زہریلے بادل ۔۔۔ سلمیٰ جیلانی
زہریلے بادل
سلمی جیلانی
اف … کس قدر دہشت ناک ناول ہے ، آخری باب پڑھتے ہوئے امینہ نے جھرجھری لی ،خوف کی ایک سرد لہر ریڑھ کی ہڈی تک جاتی ہوئی محسوس ہوئی – بک مارک لگا کر کتاب اپنے سرہانے رکھ دی اور بستر کی چادر کی سلوٹیں دور کرنے لگی اس نے محسوس کیا ہاتھ ابھی بھی کانپ رہے تھے ، لیمپ کی بتی بجھا کر آنکھیں موند لیں مگر کتاب کے کردار اور واقعات اس کے سامنے چلتے پھرتے محسوس ہو رہے تھے
جانے کیسے ایسی کہانیاں بن لیتے ہیں عجیب دماغ … اس کا سر چکرانے لگا نیند کا کہیں نام و نشان نہ تھا اسے گھبراہٹ ہونے لگی، آٹھ کر کھڑکی میں کھڑی ہو گئی اور باہر باغیچے میں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی … کیا سچ مچ کہیں کوئی بے گناہ قتل ہو جاتا ہے تو وہاں ایک سیاہ بادل پیدا ہو جاتا ہے جو آہستہ آہستہ تازہ ہوا پھول پودے اور درختوں کو کھانے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ گھر ویران ہو جاتا ہے ، اسے محسوس ہوا جیسے اس کا باغیچہ بھی اجڑ رہا ہو … لیکن یہ میرا وہم ہے اور ناول تو فرضی ہوتے ہیں اس نے خود کو تسلی دی اور سر ایک طرف جھٹک کر دوبارہ سونے کی تیاری کرنے لگی ،اندر سے ایک آواز ابھری … ارے … اگر ایسا ہوتا تو ہمارا ملک تو سیاہ بادلوں سے بھر گیا ہوتا .
الارم بج بج کر خاموش ہو چکا تھا امینہ نے چادر میں سے منہ نکالا پھر کھڑکی کی طرف اچھنبے سے دیکھا ” آج اتنا اندھیرا کیوں ہے ، شائد گھڑی میں غلط ٹائم لگا دیا …ابھی صبح نہیں ہوئی مگر صدر دروازے پر گھنٹی مسلسل بج رہی تھی
رشید دودھ والے کو بھی چین کہاں تھا گھنٹی پر ہاتھ رکھ کر جیسے بھول ہی جاتا ساتھ میں آواز میں لگاتا ” ارے آپا جی …
اج کننے گھوڑے بیچ دیئے آں جو ابھی تک سوتی پئی او ، دن چڑھ آیا اے
امینہ نے آنکھیں ملتے ہوئے غبار سے دھندلائے ہوئے آسمان کی طرف اشارہ کیا ” لیکن آج اتنا اندھیرا کیوں ہے ابھی تک ، میں تو سمجھی آدھی رات ہے”
” وہ … آپا جی بڑا غضب ہوا پاس والے گاؤں میں پولیس نے جعلی مقابلے میں آٹھ لوگ مار دیئے … سب کو معلوم ہے کہ وہ بے گناہ تھے لیکن بولے کون ؟.. اپنی جان بھی تو رکھنی ہے “
لیکن اس واقعہ کا اس کالی دھند سے کیا تعلق ؟
دودھ والے رشید نے پراسرار انداز میں معنی خیز نظروں سے اس کی جانب دیکھا اور موٹر سائکل پر ہو لیا..
امینہ خالی نگاہوں سے اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی….
موٹر سائکل دھند کی دبیز چادر میں غائب ہوتی جا رہی تھی یکایک آسمان میں بجلی کسی چمکتے ہوئے کوڑے کی طرح لہرائی ..
اس کے ذہن میں بھی ایک خیال کوندے کی طرح لپکا …
کیا رشید دودھ والے کو ناول کا انجام معلوم تھا …. کہیں یہ وہی ….
تب ہی منظر ساکت ہو کر رہ گیا آنکھیں دہشت سے پھٹ گئیں وہ اپنے روز مرہ کے صاف ستھرے لباس یعنی تہمند اور چادر میں نہیں تھا بلکہ اس نے مٹیالی سی پولیس کی وردی پہنی ہوئی تھی جس پر خون کے چکدے بھی نظرآ رہے تھے گھٹی گھٹی کراہ سنائی دی جو چند ہی سیکنڈ میں مدھم پڑ گئی موٹر سائیکل زمین سے کئی فٹ فضا میں بلند ہو چکی تھی جسے سیاہ بادلوں نے رشید دودھ والے سمیت اپنی آغوش میں لے لیا تھا … اگلے ہی لمحے غضب ناک بادلوں کا رخ اس کی سمت تھا..