ٹیبلو ۔۔۔ ساگر سرحدی

ٹیبلو

ساگر سرحدی

ادھر میں نے سمبندھ توڑ لینے کا ارادہ باندھا، ادھر منظر فریز ہو گیا۔ فریم اور فریم میں جڑا ہوا منظر کب سے میری نظروں کے سامنے رکھا ہوا تھا میرے دل میں جو درد ہے اس کی کوئی روپ ریکھا تواس منجمد منظر میں کہیں ہوگی … میں اسے کوئی نام تو دے سکوں گا… زندگی کا کاروبار اور حسب توقع شروعات کا یقین لیکن منجمد منظر میں متوقع روپ ریکھا جو میرے اپنے لفظوں کی محتاج ہو، بھلا کب نظر آئے۔

فریم بغل میں تھام، میں باہر نکل گیا۔

بارش ہو رہی تھی ہلکی ہلکی اور مسلس۔۔۔۔ آسمان کی انجانی اونچائیوں سے کچھ بادل دھیرے دھیرے نیچے اتر رہے تھے اور کھائی سے قریب ہوتے جارہے تھے۔

رفتہ رفتہ کھائی کے چاروں اور خیمے سے تن گئے۔ سانس لیں تو بادلوں کی باس جیسے شامل ہو۔ گم شدہ اعتراضات، بے معنی شکلیات اور یوں بھی جنگ بیتے شاید کئی ہفتے شائد کئی سال ہیں نے اعتراض کرنا، شکایت کرنا سب چھوڑ دیا ہے، بادلوں کی باس ، بارش کا گیلا پن، دھرتی کی گود میں گدلے پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب، تالابوں میں تیرتے ہوئے لاروے، سب ہی تو اب میرے سنگی ساتھی ہیں، سب ہی تو میری قبول کی ہوئی پرانی عادتیں ہیں اور فریم کہ جومیرے ہاتھوں میں ہے اسے میں ہر جگہ اٹھائے پھرتا ہوں ، اب اس کےچو کھٹے بھی پلاسٹک کے ہیں۔ نہ اس چوکھٹے پر نیچے اترتے ہوئے بادلوں کا اثر ہوتا ہے اور نہ ہی گھاو کی مانند رستی ہوئی بارش کا۔ دیکھونا، اب یہی فریم کتنے کام کا ہے، بارش سے بچنا ہو تو سر پر رکھ لو کیچڑ سے بچنا ہو تو نیچے بچھا لو اہتمام، ترتیب، سلیقہ میں آہستہ آہستہ اسی طرف قدم بڑھا رہا ہوں۔ لکھنا میں نے بہت

عرصے سے چھوڑ دیا ہے۔ بھلا کیوں اب میں بزدلی سے بیر رکھوں۔ کچھ نہ کرنے کا بھی تو میں نے جتن کر رکھا ہے، کچھ نہ کرنے کا۔۔۔۔ اب میں ہلکی رستی ہوئی بارش میں جسم کے ہر حصے میں اپنی باس لیے آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہوں، ان میں شامل ہونے کے لیے، ان کا ایک انگ بننے کے لیے۔

یہ مکان امیرا گھر میرا انتخاب نہیں ایک مدت سے یہیں ہوں اس مکان میں جو میرا گھر ہے، میرا انتخاب نہیں۔

یہ چار دیواری ان لوگوں کے لئے تو موزوں تھی ہو پہلے پہل یہاں آئے تھے پھر آتے رہے تھے ان کے لئے بھی موزوں تھی جو یہاں آنا چاہتے تھے لیکن آنہ سکے تھے۔ ان لوگوں کی آمدورفت اور آمد کی خواہش اس مکان کی قسمت بھی تھی اور کرشمہ بھی۔

مکان نیچے کھائی کے وسط میں تھا اور کھائی کو دنیا سے جوڑتی ہوئی سڑک اوپر تھی۔

ٹیڑھی بھینگی، اوبڑ کھابڑ سیڑھیاں کھائی کے پیندے تک پہنچتی تھیں۔ یہ سیڑھیاں اترنا  اور مکان تکپہنچنا ایک ذہنی سفر تھا اور اس سفر کے دوران زندگی سے سمبندھ لوٹ جانا تھا اور مکان تک پہنچتے پہنچتے معدوم رشتوں کی فریم ہاتھ میں بچ پانی تھی۔ اس مکان تک پہنچنا اتنا آسان نہ تھا اور اس مکان سے نکل آنا تو بہت ہی مشکل تھا کہ ارادے باندھے نہ بندھتے تھے ۔ یوں تو بات محض ٹیڑھی بھینگی، اوبڑکھا بڑ سیڑھیاں چڑھنے اور دنیا کو جانی سڑک تک پہنچنے کی تھی۔ دو ایک نیم حوصلہ مند لوگوں نے جو کوشش کی تو راستے ہی میں دم توڑ بیٹھے۔

۔مکان کہ کھائی میں تھا ، وہاں کے باسی گیان دھیان میں مگن، گم سم سمادھی لگائے بیٹھے ہوئے تھے یگوں سے ۔ ان کی گم سم سمادھیاں، ان کا وشواس ، ان کا یگوں پر انا انتظار مسیحا ان دنوں پورب میں ہے، دکھن میں ہے، اتر میں ہے .. اتر کے اونچے پہاڑ اس کی چاپ سن رہے میں اورہمارے دل دھڑک رہے ہیں۔ وہ آئے گا اور ہمیں مکتی ملے گی

مسیحا نہ آیا۔۔۔۔۔۔ چمتکار نہ ہوا

او پر سڑک پر کہ ایک دنیا ہسی ہوئی تھی صدیوں پرانے شراپ میں بندھی گھٹن اور غلامی میں سانس لے رہی تھی اور مدتوں سے اس شراپ بندھن کو توڑنے کا جتن کر رہی تھی۔ ایک دن کہ ایسا ہو اتھا مسلسل جتن دوا ر شراپ بندھن ٹوٹنا تھا، دنیا والوں نے صدیوں سے بند کھڑکیاں، اور کھڑکیاں کھول ڈالے ۔ کھلی آزاد فضاؤں میں انہوں نے یگوں سے اپنے میلے چپچپاتے بدن دریاؤں کے اجلے پانیوں میں صاف کئے۔

اگر بتیاں جلائیں اورخوشبویئں لٹایئں۔ بادل آئے تو اندر دھنس کے دیکھا، دھوپ نکلی تو پنچھیوں کے پروں میں چاندنی چمکتی دیکھی۔

ٹیڑھی بھینگی، اوبڑ کھابڑ سیڑھیوں کے رشتے کی نسبت سے کھائی کے مکینوں نے سمادھیاں توڑیں۔ کھائی کے پیندے میں بسے اپنے مکان کو سجایا گھی کے چراغ جلائے۔

۔ گھی جل گیا تو سو کھے چراغوں کی اداس بتیوں سے دھواں اٹھنے لگا۔

جلتے ہوئے گھی کی باس اور گھنا گہر ا دھواں ۔۔۔۔  کھانی باس اور دھوئیں کی لپیٹ میں آگئی۔

 باس اور دھوئیں کی پکڑ ڈھیلی ہوئی تو کھائی کے مکینوں نے دیکھا کر کھائی کا جغرافیہ ہی بدل گیا ہے۔

 ان کے مکان اور سیڑھیوں کے بیچ اب اوبڑ کھا بڑ زمین نہیں، تالاب میں مچھلی کی جسامت سے بڑی ایک مچھلی تیرتی ہے۔

تالاب کا پانی ، انہیں لگا کھرا ہے، اجلا ہے۔

پھر انہوں نے جانا، پانی بھرنے لگا ہے گدلا ہو رہا ہے۔ باس آنے لگی ہے، شاید مچھلی کی جسامت سے بڑی مچھلی کے شکار کے کارن –

 مکان کا پچھواڑہ جنگل تھا، چھدرا ہوا جنگل دھوپ گرتی تو پیڑ سونے کی طرح چمکتے اور

زمین سہنری مینا کاری جڑ جاتی ۔

اب جنگل گھنا تھا۔ دھوپ پیڑوں ہی میں کہیں تنگ جاتی اور زمین پر سرسے اندھیرا چھایا رہتا اورزمین سنہری میناکاری جڑ جاتی۔

اب جنگل گھنا تھا۔ دھوپ پیڑوں ہی میں کہیں ٹنگ جاتی اور زمین پر ہر سمے اندھیرا چھایا رہتا اور سانپ لوٹتے رہتے۔

کھائی جنگل جنگل سمندر تک پہنچی تھی جوکبھی گرجتا تھا کبھی دھیرے سے سانس لیتا تھا۔ ۔۔۔ دونوں صورتوں میں دل دہلا تا تھا۔

سمے کا جھکڑ اس بار شدت پکڑے ہوئے ہے، وہ بچ نہ سکیں گے۔ کھائی کے پیندے سے چپکے ہوئے مکان کی کھڑکیاں اور درواز ے تک انہوں نے بند کر دیئے ہیں کہ کھائی کو دنیا سے جوڑتی ہوئی سڑک پر لوٹنا ان کے بس میں نہیں کہ ان کا انگ انگ ، ان کی حس حس مردہ ہے ۔ تالاب میں پانی سرا پڑا ہے اور مردہ پانی میں مچھلی کی جسامت سے بڑی ایک پچھلی ڈولتی پھر رہی ہے۔ جنگل میں سانپ رینگ رہے ہیں۔ کھائی، کھائی کے پیندے میں ایک مکان، مکان کے دروازے کھٹر کیاں بند حبس حبس بدن، تعفن تعفن سانس۔

اب وہ پھر بند مکان میں ٹیبلو بنانے بیٹھے ہیں، ہم منتظر ہیں مسیحا کے، مُکتی۔۔مُکتی۔۔

سمے کا جھکڑ بڑھتا آرہا ہے، وہ سمادھی لگائے ٹیبلو بنائے بیٹھے ہیں اب تو ان کا گیان دھیان بھی زنگ ہو گیا ہے۔

زنگ میں زنگ ہونے سے پہلے  ہونے سے پہلے میں نے سمبندھ توڑلینے کا ارادہ باندھا تو منظر فریز ہو گیا۔میں اپنے دکھ کو کوئی نام نہ دے سکا۔

میں چیخ رہا ہوں میری مجبوری ، میری شکست … میری کابلی …

 میری چیخ ، میری نا کا میوں سے ٹکرا رہی ہے لیکن میری چیختی ہوئی آواز ان تک نہیں پہنچ سکی کرانہوں نے زندگی سے سمبندھ توڑ لیا ہے …

میں بند مکان کے باہر کھڑا ہوں۔

بارش بڑھ گئی ہے۔ پلاسٹک کا فریم تالاب میں گر چکا ہے۔

بارش کی گہری دیوار کے ادھر، تالاب سے پرے، اوربڑ کھا بڑسیڑھیاں نظروں سے اوجھل ہیں۔ سکان کے پچھواڑے جنگل سائیں سائیں کر رہا ہے ۔

جنگل کی اس اور سمندر بے تحاشہ دھاڑ رہا ہے۔

کیا میں اس ٹیبلو میں داخل ہونا چاہتا ہوں جو کسی مسیحا کا منتظر ہے ؟

میں چیخ رہا ہوں ۔

جانے کب سےچیخ رہا ہوں

جانے کب تک چیختا رہوں گا۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.