چربی ۔۔۔ صفیہ شاہد
چربی
صفیہ شاہد
سامنے پڑی پلیٹ میں دو نوالوں کا سالن تھا۔۔۔بھوک کسی مزے دار ڈش کی تھی مگر سامنے آدھی روٹی اور تھوڑا سا سالن دیکھ کر اس کی امیدوں پر پانی پِھر چکا تھا۔۔۔مرغ مسلم کے بجائے پلیٹ میں صرف ایک سفید سی بوٹی تھی۔۔وہ کڑھنے لگی کہ تایا کی بیٹی نے مجھے چربی ڈال دی۔۔۔”چربی کون کھاتا ہے؟؟” صابرہ نے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے پہلا نوالہ توڑا اور سالن سے برائے نام مَس کر کے منہ تک لے گئی۔۔۔۔نظریں ابھی تک چربی پر تھیں۔۔۔
اس نے چربی کا جو استعمال دیکھا تھا وہ یہی تھا کہ اماں قربانی کے گوشت سے چربیاں اتار اتار کر رکھا کرتی تھیں۔ پھر لکڑیاں اور اپلے رکھ کر الاؤ جلاتیں،بڑی سی کڑاہی میں چربی ڈال دیتیں جو سارا دن جل جل کر تیل چھوڑتی جاتی۔اماں کڑاہی سے نتھار نتھار کر اس تیل کو گھی کے پرانے ڈبے میں بھرتی جاتیں جو موسم کے حساب سے ٹھنڈی ہوکر ٹھوس ڈَل کی شکل اختیار کر لیتا۔قصبے کے پرانے محلے میں صابن کا کارخانہ تھا جہاں برتن دھونے والا کالا صابن ملتا تھا۔کارخانے والے بڑی خوشی سے ڈَل رکھ لیتے اور بدلے میں صابن کی لمبی سی ڈنڈی تول دیتے۔۔۔اماں اس صابن سے ٹکیہ کاٹتی ایک کپڑے پر صابن مل کر ریت چپکاتی اور رگڑ رگڑ کر برتن مانجھتی رہتی۔۔۔سلور کے برتن چم چم کرنے لگتے۔سلور کے برتن بھلے چمچماتے ہوں مقدر کا برتن نہ چمکے تو سب بے کار ہوتا ہے۔سلور کی اس چمچماتی ہانڈی میں جس دن ماس پکتا تھا وہ گِن کر سال میں کچھ ہی مرتبہ ہوتا۔ایک تب جب کوئی صدقہ دے جاتا،دوسرے تب جب کوئی بہت خاص مہمان آجاتا اور تیسرے عید قربان پر ملنے والی چربی زدہ چند بوٹیاں اور چھیچھڑے۔۔۔
کوئی بدبودار گوبر سے بھری اوجھڑی بھی دے جاتا جسے نمک اور لسی مَل مَل کر اماں دھو لیتیں،کوئی جانوروں کی سِری دے جاتا جس میں سے مغز پہلے سے نکلا ہوا ہوتا تھا اور یوں زندگی میں بوٹی کا ذائقہ شامل تھا۔
ہاتھ کی پانچ انگلیاں اور ہتھیلی کی لکیریں ایک سی نہیں اسی حقیقی مشاہدے پر مبنی کہاوت جیسا ہی فرق تھا ان کے اور تایا ابا کے حالات میں۔۔۔ ابا کی قلیل آمدن کے باعث جتنا ان کا ہاتھ تنگ رہتا تھا اتنا ہی تایا ابا کے ہاں کشادگی اور فراوانی تھی۔تایا کے گھر مہمانوں کی آمد پر ایک سماں بندھ جاتا،خاص طور پر جب تائی کے میکے سے کوئی آتا تو قدرے بڑے دیگچوں میں تیز مصالحوں والے کھانے بنتے،خوشبوکی لپٹیں گلی تک جاتیں اور پکے صحن کی سیمنٹ زدہ دیوار کی دوسری طرف کسی کی آنکھوں کے احاطے میں حسرتوں کی بارش کا پانی ٹھہرنے لگتا۔۔۔
تایا کے گھر میں ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی بھی تھا جو رنگین کہانیوں کو اتنا ہی بے رنگ کر کے دکھاتا جتنی صابرہ لوگوں کی زندگی تھی۔۔۔ آٹھ بجے والا ڈرامہ دیکھنے کی چاہ میں کبھی کبھار وہ بھی جا بیٹھتے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ اپنی مرضی سے ٹی وی آن اور آف کر دیا جاتا تھا اور یہ بہن بھائی سر جھکائے خاموشی سے واپس چل پڑتے۔یوں کہ نہ کسی نے چائے پر روکا نہ کسی نے کھانے کا پوچھا۔۔۔
تایا کے حالات تھے یا جذبات کی بے ایمانی و منہ زوری کہ دادی کی محبت کا پلڑا بھی ہمیشہ تایا کے گھر کی جانب جھکا رہا۔آج بھی تائی کے میکے والے آئے ہوئے تھے،دادی ان سے ملنے کی چاہ میں تڑپ اٹھیں۔انگلی پکڑ کر صابرہ بھی ساتھ ہولی۔دروازے سے داخل ہوتے ہی بھنڈی تو پل بھر میں ہضم ہو گئی تھی۔کھانے کی ہلکی سی خوشبو پورے گھر میں چکرا رہی تھی۔۔۔
” بس ابھی کھانا کھایا ہے،نیند سے برا حال ہے پر بیٹھیں آپ۔۔۔” یہ تائی کی آواز تھی۔
اس کے نتھنوں سے کھانے کی خوشبو ٹکراتی رہی،ذہن اسی جانب لگا تھا کہ پلاؤ ہوگا،قورمہ ہوگا،کچھ تو ملے گا۔۔۔ وہ بہت دیر صبر کرنے کے بعد منمنائی” دادی بھوک لگی ہے ۔۔۔”آواز اتنی ہلکی تھی کہ بس دادی ہی سن پائی تھیں۔۔۔”اچھا رکو میں کہتی ہوں۔۔”دادی نے تائی کی منجھلی بیٹی کو اشارے سے بلایا اور کہا۔”اسے اندر لے جاؤ اسے بھوک لگی ہے۔” بیٹی نے ماں سے جا کر پوچھا،ماں نے کچھ ہلکی آواز میں جواب بھی دیاجسے سن کر پاس بیٹھا ان کا بھائی مسکرایا تھا تب صابرہ کو وہ مسکراہٹ سمجھ نہیں آئی تھی اور آج حافظے سے جدا نہیں ہوتی تھی۔۔۔
تائی کی بیٹی صابرہ کو اندر لے گئی اور فریج سے ایک پلیٹ نکال کر اس کے سامنے رکھ دی۔سٹیل کی ہلکی گہری پلیٹ جس میں تھوڑا سا سالن تھا۔۔۔۔آدھی ٹھنڈی روٹی۔۔۔جس کے نوالے توڑ کر وہ ٹھنڈے سالن میں لگانے لگی۔۔۔کیا خوب ذائقہ تھا…!ذائقہ خوب ہی ہونا تھا بوٹی کی یہی تو خوبی ہے کہ اس کا اپنا ذائقہ ہے۔۔۔۔چربی کبھی نوالے سے اس طرف کر دیتی کبھی دوسری طرف۔۔۔۔روٹی ختم ہوگئی۔۔۔پلیٹ چمکنے لگی اور چربی۔۔۔۔وہ یہاں وہاں کرنے کی وجہ سے اس میں کچھ دراڑ سی پڑ گئی۔۔۔کسی خیال کے تحت اس نے پلیٹ آنکھوں کے قریب کی۔۔۔روٹی کا بھیگا ہوا نرم ٹکڑا یہ بتانے کو کافی تھا کہ اس نے بڑی چاہت سے مانگ کر جوٹھا کھا لیا تھا۔۔۔