کافی مگ ۔۔۔ سبین علی
کافی مگ
سبین علی
رات گئے کچن صاف کرنے کے بعد وہ باہر کچرا پھینکنے گئی تو انواع و اقسام کے کھانے ‘ ادھ کھائے روسٹ اور بچے ہوئے کیک وہاں دیکھ کر اس کا دل کانپ اٹھا۔ پتا نہیں آج بھی پیچھے وطن میں موجود اس کے بچوں نے کچھ کھایا ہو گا یا نہیں ؟ پھر ایک لمبی سانس بھر کر واپس لوٹی تو مادام اپنے بیڈ روم میں جا چکی تھی۔ تبھی مادام کے چھوٹے بیٹے نے کچن میں انٹر کام پر کافی کا کہا۔ وہ سہمی ہوئی چڑیا کی مانند لرزتے ہاتھوں کافی کا مگ لیے اس کے کمرے کی جانب بڑھی۔ دروازہ کھولا تو وہ نیم دراز لیپ ٹاپ پر ویب کیم آن کیے کسی دوست کے ساتھ مشغول تھا۔
اگلے ہی دن مادام نے گھر پر پارٹی رکھی تھی۔ وہ دوپہر سے ہی رات کو آنے والے معزز مہمانوں کے لیے کھانے کی تیاری میں جٹی ہوئی تھی کہ مادام کا بڑا بیٹا فٹ بال کے ساتھ مختلف ٹرکس کرتا کچن میں داخل ہوا اور اسے کچھ سنیکس لے کر آنے کا کہا۔ کچھ دنوں میں ہی اسے دونوں بھائیوں کی پسند کا بخوبی اندازہ ہو چکا تھا۔
روز صبح صادق تک اس کی کمر تھک کر تختہ ہو چکی ہوتی۔ مادام اکثر اسے گھر سے لاتعلق نظر آتی۔ جس کا بیشتر وقت بیوٹی پارلرز اور شاپینگ مالز میں گزرتا، اور وہ گھر کے سب کاموں کے علاوہ شٹل کاک بنی کبھی مادام کے بڑے اور کبھی چھوٹے لڑکے کی بھوک مٹاتی رہتی۔
کئی بار سوچتی کہ مادام سے اس موضوع پر کھل کر بات کرے گی مگر دو معصوم بچے جن کی خاطر یہ مشقت کاٹ رہی تھی، اس کے تصور میں آتے اور وہ پھر خاموش ہو جاتی۔ کئی بار اس کا دل چاہتا کہ کوئی روزن نظر آئے اور وہ وہاں سے نکل جائے۔
انہی دنوں مادام پانچ دنوں کے ٹور پر بالی گئی۔ واپس لوٹی تو خادمہ غائب۔ مادام نے اپنے بیٹے کو ساتھ لیا اور پولیس میں رپورٹ درج کرائی۔ اسے یقین تھا کہ مفرور خادمہ ایک دو دنوں میں پکڑی جائے گی۔ پاسپورٹ کے بغیر آخر جا کہاں سکتی ہے ؟
دو دن بعد کچن میں مادام اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو نے کیا سوچا تھا یہاں سے بھاگ جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
اس نے بھی تہیہ کر لیا تھا کہ آج جو بھی ہو جائے مادام کو سب کہہ دے گی۔
مادام مادام !! میری بات تو سنیئے۔ وہ منمنائی۔
چپ رہ حرام خور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بال نوچتے ہوئے مادام سے شیلف پر پڑا قیمتی کافی سیٹ گر کر ٹوٹ گیا تو وہ مزید آپے سے باہر ہو گئی۔ لاتیں گھونسے اور مکے برساتے ہوئے کہنے لگی!
تجھ کو یہاں لانے پر، تیرے ویزے پر اس لیے اتنا پیسہ خرچ کیا تھا کہ میرے لڑکے باہر مونہہ نہ ماریں۔ ۔ ۔ ۔ کتیا۔