داستان (قسط دوم) ۔۔ ڈاکٹر صابرہ شاہین

داستان ( دوسری قسط)

ڈاکٹر صابرہ شاہین۔

ابھی  کچھ دن ہی گزرے تھے کہ خالہ نے حسب_معمول کمرے کا پنکھا بند کر دیا ۔ سب بہن بھائی بے ہوش پسینے سے گتھی ہوئی گیلی نیند میں مبتلا خراٹے لے رہے تھے ۔میں جھنجھلا کر  آٹھی اور گھر سے ملحکہ  ویران چار دیواری میں  کود گئی۔ اس احاطے میں کیکر کی گھنی جھاڑیاں اس طرح اگی ہوئی تھیں کی ان کے بیچوں بیچ   بستر جتنی صاف ستھری جگہ خالی پڑی تھی میں اس کنج_امن میں گھس گئی ۔تھکن کا احساس ہوا تو  لیٹ گئی اور نجانے کب آنکھ لگ گئی پیٹ پر سے ننھی سی کرتی سرک گئی تھی۔ چند ثانیوں بعد ننگے پیٹ پر سے  کسی شئے کے  رینگ کر پیٹ سے  دوسری  جانب اترنے کا احساس ہوا فورآ اٹھنے کی کوشش کی مگر خوف کی وجہ سے آٹھنا مشکل ہو گیا تھوڑا سا سر کو آٹھایا  تو کیا دیکھتی ہوں وہ کوئی ایک فٹ لمبا مٹی میں سنا ہوا کالا سانپ تھا۔ زور سے سر چکرایا پیٹ میں آنتیں الٹ پلٹ گئیں اور شدید قسم کی الٹی ہو گئی۔  بمشکل تمام دیوار پھلانگی ہینڈ پمپ پر جا کر اپنے ہاتھ اور ٹانگیں دھوئیں کلی کی اور سوچنے لگی کس کی گودی میں جا کر چھپوں ۔ اماں۔۔۔۔۔ مگر وہ تو نہیں  ہے۔۔۔۔ ۔بابا گھر پر نہیں۔۔۔۔ نانو۔۔۔۔ہاں  نانو. .  پھر ۔۔۔پھر ہولے سے جا کر نانو کے پہلو میں جا چھپی۔ نانو جاگ نہ جائیں اس لیے اپنی ہچکیوں کو گلے میں گھونٹ دیا مگر آنسو تھے کہ رکتے ہی نہ تھے۔

گرمیوں میں سارا خاندان گھر کے صحن میں چارپائیاں ڈال کر کولر کی ٹھنڈی ہواوں کے حصار میں سویا کرتا تھا مممانی حسب-سابق  چار پائیاں لگا چکی تھیں کولر آن تھا فرش تازہ بہ تازہ دھویا گیا تھا نانو اپنی چارپائی پر بیٹھی شام کی چائے پی رہی تھیں ان کی بصارت حال ہی میں نجانے کیسے ختم ہوئی تھی ۔سب کہتے تھے بیٹی(اماں ) کی جوان موت کو روتے روتے انھوں نے اپنی بصارت کھوئی ہے۔  میں اور شاہدہ( بہن) بشمول خالہ کی بیٹی کے چارپائیوں پر زور زور سے اچھلنے کا کھیل کھیلنے لگے۔ہم  تینوں  اچھلتے جاتے اور اچھلتے اچھلتے ایک سے دوسری چارپائی پر کود جاتے ۔ میں نے بھی اچھلتے اجھلتے  چھلانگ لگائی اور نانو کی چارپائی پر جا اتری  کپ ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر ان کی جھولی میں الٹ گیا   انھوں نے پہلی بار گالی دیتے ہوئے شدید غصے میں کہا ” نوچی کیوں نچدی ودیں بندہ بن”  ۔میرے لیے یہ لفظ نیا تھا  اور پہلی بار داغا گیا تھا سو  میں نے ڈرنے کی بجائے بڑی معصومیت سے نانو کا کندھا پکڑ کر پوچھا” نانو۔۔یہ نوچی کیا ہوتی ہے ؟” اس سے پہلے کہ نانو  جواب میں کچھ کہتیں ماموں نجانے کہاں سے  آن ٹپکے  اپنی ماں اور مجھے تو کچھ نہ کہا  ساتھ کھڑی ممانی کے سر پر اک زور دار دھپ رسید کرتے ہوئے بولے بچوں کے سامنے یہ زبان استعمال ہو گی تو نتیجہ یہی ہو گا ۔ مجھے یہ تو پتہ چل گیا کہ نوچی کوئی اچھی بات نہیں لیکن اس کے معنی سمجھنے  کا سودا میرے سر میں سما گیا۔ کہیں تھرڈ ایر میں آکر میں نے اس  لفظ کے معنی اس فیروزاللغت میں سے پائےجو پروفیر محمد صادق صاحب  نے  میری ایف ایس سی میں کامیابی کے موقع پر  بطور تحفہ عنایت کی تھی۔ اگلی صبح اک اور فاش غلطی  سر زد ہو گئی شام دھیرے دھیرے صحن میں اترنے لگی تھی اور مجھے سخت گرمی نے آن گھیرا  تھا ۔میں نے پانی کی ٹونٹی کھولی اور لمبی سی  ٹیوب کے ذریعےکپڑوں سمیت نہاتے ہوئے سارے صحن کو ٹھنڈا کرنے لگی۔میں صحن میں مزے سے چاروں اور  نہاتی ‘اچھلتی چوکڑیاں بھرتی چلی جاتی تھی کہ خالہ کی نظر پڑ گئی۔اور پھر اللہ دے اور بندہ لے کے مصداق وہ کوسنوں سے میرے  گوش گرمانے لگیں ۔بابا کے سامنے خالہ کارویہ بہت شاندار ہوا کرتا تھا  مگر  اس دن ان کی ہر نیکی کا پول گھر میں داخل ہوتے بابا پر کھل گیا ۔وہ سب اپنے کانوں سے سن چکے تھے۔اس لیے گھر میں داخل ہونے کی بجائے الٹے قدموں وہ باہر چلے گئے۔ اور ایک مرتبہ پھر بے حس  ڈھلتی مغرب صرف جہان_عالم پر  ہی نہ اتری بلکہ ہمارے دلوں پر خوفناک  گمبھیر دکھ بھرے سناٹوں کے کالے سائے  بھی آتار گئی۔ ممانی کا چولہا روشن تھا نانو اپنے بستر پر دراز نجانے کیا سوچ رہی تھیں  باجی آٹا گوندھ کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ بابا آ گئے۔ انھوں نے باجی کے آٹے میں سنے ہوئے ہاتھ کو پکڑا اور ہم سب چھوٹوں کو انکھ کے شارے سے ساتھ چلنے کو کہا۔ آٹا  ایک مرتبہ پھر بالٹی میں انڈیلا گیا اور یہ منا سا قافلہ اک مرتبہ پھر ان دیکھے ٹھکانے کو  ہجرت کر گیا۔
گرمیوں کی چھٹیاں کیا آتیں شوخیوں کے کئی سندیس لاتیں ۔ہم سب اپنے گاوں “سرور والی ” اور کبھی کبھی” بیٹ” چلے جاتے۔ کھیت کھلیان ‘بہت بڑا  آٹھ دس  کنال کا ویڑھا جس کے چاروں طرف کمرے اور درمیان میں بڑا سا دالان مسکایا کرتا۔ ۔جوائنٹ فیملی سسٹم  دو  چاچو اور ہم اسی گھر میں رہتے ۔  ڈھور ڈنگر بھی اسی حویلی کی داہنی سائیڈ پر کچے چھپروں کے نیچے بندھے رہتے ٹوکہ مشین بھی وہیں اک سائیڈ پر موجود تھی۔ کچے گارے سے پوتی ہوئی یہ حویلی چاندنی راتوں میں کسی خواب نگر کا سفید محل محسوس ہوتی۔ ایک چچا اور اکلوتی سگی پھوپھو عادل پیر میں ایسی ہی اک طویل و عریض حویلی میں رہتے تھے سوتیلی پھوپھو ڈیرہ غازی خان بیاہی گئی تھیں سوتیلے چچا کی حویلی بھی سرور والی میں ابائی اراضی کے درمیان موجود تھی جبکہ  ہمارے والد صاحب نے  بچوں کی تعلیم کے لیے ڈیرہ غازی خان میں بسنا پسند کیا۔  کچھ زرعی رقبہ سندھ کنارے پر بھی تھا جو کبھی تو پانی سے باہر نکل آتا اور کبھی شیر دریا کی چنگھاڑتی موجوں کی گود میں چھپا رہتا ۔ مختلف جگہوں پر رقبے کی موجودگی کی اصل وجہ کیا تھی؟ اس حوالے سے پھوپھو اور دوسرے چچاوں سے جو داستان سنی وہ  داستان_امیر حمزہ کی طرح طویل’ پرخطر واقعات ومسائل سے پر ‘ تجسس سے بھری ایک  ایسے کھوہاوڑ  شہزادے کے سفر کی جان گداز روداد تھی  جسکے والدین اور عزیز و اقارب باہمی قبائلی دشمنی اور قتل و غارت گری میں اسے تنہا و لاوارث چھوڑ کر عدم سدھار گئے تھے ۔ جب کہ  اس کھوہاوڑ بچے کو اس کا خاندانی ملازم  بچی کچھی طشتریوں کے توڑے سمیت  لے کر پرامن علاقے کی تلاش کو عازم-سفر رہا ۔ وہ جہاں بھی چند برسوں کے لیے رکا وہاں زمین خرید لی اور کھیتی باڑی کر کے  باعزت زندگی گزاری۔  مگر ان دونوں کے لیے  سکون  میسر ہونا ممکن نہ تھا ۔ دشمنوں کے کھوج نکالنے کے  ڈر سے وہ  ملازم اپنے مالک کے بچے کو سینے سے لگائے لگا تار ٹھکانہ بدلتے ہوئے کوہاٹ سے تونسہ ‘پیر عادل اور بالآخر دریائے سندھ کے کنارے( بیٹ ) پر امن و امان سے آن بسا۔جلدی میں وہ جہاں سے بھی نکلا اسے  اراضی بیچنے کا موقع نہ مل سکا۔ اس لیے آج بھی تھوڑا تھوڑا رقبہ  تونسہ سے سندھ کنارے تک مختلف علاقوں میں  مسافرت کے گواہ کی صورت موجود ہے جس پر اب دوسری قومیں  قابض ہیں جن کو چیلنج کرنا یا اپنی ملکیت ثابت کرنا اب ممکن نہیں ۔ ۔مکان مکمل ہو گیا تو ہم کرائے کے مکان سے اپنے گھر شفٹ ہو گئے۔شفٹنگ کا وقت تب بھی ڈھلتی مغرب  کا  وہی بے رحم  وقت  تھا جب شام  رات سے باہم دست و گریباں ہوتی ہے ۔ سبھی  پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں  پہنچ چکے ہوتے ہیں سوائے اکا دکا اداس تھکے ہارے بھٹکے  پرندوں کے جو یا تو اپنے گھر کا راستہ بھول چکے ہوتے ہیں یا تلاش_رزق میں ایسی لمبی آڈاری مار چکے ہوتے ہیں کہ پھر واپسی کا سفر ان کے لیے وبال بن جاتا ہے ۔  ڈوبتی مغرب کو مجھ سے جانے  کیوں ایسا آنس یا پرخاش تھی کہ عمر بھربھانت بھانت کی اداسیوں بھری چنگیر لیے میرے ساتھ رہی  ۔  ہم بہن بھائی اور بابا اپنے گھرمیں بہت خوش تھے۔ شاہدہ (بہن)چھوٹا بھائی ندیم اور میں بہت اچھے مصور تھے۔ ندیم اور شاہدہ پوٹریٹ بناتے اور مجھے پرانی عمارتوں’ تاریخی مسجدوں اور مندروں  کو مصور کرنے کا جنون سا  تھا ۔ہمارے گھر کے چوبارے پر جنوبی سمت کیطرف ہمسایوں کے صحن میں سریں کا اک  گھنا سر سبز درخت تھا جس کی کئی لچکیلی گھنیری شاخیں ہمارے  گھر کے  پردوں پر جھک آئی تھیں ۔اس پیڑ کی ہر شاخ پر سینکڑوں چڑیاں بسرام کرتی تھیں ۔ہماری صبح آنھیں چڑیوں  کی چہکار پر ہوتی اور شام کا سلونا حسن بھی آنکی چہکار تلک من موہنا رہتا ۔جونہی شام رات سے گلے ملنے لگتی میرے اندر میری کمسنی کی ہجرتوں کا درد کروٹیں لینے لگتا۔عجیب سی وحشت میرے ننھے سے ذہن میں کلبلانے لگتی اور جی چاہتا کہیں دور بہت دور نکل جاوں۔مگر کہاں اس کا جواب آج تلک  کہیں سے بھی نہ مل سکا  ۔ یوں ہوا کہ اک ڈھلتی شام میں  جب خزاں کی ہوا سرسراتی تھی اور پیلے پتے اپنی شاخوں سے بچھڑتے جاتے تھے میں اپنی چھت پر مغرب میں پہاڑوں کی اوٹ میں گرتے سورج کی شکستگی کا منظر دیکھ رہی تھیاس وقت میں چھٹی یاساتویں جماعت کی طالبہ تھی  اک نظم بعنوان” بوڑھا پتا” سر زد ہو گئی۔ بابا بذات_خود سرائیکی زبان کے اہم شاعر تھے  میں نے وہ نظم با با کو دکھائی انھوں نے یہ نظم اپنے دوست اور ڈیرہ غازی خان کے معروف شاعر  “وحید تابش “کو دکھائی۔بقول بابا انھوں نے نظم پڑھی کچھ دیر مسکراتے رہے پھر پوچھا بیٹی کس کلاس میں پڑھتی ہے با با نے بتایا تو وہ چونک پڑے اور بولے “میں نہیں مان سکتا ایسی مکمل نظم  اتنی کم سن بچی لکھ سکتی ہے” چاچو کے یہ الفاظ اور حیرت میرے فن کا مان اور فخر ہے۔ ۔پھر بابا مجھے ان کے گھر ان سے ملوانے کو لے گئے اور یوں میں ادب و شعر کے حوالے سے پہلے جاچو وحید تابش  اور با با کا مکالمہ غور سے سنتی رہی اور پھر ماہ و سال کے کئی چکروں کے بعد  دھیرے دھیرے اس گفتگو میں حصہ لینے لگی۔ اس زمانے میں ڈیرہ غازی خان میں  اک ادبی تنظیم “بزم_امکاں” بہت فعال تھی اس بزم کے اہم ممبران میں  کیف انصاری ‘وحید تابش’ مجید تمنا’ سرور کربلائی’ اعجاز ڈیروی اور بہت سے دوسرے بزرگ  اور کئی ایک  نوجوان شعرا شامل تھے( جن نام اس وقت میرے ذہن میں نہیں آرہے)  چاچو کے کہنے پر بابا نے مجھے اس پلیٹ فارم پر ہونے والے تمام ادبی پروگراموں میں  شرکت کی اجازت دے دی اور یوں شہر ڈیرہ غازی خان میں مردوں کے مشاعروں میں اک بچی نے شرکت کی مثبت روایت ڈالی جو آگے جا کر سینئر شاعرات (محترمہ طاہرہ سوز اور سعیدہ افضل صاحبہ )کو بھی اس تنظیم میں شرکت  کرنےاور مشاعرے پڑھنے کا حوصلہ دینے میں معاون ہو گئی  ۔یہ دونوں خواتین نجانے کب سے  شاعری کر رہی تھیں مگر ڈیرہ جیسے شہر میں مشاعروں میں  شرکت کرنے سے احتراز برتتی تھیں ۔ میری مشاعروں میں شرکت نے نہ صرف  ان سینئر شاعرات  کےلیے بلکہ کئی نئ لکھنے والیوں کے لیے بھی  شرکت کے در وا کئے اور جرات کا باعث بنی ۔ آج اس شہر میں شاعرات کی اک کھیپ تیار ہو چکی ہے ۔۔وقت کی بے رحم موجوں میں ابھرتا ڈوبتا انسان مسلسل بقا کی جنگ لڑتے لڑتے فنا کے گھور اندھیارے کنویں میں اتر جاتا ہے ۔ اور اسے خبر تک نہیں ہوتی کہ فنا و بقا کے سارے فیصلے  کسی اور کے اختیار میں ہیں ۔  اور فنا سے کسی صورت مفر نہیں۔ ۔ مگر آدمی ہے کہ کسی  راضی برضا رہنے  پر راضی ہی نہیں ہمیشہ باقی رہنے کی تگ و تاز میں مشغول رہتا ہے ۔ تا انکہ اس کی مہلت_عمر ختم ہو جاتی ہے ۔یہ ایجاد و اختراع یہ فن پاروں کی تخلیق یہ شعر گوئی و سنگ تراشی ۔یہ سیاست و سیادت۔یہ حکمرانی و غلامی۔ یہ حق گوئی و بے باکی۔ یہ سقراط کی زہر نوشی۔ یہ حلاج کی سر_دار انالحق کی صدا ۔ یہ سرمد ۔ یہ جامی ۔  یہ سکندر ۔ یہ  دارا یہ فرید الدین عطار یہ رومی و حافظ یہ عہد_مغلیہ کے نو رتن۔  یہ تان سین ‘یہ انار کلی’ ۔یہ رضیہ سلطان’ یہ میرا بائی  یہ جھانسی کی رانی یہ یہ یہ سب جنگ_بقا کی کاوش_دلیرانہ ہی تو ہے۔ خیر یہ تو شعور کی منزل پر اترنے کے بعد ہی  سمجھ میں آ سکتا ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم لوگ بستی چلے جاتے ۔ کزنز لوگوں میں بہت گہری محبت تھی کوئی کسی سے پرخاش نہیں رکھتا تھا۔  بس لڑکیوں کی تعلیم کے  شدید خلاف تھے   بابا خاندان کی ناپسندیدگی کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ہم سب بہنوں کو پڑھا رہے تھے۔ حویلی کے ارد گرد کوئی دو تین ایکڑ اراضی خواتین کی ہوا خوری اور لڑکیوں کے کھیلنے کودنے کے لیے چھوڑ دی گئی تھی۔ اس علاقے میں مرد نہیں گھستے تھے کہ بچیاں بن دوپٹے اور چادر کے آزادی سے گھوم پھر سکیں ۔ صرف کٹائی کے موسم میں مرد مزدوروں کو فصل آٹھانے کے لیے آنے کی اجازت تھی ۔ اس قطعہ_ارضی میں آم ‘جامن ‘ کھجور اور ٹاہلی کے  بڑے بڑے درخت تھے جن کی شاخوں پر کئی جھولے لگے تھے جبکہ دایئں طرف اک کنواں تھا جسے بند کیا جا رہا تھا۔ اور ہم بچوں کو اسکی منڈیر تک جانے کی اجازت  تک نہ تھی کہ مبادا کوئی بچہ اس میں گر  جائے۔ اس لیے  مائیں بچوں کو یہ کہہ کر ڈراتی تھیں کہ کنویں میں جن بسرام کرتے ہیں۔ اگر تم کنویں کے پاس سے بھی گذرے تو وہ تمھیں  کھا جائیں گے۔ جتنا ہم پر  روک لگائی گئی  اتنا ہی تجسس دونا  ہوا ۔  اک دوپہر   جب سب خواتین  سو رہی تھیں اور مرد مردان خانے میں تھے میں  نے اپنی بہن شاہدہ سے کہا آو جنات  دیکھنے چلتے ہیں ۔ ہم دبے پاوں حویلی سے باہر نکلے کنویں کی منڈیر پر چڑھ کر دیکھا ۔انتہائی گہرائی میں صرف پانی لہریں لیتا  تھا اور سوکھے لوٹے جن میں   پانی بھر کر باہر اتا تھا سوکھے  پڑے تھے ۔منڈیر کے چاروں اور گھوم گھام کر دیکھ لیا مگر کوئی ایک جن کا بچہ تک نظر نہ پڑا۔ تھک ہار کر اندر جا کر دیکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے میں نے شاہدہ سے کہا تم یہیں ٹہرو میں اندر اترتی ہوں جیسے ہی کوئی جن نظر آیا میں تمھیں آواز دوں گی پھر تم بھی نیچے آ جانا ۔ جن دو رسوں کے درمیان  لوٹے یا چھوٹی چھوٹی بالٹیاں پانی کے حصول کے لیے لٹکائی جاتی ہیں اسے سرائیکی زبان میں  “ماہل” کہتے ہیں ۔” ماہل” میں اٹکے بہت سے لوٹے ٹوٹ چکے تھے اور کئی خانے خالی تھے خیال آیا کہ اس سیڑھی کے ذریعے نیچے پانی میں آترا جا سکتا ہے اور پھر۔۔۔۔۔۔چھلانگ لگا دی ۔۔۔۔۔۔۔شاہدہ کی یا شاید میری اپنی ہی آخری  چیخ تھی جو کان پڑی۔میرا جسم اک لوٹے کی خالی جگہ پر اس طرح فٹ ہوا کہ سر اور بازو ایک طرف اور کمر سے نیچے کا سارا دھڑ دوسری طرف لٹکا ہوا  تھا جبکہ پیٹ کے درمیان میں  رسی پیوست  تھی۔ ماہل میں ہلچل تو پیدا ہوئی مگر وہ نیچے نہ سرکی کہ میرا وزن ہی اتنا نہیں تھا۔ اس کے بعد گہرا خاموش اندھیرا۔۔۔۔۔۔۔۔معلوم نہیں کس نے کس انداز سے کنویں سے باہر نکالا ۔کیسے بچایا؟ یاداشت ساتھ نہیں دیتی ۔ ہم دونوں بہنیں اس گتھی کو کبھی نہ سلجھا سکیں۔

ا

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930