے پھیلے ہوئے پروں کے نیچے بھی نہیں سما سکتا تھا ۔ کالے دیو تو میری تلاش میں گھات لگائے بیٹھے تھے ۔ انہی دنوں میں سرحد کے اس پار سے مجھے انگار وادی سے چنار وادی کی طرف مہاجرت کی پیش کش کی گئی ۔ پیغام یہی تھا کہ میں اب چنار وادی کے لوگوں میں رہوں ، ایک امید بن کر ، ایک مثال بن کر، ایک استاد بن کر، ایک ٹرینر بن کر ۔ میں نے مہاجروں کا چولہ پہن لیا اور نوے کی دہائی میں وہاں کے کشمیر سے یہاں کے کشمیر میں آگیا ۔ میری ماں نے اشکوں کی لڑی میری آنکھوں میں رکھ دی ۔ میرے دل میں آہوں کا سمندر بنا دیا ۔ اب میں ان دونوں کے ساتھ جیتا ہوں ۔ ‘‘
میں نے اس کی پوری کہانی سن بھی لی تھی اور سمجھ بھی لی تھی ۔ اس کی ایک ماں تھی جسے چھوڑ جانے کے دکھ نے اس کے ہونٹوں کی مسکراہٹ چھین لی تھی ۔ اس بڑھاپے میں وہ اب جہاد کے قابل تھانہ اپنی ماں سے ملنے کی کوئی صورت نظر آتی تھی ۔
’’کیا تم پھر کبھی اپنی ماں سے نہیں ملے ۔ ‘‘ میں نے دکھ بھرے لہجے میں اس سے پوچھا ۔
’’ کیسے ملتا ۔ میں تو کالے دیوءوں کے دربار میں ایک آتنک وادی تھا ۔ میراجانا تو ممکن نہیں تھا ۔ چلا بھی جاتا تو مارا جاتا ۔ میری ماں کی مجھ سے ملنے کی آس بھی دم توڑ جاتی ۔ ماں نے کئی بار ویزے کی کوشش کی لیکن اسے ویزہ نہیں ملا ۔ اپنے باپ کے لیے تو میں اسی دن مر گیا تھا جب میں نے آزادی کا پودا اپنے ہاتھوں میں اگایا تھا ۔ ایک ماں تھی جس کی آس روز دن نکلنے جیسی ہے جو آج بھی زندہ ہے ۔ ‘‘
وہ ماں کی باتیں کرتے کرتے جیسے اس کی آغوش میں کھیلنے لگا ۔ اس وقت بوڑ ھا عدن مجھے ایک نہایت معصوم سا کوئی بچہ لگا ۔
’’عدن بٹ تم نے یہاں آکر شادی کی ۔ بچے پیدا کیے ۔ ہماری سرکار تمہاری آج بھی قدردان ہے ۔ ماں سے ملنا تمہاری قسمت میں نہیں تو اس کو روگ مت بناءو ۔ بیوی بھی تو آدھی ماں ہی ہوتی ہے ۔ ‘‘
میری بات سن کر اس نے آبدیدہ لہجے میں کہا،’’ مجھے اپنے پورے وطن کی تلاش ہے ۔ مجھے پوری ماں کی ضرورت ہے ۔ ‘‘
میرے ہاتھوں میں چائے کا کپ چھلک گیا ۔ میں ا سکے ہاتھوں میں اُگے ہوئے آزادی کے پودے کو دیکھنے لگی ۔ کتنا بڑا ہو چکا تھا لیکن ابھی تک پھل سے محروم ۔
’’جب بھی دونوں ممالک میں مذاکرات کی بات چھڑتی ہے تو میری ماں کے من میں آشا کے دیپک جلنے لگتے ہیں ۔
’’اب ہوا کہ اب ہوا ۔ یہ وطن آزاد ہوا ۔ ‘‘ ۔ جب بھی جنگِ آزادی میں شدت آتی ہے توماں کی امید کو پر لگ جاتے ہیں ۔
’’جیتیں گے مرد مجاہد ۔ لے کے رہیں گے آزادی ۔ ‘‘
میں سوچنے لگی کہ آزادی کی مشعل ابھی بھی جل رہی ہے لیکن کتنی مائیں اسی امید میں دم توڑ دیں گی کہ ان کی دھرتی پر بھی امن کے پھول کھلیں گے۔ ان سے بچھڑے ہوئے آملیں گے ۔ ‘‘
اس کے لہجے میں مایوسی کی جھلک نے مجھے بھی افسردہ کردیالیکن میں اس کی ہمت توڑنا نہیں چاہتی تھی ۔
’’ہمیں اس لمحے کا انتظار کرنا ہوگا ۔ جب وادی میں آزادی کا سورج طلوع ہو اور ہم جشن مسرت منائیں ۔ یقین کرو ۔ وہ دن ضرور آئے گا ۔ ‘‘
میرا یہ کہنا تھا کہ عدن بٹ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا ۔
’’لیکن میری ماں انتظار نہیں کرسکتی ۔ اس لیے کہ اس کے پاس اب وقت ہی نہیں ۔ آخر وہ کب تک دستک دیتی موت کو ٹالتی رہے گی ۔ ‘‘
میں سمجھ سکتی تھی کیونکہ ایک بیٹے کے بوڑھے ہو جانے کا مطلب ایک ضعیف العمر ماں کاموت کے دہانے پر پہنچ جانا ہوتا ہے ۔ لیکن میں کیا کرسکتی تھی ۔ میرے بس میں کالے دیوءوں کی موت کا پروانہ تھا اور نہ ہی کوئی ایسی جادو کی چھڑی کہ شعبدہ بازی سے میں عدن کی ماں کو اس کے سامنے لے آتی ۔
عدن نے تھوڑی دیر بعد سر اٹھایا اوراپنے سینے سے میرے سینے پر ایک بھاری سل رکھ دی جس نے مجھے جھنجھوڑ دیا ۔
’’عدن بٹ ، وقت کا انتظار کرو ۔ یہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا ۔ حالات بہتر ہوتے ہی میں تمہارے ویزے کے لیے کوشش کروں گی ۔ ‘‘
’’وقت بدل بھی گیا تو میں منوں مٹی تلے دبی اپنی ماں کہاں سے لاءوں گا ۔ ‘‘ ۔ اس کی بات بھی ٹھیک تھی ۔
’’عدن بٹ ۔ تمہاری ماں اس دھرتی کی آخری عورت تو نہیں جسے اپنے جگر گوشے کی جدائی کا غم سہنا ہے۔ اب تو موبائل ہے ۔ تم اپنی ماں کو دیکھ سکتے ہو ۔ اس سے باتیں کرسکتے ہو ۔ ‘‘ میں نے پھر اسے ایک نیا بہلاوا دیا ۔
میری بات سن کر وہ خوب ہنسا ۔ ’’ میم ۔ کشمیر تصویروں میں بھی نظر آتا ہے ۔ کشمیر خوابوں میں بھی دکھائی دیتا ہے ۔ کشمیر کی ویڈیوبھی دیکھی جاسکتی ہے ۔ پھر بھی تم لوگ کشمیر کے چرنوں میں سجدہ کرنے کے لئے جاتے ہو ۔ یہ تو پھر میری ماں ہے ۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھا ا ور چل دیا ۔
شام ہونے کو تھی ۔ ترانوں کی گونج پر نعرے لگائے جارہے تھے ۔ وطن کی محبت میں کچھ نوجوان رقص کررہے تھے ۔ میں سیڑھیوں کے پاس کھڑی ہوکر ہجوم کو نعرہ تکبیر پر دیوانہ وار جھومتے ہوئے دیکھ رہی تھی ۔ دوسری طرف بھی ایک جم غفیر تھا ۔
پرچم کشائی کی تقریب جاری تھی ۔ گیٹ کھول دیا گیا ۔ ہمارے جوان ان کے احاطے میں پہنچ چکے تھے ۔ ۔ فوجی بوٹوں کی دھمک سے زمین لرز رہی تھی ۔ اسی لمحے ایک بڑھیا ہجوم میں سے اٹھی ۔ یہی وہ ساعت تھی جس کا اسے انتظار تھا ۔ چنار وادی کا باسی دوڑتا ہوا گیا اورانگار وادی کی اس بوڑھی ماں کے سینے سے لگ گیا ۔