طلوع ماہتاب ۔۔۔ سبین علی
طلوع ماہتاب
سبین علی
ک کے کناروں کو دبیز دھند نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا اور گہرے اندھیرے میں زمین پر ستاروں کی ٹمٹماتی لو پہنچنے کے کوئی آثار نظر نہ آ رہے تھے- فلک بوس برفیلی چوٹیوں اور برف سے ڈھکی وادیوں میں چاند کو دیکھ کر ہوکنے والے جنگلی بھیڑیے شکار ناپید ہونے کے بعد ایک دائرے میں بیٹھے , آنکھوں میں آنکھیں ڈالے غُرا رہے تھے- وہ اس انتظار میں تھے کب کسی ایک کی پلک جھپکے اور باقی سب اس کی بوٹی بوٹی کر دیں- ٹھٹھرتے جگنوؤں نے جنگل کی راہ بدل لی تھی- بانسری بجانے والے نچلی وادیوں میں اتر گئے تھے یا ڈر کے مارے بھیس بدل کر اس علاقے سے نکل چکے تھے – جنوری کی کئی سرد اندھیری اور طوفانی راتوں کے بعد ہوا ساکت تھی گہرے بادلوں کے پیچھے کہیں روشن راتوں کا چاند موجود تھا مگر وہ بھی شاید ڈرا سہما چھپا بیٹھا تھا –
لکڑی کے چوکور بکسوں میں بند شہد کی مکھیاں کچھ دن سے ہر خوارک سے محروم تھیں- شدید برفباری اور برفانی تودے گرنے کی وجہ چیڑ کے درخت کی ٹوٹی شاخیں انہیں ڈھانپ ہوئے تھیں اور جنگلی پھولوں کے ننھے بیج کئی فٹ برف کے نیچے رت بدلنے کے منتظر تھے-
زرغونے یہ اندازہ لگانے کے بعد کہ اب باہر کوئی نقل و حرکت نہیں، پشمینے کی شال اوڑھے اپنے نیم خستہ گھر سے برآمد ہوئی ـ اسے گہرے اندھیرے سے ہمیشہ وحشت ہوا کرتی تھی… اس علاقے میں اماوس کی راتیں بھی اتنی اجلی ہوتی گویا ارب ہا ٹمٹماتے دیے آسمان سے جھک کر نیچے دیکھ رہے ہوں. لیکن اس رات آسمان گہرے بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا-
سب سے پہلے اس نے شہد کی مکھیوں کے چوکور بکسوں کے پاس بچے کچھے پھلوں کے ٹکڑے اور شیرہ رکھا. اور پھر اپنے صحن کی بیرونی دیوار سے پرے گرے پتھر ایک ایک کر کے ترتیب دیتی دھیمی آواز میں کوئی لوک دھن گنگنانے لگی ___
سپوگمئے سپوگمئے
اے ماہتاب طلوع ہو
بھیڑیے بھوک کی رسم نبھا رہے ہیں
کہرے نے رات طویل تر کر دی ہے
مگس آب حیات کی تلاش میں ہیں
اے ماہتاب طلوع ہو
بتا ابھی فلک کا کتنا سفر باقی ہے
پچھلے سال اس کے بچوں کا سکول بھی اڑا دیا گیا تھا اور اس سال دہشت گردوں کا جزوی صفایا ہونے کے بعد امید تھی کہ کھنڈر میں ہی سہی اس کے بچے آنے والی گرمیوں میں دوبارہ سکول جا سکیں گے – کتابوں کے پھٹے اوراق مرمت کر کے اوپر گتے رکھ کر اس نے جلدیں باندھ دی تھیں.
اسے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کا جنون تھا-
وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹی بھی کہیں تیس ہزار میں فروخت کر دی جائے- یا اس کا بیٹا ہیروئین اسمگل کرتا کسی باڈر پر پکڑا جائے …. جانے تخریب بہادری کی علامت کب سے ٹھہرائی گئی ہے؟
……….
زرغونے کیا صرف تیس ہزار میں تیرے باپ نے تجھے بیچ دیا تھا. اس کے کانوں میں مکھیاں بھنبھنانے لگیں- خوبانی کے درختوں پر بور آیا ہوا تھا – اس نے نوعمری کے سپنے دیکھنے بھی شروع نہ کیے تھے جب ایک بیمار اور بوڑھا شخص میدانی علاقے سے آکر اس کے باپ کے ساتھ رشتے کا سودا تیس ہزار روپے میں طے کر چکا تھا .
برفباری کا آغاز ہوا ہی تھا ابھی پھلوں کی فصل بھی تیار نہ ہوئی تھی جب شاخیں چھانگ دی گئیں. جب وہ خریدار اسے بیاہ کر میدانی علاقوں میں لے گیا تھا اس کا قد بھی پورا نہیں نکلا تھا – اس نے اپنے علاقے کی بیشتر عورتوں کی طرح ان رواجوں کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کر لیا- غربت و جہالت میں پروان چڑھی ان لڑکیوں کے پاس کوئی اور چارہ بھی نہ ہوتا تھا –
چند ہی برسوں میں زرغونے کا مجازی خدا نما لباس مسک کر خستہ ہو چکا تھا. وہ اپنے گاؤں کے قریب موجود سرکاری کالونی میں برتن مانجھنے اور کپڑے دھونے کی ملازمت کرنے لگی اور مفلوج شوہر کی دوا یا دو بچوں کی روٹی کے عوض بڑے صاحب سے لے کر چھوٹے صاحب تک کے بدن کا میل اپنے بدن پر اوڑھ لیتی رہی –
………..
“تو گناہ گار نہیں ہوتی” زرغونے _____ باورچن اسے کہتی –
کس بات کی گناہ گار …… روٹی کمانے کی ….؟
وہ میرا باپ ہوا گناہ گار ….. کلمے پڑھوا کر چھوٹ جائے گا ؟
اور وہ بڈھا جانے کتنے ہزار کما کر اس کی ہتھیلی پر دھر چکی ہوں…. وہ ہوا گناہ گار ….
اور زرغونے اُسی طرح اجلی کی اجلی اور نکھری نظر آتی جیسی پہاڑوں سے رخصت ہوتے وقت تھی –
مکھیوں کی بھنبھناہٹ میں ڈنگ کی سی تلخی سنائی دے رہی تھی-
پچیس کا سن چڑھا تو بیوگی نے آن لیا اور وہ میدانوں سے پھر برفیلی وادیوں میں لوٹ آئی –
موسم بدلا تھا مگس نیا چھتا سینچنے میں لگی ہوئی تھیں جب اس کا دوسرا شوہر سنگین خان اس کی گود میں مزید دو بچے ڈال کر خود بندوق اٹھائے شدت پسندوں سنگ ہو لیا-
مرغزاروں میں ہر نسل کے بھیڑیے کھلے بندوں پھرنے لگے – ان کی غراہٹیں سماعتوں کو مسموم کیے ہوئے تھیں – بارود اور لہو کی بساند سیب لوکاٹ اور خوبانی کی خوشبو پر حاوی ہو گئی اور وہ کتابوں کے ورق ورق اکٹھے کرتی حالات بدلنے کا انتظار کرتی رہی –
آخر یہ مرد بندوق کو زیور کیوں سمجھتے ہیں – وہ تلخی سے سوچتی- محض بندوقوں سے کبھی حالات بدلے ہیں کیا؟
تپتی دھوپ میں جھلستے پھر برف میں منجمد ہوتے اس نے اتنا سمجھ لیا تھا کہ پڑھ لکھ کر کوئی انسان اخلاقی ضابطوں میں بہتر نہ بھی ہو مگر بہتر زندگی ضرور گزار سکتا ہے.
وہ اپنے بچوں کو پڑھائے گی _____ اس کا بیٹا پہاڑوں پر نہیں بلکہ چراٹ جائے گا – اس کی بیٹی سکول میں استانی لگے گی….. یہی خواب اس کی حیات تھے –
شہد کی مکھیاں صبح سے شام تک جنگلی پھولوں کا رس اکٹھا کرتیں ،چھتے بھرتیں اور تنگ آکر آئے دن کئی نکھٹو مکھے مار دیتیں -اگلی گرمیوں میں جب سیاح ان علاقوں کا رخ کریں گے تو اس کے بچے سکول سے لوٹ کر مرتبانوں میں شہد اٹھائے اسے مرغزاروں دریاؤں اور جھیلوں کے کنارے بیچنے جائیں گے –
اگر سیاح آئے….. اگر گھوڑے خچر اور جیپیں یہاں پہنچیں …اگر بارود کی مہک جامنی پھولوں کی مہک سے دب گئی ـ اس کے صحن میں لگے آلوچے اور خوبانی کے درخت خوب پھل دے دیں تو کتنا اچھا ہوگا-
اور اگر حالات یہی رہے تو کیا ہوگا؟ وہ تفکر سے بڑبڑائی –
کاش یہ عجیب و غریب لوگ جنہوں نے دہشت پھیلا رکھی ہے یہاں کبھی نہ آتے، نہ ہی کوئی کمسن ان کے جھانسے میں آتا – عورتوں کا بھلا کیا ہے ____ ان حالت پہلے کمتر تھی اور اب بدتر _____ دین و دنیا تو ایک طرف زندہ رہنے کے لیے نان روٹی کے بھی لالے پڑ چکے ____
…..
نان روٹی اور گوشت کا سالن یہی کھلایا تھا اس کے باپ نے اپنی برادری کو …. اس کے ولور کی رقم سے
اور اس کے جسم کو مقدس کلمات پڑھے پانی کا غسل دے کر دو بار حلال کیا گیا تھا ان فیصلوں کے لیے جن میں زرغونے دل سے کبھی راضی نہ تھی.
وہ سوچوں کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے اپنے خوف پر قابو پانے کی کوشش میں پھر سے گنگنانے لگی
اے ماہتاب طلوّع ہو
طویل رات کا گہرا اندھیرا ہے
لعل و جواہر گلیوں کی خاک چھان رہے ہیں اور نان سے روشنی نہیں پھوٹتی
پھولوں کے بیج گہری برف تلے دبے
پھوٹنے کے منتظر ہیں_____
مگر اندھیرے کی وحشت تھی کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی – دیوار پر پتھر جماتے وہ دبے پاؤں بھیڑوں کے باڑے کی طرف بڑھی- اپنے سر کے گرد شال جماتے ہوئے اس کا پاؤں خشک لکڑی پر پڑ گیا؟ ایک چرچراہٹ ہوئی—
سنگین خان نے ہاتھ اس کے منہ پر رکھ دیا تھا – اندھیرے کی وحشت آخری حدوں کو چھو کر ختم ہونے لگی تھی – اس کا خوف ہوا ہو چکا تھا –
میرے ساتھ مہمان ہیں گھر کے اندر جاؤ اور کچھ چائے قہوہ بھیجو یہاں. خبردار کسی کو پتا چلا ہماری ادھر موجودگی کا ورنہ کھوپڑی اڑا دوں گا – پچھلی بار جب سنگین اپنے ساتھ لے کر یہاں آیا تھا تو اسی رات لہو بارود کی آندھی کئی گھر اجاڑ گئی تھی …
زرغونے بغیر کوئی جواب دیے مضبوط قدم اٹھاتی واپس گھر کے اندر داخل ہوئی- اس نے دہکتے آتش دان میں چند لکڑیاں اور ڈالیں اور کیتلی میں قہوہ دم پر رکھ دیا –
جب اپنے بچوں پر ڈالا گرم لحاف درست کر رہی تھی تو اسی وقت فوجی جیپیں پورے احاطے کو گھیرے میں لے رہی تھیں – چند ہی لمحوں میں جوان دھڑا دھڑ عمارت کے اندر کودتے سنگین خان سمیت سب کو مزاحمت کا موقع دیے بغیر گرفتار کر چکے تھے –
اینٹی ٹیرراسٹ اسکواڈ کے جوان اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے رخصت ہوئے تو وہ پھر ٹوٹی ہوئی دیوار کے قریب آن کھڑی ہوئی – اس کے ہاتھ میں چھوٹا سا موبائل فون جگمگا رہا تھا – پھر وہ شہد کی مکھیوں کے بکسوں کی طرف لوٹی تو دیکھا کہ آسمان پر بادل چھٹ رہے ہیں اور ہالے میں چمکتا چاند مسکرا رہا ہے ساتھ ہی اربوں ستارے زمین پر جھانک رہے ہیں.
اے ماہتاب طلوع ہو
اپنی روشنی بکھیرو
تارے تمہارے ہمرکاب
روشنی کا ورد کریں