گھاو ۔۔۔ محمد سعید شیخ

گھاو
محمد سعید شیخ

وہ اپنی ناکامی کا گہرا گھاؤ لے کے لوٹی تو اس کی ماں نے اُسے سینے سے لپٹا لیا۔ اس کا ماتھا بار بار چوما اور اس کے بالوں میں اپنے نحیف ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔

اچھا کیا جو تو اُسے چھوڑ آئی ۔“

اسے ہی نہیں، میں تو اپنا سب کچھ چھوڑ آئی ہوں ۔ ماں۔ اپنی زندگی اپنی عزت، اپنا نام، سب کچھ۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں رہا۔ میں خالی ہاتھ آئی ہوں ۔ اس نے کہنا چاہا مگر کہہ نہ سکی ۔ یہاں تک کہ اس نے آنسوؤں کے سامنے بھی بند باندھ دیا۔ اتنا کچھ کھو کر بھی وہ اپنی ناتو اں ماں کے سامنے ایک ہاری ہوئی، پٹی ہوئی عورت نہیں بننا چاہتی تھی ۔ وہ ہار کر بھی ہار نہیں ماننا چاہتی تھی۔ اُسے بہت پہلے کے کہے وہ الفاظ یاد آتے

“میں اتنی کمزور نہیں ہوں ماں کہ دنیا کے دھوکے میں آجاؤں۔ مجھے اپنے اچھے بُرے کی اچھی طرح سمجھ ہے اور یہ سمجھ بوجھ آپ کی اور ابا کی دی ہوئی ہے ۔ آپ مجھے ہر مشکل میں ثابت قدم پائیں گے۔“ لیکن اب وہ دنیا سے دھوکہ کھا چکی تھی سمجھ بوجھ اس کے کسی کام نہیں آئی تھی اور جن قدموں پر وہ کھڑی تھی وہ کانپ رہے تھے ۔

اسے یقین نہیں آتا تھا کہ اس کے ساتھ اتنا کچھ ہو چکا تھا۔ یہ کیسے ہو گیا ؟“ اس نے بارہا خود سے سوال کیا تھا ۔

اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ، اپنے لیے اور نہ اپنی ماں اور بہنوں کے لیے جو اپنی ماں کے پاس کھڑی اپنی بہن کی حالت دیکھ کر پریشان ہو رہی تھیں

پھر اچانک جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ۔ وہ گھبرا گئی ۔ خوف سے کانپنے لگی ، ” اماں“۔ پولیس آگئی تو انہیں نہیں بتانا کہ میں یہاں ہوں ۔ مجھے جلدی میرے کمرے میں لے چلو  میں چھپ جانا چاہتی ہوں ۔“

وہ اسی کمرے میں آگئی جہاں وہ اس گھر سے جانے سے پہلے رہتی تھی۔ اس کی ماں نے اُسے فوراً بستر میں لٹا دیا، اس پر جیسے کپکپی طاری تھی ۔ بخار کی حالت تھی اور اس کا رنگ خوف سے یا نا طاقتی سے پیلا پڑتا جا رہا تھا۔ وہ خوفزدہ نظروں سے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔

یہ کیا ہو رہا ہے عشرت تمہیں؟ ڈرومت ، تم اپنے گھر میں ہو، یہاں تم بالکل محفوظ ہو ۔ یہاں تمہاری ماں تمہارا باپ ہے، تمہاری بہنیں ہیں ۔“

اس نے چادر اپنے اوپر لپیٹ لی۔ چند لمحوں میں وہ سوگئی ۔ سوتے میں اس کی آنکھیں آدھی کھلی رہ گئی تھیں ۔ وہ عدالت کے سامنے کھڑی تھی ۔ اتنی کھلی جگہ تھی ، ہر طرف تماشائیوں کا ہجوم تھا، عدالت کے حکم پر اس نے اپنے چہرے سے پردہ اٹھا دیا تھا اب سارے لوگ اُسے دیکھ رہے تھے ۔ پہچان رہے تھے۔ ان کے گھر سے ہیروئن برآمد ہوئی تھی ۔ وہ اونچی اونچی کہہ رہی تھی مجھے نہیں پتا تھا میرا خاوند ایسا غیر قانونی کام کرتا ہے۔ پتا ہوتا تو میں اس سے کبھی شادی نہ کرتی ۔

میں نے اپنی سہیلی کے کہنے پر اس سے شادی کی تھی۔ اس نے ضمانت دی تھی وہ ایک شریف شخص ہے۔ مجھے علم نہیں تھا، لیکن اس کی آواز کوئی نہیں سنتا تھا ۔ لوگ چاہتے تھے اُسے سزا دی جائے ۔ سب کے سامنے کوڑے مارے جائیں، ویسے بھی انھوں نے دیر سے کوئی تماشا نہیں دیکھا تھا ۔ اسے ہر نگاہ میں، اپنے خلاف نفرت کی چمک نظر آرہی تھی۔ کوئی یہ سننے ، ماننے کو تیار نہیں تھا کہ وہ یہ کام نہیں کرتی تھی ۔

وہ تو ڈاکٹر تھی ، لوگوں کے دُکھوں کا علاج کرتی تھی ، اس کے ہاتھ میں تو شفا تھی، وہ یہ کام کیسے کر سکتی تھی وہ ہیروئن کیسے بیچ سکتی تھی۔ اس کے پاس تو ڈاکٹری کی ڈگری تھی ۔ اس نے ڈاکٹری کی ڈگری جج کے سامنے پیش کردی۔

کیا ثبوت ہے کہ یہ ڈگری جعلی نہیں ہے؟

اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔

بس اسے یاد تھا کہ اس نے یہ ڈگری بڑی محنت سے حاصل کی تھی۔

اس کی ماں کو بڑا شوق تھا کہ اس کی بیٹی ڈاکٹر بنے۔

اب وہ ڈاکٹر تھی۔ اب اسے کیا پتہ تھا کہ جس گھر میں اس کا کلینک تھا اسی گھر میں اس کا خاوند نشہ بیچتا تھا۔ ۔لوگوں کے بس میں ہوتا تو اسے زندہ جلا دیتے۔ اسے سنگسار کر دیتے۔ ان کی نظر میں وہ کسی جادو گرنی سے کم نہیں تھی۔ کیونکہ وہ خوبصورت بھی تھی،مریض کی آدھی بیماری تو اسے دیکھ کر ، اس کی باتیں سن کر ختم ہو جاتی۔

” یہ دوائی میں نشہ ملا کر مریضوں کو دیتی ہے۔ “ہجوم میں سے کسی نے اس کی طرف پتھر پھینکا۔

” نہیں۔ یہ جھوٹ ہے۔ ” اس نے چیخنے کی کوشش کی۔

اس کی آواز لوگوں کے شور میں دب گئی۔

ان کا غصہ بڑہتا جا رہا تھا۔

اور پھر جب اس کا یہ احساس اس کے حواس پر حاوی ہو گیا کہ یہاں کوئی اس کی آواز نہیں سن رہا تو اس کی چیخٰں نکل گیئں۔ سوتے میں وہ چیخ رہی تھی۔ آوازیں اس کے گلے میں پھنس کا غیر انسانی غراہٹ میں بدل رہی تھیں۔ بے قراری میں وہ ٹانگیں مار رہی تھی۔خواب کے خوف سے رہائی پانا چاہتی تھی۔ اس کی ماں بھاگی ہوئی آئی۔ اس کی ٹانگوں کو پکڑا سر پر پانی کے چھینٹے مارے، کندھے دہائے۔

کیا ہو گیا عشرت ، ہوش کرو بیٹی۔“

اس نے گھبرا کر آنکھیں کھولیں اور یہ دیکھ کر کچھ اطمینان ہوا کہ وہ ہجوم میں گھری ہوئی نہیں تھی۔

کیا ہوا تھا بیٹی؟ ماں نے بیٹی کا ماتھا چومتے ہوئے پوچھا۔

ایسے ہی ہوتا ہے ماں۔ جب بھی سوتی ہوں تو وہ سب آجاتے ہیں ہجوم بن کر کہتے ہیں، یہ جادوگرنی ہے، اسے جلا دو، اسے سنگسار کردو ۔

وہ تمہارے دشمن کیوں ہو گئے ہیں؟ ماں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے گھبرا کر پوچھا۔

یہ اس بد قماش کی وجہ سے ہوا ہے جسے میں نے ذاتی انتخاب سے چنا تھا۔ جس نے شرافت، اور محبت   کا لبادہ پہن رکھا تھا ۔ مجھے اپنی سمجھ پر بڑا بھروسہ تھا۔ میں اسے پہچان نہ سکی ۔ وہ نشے کا کاروبار کرتا تھا، مجھے کسی نے خبر دار نہیں کیا، مجھے کنویں میں گرنے دیا ہاں ۔ میری کہلی نے کہا تھا وہ اچھا لڑکا ہے۔ ماں ! لوگ

اتنا بڑا دھوکہ کر گئے میرے ساتھ اور میں لوگوں کے دُکھ درد بانٹتی رہی۔ ہائے ماں میں کتنی پاگل تھی ۔”

ماں تھی کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہے جا رہے تھے۔ بیٹی کو گلے لگا کر اس کی پشت پھیگے جا رہی تھی۔

وہ ساری رات سگریٹ پھونکتی رہی اور نیند سے بھاگتی رہی ۔ صبح تک ایش ٹرے راکھ سے بھر چکی تھی ۔

میری زندگی بھی راکھ ہو چکی ہے جسے ہوا کا کوئی بھی تیز جھونکا ہوا میں اڑا سکتا ہے۔

یہ کیسے ہوا کہ میں اسے صغیر کو سمجھ نہ سکی۔ یہ سوچتے ہوئے وہ ہونٹ کاٹنے لگی، سگریٹ کے دھویں نے جن کی سرخی اور تازگی چاٹ لی تھی۔

و ہ اپنی دوست نوشین کے گھر اس سے ملتی تھی جس کا میاں لوکل گورنمنٹ میں چیف آفیسر تھا۔ صغیر اس کا دوست تھا، اور ان کے گھر اس کا آنا جانا تھا اور ان سے اس کی بڑی بے تکلفی تھی۔ اپنے انہیں تعلقات کی مدد سے وہ عشرت کے قریب آیا تھا۔ جس کا اس شہر میں کوئی اور جانے والا نہیں تھا۔ گھر سے دور سرکاری ہسپتال میں وہ خاتون میڈیکل آفیسر تھی جب کبھی تنہائی سے گھبراتی، نوشین کے گھر چلی آتی ۔ عجیب اتفاق تھا کہ ایسے موقع پر صغیر بھی وہاں پہنچ جاتا۔ اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوتی کہ اس کی گہری، بچپن کی دوست اسے ٹیلی فون کر دیتی تھی ، فرشتے تو پوری دلچسپی سے یہ تماشا دیکھ رہے تھے۔

صغیر ، عشرت کو بہت پسند کرنے لگا تھا جو پسندیدگی نوشین سے چھپی نہ رہ سکی تھی۔ صغیر نے اُسے اپنا ہم راز بھی بنالیا تھا۔ مجھے یہ لڑکی بہت اچھی لگتی ہے، باجی ۔ آپ کی مدد سے میں اسے حاصل کر سکتا ہوں۔ ابھی تو میں صرف ٹھیکیدار ہوں ، پھر میں باعزت ہو جاؤں گا۔ ایک طرح سے میری شخصیت پر سرکاری مہر لگ

جائے گی۔

نوشین کو یہ تجویہ غیر مناسب نہیں لگی تھی ۔ وہ بھی شاید نہیں جانتی تھی کر صغیر کی اصلیت کیا ہے اور پھر تھی تو وہ بھی عورت صغیر نے تحفے تحائف سے اس کا دل جیتا ہوا تھا۔ وہ دل و جان سے اس کی مدد کرنے پر تیار ہوگئی۔ اس نے بڑے دل پسند الفاظ میں اس کی تعریف کرنا شروع کر دی اور دیکھتے دیکھتے عشرت کے دل میں اس کے لیے نرم گوشہ پیدا کر لیا ۔

عشرت کے لیے نوشین اور اس کے میاں کی سفارش ایک طرح کی گارنٹی بن گئی۔ اس کے ماں باپ کو بھی کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ماشاء اللہ میری بیٹی ڈاکٹر ہے، سمجھدار ہے، سوچ سمجھ کر ہی یہ انتخاب کیا ہوگا۔ باپ کو تسلی تھی۔

ہاقی معاملات اتنے زیادہ اور پیچیدہ نہیں تھے کہ طے ہونے میں کوئی دقت ہوتی۔

شادی کے بعد وہ صغیر کے گھر میں منتقل ہو گئی۔ جہاں اس نے رات کی پریکٹس کے لیے صغیر کی تجویز پر کلینک بھی بنا لیا۔

مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کا اصلی کا روبار کیا ہے ۔ صبح جب وہ ڈیوٹی پر چلی جاتی تو یہ کلینک صغیر کے استعمال میں ہوتا تھا اور یہیں سے وہ نشہ بیچتا تھا۔

عشرت کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ اس کا یہ کلینک کس کام کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اسے یہ بھی عادت نہیں تھی کہ خاوند کے مشاغل پر نگاہ رکھتی ۔ وہ ہر طرح سے اس کی راحت کا سامان بنتی تھی ۔ وہ معصوم اور صاف ستھری زندگی گزارنا چاہتی تھی ۔ جو حالات بعد میں اس کے لیے پیدا ہوئے ان کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ وہ یہ مانے کو تیار نہیں تھی کہ اس کے ساتھ اتنا بڑا دھوکا ہو سکتا تھا۔

اس کے کلینک سے ہیروئن بر آمد ہوئی تھی ۔

یہ بات اس کی سمجھ سے باہر تھی کہ یہ کیا ہوا ہے، گھبراہٹ کے مارے وہ اپنی پوزیشن بھی واضح نہیں کر پا رہی تھی، پھر بھی اپنے حواس کو مجتمع کرتے ہوئے وہ کہہ پا رہی تھی۔

مجھے نہیں معلوم کہ یہ کیا معاملہ ہے۔ لیکن میں کسی کے کسی بھی جرم میں شریک نہیں ہوں۔ میں ڈاکٹر ہوں، میرا کام نشہ بیچنا نہیں ۔

اس کی بچت کے لیے یہ بیان کافی نہیں تھا۔

آپ کو ہمارے ساتھ تھانے چلنا ہو گا ۔

تھانے میں اس کی یہ رات قیامت کی رات تھی۔ اس رات نے ، ایک رات نے اس کی پوری زندگی بدل کر رکھ دی۔ اس کا زندگی بھر کا بھروسہ اپنی ذات پر اعتماد، نیکی پر اعتبار، انسانی فطرت کا یقین، جیسے سب کچھ زمین بوس ہو گیا جس کی تعمیر نو کے لیے اُسے ایک اور زندگی چاہیے تھی۔ اگلے روز اسے عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ پرچہ دونوں میاں بیوی کے خلاف درج کر دیا گیا تھا مگر صغیر بر وقت خبر ملنے پر فرار ہو گیا تھا۔ وہ اپنی بیوی کو بچانے کی خاطر بھی پیش نہیں ہوا تھا۔ بہت لوگ عدالت میں جمع ہو گئے تھے۔ یہ معمولی بات نہیں تھی کہ ایک لیڈی ڈاکٹر کے کلینک سے نشہ آور مال بر آمد ہو۔ کچھ لوگ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے کہ وہ ایسا کام کر سکتی ہے اور کچھ سوچتے تھے کیا پتا وہ کرتی ہو۔کسی کی گارنٹی تو نہیں دی جا سکتی۔ مجسٹریٹ نے اسے پولیس کی جسمانی تحویل میں دینے کی بجائے جیل بھیجنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی جاری کی اس مقدمہ کی نوعیت کے پیش نظر اے ایس پی صاحب خود اس کی تفتیش کریں اور آئندہ پیشی پر رپورٹ پیش کریں۔

جیل میں گنتی کے دن رات اس کی زندگی بھر پر حاوی ہو گئے۔ اس کے خون میں جو زہر شامل ہوا اس نے اس کے تمام اعضاء میں راکھ بھری دی وہ وہاں سے ایک نئی عورت بن کر نکلی۔ اس کے والد کو خبر ملی تو اس نے بھاگ دوڑ کر کے اس کی ضمانت منظور کروائی۔

تفتیش کے لیے اے ایس پی نے خود موقع پر پہنچ کر معلومات جمع کیں۔ اس حقیقت کی تصدیق تو ہو

گئی کہ جہاں سے ہیروئین برآمد ہوئی تھی وہ جگہ لیڈی ڈاکٹر کے علاوہ اس کا خاوند بھی استعمال کرتا تھا جس نے یہ مکان کرایہ پر حاصل کر رکھا تھا۔ اور وہ کسی دوسرے شہر کوئی فراڈ کر کے بھاگا تھا اور پچھلے تین چار سال سے یہاں مقیم تھا اور یہیں اس نے کچھ با اثر لوگوں سے تعلقات بنا لیے تھے۔ یہاں تک کہ اپنی اصلیت چھپا کر ایک لیڈی ڈاکٹر سے شادی بھی کرلی تھی۔ اور وہ لیڈی ڈاکٹر جسے اپنی صلاحیتوں اور نیک نیتی پر بڑا فخر تھا اس کے جال میں پھنس گئی

عدالت نے تفتیش کی بنیاد پر اس کی حد تک مقدمہ خارج کر دیا اور وہ چار ماہ کی چھٹی لے کر گھر آگئی۔ گھر والوں کو ہدایت ہوئی تھی کہ وہ اس واقعہ کے بارے میں اس سے بات کرنے میں گریز کریں۔ اور اسے زندگی میں واپس آنے کا موقع دیں کیوں کہ اس کے حواس اُکھڑے ہوئے تھے اور بری طرح بکھر چکے تھے۔

و ہ اکثر رات کو اپنے کمرے سے نکل کر چھت پر بدحواس سی پھرتی اور سگریٹ نوشی کرتی تھی

آسمان کی طرف سر اٹھا کے دیکھتی اور بڑیراتی رہتی ۔ ” یہ سب کچھ کیسے ہوا؟

کئی دفعہ اس نے دیوار سے نیچے گلی میں جھانکا اور چھلانگ لگانے کا سوچا۔ کوئی طاقت تھی جو اُسے روک رہی تھی۔ اس کے اندر ایک اور زندگی بھی پرورش پانے لگ گئی تھی ۔

اس کی طرف سے صغیر کے خلاف خلع کا دعوی دائر کر دیا گیا تھا۔ وہ اپنی زندگی سے اس شخص کا ہر تعلق کاٹ دینا چاہتی تھی۔

مگر میں اس زندگی کا کیا کروں گی جو میرے اندر پیدا ہو رہی ہے اور جس کی تخلیق کے لیے اللہ نے میرا انتخاب کیا ہے۔ جب کبھی وہ اپنے حواس میں ہوتی تو اپنی ماں سے کہتی ” ماں، کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں یہ بچہ ضائع کرا دوں ؟“

نه بینی نا ، زندگی دینے والی تو اللہ کی ذات ہے۔ تو اس کی قدرت سے انکار نہ کر۔ کفر نہ کر

اس کے باپ کو اند ازہ تھا کہ اس کی بیٹی کس نازک صورت حال سے گذر رہی ہے۔ یہ تیری زندگی کا امتحان ہے بیٹا ، تو نے اس میں کامیاب ہوتا ہے۔ اللہ تیری مدد کرے گا۔ وہ اسے حوصلہ دیتا تو وہ چیخ اٹھتی۔

اس وقت اللہ نے کیوں میری مدد نہ کی جب مجھے دھوکہ دیا جا رہا تھا میری معصومیت چھینی جاری تھی۔

” نہ بیٹا۔ اللہ سے بد گمان نہ ہو۔وہ تیری مشکل آسان کرے گا۔ “

اس کے باپ نے محکمہ صحت کے افسر اعلی سے جا کر گزارش کی۔” میری بیٹی ڈاکٹر یے۔ کالج میں نمایاں پوزیشن لے کے کامیاب ہوئی تھی۔ اب اس کے ایمان کا امتحان ہےآپ کی کرم فرمائی ہوگی۔ اس کا تبادلہ ہمارے شہر میں کردیں۔۔

محکمہ کے افسر اعلی کو ڈاکٹر عشرت کیس کے واقعات کا علم ہو چکا تھا۔ انہوں نے اس کا تبادلہ کر دیا اور یہ اس کی اپنی زندگی میں واپسی کا سفر تھا۔ خلع کے دعوی میں صغیر عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ اس کے خلاف یکطرفہ فیصلہ کے ذریعے عشرت کو آزادی مل گئی

لیکن اس کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں لوٹی تھی۔ وہ خواب میں، اب بھی عدالت میں پیشیاں بھگتی تھی اور جوں جوں بچے کی پیدائش کا وقت نزدیک آ رہا تھا اس کی گھبراہٹ میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اور اس کے نہ چاہنے کے باوجود وہ وقت اس پر آ ہی گیا۔ اس نے سوچا کیا ہی اچھا ہو کہ ہم دو میں سے کوئی ایک مر جائے ۔ تو مر جائے میں رہ جاوں یا میں مر جاوں تو رہ جائے۔

لیکن وہ دونوں ہی رہ گئے۔ ایک نئی زندگی کے لیے۔ اور اس نے ایک زندگی سے نئی زندگی پھوٹنے کا معجزہ بھی دیکھ لیا۔

جب وہ تکلیف کی منزلوں سے گزرنے کے بارے میں سوچ رہی تھی تو اچانک ہی اس کے لیوں پر

ایسے الفاظ آ گئے جن پر اسے کوئی اختیار نہیں تھا۔

یا اللہ! میں اس پیدا ہونے والے بچے کی اور اپنی زندگی کو تیرے سپرد کرتی ہوں، تو ہی میرے جنوں کا محافظ ہے۔

یہ تو اس نے بعد میں غور کیا کہ بے اختیاری کے لمحوں میں اپنے جنوں کی محافظت کی دعا اس کے لیوں پر کیوں آئی تھی۔ شاید اس لیے کہ اپنی زندگی کو جس ذوق و شوق سے وہ گزارنے کی آرزو مند تھی اس کے لیے ایک طرح کا جنوں ضروری تھا جس سے وہ محروم کر دی گئی تھی اور جس کی اب اسے پھر ضرورت تھی۔

 اس کی کوکھ سے جنم لینے والا یہ بچہ اتنا خوبصورت تھا کہ ایک نئی امید کا پیامبر نظر آتا تھا۔ جسے دیکھ کرخوشی سے اس کا پورا وجود چھلک اٹھا۔اس کے چہرے پر بھی رنگوں کی پھوہار نے خاکستری دھول کی جگہ لے لی اور لبوں پر  ایک عرصہ کے بعد مسکراہٹ لوئی تو اس کی ماں کے منہ سے بے اختیار نکلا، ”  شکر ہے میرے مولا ، تو نے آج مجھے یہ دن دیکھنا نصیب کیا ۔

اور اس کی گائینو کو لوجسٹ نے اُسے مبارکباد دی “مبارک ہو ڈاکٹر عشرت ۔ تمہیں پیارا بیٹا اور اپنی زندگی مبارک ہو۔

اس نے اپنے بیٹے کو بازوؤں میں لے کر پیار کیا اور اس کے کان میں سر گوشی کی۔ “خوش آمدید بیٹا لیکن میرا تجھ سے وعدہ ہے کہ میں تمہیں ایک اور صغیر نہیں بننے دوں گی ۔“

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

October 2024
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031