شہر ِ غریباں ۔۔۔ صبیح الحسن

 شہرِ غریباں

صبیح الحسن

بادل برس رہے تھے اور نجانے کب سے برس رہے تھے۔ بڑھتے پانی کی خبریں تو میں کب سے سن رہا تھا لیکن جب وحشی بوندوں نے میرے گھر کا راستہ دیکھا تو مجھے حالات کی سنگینی کا ادراک ہوا۔ منہ زور پانی کی بلاخیزیوں سے گبھرا کر میں گھر سے باہر نکلا تو گلی میں آتے ہی پانی کے ریلوں نے رانوں تک مجھے اپنے نرغے میں لے لیا۔ حیرت سے آس پاس نگاہ دوڑائی تو پانی قطرہ بہ قطرہ میرے شہر کو ڈبو رہا تھا۔ بہتے پانی کی یورش میں لوگ، عمارتیں، گلیارے سب دھندلے پڑتے جا رہے تھے۔ میرے دل کو دھچکا سا لگا۔ میرا شہر ڈوب رہا تھا۔ میری زندگی کی کھٹی میٹھی یادیں، میرے شناسا منظر، میرے دوستوں کے نقوش، میری جان کے ٹکڑے انہی گلیوں میں بکھرے چیخ رہے تھے۔

“میں آ رہا ہوں۔” چیخوں کا شور سن کر بے ساختہ میرے منہ سے صدا نکلی۔ میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہ سکتا تھا۔ مجھے انہیں بچانا تھا۔ مجھے ان کی مدد کرنی تھی۔ میری امیدوں کا محور راج محل تھا جہاں سے مدد مل سکتی تھی۔ اگرچہ وہاں عوام کا داخلہ ممنوع تھا لیکن میرا چھوٹا بھائی وہاں کام کرتا تھا۔ مجھے امید تھی کہ وہ ہماری مدد کے لیے کچھ کر سکتا تھا۔ میں لڑکھڑاتا ہوا راج محل کی جانب بڑھنے لگا۔ پانی آہستہ آہستہ میرے وجود کو کھا رہا تھا۔ میرے عقب سے آتی چیخوں کی آواز بڑھتی جا رہی تھی۔ اچانک کسی گڑھے نے مجھے اپنی آغوش میں سمیٹ لیا جیسے مجھ سے برسوں کی شناسائی ہو۔ میں غوطہ کھانے کے بعد ابھرا تو مجھ پر کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ میرے کانوں میں بھی پانی پڑ چکا تھا. مجھے شدید ڈر لگنے لگا۔ میں نے باہر کی چیخوں سے دھیان ہٹا کر اپنے اندر جھانکا تو میرا رواں رواں بھی چیخ رہا تھا۔ میں مرنا نہیں چاہتا تھا۔ مجھے دوسروں کے ساتھ ساتھ خود کو بھی بچانا تھا۔ ایسے حالات میں راج محل ہی ایک محفوظ جگہ ہو سکتی تھی۔ میں نے کپکپاتے ہاتھوں سے آنکھوں سے پانی صاف کیا اور آگے بڑھتا گیا۔

 بارش مسلسل برس رہی تھی۔ ہر جگہ پانی جمع تھا۔ محل کے باہر پہنچا تو ایک ہجوم کو دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا جو سر سے پاؤں تک بارش میں شرابور چلائے جا رہا تھا

“بارش نہیں ہو رہی۔۔۔۔۔ بارش نہیں ہو رہی۔”

ان کے اس سفید جھوٹ پر میرا خون کھول اٹھا۔

“او خبیثو! خدا غارت کرے تمہیں۔ ایسا کھلا جھوٹ بولتے تمہیں شرم بھی نہیں آ رہی؟” میرا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا۔

لوگ مر ریے تھے اور یہ شترمرغ کی طرح ریت میں سر دیے حقائق ماننے سے انکاری تھے۔ میں ان سے کنی کترا کر آگے بڑھا۔

“تم جیسوں کے کرتوتوں کی ہی وجہ سے ہم پر یہ عذاب نازل ہو رہا ہے۔” حقائق چھپا کر سب اچھا ہے کا راگ الاپنے والوں کے لیے میرے دل میں شدید نفرت کے سوا کچھ نہ تھا۔ میں نے ایک سلگتی نگاہ ان پر ڈالی اور محل کی جانب بڑھ گیا۔ دربان نے انتہائی سختی سے مجھے اندر جانے سے روک دیا لیکن میرے بھائی کا نام سن کر اس کے بگڑے تیور قدرے نرم پڑے اور اسے بلوا دیا گیا۔ وہ مجھے ہمراہ لیے محل میں داخل ہو گیا۔  اونچی اونچی فصیلوں سے گھرے محل کی چھت کے نیچے آتے ہی ایک نرم سی حدت نے مجھے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ تحفظ کا کیف آگہیں احساس میرے شکستہ وجود کو سہلانے لگا۔ میرا دل چاہا کہ یہیں کسی کونے میں پڑ رہوں لیکن شہر کو بھی تو بچانا تھا۔ محل کے مکین اپنی دیواروں سے باہر رونما ہونے والے واقعات سے یکسر بےنیاز معلوم ہو رہے تھے۔

“تمہیں پتہ ہے؟ باہر قیامت آئی ہوئی ہے، شدید بارش ہو رہی ہے۔” میں نے بھائی کا بازو تھام کر کہا۔

“ششش! چپ کرو خدا کے لیے! کیا مجھے نوکری سے نکلواؤ گے؟ یہ راج محل ہے۔ یہاں اندر کی باتیں اندر ہی رہتی ہیں اور باہر کی باتیں حتی الامکان باہر ہی رکھی جاتی ہیں۔”

اس نے متوحش نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے سرگوشی کی۔

“لیکن باہر لوگ مر رہے ہیں۔ کیا تمہیں آوازیں سنائی نہیں دے رہیں؟” میں نے دور سے آتی چیخوں کی جانب اسے متوجہ کرنے کی کوشش کی۔

“یہاں محل میں کئی اہم ترین امور ہماری توجہ کے زیادہ حقدار ہیں۔ لوگ تو ہمیشہ سے ہی مرتے رہے ہیں۔ یہ کونسی نئی بات ہے؟”  وہ استہزائیہ انداز میں ہنسا اور ایک جانب چل دیا۔ میں ہکا بکا کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہا۔ مجھے لگا کہ وہ شہر کی گلیوں میں میرے ساتھ کھیلنے والا بھائی نہیں رہا بلکہ اس پرشکوہ محل کی بنیادوں میں لگا کوئی پتھر بن چکا ہے جس کی واحد ذمہ داری محل کے مکینوں کے اطمینان و سکون کی آبیاری ہے۔ میرے اندر غصے کی ایک شدید لہر اٹھی۔ مجھے خود ہی کچھ کرنا تھا۔

میں تیز قدموں سے مرکزی کمرے کی جانب بڑھا جہاں حاکم بیٹھتا تھا۔ دروازے کے قریب پہنچتے ہی موسیقی کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔ شہر سے ابھرتی چیخوں کی کمزور صدا سازوں کی اس یورش میں کہیں دب کر رہ گئی۔ میرے کمرے میں داخل ہوتے ہوتے موسیقی رک گئی۔ میں نے کمرے میں نگاہ دوڑائی تو کمرے کے بیچوں بیچ ایک منقش کرسی پر حاکم وقت براجمان مسکرا رہا تھا جبکہ بہت سے لوگ اردگرد کھڑے اسے کینہ توز نگاہوں سے گھور رہے تھے۔ مجھے صورتحال سمجھ نہ آئی لیکن میں آگے بڑھا اور حاکم کے کان کے قریب جا کر ملتجیانہ انداز میں بولا “حضور والا! باہر۔۔۔۔۔” میرا جملہ منہ میں ہی رہ گیا اور حاکم نے مجھے پیچھے دھکیل دیا۔ اس کی توجہ ان اشخاص کی جانب مرکوز تھی جو اس پر حملے کے لیے پر تول رہے تھے۔ اس کے ساتھیوں نے دخل در معقولات پہ مجھے خشمگیں نظروں سے گھورا تو میں خفیف سا ہو کر پیچھے ہٹ گیا اور مناسب وقت کا انتظار کرنے لگا۔

کچھ دیر گزری تو کمرے کی فضا پر نہایت غیر فطری اور بوجھل سا جمود طاری ہوتا گیا۔ حاکم نے چاروں جانب سکوت دیکھا تو اکتا کر لمبی سی زبان نکالی اور ساؤنڈ سسٹم پر بیٹھے سخت چہرے والے شخص کا منہ چڑانے لگا۔ اسے یہ حرکت کچھ زیادہ ہی گراں گزری اور اس نے بٹن دبا کر سسٹم آن کر دیا۔ کمرہ موسیقی کی تیز آواز سے تھرا اٹھا۔ موسیقی شروع ہوتے ہی کسی غیر مرئی طاقت نے ایک جھٹکے سے حاکم کو کرسی سے اتار پھینکا اور وہ منہ بسورتا تین چار دیگر افراد کے ساتھ مل کر کرسی کے گرد چکر لگانے لگا۔ سب سرکردہ لوگ کرسی کے چکر کاٹ رہے تھے اور ان کی نگاہیں موسیقی چلانے والے پر مرکوز تھیں۔ ان کے حمایتی تالیاں بجا بجا کر اور نعرے لگا لگا کر ان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے جبکہ میں حیران کھڑا سوچ رہا تھا کہ میوزیکل چئیر کھیلنے کا یہ کونسا وقت تھا۔ ساؤنڈ سسٹم والے نے کچھ دیر کے بعد بٹن دبایا اور آواز بند ہو گئی۔ دائرے میں گھومتے سب لوگ چیل کی مانند کرسی کی جانب جھپٹے۔ اس بار قرعہ ایک مدقوق سے شخص کے نام نکلا۔ اس کے حمایتیوں نے نعرے لگا لگا کر آسمان سر پر اٹھا لیا۔ سابقہ حاکم کو یہ شور شرابہ زیادہ پسند نہ آیا۔ اس نے آگے بڑھ کر اس مدقوق شخص کو ایک جھانپڑ رسید کیا اور اسے پرے دھکیل کر پھر سے کرسی پر بیٹھ گیا۔ مظلوم شخص کے حمایتی چند لمحے تو سکتے میں رہے لیکن پھر جس کے ہاتھ جو آیا وہ لے کر مغلظات بکتا کرسی پر قبضہ کرنے والوں پہ پل پڑا۔ کرسی کے آس پاس گھمسان کی جنگ شروع ہو گئی۔

میں اس منظر میں کھو چکا تھا کہ اچانک ڈوبتے شہر کے حلق سے ایک تیز چیخ نکلی اور میرا گریبان جھنجھوڑتی باقی سب کی مقفل سماعتوں سے سر پھوڑنے لگی۔

“بھائیو! باہر بارش ہو رہی ہے۔ شہر ڈوب رہا ہے۔ لوگ مر رہے ہیں۔” میں نے ایک بار پھر انہیں محل کی دیواروں سے باہر کی دنیا کے روح فرسا حقائق بتانے کی کوشش کی لیکن میری آواز کمرے میں پھیلی ہلڑبازی پر حاوی ہونے میں ناکام رہی۔ سبھی لوگ باہم دست و گریباں تھے۔ کرسی کی اس جنگ میں میری فریاد کون سنتا۔ میں سوچنے لگا کہ اب کیا کیا جائے۔ میرا اضطراب بڑھتا جا رہا تھا۔ لیکن اس سے قبل کہ میں کچھ سوچ پاتا موسیقی پھر سے شروع ہو گئی۔ لڑنے والوں نے بکتے جھکتے ایک دوسرے کو چھوڑا اور چند لوگ پھر سے کرسی کے گرد دوڑنے لگے۔ مجھے ایک خیال سوجھا۔ میں موسیقی تھمنے کے بعد چند لمحوں کے سکوت سے فائدہ اٹھا سکتا تھا۔ شائد مجھے اپنی بات کہنے کا یہی ایک موقع مل سکتا تھا۔ جیسے ہی ساز خاموش ہوئے اور نیا حاکم کرسی پر بیٹھا تو میں چھلانگ لگا کر وسط میں کودا اور پوری شدت سے چلایا

“باہر بارش ہو رہی ہے۔”

در و دیوار میری مجنونانہ چیخ سے جھنجھنا اٹھے۔ میری آواز کی بازگشت محل کے درو بام سے ٹکرا کر واپس آئی تو مجھے احساس ہوا کہ کمرے میں سناٹا چھا چکا تھا۔ سب لوگ میری جانب متوجہ تھے۔ آخرکار میں نے حقیقت کو ان کے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔ شاید اب کوئی راہ نکل سکتی تھی۔ حاکم نے دربان کو اشارہ کیا اور چند لوگ میری جانب بڑھے اور مجھے بازوؤں اور ٹانگوں سے پکڑ کر اٹھا لیا۔

“یہ کیا کر رہے ہو پاگلو؟” میں مچلتے ہوئے حلق کے بل چیخا۔ لیکن وہ مجھے یونہی اٹھائے ہوئے دروازے کی جانب لے چلے۔ کمرہ پھر سے موسیقی کی آواز سے گونج اٹھا۔ شاید گیم کا نیا دور شروع ہو رہا تھا۔ قبل ازیں کہ میں کچھ کر پاتا انہوں نے محل کا دروازہ کھولا اور مجھے میرے حقائق سمیت ایک جھٹکے سے باہر اچھال دیا۔

میں کافی دور تک پٹخنیاں کھانے کے بعد رکا۔ لبوں سے سرخ خون بہہ کر روش کے گیلے پتھروں کو اپنی داستان وحشت سنانے لگا۔ چھاجوں برستے مینہہ نے چند ہی لمحوں میں مجھے شرابور کر ڈالا۔ میرے ماؤف ذہن کے گوشوں میں نوحہ کناں چند نئے حقائق سر اٹھانے لگے۔

“یہ کیا کر دیا تم نے احمق انسان؟” سکتے میں آیا میرا شعور حیرت کی بیڑیاں توڑ کر چلایا۔

دوسروں کو بچانے کے چکر میں میں خود بھی محل کی محفوظ پناہ گاہ کھو بیٹھا تھا. مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ میں نے اپنے کپکپاتے ہاتھوں کو دیکھتے ہوئے شہر سے آتی چیخوں کو سننا چاہا۔ مجھے کوئی آواز سنائی نہ دی۔ کیا سب ڈوب چکے تھے؟ یا میری سماعتوں کے کواڑ بھی مقفل ہو چکے تھے؟ یا میرے اندر سے اٹھتی چیخیں باقی ہر شے پر حاوی ہو چکی تھیں؟

“میرا کیا بنے گا؟” ایک وحشت زدہ سوال آندھی بن کر اٹھا اور میرے ذہن کے افق پر چھاتا چلا گیا۔

پانی کی ایک لہر میرے پیروں سے ٹکرائی۔ میں نے خوف سے کانپتے ہوئے، گردن موڑ کر بڑھتے ہوئے پانی کو دیکھا اور محل کے بند دروازے کو پیٹتے ہوئے چلا اٹھا

“بارش نہیں ہو رہی۔۔۔۔۔ بارش نہیں ہو رہی۔۔۔۔۔۔”

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031