کتن والی ۔۔۔ سبین علی
کتن والی
( سبین علی )
سوت کو مختلف رنگوں میں رنگ کر امتزاج اور توازن کو صغریٰ مائی جانے کس طرح قائم رکھتی تھی. اور یہ بھی کسی کےعلم میں نہیں تھا کہ کچی آبادی میں بسنے کی بجائے جولاہوں کے اس مختصر کنبے نے جھگی بڑی نہر اور راج باہ کے بیچ میں موجود جگہ پر کیوں ڈال رکھی تھی. پہلے پہل یہ علاقہ مضافات میں شمار کیا جاتا تھا مگر کچھ سال بعد ہی شہر کے اندر شامل ہو چکا تھا. فیکے جولاہےکی انگلیاں پاور لوموں کے بیم سے اترے ویسٹ تانے کو بل دے کر سوت بٹنے کی اتنی عادی ہو چکی تھیں کہ خواہ وہ حقے کی تازہ چلم کو کش لگا رہا ہوتا یا کسی گاہک کو اپنی چرب زبانی سے گھیر کر کھیسوں کی افادیت پر دلائل دے رہا ہوتا، اس کی ٹیڑھی انگلیاں مسلسل گولے کو گھماتی اور بل دیتی رہتیں.
ایک ہی لڑکا تھا جو ویونگ فیکٹری میں وائینڈرپر بابنیں بھرتا تھا. اگرکھیس چتئی کا کوئی گاہک مل جاتا تو ان کی آبائی کھڈی چلتی ورنہ فیکا جولاہا سوت بٹ کر چارپائیاں بننے والا بان بنا ڈالتا. بابا فیکا اور صغریٰ جسے عرف عام میں سب مائی جولاہی کہتے تھے فیصل آباد شہر میں بس کر خود کو قدرے آسودہ محسوس کرنے لگے تھے. پاور لومز کی کثرت میں انہیں نہ صرف سوت آسانی سے دستیاب ہوتا بلکہ دستی کھڈی پر بنی دریاں کھیس اور چتئیاں بھی آسانی سے بک جاتیں. صغری جولاہی اور بابے فیکے پر بڑھاپے کی آمد آمد تھی. ان کی انگلیوں پر سوتر کے گولوں کو بل دیتے اور تانے بانے میں الجھتے الجھتے گھٹے پڑ چکے تھے.
مائی دبلی پتلی اور چست تھی. ہر کام بڑی محنت اور نفاست سے کرتی. تیکھے نقوش مگر رنگ دھوپ میں جل کر سیاہی مائل ہو چکا تھا . بڑی روشن آنکھیں جن کی نظر عمر کے ساتھ کمزور ہو رہی تھی. بال کہیں سفید کہیں سیاہ اور کہیں کہیں لال مہندی کے آثار کا پتا بتاتے. اکثر چھوٹے پھولوں والے پرنٹ کا گول گلے والا کرتا جس کی اطراف میں جیبیں لگی ہوتیں اور سادہ شلوار پہنتی. ایک ہاتھ میں کانچ کا موٹا کڑا ،انگلیوں میں مختلف رنگوں کے کانچ کے چھلے اور کانوں میں چاندی کی بالیاں پہنے رکھتی. جہاں اس کی انگلیوں میں پرکھوں کا ہنر تھا تو وہیں فطرت میں رنگوں کے استعمال اور نمونے بنانے کی صلاحیت بھی ودیعت ہوئی تھی .
عام سی جھگی کو اس نے نفاست سے سجایا ہوا تھا. لال اینٹوں کے فرش پر جیومیٹری کی اشکال والے نمونوں سے مزین صاف ستھری دری پڑی ہوتی. جھگی کے دروازے پر پڑا پھولدار پردہ ، مٹی کا چولہا جس پر نقش نگار بنے تھے، چھوٹی دیواریں اور گاچنی سے لیپ کیے ہوئے پیندے والے چمکتے برتن غرضیکہ جھگی کی ہر چیز اس کی نفاست کی گواہی دیتی.
اُس سال سردی کی شدید لہر اور نہر کنارے پڑنے والی گہری دھند فیکے کو نمونیے کا تحفہ دے چکی تھی کھانس کھانس کر بدحال ہوجاتا تو بلغم کے ساتھ کبھی چونی کبھی اٹھنی جتنا خون بھی لگا ہوتا. دھیرے دھیرے اس کا وجود متروک سکوں کی مانند ختم ہوتا جا رہا تھا. کھڈی پر باریک تانا چڑھانے کا کام ان کے لڑکے بھولے کو نہیں آتا تھا. اگر بابا فیکا کسی طرح تانا باندھ دیتا تو بھولا کھڈی پر سادہ بنائی کر لیتا تھا.
گھر کی صفائی ستھرائی اور ہانڈی چولہا کرتے وقت مائی بہت شوق سے ریڈیو سنتی. کئی خبریں اور باتیں اس کے لیے بالکل انوکھی اور حیرانی کا باعث ہوتیں. کبھی ماہیے سنتی تو دھیان اپنے چہرے پر نمودار ہوتی جھریوں کی طرف بھی چلا جاتا.
سوتر منڈی اور ملوں سے لے کر فیکے جولاہے تک ایک وقت میں سب لوگوں کا روزگار خوب پھلا پھولا تھا. ہفتے میں ایک دن بجلی کا ناغہ ہوتا. کسی علاقے میں یہ ناغہ جمعے کو ہوتا اور کسی علاقے میں اتوار کو. اور اسی دن مزدوروں کی ہفتہ وار چھٹی ہوتی. ہر مزدور کم سہی لیکن رات کو دیہاڑی لے کر گھر آتا. مگر یہ سب اسی رفتار سے نمو پذیر نہ رہا . ریڈیو ساندل بار پنجابی پروگرام میں میزبان اکثر کہا کرتا تھا! محنت کش اس قوم کا ہاتھ ہیں. کئی بار یہ سن کر اس کی سوچوں کا تانتا بندھ جاتا کہ مجھ جولاہی کے ان ہاتھوں نے کتنے سوت بٹے ہیں پر جھگی سے باہر درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں اور بہتی نہر پر ان کا کیا حق ؟ پھر سوچتی کہ ملک کی بڑی بڑی باتوں اور آنے والے وقت پر اس کا اتنا ہی اختیار ہے جتنا گھاس کا موسموں پر. سورج اپنا سفر مختصر یا طویل کرتے وقت گھاس سے صلاح مشورہ کبھی نہیں کرتا. گھاس ہی خود کو موسموں کے مطابق ڈھال لیتی ہے.
غیر محسوس طریقے سے زہر پورے شہر یا شاید پورے ملک کی رگوں میں اتارا جارہا تھا. مائی جولاہی کو تو ملک کے طول و عرض کا اندازہ تھا نہ ہی شہروں کے نام یاد تھے. اس نے تو پاس ہی صدیوں سے بسنے والا شہر لاہور تک نہ دیکھا تھا. سنا کرتی تھی کہ جنہے لہور نئیں ویکھیا اوہ جمیا ای نئیں تو کئی بار دل ہی دل میں ارداہ کرتی کہ اگر اس بار اچھی بچت ہوئی تو داتا دربار کا عرس دیکھنے کے بہانے ہی لہور شہر دیکھ لے گی. مگر اسے اتنا ضرور علم تھا کہ لڑکوں بالوں اور دیہاڑی پر کام کرنے والے غریب مزدوروں کی کثیر تعداد آھسته آهسته ہیروئین کی پڑیوں کے نشے کی عادی ہو چکی جن میں بھولا بھی شامل تھا. ان کے وجود کے نئے نکور سکے دیا سلائی کی آنچ پر دہکتے سفید سے سیاہ ہوتے پاؤڈر کو اپنے اندر تحلیل کرتے کھوٹے ہوتے جا رہے تھے. کبھی وہ سوچتی کہ اگر یہ سب اسے نظر آ رہا ہے تو بڑوں کو بھی نظر آتا ہو گا. ایک دن وہ کوئی جادو کی چھڑی گھمائیں گے تو جیسے یہ پڑیاں گلی گلی بکنے لگی تھیں ایک دن اچانک غائب بھی ہو جائیں گی. اور اس کا بھولا جو اب وائینڈر پر بابنیں بھرنے کا کام قد نکلنے کی وجہ سے چھوڑ چکا ہے پھر سے اپنے باپ کی کھڈی سنبھال لے گا.
انہی دنوں فیکا جولاہا گرمیوں کا موسم آنے سے قبل ہی مٹی میں جا سمایا. بھولا کبھی لوموں پر کام کر لیتا تو کبھی سوت بٹ لیتا. کہیں اسی تو کہیں سو روپیہ دیہاڑی ملتی تھی جس میں سے پچاس روپے کی پڑی آ جاتی. اگر پڑی نہ پیتا تو سارا بدن ٹوٹنے لگتا اور وہ ماہی بے آب کی مانند تڑپتا مٹی میں پلسیٹیاں لیتا ہائے ہائے کرتا رہتا. مائی جولاہی سے اکلوتی اولاد کی یہ حالت دیکھی نہ جاتی. اسی مجبوری میں اجرت پر کبھی کسی کی چارپائیوں کے سنگے نکال آتی تو کہیں کسی کے گھر میں رضائیوں کے نگندنے بھر آتی کہ جسم و جان کا رشتہ برقرار رہے. کچھ عرصہ تو اسی طرح چلتا رہا مگر جب بھولا بالکل ہی کام سے جانے لگا تو مائی جولاہی نے ہمت پکڑی کہ کسی طرح کھڈی پھر سے چلنے لگے.
بی بی جی ہم ہنر مند ہیں بھیک مانگ کر نہیں کھاتے، رب سوہنے کا کرم کہ کھڈی کی صورت روزی کی آس لگائی ہوئی ہے. بس اتنی حسرت ہے کہ کہیں سے سوتر مل جائے تو مہینوں کا بیکار پڑا بھولا کھڈی جوڑ لے.
مائی جولاہی عاصمہ سے منت سماجت کر رہی تھی.
عاصمہ ایک کالج
میں تاریخ کی لیکچرار تھی. اکثر گھر کے کام کاج کے لیے اسے کسی کام کرنے والی عورت
کی ضرورت پیش آتی رہتی. مائی جولاہی کئی بار ان کی رضائیاں نگند چکی تھی. جب اسے
پتا چلا کہ عاصمہ بی بی کے میاں کی ویونگ فیکٹری ہے تو مائی نے بڑی آس لگاتے ہوئے
اسے اپنا دکھڑا کہہ سنایا. عاصمہ ایک خداترس عورت تھی اسے مائی جولاہی کے سب حالات
کا علم ہوا تو دل میں اس غریب عورت کے لیے ہمدردی جاگ اٹھی.
مائی کھیسوں کا تو رواج ہی کم ہوتا جا رہا ہے. اچھا خیر میں تمہیں فیکٹری سے ویسٹ منگوا دوں گی تم دیکھ لینا اس سے کیا بنتا ہے. عاصمہ نے مائی جولاہی کو دلاسا دیا.
کچھ دن بعد جب عاصمہ کے گھر سے مائی جولاہی سوت لے کر نکلی تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا. اس کی آنکھیں کچھ ادھورے اور کچھ ان دیکھے خواب پھر سے بننے لگیں. جھگی کی طرف اٹھتے ہر قدم کے ساتھ ازلی تفکرات کے تانے میں خوابوں کا بانا جوڑتی رہی کہ اس بار بھولے کا علاج کرا لے گی. کچی آبادی میں کوئی ڈھائی مرلے کا مکان بھی لے گی، بھولے کے سر سہرہ سجے گا تو سونا آنگن کھل اٹھے گا.
بھولا جو اپنے نشے کی لت سے تنگ آ چکا تھا مگر جان چھڑانے کا کوئی راستہ اس کے سامنے نہیں تھا. سوت دیکھ کر بہت خوش ہوا. اگر موٹے بانے کے ساتھ ایک دن میں ایک دری بنا لیتا تو سو روپے کی بچت لازمی تھی.
مائی جولاہی نے اپنی ماہر انگلیوں سے تانا باندھنا شروع کیا تو بھولا بھی ساتھ لگ گیا. بانے کے لیے مائی نے سوت کو لال نیلے پیلے جامنی اور کالے رنگوں میں رنگ کر ڈیزائین بھولے کو سمجھانا شروع کیے. بھولا جو پاور لوموں پر کام کرنے کی وجہ سے دستی کھڈی پر ڈیزائین والے کھیس دریاں بنانا اچھی طرح سے سیکھ نہیں پایا تھا ایک مفعول بنا ماں کی ہدایات پر عمل کرتا رہا. جب دیگر کی بانگ کے ساتھ دری کھڈی سے اتاری تو طمانیت کا احساس اس کی ساری تھکن اتار گیا ان تخلیقی رنگوں میں امید کی کرن تھی. مائی نے اگلے ہی دن دری بغل مین دابی اور عاصمہ بی بی کے گھر پہنچ گئی. کھڈی چالو ہونے پر اس کی خوشی دیدنی تھی اس کا پہلا خواب تعبیر ہونے جا رہا تھا.
عاصمہ جسے آرٹ کی کچھ سمجھ بوجھ بھی تھی بوڑھی ان پڑھ جولاہی کی فنکارانہ چابک دستی اور نفاست سے رنگوں کا استعمال دیکھ کر حیران رہ گئی .مائی کی چوٹ نشانے پر پڑی تھی. اس نے جان لیا تھا کہ اپنے ہنر کو بدلتے وقت کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں ہی ان کی بقا ہے. اپنی اجرت لیتے ہوئے مائی نے بڑی امید کے ساتھ عاصمہ سے ایک اور تقاضا کیا.
بی بی جی اگر تُسی برا نا مانو تو اپنے کالج کی دوسری استانیوں کو بھی میری بنی دریاں دکھانا. تہاڈی مہربانی سے مجھ غریب کا آٹا دال لگا رہے گا.
اچھا مائی تم ایسا کرو کچھ دریاں بنا کر تیار رکھو دو ہفتے بعد میری کچھ سہیلیاں آ رہی اس دن سب کو دریاں دکھانا شاید بک جائیں. عاصمہ نے ہمدردی میں ہامی بھرتے ہوئے کہا. پر بی بی جی روز پچاس روپے تو بھولے کی پڑی کے چاہیں. نہ ملے تو وہ کھڈی پر بھی نہ کھلو سکے. مائی نے فکر مندی سے کہا.
مائی جتنا مجھ سے ہو سکا میں تیرا ساتھ دے تو رہی ہوں تیرے بیٹے کا کہیں سے علاج ہو جاتا تو اچھا تھا . عاصمہ نے تاسف سے کہا.
بی بی جی اللہ وارث ہے صغریٰ نے بڑے حوصلے سے امید بھرے لہجے میں جواب دیا.
بھولے نے بھی جی جان سے ماں کا ساتھ دیا. ان کی بنی دریاں کچھ منفرد نمونوں کی بنا پر اور کچھ عاصمہ کی مدد کی وجہ سے خوب بکیں. اس کی کئی کولیگز نے مائی جولاہی سے اپنی اپنی پسند کے مطابق سائی دے کر مختلف طرز کے کھیس اور دریاں بنوائیں. عاصمہ کے دل میں مائی جولاہی کے فن اور مشقت کی وجہ سے جو انسیت اور ہمدردی پیدا ہو چکی تھی وہ صغریٰ کے لیے کسی بڑے آسرے سے کم نہ تھی.
جیسے بجھنے سے قبل ایک بار چراغ پوری تمکنت سے جگمگاتا ہے اسی طرح کچھ عرصہ ان کا ہنر بھی جگمگایا. بھولے نے خراب صحت کے باوجود اپنی ماں کا ساتھ نبھاتے ہوئے منفرد سے منفرد نمونے بنائے گویا اپنی محنت کا سارا نچوڑ اور مائی کے فن کی ساری مہارت کھڈی میں ڈال کر کوئی عجوبے تخلیق کرنے بیٹھا ہو. مائی کے خوابوں کو ایک نیا جزیرہ مل گیا تھا کبھی خواب دیکھتی کہ اس کی بنی دریوں کی مانگ سارے شہر میں ہے. کبھی خواب میں ڈھیر سارا سوت نظر آتا تو کبھی بے شمار رنگ اور کبھی ایک کی بجائے دو دو کھڈیاں نظر آتیں. لیکن خوابوں کے برعکس بھولے کی دن بدن کمزور ہوتی صحت بدصورت حقیقت بن کر سامنے موجود ہوتی.
جب سے عاصمہ کو شوگر کا مرض لاحق ہوا اسے ڈاکٹر نے صبح سویرے واک کرنے کی تاکید کی تھی .اکثر وہ نہر کنارے بنے ٹریک پر چہل قدمی کرنے جاتی جہاں بہت سے لوگ موجود ہوتے. بڑی سڑک کے ساتھ والی نہر سے کچھ آگے جا کر راجباہ نکلتی. وہاں قریب ہی مائی جولاہی کی جھونپڑی تھی . ایک بار وہ مائی کی جھونپڑی میں گئی تو اس کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لے کر جکڑ لیا. بوڑھی عورت کا اکلوتا سہارا اس کا بیٹا بھولا سوکھ کر ڈھانچہ بنتا جا رہا تھا. اندر کو دھنسی ہوئی آنکھیں، سوکھے چمڑے جیسی جلد، جلے ہاتھ ،زرد چہرہ. عاصمہ کو لگا جیسے وہ میوزیم میں رکھا کسی فاقہ ذدہ شخص کا قدیم سنگی مجسمہ دیکھ رہی ہو.
بھولے سے باریک کھیس پہلے ہی نہیں بنتے تھے اب موٹے سوت سے رنگین دریاں بنانا بھی اس کے لیے مشکل ہو رہا تھا. صغریٰ اپنے ناتواں کندھوں پر جوان بیٹے کا بوجھ بڑی استقامت سے اٹھائے ہوئے تھی. بھولے کا کہیں آنا جانا اور جھونپڑی سے نکلنا بہت محدود ہو چکا تھا. صغریٰ خود ہی بنت کرتی اور کسی نہ کسی طرح پیسے بچا کر اس کے لیے پڑی لے آتی وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو نشہ ٹوٹنے پر بری طرح تڑپتا نہیں دیکھ سکتی تھی. محنت و مشقت کی آدھی سے زائد کمائی اس طرح لٹ جاتی. پھر بھی وہ اپنی ہمت کسی مشکل وقت کے لیے بچائی نقدی کی مانند جوڑے رکھتی. لوگوں کے سامنے وہ نہ تو بھولے کی کمزور صحت کا رونا روتی اور نہ ہی نشہ کرنے پر اس کی برائی کرتی . سیاہ رات اپنے آنچل میں چمکتے ہوں یا گرہن لگے، چاند سمیٹ ہی لیتی ہے.
گھر گھر جا کر دریاں منتیں کر کے بیچتی اور سوچتی کہ ساری بیبیاں ایک طرح کی کیوں نہیں ہوتیں ؟ گلی کوچوں کی خاک چھانتی مائی طرح طرح کی باتیں سنتی. مائی جولاہی ،جھلی ،کملی ،سوکھا وان ،نمانی کئی ناموں سے مخاطب کی جاتی.مگر مائی جولاہی تو جیسے بہری ہو چکی تھی. اسے تو بس اتنا پتا تھا کہ دریاں بیچنا اور پڑیاں خریدنا ہیں.
وہ اکثر یہ خواب دیکھتی اور کبھی خواب دکھایا جاتا کہ گھوڑے پر سوار کوئی شہزادہ آئے گا جو پلک جھپکنے میں اس کے بھولے کو بھلا چنگا کر دے گا پھر اپنی جادوئی چھڑی گھمائے گا اور ساری پڑیاں یک دم غائب ہو جائیں گی. اس کے کمزور ہاتھوں کی بنی مزین دریاں ہر ڈرائینگ روم کی زینت بنیں گی. اسے اندازہ تھا کہ اس سپنے کی تعبیر نا ممکنات جیسی بن چکی ہے پھر بھی سارا دن وہ اپنے خواب کو خود ہی سچ کرنے کے عمل میں جٹی رہتی. اس کی خودداری اور اپنی انگلیوں پر مان برقرار تھا ورنہ پیٹ کا تنور بھرنے کو ہتھیلی پھیلانا کونسا مشکل تھا.
عاصمہ ریفریشرکورس پر لاہور گئی ہوئی تھی. کئی دنوں بعد لوٹی تو پھر اپنی نوکری اور گھر بار کی مصروفیت میں گم رہی چند ایک بار دل میں خیال آیا کہ مائی کا پتا کرے لیکن خیال خیال ہی رہا. کئی مہینوں بعد مائی اس کے گھر آئی. تھکی ماندی مضمحل اور کمزور. ایسا لگ رہا تھا کہ روئی کی پُونی کی بجائے کسی نے مائی کا وجود تکلے کی سوئی میں پرو ڈالا ہے. سمندر جیسی ڈونگھی آنکھوں کے گرد کالی ریت کی لکیریں زمانوں کے تھکا دینے والے سفر کا احوال بیان کر رہی تھیں. جھریوں کی چادر اوڑھے کالی جلد کی سلوٹیں جسم کا لباس بنی تھیں.
عاصمہ اس کی یہ حالت دیکھ کر افسردگی سی پوچھنے لگی! مائی یہ کیا حالت بنا لی؟ اور اب تیرے بھولے کا کیا حال ہے؟
بس بی بی جی کیا بتاؤں اب تو اس کا ہاتھ پانی بھی میں خود کرتی ہوں نامراد پڑی پینے جوگا بھی نہیں رہ گیا. منجی سے جا لگا ہے. صغریٰ نے ایک آہ بھری سمندر میں گرداب اٹھا اور پاتال میں اتر گیا.
یہ لو کچھ پیسے رکھ لو عاصمہ نے چند نوٹ اس کی طرف بڑھائے. نہ بی بی جی پیسے رین دیں. پڑی تو مل رہی پر لے کر کیا کرنی. آٹا کسی چکی ہٹی میں نہیں مل رہا .آپ تو سارے سال جوگی کنک اکٹھی لے کر رکھتی ہیں جی، بس اپنی ڈرمی سے تھوڑا آٹا ڈال دیو.
یہ کہتے ہوئے مائی کے کندھے جھکے ہوئے تھے اور حسرت بھری نظریں انگلیوں کے گٹھوں پر جمی تھیں.
عاصمہ نے آٹا ڈال کر ساتھ کر دیا اور چلتے چلتے زبردستی چند روپے بھی مٹھی میں تھما دیے. انہی دنوں عاصمہ کو کسی دوسرے شہر ٹرانسفر ہو کر جانا پڑا. واپس فیصل آباد تبادلے کے لیے تین چار مہینے کتنے ہی پاپڑ بیلے اوردفتروں کی خاک چھانی تب جا کر دوسرے گرلز کالج میں پوسٹنگ ہوئی. اسی جھنجھٹ میں کئی مہینوں تک مائی کی کوئی خبر نہ لے سکی. ایک دن گوالے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ مائی جولاہی کا بھولا چل بسا تھا. اس نے دل میں ارادہ کیا کہ خود جا کر مائی جولاہی سے تعزیت کرے گی.
اگلے ہی روز شام کے وقت اس کے بچوں نے باہر کھانے اور گھومنے کا پروگرام بنایا .اس کے میاں انہیں ایک بالکل نئے تعمیر ہوئے کینال پارک ریسٹورنٹ میں لے آئے. کھانے کے بعد بچے ادھر ادھر کھیلنے لگے. عاصمہ کے دل کو ہُڑک لگی ہوئی تھی. اس کے اندازے کے مطابق وہ ریسٹورنٹ جھگی کے قریب ہی بنا تھا.اسی تلاش میں وہ نہر کے ساتھ ساتھ چلتی کافی آگے نکل گئی. پرانی راج باہ کے ساتھ جولاہوں کی جھگی کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا تھا. کھڈی کے لیے کھودی جگہ برابر تھی جس پر تازہ گھاس اگا دی گئی تھی مختلف کیاروں میں موسمی پھول اپنی اپنی بہار دکھا رہے تھے. نہر کنارے ساری گرین بیلٹ دیکھنے والوں کو بہت خوب صورت نظارہ دے رہی تھی. جہاں کبھی جھگی ہوا کرتی تھی اس جگہ کسی ریسٹورنٹ کے مونو گرام والا سیمنٹ کا بنچ نصب تھا. عاصمہ نےحیران ہو کر چاروں طرف نظر دوڑائی عینک اتار کر شیشے فلالین کے نرم رومال سے صاف کیے پھر دوبارہ عینک لگا کر گہری نظر سے ادھر ادھر دیکھا اور لڑکھڑا کر بنچ پر بیٹھ گئی.
وے سائیں تیرے چرخے نے
اج کت لیا کتن
والی نوں