موہ ۔۔۔ سلمی جیلانی
موہ/ انفیچوشن (Infatuation )
سلمیٰ جیلانی
” اوہ نو…….تمہیں نہیں پتا تمہارے یہاں کے کباب مجھے کتنے پسند ہیں …. پلیز اپنی دکان بند نہ کرنا ….. ورنہ میرا کیا ہو گا ” ٹم نے جذباتی انداز میں زمین پر گرنے کی ایکٹنگ کی
” ہاں … مجھے معلوم ہے ….. اتنا سستا کھانا تمہیں اور کہاں ملے گا ….. لیکن میں اب مزید نقصان نہیں سہ سکتی ” میں نے لاپرواہی سے شیلف کی صفائی کرتے ہوئے کہا …
ٹم میری کباب شاپ کے اولین گاہکوں میں سے ایک تھا نام تو اس کا تیمور تھا جو ماں نے اس کے ایشائی باپ کی نشانی کے طور پر رکھا تھا مگر خود اس کی ٹیڑھی زبان سے ادا نہ ہونے کے سبب ٹم بن گیا تھا
وہ اس وقت سے میری شاپ پر آ رہا تھا جب یہ ایک چھوٹا سا کھوکا ہوا کرتی تھی جہاں بیٹھنے کو ایک پلاسٹک کی میز اور دو کرسیوں کے سوا کچھ فرنیچر نہ تھا… مجھے یاد ہے جب پہلے دن اس نے کسی عام گاہک کی طرح شرمیلے انداز میں کھانا لیا ، پیسے کاؤنٹر پر رکھے اور خاموشی سے باہر نکل گیا….. میں شاپ کے سامنے والے حصے کی صفائی کرنے باہر نکلی تو دیکھا وہ فٹ پاتھ کے کنارے بیٹھا روٹی کا رول بنا کر کھا رہا تھا…. میں اس کے قریب جا کھڑی ہوئی –ارے یہاں کیوں بیٹھے ہو
کیوں یہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہے کیا
وہ گڑبڑا کر اٹھنے لگا
نہیں … ایسا نہیں … تم اندر آ جاؤ … میں تو سمجھی تم گھر چلے گئے ہوں گے ..
گھر ؟…. میں تو اس شہر میں اجنبی ہوں شام تک واپس چلا جاؤں گا …
ارے تو پھر تو تم لازمی میری شاپ میں بیٹھ کر کھانا کھاؤ
مگر تمہاری شاپ تو ٹیک اوے ہے
تو کیا ہوا تم ہمارے مہمان ہو اور ہم اپنے مہمانوں کو خاص درجہ دیتے ہیں
وہ میرے پیچھے شاپ میں چلا آیا
میرے دل میں اس کے لئے ہمدردی کے جذبات ابھرے جو اکثر کسی کو ضرورت مندپا کر امڈ پڑتے تھے اگرچہ شوہر نام دار کو میرا یہ غیر پیشہ ورانہ رویہ بلکل پسند نہ تھا ، ان کی نظر میں یہی میرے ناکام اینٹر پرینور ہونے کی بڑی وجہ تھی مگر مجھے اس بات کی قطعی فکر نہ تھی ، میں سمجھتی تھی ہر کاروبار انسانی فلاح کے لئے ہونا چاہئے گو اب میرا خیال غلط ثابت ہو رہا تھا جب دکان ترقی کے زینے پر چڑھنے سے پہلے ہی ٹھپ ہونے والی تھی
میں سوچوں میں غرق اس عجیب و غریب سراپے والے گاہک کو بغور دیکھ رہی تھی جو کبابوں سے پوری طرح انصاف کرنے میں لگا تھا
اونچے لمبے قد ، چھریرے بدن اور ستے ہوئے چہرے کے ساتھ اس کا گہرا رنگ ذرا میل نہ کھارہا تھا ، اس کے کپڑے بھی اس کی رنگت کی طرح کتھئ تھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی سفید فام شخص کو گہرے کتھئ رنگ کے ڈبے میں ڈبو کر نکال لیا گیا ہو….. میری محویت کو اس نے محسوس کر لیا اور نگاہیں اٹھا کر مجھے دیکھا میں چونک گئی اس کی بڑی بڑی گہری نیلی چمکتی ہوئی آنکھیں اس کے چہرے کا سب سے مختلف تعارف پیش کر رہی تھیں
مجھ سے رہا نہ گیا اور بے اختیار پوچھ ہی لیا
تم کس ملک سے ہو ؟
اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا تم سوچ رہی ہوں گی اتنا کالا ہو کر میری آنکھیں نیلی کیسے ہیں
میرے منہ سے نکلا… ہاں
تم ہی کیا بچپن سے آج تک سب اسی بات پر حیران ہوتے ہیں…… کیوں کیا ایسا نہیں ہو سکتا ؟؟
اس نے جھنجلا کر الٹا مجھ پر ہی سوال داغ دیا
ہاں کیوں نہیں ہو سکتا … مجھے تو تم بہت خوب صورت لگے اس لئے پوچھ لیا
اس نے بے یقینی سے میری آنکھوں میں جھانکا
جھوٹ نہ بولو … میں نے جتنا نسلی امتیاز سہا ہے میں لوگوں کے بولنے سے پہلے سمجھ جاتا ہوں وہ کیا سوچ رہے ہوں گے …. مگر چھوڑو … تم ایک اچھی سیلز پرسن ہو اور تمہارے کباب بہت ہی شاندار ہیں … مجھے ان کے ذائقے سے لطف اندوز ہونے دو
——–
شاپ میں گاہکوں کی ریل پیل تو کبھی نہ ہو سکی لیکن کچھ مستقل گاہک ضرور بن گئے تھے سو گزارا ہو رہا تھا لیکن بارشوں کے موسم میں وہ بھی ادھر کا راستہ بھول جاتے
آج بھی ایسا ہی بدمزہ دن تھا …… کہ وہی نیلی آنکھیں ایک بار پھر میرے سامنے تھیں اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی تھی اس کی طرح ہی لمبی اور پتلی مگر سفید رنگت اس کے ساتھ کنٹراسٹ کر رہی تھی ….. دونوں بہت خوش لگ رہے تھے لڑکی میرے پیچھے دیوار پر لگے مینو کو پرشوق نگاہوں سے تکنے کے بعد مجھ سے مخاطب ہوئی …… ٹم نے تمہاری اور تمہارے کبابوں کی اتنی تعریف کی کہ میں آج تم سے ملنے چلی آئی ….. میں نے اس کے لہجے میں ہلکی سی چبھن کو محسوس کر لیا تھا ….. وہ توقف کر کے پھر بولی ….. تم ٹم کے باپ کی ہم وطن ہو … اس نے میرے چہرے پر نگاہیں جماتے ہوئے کہا
شائد .. میں نے جز بز ہو کر کندھے اچکائے … ہمارے ملک میں تو کروڑوں لوگ رہتے ہیں طرح طرح کی شکل اور نسل کے اور جگہ جگہ جاتے بھی رہتے ہیں ہمارے مردوں کو ویسے بھی گوری عورتیں بہت پسند ہیں ….
جانے کیوں میرے لہجے میں بھی نامعلوم سی تلخی اتر آئی تھی ….
لیکن میری ماں تو گوری نہیں …. تم نے یہ اندازہ کیسے لگایا …..
ٹم جو فرج میں سے سوفٹ ڈرنک کی بوتلیں نکال رہا تھا قریب آ کر بولا
میری ماں تو مقامی جزیرے کی ہے ….
تم نے کہا تھا تم لوگ اپنے مہمانوں کو بہت عزت دیتے ہو
میرا باپ بھی یہی کہتا تھا ماں بتاتی ہے میں نے تو اسے کبھی نہیں دیکھا
تو میں سمجھ گیا میرا باپ بھی تمہارے ملک سے ہی آیا ہو گا
میں دل میں سوچ رہی تھی ہاں ہمارے ملک کا ہی ہو گا وہیں اتنے دل پھینک لوگ ہوتے ہیں
ہاں مگر مجھے تو یہ دوغلا پن لگتا ہے ……
وہ طنزیہ انداز میں مسکرائی…. جب لوگ ہمارے ملک کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے ہیں …… جب یہاں پر رہنا سیکھ جاتے ہیں تو بہتر جگہوں پر ہجرت کر جائیں …. تمہارے خطے کے اکثر لوگ یہی کرتے ہیں
میرے ہاتھ تیز رفتاری سے روٹیوں میں سلاد بھرنے میں لگے تھے…. مجھے اندازہ ہو رہا تھا وہ دونوں ایک دوسرے سے کتنے مختلف تھے….. ٹم نے اس کے ماتھے پرآئے بال پیچھے کرتے ہوئے میری طرف آنکہ دبائی اور ہنس کر بولا …… بس کرو … اتنی بھی پیٹریو ٹک نہ بنو ……. خود تمہاری بہن تمہیں چھوڑ کر امریکہ میں رہ رہی ہے …… …
میرے دل میں دکھ کی ایک لہر سی اٹھی مگر سپاٹ چہرہ لئے سو چ رہی تھی کاش ….. ہمارے ملک کی حالت اتنی دگرگوں نہ ہوتی نہ ہمیں پردیس میں ایسے ذلیل و خوار ہونا پڑتا ….
—————
ٹم اب روز ہی دوپہر کا کھانا ہماری شاپ پر کھانے لگا تھا …. اس کے مطابق اپنے پروجیکٹ کے سلسلے میں مزید چھ ماہ یہاں رہنے والا تھا ….میں بظاہر خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کرتی لیکن اسے دیکھتے ہی عجیب سی کیفیت ہو جاتی جسے نامدار نے بھی محسوس کر لیا تھا وہ ڈھکے چھپے لفظوں میں اپنی نا پسندیدگی کا اظہار کرتا … مگر میں انجان بنی ٹم کے آگے پیچھے منڈلا یا کرتی ….. ٹم میرے بارے میں کیا سوچتا ہے میں دن رات اسی ادھیڑ بن میں لگی رہتی لیکن پھر خود کو سرزنش کرتی ……. مونا تم ایک شادی شدہ عورت ہو …….. کسی دوسرے مرد کے بارے میں ایسا سوچنا بھی گناہ ہے ……… پھر خود کو تسلیاں دیتی …….. یہ بھی کوئی شادی ہے نامدار کون سا مجھ سے مخلص ہے ……. ہر ہفتے کہاں جاتا ہے مجھے سب معلوم تھا لیکن ٹم کی آنکھوں میں چھپے واضح پیغام نے کبھی الفاظ کا روپ نہیں دھارا اور ایک دن اس نے دکان پر آنا بھی چھوڑ دیا ….. میری بے کلی کی حد نہ رہی …. حتیٰ کہ ایک دن اس
کے بتائے ہوئے مبہم سے پتے پر بھی جا پہنچی لیکن کچھ معلوم نہ ہو سکا آخر وہ کہاں چلا گیا تھا ……
——
شاپ بند ہوئے کوئی ایک سال ہو گیا تھا اگرچہ نام دار کے مطابق میں ایک ناکام انٹرپرینور تھی لیکن اسی تجربہ نے گروسری مارکیٹ کی بین القوامی چین میں اسٹنٹ مینجر کی جاب دلوادی ….. ٹریننگ کے سلسلے میں دوسرے ملکوں میں بھی آنا جانا لگا رہتا کہتے ہیں پانی کی دھار پتھر کو بھی کاٹ دیتی ہے اگر ثابت قدمی سے پڑتی رہے یہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا …. اب میں برانچ مینجر تھی… لیکن پڑوسی ملک برسبن میں …….. وہیں ایک دن میں نے ٹم کو بھی دیکھا بچے کو گود میں اٹھائے ہوئے ….. پیچھے اس کی وہی گرل فرینڈ تھی ………لیکن انہوں نے مجھے نہیں دیکھا ….. سی سی ٹی وی کی فوٹیج روز چیک کرنا بھی میری ذمہ داری تھی ….
اس دن شام کو شاپ کے نام آنے والی پرانی ای میلز کا ادرز .. فولڈر کھول کر دیکھا تو ……. کئی ماہ پہلے ٹم کا میسج آیا ہوا تھا …… لکھا تھا ……. مجھے معلوم ہے تمہاری آنکھیں کیا کہتی ہیں …… دل تو بہت چاہتا ہے تمہاری شربتی آنکھوں کا کہا مان لوں لیکن میں ڈیبی سے شادی کر رہا ہوں میں اپنے باپ کی طرح نہیں بننا چاہتا….. اسی لئے یہ ملک بھی چھوڑ کر جا رہا ہوں ….. ہو سکے تو تم بھی اپنے اور نامدار کے منافقت کے رشتے پر نظر ثانی کرنا …….. ٹم جو کبھی تمہارا نہ ہوا …….
بے نام سی اداسی میرے اندر اتر گئی تھی … میں سوچ رہی تھی خواہ کسی خطے اور کسی رسم و رواج کے پابند ہوں اندر سے ہم سب ایک سے ہی ہوتے ہیں …. زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر خود سے منافقت کرتے ہیں، کبھی رشتوں ، کبھی دوستی اور کبھی محبت کے نام پر ……