سرنگ کے راستے ۔۔۔ سبین علی
سرنگ کے راستے
. سبین علی
.
برقی قمقمے جل بجھ رہے تھے اور آنکھوں کے آگے مٹیالی سی دھند چھائی تھی جیسے درودیوار پر مٹی اڑ رہی ہو. لیکن ہوا بالکل ساکن تھی. چاروں طرف ایک ہو کا عالم طاری تھا. میں غیر معروف راستے پر آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی. کچھ دور جا کر غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ وہ برقی قمقمے نہیں بلکہ مشعلیں تھیں جو مٹیالے راستے کے دونوں جانب نصب تھیں. میں نے حیرت سے آنکھیں پھاڑ کر اِدھر اُدھر دیکھا! وہ ایک طویل سرنگ تھی جو بہت کھلی ، ہوا دار اور روشن تھی. ہر دس پندرہ گز کے فاصلے پر سرنگ کے دونوں جانب مومی مشعلیں روشن تھیں. وہ مشعلیں بہت دور تلک روشن نظر آ رہی تھیں یہاں تک کہ سرنگ کے اگلے سروں پر ان کی روشنی جھلملاتے نقطوں کی مانند دکھائی دے رہی تھی. میرے حواس کو گہری رات کا ادراک ہوا لیکن وہ رات کا کون سا پہر تھا اس کا کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا.
کیا وقت ٹھہر گیا ہے یا اس کا پہیہ الٹا گھوم چکا ہے. یہ سرنگ ہے یا کوئی ٹائم مشین ؟ میں تاریک ماضی کے کسی عہد پہنچ چکی ہوں یا مستقبل پیچھے رہ گیا ہے؟
اس تذبذب میں مجھ سے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا جا رہا تھا. میرے اردگرد کئی لوگ خاموشی سے چل رہے تھے جن کی شناخت اجنبی ہونے کے باوجود ان سے نامعلوم سی شناسائی محسوس ہو رہی تھی. اور میں ان سب لوگوں سے عدم واقفیت کے باوجود ایک ورطہ حیرت میں مبتلا قدم سے قدم ملاتی آگے بڑھتی چلی جا رہی تھی. وہ راستہ انجان ہو کر بھی شناسا لگ رہا تھا. وہ ہمراہی اجنبی ہوکر بھی ہم سفر تھے. جانے کسے کہاں آگے بڑھ جانا یا پیچھے رہ جانا تھا؟
ہر دو مشعلوں کے بیچ میں سرنگ کے دونوں جانب داخل ہونے یا باہر نکلنے کے لیے بلند دروازہ نما راستے موجود تھے . وہ در بھی مٹیالے رنگ کے تھے اور کچھ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ ان دروں سے پہیلیوں کی مانند راستہ گھوم کر کہاں جاتا ہے سرنگ کی چھت نسبتا بلندی پر اور متوازی تھی نیچے مٹی کی لیکن پختہ اور جمی ہوئی راہگزر بچھی تھی. اس طویل سرنگ میں کسی در سے کوئی شامل ہو رہا تھا یا پچھڑ رہا تھا اس بات سے قطعی لاعلم میری نظریں سامنے سرنگ کے آخری سرے پر جمی تھیں، جہاں حد نظر تک ٹمٹماتے جگنوﺅں کی مانند روشن مشعلیں لامتناہی راہگزر کی نشاندہی کر رہی تھیں. اس روشن اور مٹیالے راستے میں خشک مٹی کی عجیب سی مہک گھلی ہوئی تھی . جس کی کشش مجھے ہوا میں اڑتے زروں کی مانند رواں رکھے تھی –
میں کون ہوں؟
کس عہد میں ہوں؟
اگر میں وہی ہوں جو خود کو پہچان پا رہی ہوں تو یہاں موجود سب لوگ موہوم شناخت کے حامل کیوں ہیں ؟
میرے اردگرد مناظر تیزی سے تبدیل ہوتے جا ہیں کہیں سب لوگ بچھڑ جاتے ہیں اور کہیں اچانک پھر سے کئی قدموں کی چاپ سنائی دینے لگتی ہے.
یہ سرنگ کس بستی میں جا نکلے گی. ابھی کوئی در ایسا نہیں آیا جہاں مجھے محسوس ہو کہ اب مجھے باہر نکلنا ہے. ہاں تب تک مجھے اس سفر میں رہنا ہے.
میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی ہوں. میرے کئی بہت پیارے چہرے جدا ہو چکے ہیں لیکن ان کے وجود کی خوشبو میرے ادرگرد پاسبانوں کی مانند ہمرکاب ہے. ان مناظر میں منجمد کئی لمحے اس طرح ساکت و ساکن ہو چکے ہیں کہ سامنے موجود ہونے کے باوجود میں ان کی گرد کو بھی نہیں پا سکتی. بالکل میری نظروں کے سامنے لیکن دوری اتنی گہری کہ ہاتھ بڑھا کر چھونا چاہوں تو بھی چھو نہ سکوں. اور قریب اتنے کہ مشام جاں میں رگوں کے تانے بانے میں پروئے ہوئے ہیں. اختیار اتنا کہ سوچ انہیں مقید کر دے اور دل کے اندر اٹھتی کوئی لہر انہیں بہا لے جائے مگر بے اختیاری اتنی کہ ایک لفظ ان کی سماعت تک نہیں پہنچا سکتی.
اختیار اور بے اختیاری کی کشمکش ایسی ہے جیسے تنگ راہگزر میں کھائی کے ساتھ چلتا مسافر یا ایک تنے رسے پر چلتا مداری جو منزل تک پہنچ جائے گا یا کہیں بیچ راہ محض ورق گم گشتہ بن جائے گا.
خود کلامی کے ایک طویل وقفے کے بعد بے خبری اور تجسس کے عالم میں نے ایک عورت سے کہ جس کے قدم گرد آلود تھے اوراس کے وجود میں تپتی مٹی اور کیکر کے پھولوں کی مہک تھی، لیکن چہرہ واضح نہیں تھا.سوال کیا! تم کون ہو؟
مجھے خود نہیں معلوم کہ میں کون ہوں. کبھی میری مٹی میں میری ایک شناخت تھی لیکن پھر میں اسے قائم نہ رکھ پائی. یا یوں سمجھو کہ تیاگ دی. جیسے کئی بستیوں میں عورتوں صدیوں سے ستی ہوتی آ رہی ہیں میں نے اپنی ذات، اپنی شناخت، زبان رسم و رواج سب اپنی منشا سے یا شاید ایک بے اختیاری میں تیاگ دیے.
کیوں اور کس کے لیے تیاگ دیے؟
میں نے سوال کیا.
میری مٹی میں نرمی محبت اور وفا کا خمیر تھا. مگر مزاج میں الہڑ پن تھا اور بے نیازی بھی. ایک دن یہ دونوں اطوار مد مقابل ہو گئے.
دور دیس سے ہوا کے رتھ پر ایک سوار آیا تھا جس کا لباس سفید اور بے شکن تھا. اس کی قوم نے ہماری بستیاں تاراج کیں اور محلوں پر قبضے جما لیے. راجاؤں کے بنائے زندان کھولے گٰیے ،قیدی آزاد ہوئے کئی امراء پابند سلاسل کیے گئے اور کچھ مارے گئے. داسیوں کی کیا زندگی ہوتی ہے اور ہماری بستی میں عورت داسی ہی رہتی ہے. خواہ راج محل کی ہو یا کھیت کھلیانوں میں کام کرنے والی. لیکن اس اجنبی نے مجھے من کے سنگھاسن پر بٹھایا تھا. محبت کی ریشمی ڈور ایسی بندھی کہ سانسوں کا بندھن تو ٹوٹے مگر ڈور نہ ٹوٹ پائے.اس کا دیس، قبیلہ ،زبان اور دھرم سب اجنبی تھے. اور میں سفید کپاس کا پھول تھی جس کے ریشوں پر کوئی بھی رنگ ہو چوکھا چڑھ جاتا ہے. اس دور دیس سے آئے اجنبی نے میری ذات کو پریم کا ایسا رنگ چڑھایا کہ چاہ کر بھی کورا رنگ واپس نہ لا سکی. وہ واپس جانے لگا تو سمجھ نہ آئی کہ یہاں اس کے رنگ میں رنگی جوگ لوں یا اس کے ساتھ ہو لوں. ساتھ ہو لوں تو اپنی مٹی سے کیسے کٹوں. کیا پودا زمین سے جدا ہو کر جی سکتا ہے؟ …. نہیں….. اگر ساتھ نہیں چلتی تو کیا اس کے بغیر رہا جائے گا؟
کیا اس بدلی رنگت کو میری اپنی مٹی سہہ پائے گی؟
بس تب سے اب تک اس سرنگ میں معلق ذرات کی مانند محو سفر ہوں کہ کبھی تو اس سوال کا جواب ملے گا یا پھر میرا وجود کسی نئے سانچے میں ڈھل جائے گا.
سرنگ کے اندر ساکن ہوا میں ہلکی سی سرسراہٹ پیدا ہوئی پھر جانے وہ عورت راستے میں مجھ سے آگے بڑھ گئی پیچھے رہ گئی یا کسی در سے باہر نکل گئی ——— مجھے کچھ علم نہ ہوا. مجھے لگا کہ میں اساطیری دور میں پہنچ چکی ہوں لیکن کچھ مزید سفر کے بعد میرا خیال پھر سے تبدیل ہو گیا. جس مقام پر مٹی میں گھلی تیرگی کی مہک فسوں تر ہو چکی تھی . ٹمٹماتی مشعلوں کی ضو افشانیاں آنکھوں کے آگے کئی دائرے بناتی چلی جا رہی تھیں . ایک اور دھیمی مہک مجھے اپنائیت کا احساس دلا رہی تھی. اس کی رنگت سرخی مائل سیاہ اور چمکیلی تھی. جیسے لکڑی دہک کر کوئلہ ہو رہی ہو. پھٹے ہوئے پاؤں ننگے اور چپٹے تھے. اس کے ساتھ کئی بچے بڑے اور بوڑھے ہیولوں کی مانند چل رہے تھے اس کے جسم پر کاکاو، کچرے اور غلامی کی دھول جمی تھی اس کے کانوں میں پگھلا سیسہ ڈلا تھا اور لب سلے ہوئے تھے اور چہرے کے نقوش مدھم تھے. قبل اس کے کہ میں اس سے کوئی سوال جواب کرتی وہ بچھڑتی ہوئی بہت پیچھے رہ گئی.لیکن کاکاو کی خوشبو کئی بار مجھے اپنے بالکل قریب ہی محسوس ہوتی رہی.
ایک طویل قامت اور سبک رفتار لڑکی میرے قریب پہنچ چکی تھی. اس نے چست مغربی.لباس زیب تن کر رکھا تھا. مومی مشعلوں میں اس کا حسن دہک رہا تھا. لیکن وجود پر سخت محنت اور مسکان تلے تکان واضح تھی.
روپ رون تے کرم کھان. میں نے بڑی حسین لڑکیوں کو شاپنگ مالز میں صابن ،شیپمو نوڈلز اور واش روم کلینرز کی پروموشن کرتے دیکھا ہے. پارکنگ کے ٹکٹ کاٹتے بسوں میں دھکے کھاتے ،ریسیپشنسٹ کے کاؤنٹر پر گھنٹوں کھڑی لڑکیاں …… کیا حسن اتنا ارزاں ہوتا ہے یا چند سکے اتنے گراں مایہ؟ یہ بھی ان میں سے ایک ہے. شاید یہ اپنی معصومیت بھری خوبصورتی میں کسی حسینہ عالم کو بھی شرما دے. لیکن ایک ویٹرس! میں نے تاسف سے سوچا-
میری سوچ کا ادراک کرتے ہوئے وہ بے اختیار ہنسنے لگی لگی _____ لوگ مجھے ایک خوب رو ویٹرس مگر ایک کمتر انسان سمجھتے ہیں.جو محض ریسٹورینٹ میں پڑی دیگر سجاوٹی اشیاء کی مانند ہی ہے لیکن سخت مشقت کی بھٹی میں جلتا جسم اور آزردہ روح ان سب کی نظروں سے اوجھل ہی رہتی ہے.
اونچی ایڑھی کے سینڈل کی ٹک ٹک _____ مشاطہ کی انگلیاں ____ رنگ و بو کا سیل رواں ___مزدور _____ طوائف_____ قیمتی سینٹ کی خوشبوئیں جن کے عطر شوگر کین کی زمینوں سے کشید تھے ____ ان خوشبوؤں کی تہہ میں خون اور پسینے کی مہک بھی شامل تھے لیکن سبھی بے چہرہ اور موہوم کسی چہرے کا عکس برانڈڈ خوشبو کی شیشی جیسا واضح نہ تھا.
ہاں میں اسے کچھ کچھ پہچان پا رہی ہوں. میرے دائین جانب چلنے والی شاید فریال ہے. وہی فریال جس نے انجینئرنگ کالج میں بہترین تعلیمی کارگردگی کا پچاس سالہ ریکارڈ توڑا تھا. ہر جونئیر لڑکی کی آئیڈیل فریال ———
متوسط گھرانے کی وہ لڑکی جس کی مٹی میں ذہانت، انتھک محنت اور اعلی اقدار شامل تھیں.لیکن خمیر وہی محبت سے گندھا جو ہر عورت کی فطرت میں ودیعت ہوا.
ہاں یہ وہی ہے جو دھیرے دھیرے قدم بڑھاتی چلی جا رہی ہے.
اس کے کالج میں پڑھنے والا کسی امیر گھرانے کا لڑکا اس کی چاہت میں گرفتار ہوا اور فریال محبت میں. پسند کی شادی کے بعد اسے گھر داری بچوں اور سسرال کے ساتھ اعلی اقدار نبھاتے یہ بھول ہی گیا کہ کامیاب بزنس مین اور انجینئر کی بیوی فریال خود بھی ایک انجینئر تھی.
فریال بھی کسی دروازے سے جدا ہو چکی تھی. میرے قدم گرد آلود تھے اور مدھم مومی روشنیوں میں مقید کئی مناظر آنکھوں کے آگے نوحہ کناں تھے. بستی سے دور جنگل بیلوں میں کچھ دیوانے دھونی رما کر جوگ لیے بیٹھے تھے. فرزانوں نے ان دیوانوں کو دیس نکالا دے ڈالا تھا اور خود بستیوں عورتوں زمینوں پر قابض ہوئے تھے. ان سب کے عقب سے ہو کر روشنی کی نرم لہریں زمانوں کی مسافت کو طے کر رہی تھیں. مجھے بھی کسی در سے باہر نکل جانا ہے جانے باہر کیا ہوگا وہ بستی جہاں سے میں نے سفر کا آغاز کیا یا کوئی اور زمان و مکاں مجھے گھیرے میں لے لیں گے.
دن کا پہلا پہر شروع ہو چکا تھا. راستوں پر صبح دم کی بارش کے آثار تھے سڑکیں، گلیاں اور عمارتیں سب بھیگی ہوئی تھیں.
میرے قدموں پر دھول کے کوئی نشان نہیں تھے مگر جسم طویل مسافت کی تھکن کا شکار تھا.
پھر اچانک میری آنکھ کھل گئی یا شاید آنکھ لگ گئی.
کیونکہ میں پھر سے اسی سرنگ میں موجود تھی.
میرے اردگرد کیکر، خشک مٹی ،کاکاؤ یاسمین کےپھولوں کی خوشبو تھی. محنت کشوں کے پسینے کی بو کے بھبھکے تھے اور قحط ذدہ زمینوں پر پہلی بارش کی مہک تھی.
اونچی ایڑی کے سینڈل ، پھٹے پاؤں، تھکی ماندی مگر حسین و جمیل لڑکیاں، سیاہ رات جیسی تاریک اور دودھ کی مانند اجلی صورتیں، دیوانے ، فرزانے پھر سے اسی سرنگ میں کبھی میرے آگے اور کبھی مجھ سے پیچھے ہیولوں کی مانند گزر رہے تھے. میں نے ایک ثانیے کے لیے باہر نکلنے والے در کو غور سے دیکھا وہ راستہ لہریے سانپ کی مانند گھوم کر اسی سرنگ میں دوبارہ شامل ہو رہا تھا.