میرا پیا گھر آیا ۔۔۔ سلمیٰ جیلانی

میرا پیا گھر آیا

 سلمیٰ جیلانی

میرا پیا گھر آیا او لال نی

موبائل فون کی رنگ ٹون پر لگا گیت بج بج کر تھک گیا لیکن وہ سرجھکائے ٹوکے سے مچھلی کے چھلکے اور گلپھڑے صاف کرنے میں لگی تھی . شام کی دعوت میں  نئی ڈش بھی تو بنانی تھی اس کے ہاتھ تیزی سے اسنیپر مچھلی کو بڑے خوب صورت کانٹوں سے پاک قتلوں میں تبدیل کر تے جا رہے تھے . نسرین اس سرکاری ٹرپ پر میری باس کی طرف سے ملی ہوئی ان کی پسندیدہ ملازمہ تھی جسے انہوں نے کوئی پچاس گھریلو ملازموں کے انٹرویو کے بعد میرے لئے خصوصی طور پر چنا تھا ، وہ نہ صرف کھانا اچھا بناتی تھی بلکہ حلیے سے بھی خوب چست وچالاک دکھائی دیتی تھی ،میرے کام کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ اکثر و بیشتر دور افتادہ گاؤں دیہاتوں میں رہنا پڑتا -ابھی بھی اس تعلیمی اور سماجی پروجیکٹ کی فزیبلیٹی رپورٹ بنانے کے سلسلے میں تیسری دنیا کے اس ٹروپیکل جزیرے پر کافی دن گزارنے تھے – باس کو میری مشکلات کا بخوبی اندازہ تھا سو اس نے نسرین کا انتخاب کر کے گویا ان مشکلات کی شدت پر برف کا پھا یا رکھ دیا تھا –

مجھے وہ ملازمہ سے زیادہ چھوٹی بہن یا سہیلی معلوم ہوتی جسے میرے ساری ضرویات کا بغیر کہے علم ہو جاتا میں اکثر سوچتی ضرور اس نے یہاں کے قدیم لوگوں سے جادو سیکھ رکھا ہے ورنہ اسے کیسے خبر ہو جاتی ہے مجھے ابھی کیا چاہئے یہی نہیں وہ بہت ہنسوڑ بھی تھی اپنے مقامی لہجے میں جب انگریزی بولتی تو بڑا لطف آتا –

یہ اسمارٹ فون کے عام ہونے سے کچھ پہلے کی بات ہے اس کے پاس دو موبائل فون تھے ایک پر تو وہی عام سی رنگ ٹون جو نوکیا کی پہچان تھی اور دوسرے پر نصرت فتح علی کا مست کردینے والا گیت میرا پیا گھر آیا جب بجتا تو جیسے اس کے انگ انگ سے مسکراہٹیں پھوٹ پڑتیں.وہ جہاں کہیں بھی ہوتی لپک کر کچن کے ساتھ بنی گیلری میں گم ہو جاتی ….. کچھ ہی دن میں اندازہ ہو گیا تھا کہ عام فون پر اس کے گھر والوں کی کالیں آتیں اور دوسرے پر کوئی ایسا جو اس کے دل کے بہت قریب تھا …. ….. میں جو لاؤنج میں بیٹھی اپنے لیپ ٹاپ پر اپنے پروجیکٹ کی کچھ ضروری معلومات اپ لوڈ کرنے میں لگی تھی لیکن میرا دھیان نسرین کی طرف تھا آخر آج ایسا کیا ہوا تھا کہ میرا پیا گھر آیا بج بج کر خاموش ہو گیا مگر نسرین کے کان پر جوں تک نہ رینگی، میں نے دیکھا نسرین کے ہاتھ اور بھی تیزی سے مچھلی کے ٹکڑوں پر چل رہے تھے .

ارے ارے کیا مچھلی کا قیمہ بنانے کا ارادہ ہے …. نسرین

میں نے سرزنش کے انداز میں اسے ٹوکا اور اپنی نوٹ بک بند کر کے اس کے پاس کچن کے کاؤنٹر پر جا کھڑی ہوئی

نسرین بدستور سر جھکائے اپنے کام میں مگن تھی ، اس نے میری طرف دیکھے بغیر ہی سنجیدگی سے ہنکارہ بھرا اور بولی

“وہ ہامکو بولتا ہے کی دوبئی چلو .. آمی کی میڈ وومن  ہائے …؟ ہنہ ..”

کون وہی … تمہارا پیا …..

ہاں وہی آپو آپ جو پیسے ہام کو  دیتی … وہ تو  ماں کو سینڈ کرتی  ….  ہمارا مرود ہام کو باڑی سے نکال دیا ، ایک ٹھو لٹل منی  ہائے اس کو ماں کے کاچھے راکھ دیا  ہے نا

اب ایک ٹھو دوسرا آدمی ہامکو پیچھے لاگ گیا اور شادی کرنا مانگتا ہے . توب ہمارا لیڑکی کا کیا ہوگا ؟؟ اآب ہام کےاو کا بات نئیں  سونیگا .. سب مرود ایک جئیسا ہوتا

ہاں تو کس نے کہا ہے مزے سے یہاں رہو ….. ایک سال بعد تم اپنی بیٹی کو بھی یہاں بلا سکتی ہو

تم اتنی دکھی ہونگی مجھے تو پتا ہی نہیں تھا … میں نے تاسف بھرے لہجے میں کہا

اتنی چھوٹی سی تو ہو

تمہاری عمر میں تو لڑکیاں اسکول جا رہی ہوتی ہیں …..

وہ میری شکل دیکھنے لگی  کچھ بولی نہیں لیکن اب اس کی آنکھوں میں اداسی کی جگہ امید کے تارے سے جھلملارہے تھے

—————–

پروجیکٹ مکمل ہو چکا تھا اور مجھے واپس جانا تھا نسرین اس دوران  مجھ سے بہت مانوس ہو چکی تھی چلتے وقت ایک دم میرے قدموں پر جھک کر رونے لگی آپو ما ت جاؤ ….. ہیاں  کو چھ کام کھوج  لو …..

مگر ایسا کہاں ممکن تھا میں تو آئی ہی واپس جانے کے لئے تھی پھر بھی اسے بہت تسلیاں دیں

ارے میں جلد ہی تمہیں اپنے پاس بلا لوں گی تم پریشان کیوں ہوتی ہو

————

مگر یہ وعدہ کبھی وفا نہ ہو سکا …. شروع شروع میں تو اس کے کافی خط آتے رہے پھر وقت گزرنے کے ساتھ ان میں کمی آتی گئی اور یہ

تعلقات ایک ان دیکھی گرد میں لپٹ کر معدوم ہو گئے

——

آج پانچ سال بعد ایک نجی دورے کے سبب اس خوب صورت سرزمین پر اتری تو نسرین کی یاد نے یکبار دل کو گھیر لیا

مگر کام کی مصروفیات اور لوگوں سے ملنے ملانے میں غریب نسرین کا خیال مدھم پڑ گیا میرے واپس جانے میں دو دن باقی تھے سوچا اپنی پرانی باس سے ملتی چلوں

باتوں باتوں میں نسرین کا ذکر نکلا تو انہوں نے بتایا کہ اس کے حالات اچھے نہیں پچھلے دنوں بہت پریشانی میں رہی اب نہ جانے کس حال میں ہے ؟میرا ڈرائیور جانتا ہے کہاں رہتی ہے اسی سے  کبھی کبھی اس کے بارے میں معلوم ہوا تھا .

میں نے نسرین سے ملنے کی خواہش ظاہر کی   اور اگلے ہی دن  بیگم جمال کے ڈرائیور کی مدد سے اس کے گھر جا پہنچی

ہماری جیپ ایک نہایت گنجان علاقے کی بہت سی پتلی پتلی گلیوں سے گزرنے کے بعد ایک گلی کے سامنے رک گئی –

ڈرائیور بولا ” آپو آگے گلیاں بہت تنگ ہیں گاڑی اندر نہیں جا سکتی میں آپ کو اس کے گھر کے دروازے پر چھوڑ دوں گا –

مجھے تو ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی انار کلی کائی زدہ ٹین کی دیواروں میں چنی جانے والی ہو دل میں سوچ رہی تھی جانے کیسے لوگ ان خستہ مکانوں میں رہتے ہوں گے اگرچہ میرے لئے یہ تجربہ نیا نہیں تھا لیکن ہر بار ایسے گھروں کی طرف جاتے ہوئے میرے خیالات پراگندہ اور زندگی سے بے زار سے ہو جاتے ایسی ہی سوچوں میں گھری ڈرائیور کے پیچھے چلتی ہوئی ٹین اور کائی زدہ اینٹوں سے بنے مکانوں کے اطراف ، نالیوں سے بہتے ہوئے گندے پانی سے بچنے کی ناکام کوشش کرتی بالآخر ایک بغیر کواڑ کے دروازے پر جا کر ٹہر گئی ، جس پر ٹاٹ کا جگہ جگہ سے پھٹا ہوا پردہ پڑا تھا –

اندر پھیلے ہوئے ملگجے اندھیرے میں کوئی جھلنگا سی چارپائی پر چادر اوڑھے پڑا تھا میں نے دل میں سوچا یہی نسرین ہو گی اللہ بے چاری کی کیسی حالت ہو گئی … لگ ہی نہیں رہا کہ کوئی انسان اتنا پتلا بھی ہو سکتا ہے …. ابھی اس کے قریب ہی پہنچی تھی کہ پیچھے سے وہی کھنکتی ہوئی آواز سنائی دی …. ” آپو ارے …. آپ ہیاں ” میں نے مڑ کر دیکھا نسرین کھڑی تھی اپنی عمر سے دوگنی لگ رہی تھی گود میں ایک یا ڈیڑھ  سال کے بچے کو لئے جس کی ناک گلی کی نالیوں کی طرح بہے چلی جا رہی تھی … نسرین نے جلدی سے اپنی ساڑھی کے پلو سے اس کی ناک پونچھی …… تھوڑا ٹھٹکی پھر دوڑ کر مجھ سے لپٹ گئی … مجھے بھی تھوڑا تامل ہوا پھر انسیت طبقاتی فرق پر غالب آگئی ….. نسرین میرے گلے لگ کر تھوڑی دیر روتی رہی …. گود کا بچہ گھبرا کر رونے لگا … نسرین نے کوئی دھیان نہ دیا … میں نے آہستہ سے اس کا ہاتھ تھاما اور چارپائی کی طرف اشارہ کیا  … یہ کون ہے …. کیا وہی ….تمہارا پیا ….  میں نے سنا تھا .تم بہت پریشان ہو …..

آپ نے ناہی  سنا  آپ کو انیک لیٹر  لکھا …کنتو آپ اتور نہیں دیا …آما کے اوپر ایتنا جھامیلا ہوا کی ہامکو جیل جانے کو تھا  . نوتون مالک نے ہا م پر چوری کا نام لگا دیا … تب منو کا بابا ہی ہمارے کام آیا  …. اے ای جونئے چاکری چھوڑ کر ہییاں آیا.”

 مگر تم تو شادی کے خلاف تھیں …..

” ہاں”

اس نے اپنا ہاتھ چھڑایا اور  ڈبڈبائی آنکھوں سے  چارپائی پر سکڑے سمٹے وجود کی طرف دیکھ کر بولی –

” ہام کی کرتا اس  نے سب دوش آ پنے اوپر لے لیا … ….ہامکو لئے جیل گیا … سزا  کھا کر آیا تو بوہت سک  تھا .. تب ہامنے اس سے شادی کر لیا .. اونیک لک آفٹر  کیا ….  وہ ابھی بھی اپنی بھاسا میں انگریزی ملانا نہیں بھولی تھی-

چارپائی کی طرف بڑھتی ہوئی بولی –

بوہوت سیوا کیں پر  ٹھیک نہیں ہوا … پر ہام دکھی نہیں.. ہا م اس لئے سب سے سنتشٹو ہے کی ہامکو ساچ کا پیار مل گیا … اس لۓ کوئی دوکھو اب بڑا نہیں لاگتا ہے.”

    اس نے آگے بڑھ کر جھلنگاچارپائی پر سے چادر ہٹا دی ….  وہ اتنا کمزور تھا کہ جیسے  مٹھی بھر ہڈیوں پر کھال منڈھی ہو ….اس کا استخوانی ہاتھ چارپائی سے نیچے  لٹک گیا  تھا جسے نسرین نے بڑے  پیار سے اٹھا کر اس کے سینے پر رکھ دیا مجھ سے نسرین کی دگرگوں حالت دیکھی نہ جا رہی تھی

   ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی  …….

 وہی نوکیا کا پرانا ماڈل اس نے اپنی  سوتی ساڑھی کے پلو میں سے نکالا

اب وہ ٹھیٹ مقامی زبان میں کسی سے بات کر رہی تھی –

 آنکھوں میں تارے سے جھلملا رہے تھے جو برسوں پہلے اس کی بیٹی کی ذکر پر اس کی آنکھوں میں دیکھے تھے –

فون دیوار کے ساتھ لگے چھوٹے سے پٹرے پر رکھا اور میری طرف مڑتے ہوئے بولی –

آ پو آپ کو  چھوٹو منی یاد ہے …….

 ارے ہاں ….. تمہاری بیٹی کیسی ہے اور تمھاری ماں …..

ہام اپنا  منی  کو چرچ ڈال دیا …. وہاں اسکول  پڑھتا  ہائے  ماں … او بھی اچھا ہائے …

لیکن نسرین تو شائد مسلمان تھی ….. دماغ نے استفسار کیا

اپنے آپ کو ڈانٹا …  مجھے حق کیا ہے کوئی کچھ بھی کرے …..

ٹاٹ اور ٹین کے بنے اس کمرے میں ہم چار  نفوس  مکمل خاموشی کے حصار میں گھرے تھے کہ

منو کے رونے کی آواز نے زندگی کے ہونے کی گواہی دی

میرے منہ سے کچھ بے ربط سے الفاظ نکلے جو منو کی ریں ریں میں دب گئے ….

نسرین نے میری طرف غور سے دیکھا ایک لمحے کو ہماری نگاہیں ٹکرائیں –

وہ سر جھکا کر بولی –

آپو  آپ تو ہا مارا چٹھی کا اوتور بھی نہیں دیا .

ادھر بھی سوب  سے پوچھا جمال بیگم اور سوبھی بیگم ، کوئی آپنا ناہیں  تھا    ….ہام کی کرتا

 آبھی ہامکو آر کچھ نہیں چاہئے ..

بھالو باسا پیار سے بڑا کوئی دھرمو نہیں ہوتا ہائے .

“ہاں تم شائد ٹھیک کہتی ہو” میں نے دھیرے سے اثبات میں سر ہلایا

 دل میں سوچا اس  میں  میرا کیا قصور مگر

 مجھے ندامت کیوں ہو رہی ہے ….  اندر جیسے کچھ بوجھ سا آن پڑا تھا …

اس کی مدد کے لئے لائے ہوئے پیسے منہ چڑا تے ہوئے محسوس ہو ئے  –

چپکے سے منو کے ہاتھ میں پانچ ہزار کی گڈی پکڑا ئی اور تیزی سے ….. ٹاٹ کا پردہ ہٹا کر باہر نکل گئی …..

 نسرین کی آواز اب بھی آ رہی تھی ….. آپو …. رکو …. چائ تو پی کر جاؤ …..

مگر میں بھی کیا کرتی …. اس کا سامنا کرنے کی ہمت باقی نہ رہی تھی –

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930