نا معلوم کا دکھ ۔۔۔ سعید اختر ملک
نامعلوم کا دکھ
سعید اختر ملک
وہ مسلسل سوچے جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خود تو لا مکاں سے مکاں کی طرف اور ہمیں نامعلوم سے معلوم کی جانب کیوں دھکیل دیا۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ہر روز اس کی چارپائی برآمدے کے ایک ایسے کونے میں رکھ دی جاتی ‘ جہاں سے وہ سارا دن سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک کا منظر بخوبی دیکھ سکتی تھی ۔ابھی عید قرباں کے آنے میں تین دن باقی تھے کہ دو عدد صحت مند بکرے خرید کر گھر میں لا کر باندھ دئیے گئے ۔بکروں کی آمد سے پورے گھر میں ہلچل سی مچ گئی تھی ۔صحن میں داخل ہونے والا ہر شخص سب سے پہلے بکروں کو دیکھ کر مبارک باد کی صدائیں بلند کرنے لگتا ۔ان کی جسامت ، ناز و ادا کی تعریفیں کرتے کرتے ان کی قیمت بھی پوچھنے لگتا اور پھر خریدنے والے کی معاملہ فہمی پر داد دینے لگتا۔۔ ۔
وہ تکیہ سر کے نیچے رکھے سب کے قہقہے اور ہنسی مذاق کی باتیں سن کر آنکھوں سے بےاختیار بہنے والے آنسوؤں کو چپکے چپکے ہتھیلی سے پونچھتی جاتی ۔ابھی کچھ دیر پہلے جب اس کے بڑے بھائی نے صحن میں لگی بیری کے درخت سے ہری بھری شاخوں کو تیز کلہاڑی کے وار سے کاٹنا شروع کیا تو اسے ایسا لگا ، گویا کلہاڑی کا وار بیری کو نہیں اس کے وجود کو چیرتا جا رہا ہو ۔چھوٹے بچے بیری کی پتوں والی شاخوں کو بکروں کے آگے کرتے تو وہ للچائی نظروں سے گلے میں بندھی رسی کو تڑانے کی کوشش کرنے لگتے ۔بچے بکروں کی اس اچانک حرکت سے، ڈر کے مارے پیچھے ہو جاتے مگر بکرےعین اس وقت اپنی اگلی دونوں ٹانگوں کو بھی اٹھا کر سر سبز شاخوں کو کھانے کے لیے لپکنے لگتے ۔اس منظر کو دیکھ کے بچے زور زور سے تالیاں بجانے لگتے ۔بکرے جب شاخ سے پتے منہ میں لے کر چبانے لگتے تو بچوں کی نظریں ‘ بکروں کی تھوتھنی اور جبڑوں کی حرکات پہ مرکوز ہو جاتیں ۔وہ پتے چبانے کے بعد جب مذید پتوں کی ضد کرنے کے لئے منمنانے لگتے تو بچے ستائش بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھ کر قہقہے لگانے لگتے ۔
“فقط تین دن زندگی کی مہلت ” وہ زیر لب خود کلامی کرنے لگی تھی ۔بکروں کو اگلے تین دن بعد ‘ تیز دھار چھریوں سے ان کی بوٹی بوٹی کر دی جائے گی مگر بکرے اپنی موت کے اتنے قریب ہو کر بھی اس کے خوف سے بے نیاز ‘ بےفکراور سر سبز پتوں کو کھا کر کتنے خوش اور مطمئن _!!
اس نے پچھلے سال ہی یونیورسٹی میں سکالرشپ لے کر ایم _اے فلاسفی میں خوشی خوشی داخلہ لیا تھا ۔وہ کائنات کی تخلیق ‘ فطرت کے اصول ‘ ضوابط ‘ تغیروتبدل ‘ حیات و موت کے اسرار و رموز ‘ اس کی حقیقت ‘ ماہیت ‘ تصور ابدیت اور فناپزیری جیسے موضوعات میں گہری دلچسپی رکھتی تھی ۔یونیورسٹی میں بمشکل چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ اسے جسم میں درد ‘ کمزوری ‘ نقاہت کا احساس ہونے لگا ۔معمولی دوا دارو سے کچھ افاقہ نہ ہوا تو ڈاکٹر کے کہنے پر کچھ مخصوص ٹیسٹ کروائے گئے اور پھر ایک شام جب وہ کلینک میں ڈاکٹر کے سامنے رکھے گول سٹول پر بیٹھی ہوئی تھی تو ڈاکٹر کےچہرے پہ خلاف معمول سنجیدگی کے اثرات دیکھ کر متفکر ہو کر اپنی نظریں ڈاکٹر کی جھپکتی پلکوں پر گاڑ دی تھیں ۔اسے ایسا لگا جیسے کچھ آوازیں کمرے کے درو دیوار سے ٹکرانے کے بعد اس کے کانوں میں نیزے کی طرح پیوست ہو رہی ہوں ۔اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔صرف اتنا محسوس ہو رہا تھا کہ لفظوں کے بھاری بھرکم پتھر اس کے دماغ پر برس رہے ہوں ۔
نسرین صاحبہ ! مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کے خون میں کچھ ایسے اجزا پائے گئے ہیں جن کے لئے ہمیں مخصوص ادویات استمال کرانی پڑیں گی مگر ادویات سے زیادہ اہم آپ کا حوصلہ ‘ صبر ‘ ہمت ‘ امید اور تعاون درکار ہو گا ۔انشاء اللّه ہم مل کر اس بیماری پر قابو پا لیں گے ۔ڈاکٹر کا بال پوائنٹ کاغذ پر مسلسل چھبتا جا رہا تھا ۔اسے اپنی ہتھیلیوں میں ٹھنڈے پسینے محسوس ہونے لگے ۔آنکھیں گویا خلا میں گھور رہی ہوں ۔ایسے لگ رہا تھا جیسے کمرے میں دھیرے دھیرے اندھیرا پھیلنے لگا ہو ۔پورا کمرہ گھومتا ہوا محسوس ہونے لگا ۔وہ گول سٹول سے گرتے گرتے بمشکل بچی ۔اس کے پاؤں کھڑا ہونے کی سکت کھو چکے تھے ۔
وہ دن اور آج کا دن، ہسپتال کی کینسر والے مریضوں کی وارڈ کے بیڈ سے لے کر گاؤں کی اس چارپائی پر کرب کے عالَم میں زندگی سےنا امید و مایوس ہو کر لیٹی ہوئی تھی ۔اسکی کائنات سکڑ کر چارپائی تک محدود ہو چکی تھی ۔پاس رکھی چھوٹی سی ٹیبل پر دوائیوں ‘انجکشن ‘ گولیوں اور کیپسول کے پیکٹ ‘ جوس سے بھرے ڈبے، دوستوں ‘ رشتہ داروں ‘ حکیموں ‘ ڈاکٹروں کی تسلیاں اور جھوٹے دلاسے اس کے دل میں امید کی ایک رمق بھی بیدار نہ کر سکے ۔
ابھی کچھ دیر پہلے اسکی خالہ نے جب مرغیوں کو دانہ صحن میں پھینکا تو اس نے دیکھا کہ بیری کی شاخوں پر بیٹھی بہت سی چڑیاں باری باری ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی نیچے اترنے لگیں ۔ وہ مر غیوں کو دانہ چگنے میں مصروف دیکھ کر تھوڑا تھوڑا اور قریب ہونے لگتیں اور نظریں بچا کر دانہ اچک لیتیں اور پھر واپس بیری کی شاخوں پر بیٹھ کراطمینان سے پر کجھانے لگتیں ۔وہ چڑیوں اور دیگر پرندوں کی معصومیت پر غور کرنے لگی کہ یہ سب اپنے موت کے انجام سے بےخبر کتنے اطمینان ‘ سکون کے ساتھ کھلی فضاؤں میں اڑے پھرتے ہیں ۔اسی اثنا میں اس کی مانو بلی بھی دبے پاؤں اس کے پہلو میں آ کر بیٹھ گئی تھی ۔اس نے اس کی گردن کے نیچے اپنی نحیف و نزار انگلیوں کو پھیرا تو بلی کی غر غر کی آواز سے اسے اپنے بدن میں محبت کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی ۔بلی نے احساس تحفظ ‘ اطمینان اور سکون محسوس کرتے ہی آنکھیں موند لی تھیں ۔وہ سوچنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔کہ یہ سب جانور اور پرندے اپنے’ حال’ میں مست ہو کر جیتے ہیں اور مستقبل کے خوف سے بےنیاز ہو کر سکون و اطمینان سے زندگی بسر کرتے ہیں ۔
چرند ‘ پرند اور دیگر تمام جاندار غم روزگار کا شکار تو ہو سکتے ہیں مگر موت کے درد سے ہمیشہ ناآشنا رہتے ہین ۔چیتے کے آگے بھاگتے ہرن کو بھی صرف پکڑے جانے کا خوف ہوتا ہے’ موت کا نہیں ۔۔۔۔۔
نسرین باجی ! نسرین باجی ! آنکھیں کھولو ۔۔۔۔دیکھو تو ۔۔۔۔۔ کون آیا ہے ۔۔۔۔ !!!! اس کے سرہانے کھڑی اس کی چھوٹی بہن خوشی سے چیخنے لگی تھی ۔اس نے تکیے میں دبائے سر کو باہر نکالا ۔ بوجھل پلکوں کو بمشکل کھولا ۔دونوں کہنیوں سے سہارا دے کر سر اٹھانے کی کوشش کی مگر بھاری بھرکم سر کا بوجھ اس کی کمزور گردن نہ اٹھا سکی اور سر دوبارہ تکیے پر جا گرا ۔
نسرین ۔۔۔۔۔نسرین ۔۔۔۔”آپ تکلیف نہ کرو ” ۔ اس کی کلاس فیلو ساجدہ اپنی چیخ سمیت اس کے جسم سے آ لگی تھی ۔اس نے اپنی پیشانی پر ساجدہ کے پیوست ہوتے ہونٹوں کی ٹھنڈک کو محسوس کیا ۔گرم گرم آنسو اس کے بے جان گالوں سے لڑھکنے لگے تھے ۔ساجدہ کے سینے سے لگتے ہی اس کی خشک آنکھوں سے آنسوؤں کے سوتے، ندی کی صورت بہنے لگے تھے ۔ کافی دیر تک وہ دونوں سسکیاں بھرتے ہوے ایک دوسرے سے لپٹی رہیں ۔جب کچھ جی ہلکا ہوا تو ساجدہ نے چارپائی پر آلتی پالتی مار کر اس کے پاؤں کو اپنی جھولی میں رکھ لیا ۔وہ بار بار دونوں پاؤں کو ہاتھوں سے سہلاتی اور ہڈیوں کے ڈھانچے میں زندگی تلاشنے لگتی ۔
کافی توقف کے بعد نسرین کی کمزور سی آواز جیسے کسی گہرے کنویں سے آتی ہوئی، ساجدہ کے کانوں سے ٹکرانے لگی تھی ۔
ساجدہ۔۔۔۔ ! تم تو جانتی ہو ۔۔۔۔ میں زندگی کو کتنا جینا چاہتی تھی ۔تمہین شاید اندازہ نہ ہو کہ موت کو اپنی زندگی میں رونا کتنا اذیت ناک ہوتا ہے ۔مجھے دکھ فقط اتنا ہے کہ زندگی کی جو بھی بچی ہوئی سانسیں میرے نصیب میں ہیں ۔انہیں موت کے خوف سے کیسے آزاد کراوں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
فطرت نے کسی بھی جاندار کو موت کا خوف نہیں بخشا تھا تو پھر انسان نے یہ “جاننے کا دکھ ” دوسرے انسان کو کیوں دیا ہے ؟
رسی سے بندھے بکرے ،سر سبز پتے کھانے کے لئے مسلسل شور مچا رہے تھے۔