سمندر کے نام ایک غنایئہ ۔۔۔ سبین علی
سمندر کے نام ایک غنائیہ
( سبین علی )
میرے اردگرد بے شمار لوگ ہیولوں کی مانند رواں ہیں ۔ مگر ان کے سر
نظروں سے اوجھل ہیں اور راہگزر پر ہر طرف اونچی ایڑی کے جوتوں پر ریشمی لبادے
لہراتے نظر آتے ہیں۔ کسی جوتے کی ایڑی اتنی ,بلند ہے گویا قطب مینار ہو، کسی کی پیسا
کے ٹاور جیسی جھکی کسی بھی پل گرنے کو تیار مگر انہیں پہننے والے پھر بھی ننگے
پاؤں کچے راستے پر چلنے کو تیار نہیں ۔کئی ایڑیاں ایفیل ٹاور کے روپہلے ماڈل جیسی
مرصع ہیں اور کئی ایڑیاں سنگِ سرخ سے تراشیدہ مناروں جیسی بلند پرشکوہ اور مغرور
نظر آتی ہیں۔ مصنوعی عطر سے معطر لبادوں میں حکمرانی کی رعونت ہے ادب و فن کی نمود
ہے عقل و ذہانت کی دمک ہے ۔
میں حیران ہوکر اُن بلند چہروں تک
پہنچنے کی کوشش کرتی ہوں مگر ننگے پاؤں ان رفعتوں تک جھانکنے سے قاصر فقط مرعوبیت
سے اوپر تکتی ہوں ۔ اسی دوران کسی نوکدار ایڑی کی چھبن پاؤں کی بالائی سطح پر
محسوس ہوتی ہے ۔
سی۔۔۔۔۔
منہ سے اک سسکاری نکلتی ہے ۔
تم دیکھ کر نہیں چل سکتیں !
یہ راہگزر تمھارے لیے نہیں ہٹو
۔۔۔۔۔
ننگے پاؤں چلو گی تو کانٹے ہی چبھیں
گے ۔
آپ نے درست کہا ہوگا مگر میرے پاؤں
میں تو آپ کی ایڑی کی نوک چبھی ہے ۔
پیچھے ہٹو
طریق ۔۔۔۔ طریق ۔۔۔۔۔۔
راستہ چھوڑ دو ۔۔۔۔۔
Stand aside
No tresspassing
لا تعداد برساتوں سے سینچا رستہ
قدموں تلے کروٹ لیتا ہے اور پاؤں کے تلوؤں میں دل دھڑکنے لگ جاتا ہے ۔
خدایا! یہ کیا اضطراب ہے ؟
دل کبھی انگلیوں کی پوروں تو کبھی
قدموں میں کیوں دھڑکنے لگتا ہے ۔ پوریں کپکپاتی نیلے برقی صفحے پر پھسلتی
ہیں۔جھیلوں میں پرندوں کی ڈار کی مانند حروف اترنے لگتے ہیں ۔
رستہ پھر کروٹ بدلتا ہے ارد گرد
مناظر تبدیل ہوتے ہیں ۔ دل پاؤں میں اتر آتا ہے میں گھٹنوں کے بل کچے رستے پر جھک
جاتی ہوں ۔
نوکدار ایڑی سے فگار راہگزر کے چھلنی
سینے سے زمین کی دھڑکن سنائی دینے لگتی ہے اور پاؤں کے تلوؤں سے نیم خنک مٹی ہم
کلام ہوتی ہے ۔
ایک چھوٹے سے گڑھے میں بارش کا پانی
بھرا پڑا ہے جو چھوٹے سے تالاب کا منظر پیش کرتا نیلے آسماں کا عکس دکھا رہا ہے ۔
چند ننھے مینڈک پھدکتے ہوئے پانی سے باہر نکلتے ہیں ، چند ثانیوں بعد پانی میں
ارتعاش تھم جاتا ہے اور اس کے عکس میں درختوں کے لمبے سائے لہراتے ہیں ۔ شام کے
وقت اندھیرا زرد کرنوں کا پیچھا کرتے زینہ زینہ زمین پر اترنے لگتا ہے ۔ ستاروں کے
وہ سارے طاق جہاں اونچی ایڑی والے لوگ پہنچنے کی تگ و دو میں تھے اپنے عکس کے ساتھ
زمین پر اتر آتے ہیں۔ سمندر میں رواں بادبانی کشتیوں کی مانند پیلا پتا سطح آب پر
تیرتا ہے ۔ روشن دائروں کے مرکز میں ساکن قطبی تارہ جھک کر بیک وقت بحر الکاہل میں
ڈولتی کشتی اور بارش کے پانی میں تیرتے پتے کو سمت کا اشارہ کرتا ہے ۔
دور پرے راہگزر کے کناروں پر اونچی
ایڑیوں کا ہجوم بھاگتا گردنیں پھلانگتا اپنے مقرر کردہ راستے پر محو سفر ہے ۔ اتنے
میں بے خانماں لوگوں، خانہ بدوش سیارچوں فگار انگلیوں والے انسانوں کا ایک چھوٹا
سا قافلہ پرلی جانب ایک متروک راہگزر پر رواں دکھائی دیتا ہے ۔
فن کیا ہے ؟ تخلیقیت کہاں سے جنم
لیتی ہے ؟ یہ لوگ کس سمت میں رواں ہیں کیا مجھے ان کے پیچھے چلنا ہے یا ادھر ٹھہر
کر نم مٹی سے مصاحبت اختیار کروں؟
میں تالاب کی طرف دیکھتی خود کلامی
کرتی ہوں۔ چھوٹے سے تالاب کے پانی میں چاند کا عکس مجھے دیکھ کر مسکراتا ہے اور
کہنے لگتا ہے !
کیا، کہاں اور کدھر کی تلاش سے قبل
تخلیق کے ابدی سمندر کی کچھ کہانیاں سنو گی !
ہاں کیوں نہیں۔
تو سنو !
پرانے دنوں کی بات ہے انسانی
آبادیوں سے بہت دور ایک ویران ساحل پر بادشاہِ وقت نے پرانے قلعے کو عقوبت خانے کی
شکل دے رکھی تھی۔ وہاں رات کو سمندر میں جوار بھاٹے اٹھتے اور مدوجزر سے موجیں
اتنی بلند ہوجاتیں کہ دور دراز سے آ کر کوئی کشتی لنگر انداز ہونے کی ہمت نہ کرتی۔
ساحلی پہاڑی کے پتھر مدتوں سے اُن مشاق ہاتھوں کے منتظر تھے جو انہیں تراش کر
دیدبان کی تعمیر میں صرف کر دیں تاکہ اجنبی زمینوں کی جانب سے آتی ہواؤں کی مانند
وہاں بھولی بھٹکی کشتیاں بھی آکر اپنے لنگر ڈال سکیں اور انسانی آوازوں کا ارتعاش
بھی سمندر کی لہروں کے شور میں ساحلوں پر سنائی دینے لگے ۔
مگر ہوا یہ کہ وہاں کے پتھروں کو
بلند و بالا فصیلوں اور غلام گردشوں کی تعمیر میں استعمال کر لیا گیا۔ دور دیس سے
اُس گھاٹ پر کشتیاں بھی آئیں مگر ان میں مسافروں کی بجائے قیدی لدے ہوئے تھے جنہیں
پرانے قلعے کی آہنی زنجیروں میں مقید کر دیا گیا۔ ان قیدیوں کے کان سنگی دیواروں
کے پار سے آتی سمندر کی مہک سونگھ سکتے تھے ، پتھروں سے الجھتی موجوں کا شور سن
سکتے تھے مگر سمندر کو دیکھ نہ پاتے ۔ ایسے میں کئی برس بیت گئے روشنی تازہ ہوا
اور فطرت کے ہر نظارے سے محروم قیدیوں کا احوال کسی کو معلوم نہ تھا۔ ایک رات
سمندر میں مہیب طوفان اٹھا ۔ سرکش موجیں قلعے کی فصیلوں سے سر پٹکنے لگیں۔ سپاہیوں
نے آہنی جنگلوں پر پڑی ترپالیں ہٹا دیں کسی فرار کا اندیشہ نہ تھا ۔ اس طوفان میں
جو بھاگنے کی کوشش کرتا موجوں کا شکار ہو جاتا یا سنگلاخ چٹانوں پر طوفانی ہواؤں
کے زور سے پٹخیاں کھاتا جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ۔ حفاظتی جنگلوں اور روشن دانوں سے
ترپالیں اٹھانے کے بعدسمندر کی طوفانی موجوں اور قیدیوں کے بیچ کوئی رکاوٹ نہ رہی۔
چار دن بعد پانی اترا اور قلعے کے معمولات لوٹ آئے ۔ مگر سمندر سے اتصال کے بعد
قیدیوں کے اندر بہت کچھ بدل چکا تھا ۔ ان قیدیوں نے کچھ ہی دنوں بعد اپنی پھٹی
قمیضوں، ترپال کے چیتھڑوں کاغذ اور گتے کے ٹکڑوں پر فن پارے تخلیق کرنا شروع کر
دیے ۔ مصوری کے نمونوں اور مجسموں کی شکل میں ان کے تخیل کے دریچے وا ہونے لگے ۔
گہرے نیلے پانیوں میں ڈوبے جزیروں کے عکس ، آزادی کے سفر کا استعارہ بنی بادبانی
کشتیوں کے نمونے ، آہنی سلاخوں کے عقب سے پھوٹتے ہوئے سبزہ و گل ، بانس کی شاخوں
سے بنی لاتعداد دوربینیں جو چاند کو حسرت سے تکتی تھیں۔ اذیت اور تکلیف میں ڈوبی
لہروں کے رنگ ،کارنس پر دھری جامد گھڑی اور خوبصورت ساحلوں پر چہل قدمی کرتے جوڑے
ہر تصویر گویا ایک روزن تھا جس کے واسطے سے فن اور فنکار کی روح میں جھانکا جا
سکتا تھا۔
فن جو درد کی کوکھ سے پھوٹا، محرومی
کرب اور شدت احساس کی مٹی سے نمو پایا۔ آفاقی سمندر نے اس کے در پر دستک دی فطرت
خود اس کی اتالیق بنتی اور وہ فن پارے وجود میں آئے جو اونچی ایڑی والے تربیت
یافتہ فنکار بھی تخلیق نہ کر سکے ۔
ننھے سے تالاب میں بہتا پیلا پتا
کنارے آن لگا ۔ بگولے نے نرمی سے اسے پانی سے باہر نکالا اور ہوا کے رخ پر اچھال
دیا ۔ وہ اڑا ، اٹکا پھر اڑا اور نظروں سے اوجھل ہو گیا ۔
چاند اپنا سفر جاری رکھے افق کے
دوسرے کنارے پر پہنچ گیا ہے ۔ میں محویت کے عالم میں سر اٹھا کر بدلیوں کے بیچ
تکتی ہوں۔ رات کا ایک پہر بیت چکا ہے ہوا میں خنکی بڑھنے لگی ہے ۔ عکس میں چمکتا
چاند پھر گویا ہوتا ہے ۔
ایک دور دراز ساحل پر کشتیوں میں
گانے والے مچھیروں کی بستیاں تھی ۔ ان ساحلوں اور مچھیروں کی بستیوں سے بھی بہت
دور وادیوں میں چرواہے اپنے جانور چراتے تھے ۔ ایک بوڑھا معذور چرواہا اپنے نو عمر
بیٹے کے ساتھ سبزے سے گھری کٹیا میں رہتا تھا۔ وہاں دن کو بادِ شُمال کے ساتھ
تتلیاں رقص کرتیں، بیل گائیں اور گھوڑے جامنی پھولوں سے بھری گھاس چرتے اور رات کو
کہکشاؤں کے سنگ جگنو چمکتے ۔ وہاں بحر عمیق سے امڈتے بادل لہروں کی صورت میں تیرتے
ہوئے آتے اور فلک بوس پہاڑوں سے ٹکرا کر روز بارش برساتے ۔ جب رات کا اندھیرا
پھیلنے لگتا تو لڑکا اپنے جانوروں کو ہنکاتے ہوا باڑے میں لے آتا ۔ دودھ
دوہتا آگ دہکاتا اور اپنی بانسری لے
کر بیٹھ جاتا۔ بوڑھا باپ اپنی مڑی تڑی انگلیوں سے کاغذ پر دوہرے اور گیت لکھتا۔ اس
کے دوہرے ، گیت اور نظمیں خانہ بدوش ہواؤں کی مانند سفر کرتیں اُن چراہ گاہوں سے
نچلی وادیوں، قریوں اور مچھیروں کی بستیوں تک جا پہنچیں ۔ مچھیرے جب گہرے پانیوں
میں مہینہ مہینہ بھر شکار پر رہتے تو ہچکولے کھاتی کشتیوں میں تھکن اتارنے کو اُس
بوڑھے کے گیت گاتے ۔ اور میں فلک کا مسافر ہر رات اُس چرواہے کو بھی دیکھتا اور
بڑے شہروں میں فن پاروں کی نمائشوں اور عالی شان تقریبات کا احوال بھی جانتا۔
ایک دن جب اس بوڑھے چرواہے کو شہر
سے آئے قدر دان وہیل چئیر پر بٹھا کر خراج تحسین پیش کرنے کے لیے لیجا رہے تھے تو
اُسی رات قیدیوں کے بنے فن پارے بادشاہ کے ہرکاروں کے ہاتھ لگے جنہیں دنیا کے عظیم
ثقافتی مرکز میں پہنچا دیا گیا ۔ کچھ عرصہ وہ فن پارے فقط خاص عمائدین اور اساتذہ
فن کے سامنے پیش کیے جاتے رہے ۔ پھر ایک دن اُن لوگوں نے طے کیا کہ ان فن پاروں کو
عوامی نمائش کے لیے پیش کیا جائے گا۔
جب یہ مجسمے اور مصوری کے نمونے
دنیا کی نظر میں آئے تو خوفناک مجرم قرار گئے قیدیوں کی روح کی معصومیت اور
خوبصورتی دنیا کی نظروں میں آنے لگی۔ درد اور محرومی سے سینچا گیا ہر فن پارہ
تخلیقی اپچ میں بڑے شاہکاروں کو مات دیتا دکھائی دینے لگا تو اونچی ایڑی والوں نے
غیض و غضب سے اپنی انگلیاں چبانا شروع کر دیں۔ اُن کے احتجاج کی وجہ سے نمائش
موقوف کر دی گئی مگر اُس وقت تک ان کی شہرت دنیا میں پھیل چکی تھی۔
ان فن پاروں کا کیا ہوگا ؟میں تجسس
سے استفسار کرتی ہوں۔
ابھی ایک مدت تک انہیں چھپا کر رکھا
جائے گا ۔ جب وقت اپنی چال بدلے گا تو یہی فن پارے کسی عالی شان عجائب گھر کی زینت
بنیں گے اور کوئی قیمتی لبادے والا اکشن ہاؤس میں ان فن پاروں کی بولی میں اپنی
شناخت پوشیدہ رکھ کر حصہ لے گا ۔ وہ قلعہ اور ساحل سیاحوں کے لیے کھولا جائے گا ۔
اور اس چراہ گاہ میں جہاں بوڑھا چرواہا گیت لکھتا تھا۔ جہاں جگنو چمکتے اور تتلیاں
رقص کرتی تھیں وہاں سیر گاہیں بنیں گی ۔
اتنے میں دیکھتی ہوں کہ اونچی
ایڑیوں کا ہجوم پھر سے اسی راہگزر پر ایک دوسرے کی گردنیں پھلانگتا روندتا چلا آ
رہا ہے ۔ میں اُٹھ کر اس راستے کو بغور دیکھتی ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک
مدار نما راستہ ہے ۔ پھر آنکھیں پھاڑے اس چھوٹے سے قافلے کو تلاش کرنا چاہتی ہوں
جو متروک راہگزر پر رواں تھا مگر وہ نظروں سے اوجھل ہو چکے ہیں اور راستے پر فقط
پیروں کے نشان باقی ہیں ۔
مجھے کس راہگزر پر جانا تھا ؟
چاند مسکراتا ہے
جس راہ پر تم چاہو