پھیکی چائے ۔۔۔ صبیح الحسن

پھیکی چائے

صبیح الحسن

” شاداں۔ میرا دل آج بہت اداس ہے۔ ” اشفاق چائے بناتے ہوئے بولا

” کیا ہوا تیرے دل کو ؟ ” شاداں کی سوالیہ نگاہیں اس پر جم گیئں

” بیگم صاحبہ کے مرنے کے بعد ملک صاحب تو با لکل اکیلے رہ گئے ہیں۔ “

” اکیلا تو ہر کوئی ہے۔ تو کس کس کا رونا روئے گا ؟ ” شاداں نے سوال کیا

” تو بھی آج گہری گہری باتیں کرنے لگی ہے۔ ” اشفاق کپ لے کر چارپائی پر بیٹھ گیا۔

” ہک ہا۔ جب سے مجھے اس کلموہے ڈاکٹر نے چائے منع کی تو مجھے جلانے کو خوب مزے لے لے کر چائے پیتا ہے۔ “

” ہا ہا ہا ہا ہا، تو تو ویسے بھی پھیکی چائے پیتی ہے۔ اچھا ہے نا۔ جان چھوٹ گئی۔ ” اشفاق اسے چڑانے والے لہجے میں بولا۔

” میرے چائے چھوڑ۔ یہ بتا تجھے آج ملک صاحب کی تنہائی کیوں یاد آ گئی ؟ “

” شاداں ۔ مجھے لگتا ہے اکیلے رہ رہ کر ملک صاحب کے ذہن پر کچھ اثر ہونے لگا ہے۔ “

” کیا مطلب۔ کیسا اثر ؟ ” شاداں پریشان ہو گئی۔

” مطلب یہ کہ اکثر الٹے سیدھے بے قاعدہ کام کہتے رہتے ہیں۔ کھانا ایک بندے نے کھانا ہے پر پورا میز سجاو۔ چھت والے کمرے روز صاف کرو چاہے وہاں سالوں سے کوئی رہنے نہ آیا ہو۔ ” اشفاق شکایتی انداز میں بولا

” ہائے۔ بچے یاد آتے ہوں گے ناں۔ ” شاداں کا لہجہ اداس ہو گیا۔

” اپنی چائے مجھ سے بنواتے ہیں لیکن کوئی مہمان آ جائے تو میرے ہوتے ہوئے فیقے کے ہوٹل سے چائے منگواتے ہیں اور مجھے ٹرے میں سجا کے لانے کا کہہ دیتے ہیں۔ بھئی میں مر گیا ہوں کیا ؟ “

” ہک ہا۔ اشفاق حسین۔۔ بندہ اکیلا ہو تو گھر قید خانہ لگتا ہے اور وہ نئے نئے سہارے تلاش کرتا ہے۔ اس قید سے رہائی کے لیے، عجیب طریقوں سے اس دکھ کو بھگانے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کو دیکھ کر تو میں اپنا بے اولادی کا غم بھولنے لگتی ہوں۔ ” شاداں نے ٹھنڈی آہ بھری۔

” دکھ جو بھی ہو اس کا ملبہ ہم کیوں اٹھایئں ؟ بلکہ تو تو کمرے میں ہوتی ہے۔ کام تو سارا مجھے کرنا پڑتا ہے۔ میں ایسے نہیں رہ سکتا۔ “

” ہا ہا ہا ہا۔ تو کتنی بار یہ تہییہ کر کے توڑ چکا ہے ؟ “

” بس نہیں جا پاتا انہیں چھوڑ کر۔ ” اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔

” مجھے پتہ ہے۔ ساری عمر ہم نے یہیں گزاری ہے۔ ملک صاحب کو اس بڑھاپے میں تیرے ہونے ہونے سے بہت سہارا ملا ہوا ہے۔ تو ان کی رگ رگ کو سمجھتا ہے۔ تیری جگہ کوئی نیا ملازم کہاں ان کا خیال رکھ پائے گا ؟ “

” یہی سوچتا ہوں کہ میرے علاوہ اور کون سا ملازم ان کا پاگل پن برداشت کرے گا۔ اب تو کام بھی الٹے سیدھے کہتے ہیں اور کچھ پوچھ لوں تو ایسا کرارا جواب ملتا ہے کہ ۔۔۔۔”

” رک کیوں گئے۔ کیسا جواب ؟”

” دیکھ ۔ میں نے تو بس یہ پوچھا تھا کہ چھت والے کمرے روز صاف کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ خالی ہی تو پڑے رہتے ہیں۔ تو کہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔” اشفاق کچھ کہتے کہتے رک گیا

” ارے کیا کہا۔ ؟ اب بتا بھی دے۔ ” شاداں بے صبری سے بولی

” وہ تو غصے سے لال پیلے ہو گئے۔ کڑک کے بولے۔ تیری ماں کا جہیز رکھنا ہے۔ ” اشفاق شکایتی انداز میں بولا۔ شاداں بے ساختہ قہقہہ لگا کر ہنس پڑی۔

” تو ہنس لے۔ ایک تو مجھے ڈانٹ پڑی ہے اوپر سے تو ہنس ہنس کے اور میرا دل دکھا رہی ہے۔ “

” میں تو یہ سوچ کے ہنس رہی ہوں کہ تیری بہشتن ماں تو قبر میں تڑپ اٹھی ہوگی۔ ” شاداں بمشکل ہنسی پر قابو پاتے بولی۔ اشفاق برے برے منہ بناتے چائے پینے لگا۔

” اچھا۔ اب خفا نہ ہو اور یہ بتا کہ ان کے کمرے صاف کروانے سے تجھے کیا مسئلہ ہے ؟ ” شاداں کا مصالحتی لہجہ سن کر اشفاق کا موڈ کچھ بہتر ہوا۔

” دیکھ بھئی پہلے میں جوان تھا۔ کام کا بوجھ محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن اب کبھ کبھار یہ بوڑھی ہڈیاں شکایت کرنے لگتی ہیں۔ بس اسی لیے ان سے پوچھ بیٹھا۔ “

” اور جواب بھی لے لیا۔ ہا ہا ہا ہا ہا۔ ” شاداں کی پھر ہنسی چھوٹ گئی۔

” دفع ہو۔ تجھے بتا کر تومذاق ہی اڑوایا۔ ہنسی تھم جائے تو سو جانا۔ رات کافی ہو گئی ہے۔ ” اشفاق نے روٹھے لہجے میں کہہ کر چادر میں منہ چھپا لیا۔

ملک فضل دین کا شمار گاوں کے اچھے درجے کے زمینداروں میں ہوتا تھا۔ ان کا چھوٹا سا لیکن خوبصورت فارم تھا۔ جس کے ایک کونے پر گھر میں ان کی رہائش تھی۔ اشفاق اور شاداں نے ساری زندگی انہی کی خدمت میں گزاری تھی۔ ملک صاحب کے دو بیٹے تھے۔ وہ خود تو چٹے ان پڑھ تھے لیکن انہیں تعلیم کی بہت لگن تھی۔ بیگم کی مخالفت کے باوجود انہوں نے بچوں کو اعلی تعلیم کے لیے شہر بھیجا تاکہ پڑھ لکھ کر بڑے ادمی بن جایئں۔ لیکن شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ بڑے لوگ چھوٹے سے گاوں میں کیسے سمایئں گے ؟ لہذا بچے شہر ہی کے ہو رہے۔ وہیں اپنی پسند کی شادیاں کرلیں اور یہ دونوں بوڑھے گاوں میں کٹی پتنگ کی طرح چکراتے رہ گئے۔

” ملک جی۔ آپ کی تعلیم کے شوق نے میرے بچے چھین لیے” کبھی کبھار بیگم صاحبہ کا درد چھلک جاتا تو وہ شکوہ کر بیٹھتیں۔

ان سے کوئی جواب نہ بن پڑتا تو شرمندگی چھپانے کو الٹے سیدھے جواز تراشتے۔ ” بھلیے لوکے اوہ افسر ہیں۔ ایک ایک منٹ قیمتی ہے ان کا۔ شکر ادا کر رب سوہنے کا کہ کوئی بدمعاش یا چور اچکے نہیں۔ ‘

” کچھ بھی ہوتے پر پاس تو ہوتے۔ ” ان کے دل سے ہوک اٹھتی اور وہ ٹھنڈی سانس لے کے تسبیح پر انہی بیٹوں اور ان کی اولادوں کے لیے وظیفے پڑھنے لگتیں۔

شروعات میں وہ چند دفع شہر گئے لیکن پڑھے لکھے شہر کو ان پڑھ بندے راس نہ آئے۔ بہوون اور بیٹوں سے ہونے والی چند جھڑپوں کے بعد وہ مستقل گاوں میں رہنے لگے جبکہ بچے شہر میں۔ بیگم تھیں تو ضد کر کے فون کروا لیتیں لیکن ان کی وفات کے بعد تو ان کا آپس میں واجبی سا رابطہ رہ گیا تھا۔ چند ماہ پہلے بیٹا بے خیالی میں چکر لگانے کا کہہ بیٹھا۔ اس نے تو شاید رسما کہا تھا مگر ملک صاحب کا ترسا ہوا دل امید کی روشنی سے جگمگا اٹھا۔ اس دن سے بچوں کے کمرے روز صاف ہوتے تھے۔

” ملک صاحب۔ کچن کا کام پورا ہو گیا ہے۔۔۔” اشفاق بات کرتے رک گیا۔ ملک صاحب جلدی سے رخ موڑ کر آنکھیں صاف کر رہے تھے۔

” ملک صاحب۔ آپ ٹھیک ہیں نا ؟”

” اوئے مجھے کیا ہونا ہے۔ تو بتا۔ کیا بات ہے ؟ ” وہ خود کو سنبھال چکے تھے۔

” بس پوچھنا تھا جی کہ اوپر والے کمرے آج پھر صاف کرنے ہیں کیا ؟” اشفاق نے آج اس امید پہ پوچھ لیا کہ شاید آج ملک صاحب کمرے صاف کرنے سے روک دیں۔ لیکن ملک صاحب کی خشمگیں نگاہوں نے جواب بخوبی اس تک پہنچا دیا۔ وہ سر جھکا کر کمروں کی جانب چل دیا۔

” حد ہوگئی۔ سالوں سے کوئی نہ آیا لیکن کمرے صاف کرتے رہو۔ واہ رے اشفاق تیری قسمت۔ ” اس کا غصہ عروج پر تھا۔

” اب تو ملک صاحب سے صاف صاف بات کرنی ہی پڑے گی۔ اگر یہ سٹھیا رہے ہیں تو میں کیوں گدھا بنا رہوں۔ مجھے بھی آرام چاہئے اب ۔ ” اس نے غصے میں کرسی کچھ زیادہ ہی زور سے پٹخ دی۔

” اشفاق۔ ” ملک صاحب کی کڑکتی آواز پہ وہ ہڑ بڑا گیا۔

” جی آیا ملک صاحب۔ ” اس نے جلدی سے باقی کرسیاں جھاڑیں اور سیڑھیاں اتر کر ڈائننگ روم کی جانب بڑھ گیا۔ جہاں اسے پتہ تھا کہ ملک صاحب کرسی ڈالے باہر تالاب کو تک رہے ہوں گے۔

” جی ملک صاحب۔ ” اس کا اندازہ درست تھا۔ وہ کرسی پر براجمان کھڑکی سے مچھلیوں والے تالاب کو ہی دیکھ رہے تھے۔

” یہ دیکھو۔ یہ دونوں شیطان پھر آ گئے۔ ” اشفاق نے کھڑکی سے جھانکا تو دو بچے تالاب میں کانٹا ڈالے بیٹھے تھے۔

” صاحب۔ آپ بھی تو نہیں روکتے انہیں۔ ” اشفاق شاکی لہجے میں بولا۔

” باہر لکھا ہوا تو ہے نا کہ مچھلی پکڑتا منع ہے۔ ” وہ کمزور لہجے میں بولے۔

” لکھنے سے کیا ہوتا ہے صاحب۔ بچے اکثر وہی کرتے ہیں جن سے انہیں روکا جا ئے۔ “

” یہ تو ٹھیک کہا تم نے۔”  ارے۔۔اچانک ایک بچے نے شرارت سے دوسرے بچے کو تالاب میں دھکا دے دیا۔ وہ بے ساختی کھلکھلا اٹھے۔ان کے پوتے بھی شاید اسی عمر کے تھے۔ وہ اس منظر میں کھو سے گئے۔

” ملک صاحب۔ انہیں بھگا دوں ؟ “

وہ جیسے کسی خواب سے جاگ کر بولے،” نہیں بھائی اچھے لگ رہے ہیں۔ تم ایک کپ چائے بنا دو مجھے۔”

” جی ابھی لایا۔ ” اشفاق کچن کی جانب بڑھ گیا۔ انہیں چائے دے کر وہ  پھر کپڑا پکڑ کر کمرے صاٖ کرنے چل دیا۔

” یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے۔ مہینے بعد مجھے ہی بلا کر پوچھیں گے کہ مچھلیاں کدھر گیئں۔ پھر خود ہی نئی مچھلیاں لا کر ڈال دیں گے۔” اشفاق نے جلتے بھنتے سوچا۔

” نہیں بھئی نہیں۔ ایک پاگل کے ساتھ  میرا گزارا ممکن نہیں۔ آج تو شاداں کے ساتھ دوٹوک بات ہوگی۔” وہ سیڑھیوں کی جانب جاتے ہوئے بڑبڑایا۔

ملک صاحب نے چائے کا گھونٹ بھر کر اداس نظروں سے اشفاق کو جاتے دیکھا۔ چائے پھیکی تھی۔ شاداں کی موت کے بعد وہ اکثر چائے مییں چینی ڈالنا بھول جاتا تھا

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031