
برسات کی رات ۔۔۔ سمیع آہوجہ
برسات کی رات
سمیع آہوجہ
مشینی درندے کے پیٹ میں رہتے ہوئے اس کے پانچ سال بالکل ہی روکھے پھیکے بیت گئے۔ جائے وہاں صبح کس لمحے شروع ہوتی اور کس وقت شام کا شامیانہ تن جاتا، اس نے تو اسے ایک ہی رنگ میں دیکھا۔ گھر سے جو بھی قدم اس کی طرف اٹھتا۔ وہ اس کی پشت پیچھے بھول بھلیوں میں ہی کھو جاتا۔ اس عظیم شہر کو وہ مشینی درندے کا پیٹ کہتا۔ جہاں وہ پانچ سال سے مقید تھا۔
ایک ہی کو لہو کا بیل ۔
پیسے ۔ پیسے
“اب کی مرتبہ بیٹے ۔ اگر تم سو روپے اور بھیج دو تور رشید سنارے کا حساب ختم کر دوں گا۔”
“اس بار تم نے پیسے کم بھیجے ہیں ۔”
“منی آرڈر دیر سے پہنچا تومیں سمجھی کہیں خدانخواستہ تم ؟”
اور اسے اپنی حدیں اور بھی واضح طور پر متعین کرنی پڑتیں۔
سٹنڈرڈ ، مورال ، مقصد –
یہ سب الفاظ اس کے ہمراہی ہوتے اور ہر روز منہ اندھیرے شیو کرتے ہوئے خود ہی اپنے اوپر خول
کی طرح چڑھا لیتا آخر کو ماں نے اسی کی کمائی سے بہن کی شادی کرنی تھی نا۔
اب تو وہ ماں کو اپنے پاس بلانے کی سوچنے لگا۔ بس ذرا قرض ہلکا ہو جائے ۔ بس ذرار
بس
بس ۔ یہ بس ہی تو زندگی کا بِس بن کر اس کے رگ وپے میں دوڑتا ۔
اگر کہیں پندرہ منٹ دیر ہو جائے تو پھر بے بس۔ مل سے دیر پراگریس میں کمی ، انکریمینٹ کا خسارا اور بونس تو با لکل بند۔
بے جس درندے کے پیٹ کا وہ بھی ایک پرزہ تھا ۔ بے بس مگر متحرک ۔کوہ ندا کی آواز اسے اپنی طرف کھینچے لائی لیکن لوٹنے کی تو کوئی راہ ہی نہ تھی۔ آخر وہ جاہی کہاں سکتا تھا۔ برسات کی اس دھواں دھار بارش سے پہلے تو اسے زندگی کے گنگناتے لمحوں کا احساس بھی نہ ہوا تھا۔ جدوجہد کا تصور اسے ہر لحد اپنے شکنجے میں جکڑے رہتا گرد و نواح سے اس کا بس اتنا ہی رشتہ تھا کہ سڑک کے پار سامنے والی عمارت میں دو میاں بیوی رہتے ہیں۔ جن پر گرمی سردی ، اس کی رات ، گھر پہنچتے ہی نظر پڑتی تھی صبح جب وہ اپنے کمرے سے نکلتا تو نہ صرف اس فلیٹ میں بلکہ گرد و نواح کے سارے در و دیوار پر مبہم سی خاموشی چھائی ہوتی اور سڑک پر دوڑتی ہوئی بسوں کا شور ہوتا۔
برسات کے اس تند و تیز جھکڑ میں وہ مل سے کالج جانے کی بجائے سیدھا ہی گھر پہنچا۔ کمرے کا تالا کھول کر جب اندر گھسا تو اسے بوائیلر روم سے آنے والی گرم ہواؤں کا سا احساس ہوا۔ وہ کرسی کھینچ کر بالکونی میں جا بیٹھا۔ تیز ہوا اور بارش کی متواتر برستی موٹی موٹی بوندوں کے علاوہ اور کوئی شور ہی نہ تھا۔
وہ چند ثانیے تو بارش کے پانی میں ڈوبتی سڑک کو تکتا رہا۔ کتنی ہی کاریں اور بسیں پانی کی بدولت رک گئی تھیں ۔ گردو نواح کے فلیٹوں کی بالکونیوں سے نظریں تیرتی ہوئیں سامنے والے فلیٹ پر رکیں اور ایسی رکیں کہ جامد ہوگئیں ۔ کانوں میں بارش کا شور منجمد ہو گیا فلیٹ سے اٹھتی ہوئی موسیقی کی خاموش لہروں نے اسے اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ کرسی کی پشت پر سر ٹیکے آنکھیں بند کئے، وہ مسکرا رہی تھی اور اس کی گردن پر نہ جانے کتنی دیر سے کسی اجنبی کے ہونٹ جمے ہوئے تھے۔ اس کے ہاتھ اٹھے اور اجنبی کے بالوں میں کنگھی کرنے لگے۔
اور یہی چند لمحوں کا منظر اس کے رگ وپے میں بجلی کے پے در پے شاک لگانا گیا۔
” ہونہہ۔ بے حیا” ۔ اس نے بڑے کرب سے ہاتھوں کو مسلتے ہوئے سوچا۔
بالکونی کی کھڑکی اس نے زور سے بند کر دی۔ اور چند لمحے لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے کرسی پر بیٹھ کر اس نے آنکھیں موندلیں اور ایکا ایک اس کا گلا دبوچ لیا۔ اور جان سے مارنے کے لئے نہ جانے کب تک وہ اپنی ساری قوت صرف کرتا رہا۔ مگر دفعتاً ہی اسے اپنے پسینے میں شرابور ہونے کا احساس ہوا تو اس نے آنکھیں کھول دیں گہری تاریکی میں ڈوبےہوئے کمرے میں اپنے آپ کو محبوس پاکر اس نے لمبے سانس کھیچنے اور اٹھ کر پنکھا چلانے کے بعد پھر اپنی کرسی پرآ جما۔
کھڑکی کے شیشوں پرمسلسل تیز بارش اپنا سر پٹخ پٹک کر نہ جانے اس سے کیا کہتی رہی وہ آنکھیں بند کئے نہ جانے کیا سنتا رہا۔
سنتا رہا۔ لیکن ۔
وہ۔
وہاں تھا ہی کیا ۔۔۔۔۔۔۔
اس نے آنکھیں کھولیں اور سلاخوں کے پیچھے گھو متے تند شیر کی طرح بالکونی اور کمرے کے چکر کاٹنے شروع کر دیئے پھر یکدم ہی پلٹ کر اس نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔ اور کرسی پر جا بیٹھا۔ مگر جسم پر رینگتے ہوئے کنکھجوروں نے اتنی سویاں چبھویئں کہ وہ پھر سے اٹھا اور چشم
زدن میں کھڑکی کھول کر ایک لمحہ کے لئے اس فلیٹ میں دیکھا، کرسی خالی تھی۔ حیرت زدہ نظروں سے اس نے ہرکونا ٹٹولا تو وہ دونوں پلنگ پر لیٹے نظر آئے ، اجنبی اسے گدگدیاں کر رہا تھا۔ اور وہ قہقہے لگا رہی تھی ۔ کراہت سے یکدم اسے اُبکائی آئی اور وہ تیزی سے باتھ روم کی طرف دوڑ پڑا۔ اور واش بیسن میں زور زور سے قے کرنے لگا۔
چند ہی لمحوں میں وہ نقاہت سے چور چور لوٹا اور ۔۔۔۔۔۔ بے دم بستر پر گر گیا۔ مگروہاں تو کوئی اور لیٹا ہوا تھا۔ بالکل اس کے ساتھ، لمبے لمبے بالوں میں لپٹا کوئی جسم پڑا تھا، ہاتھ لگاتے ہی اس کا ہاتھ جل گیا
۔”نہیں نہیں۔” وہ چیخ اٹھا اور غصے سے اُسے جھنجھوڑنے لگا مگر فوراً ہی اس جسم نے پھنکاری بھری اور اس کا لرزتا جسم موٹے سیاہ رسے میں جکڑا گیا۔ اور لمبی دوشاخہ زبان اس کے ہونٹ چاٹنے لگی۔
” نہیں نہیں ۔ میں مرجاؤں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
“میری بوڑھی کسی کے سہارے جیئے گی “
؟ اور وہ گرفت دوسرے لمحہ میں ہی کمزور پڑگئی۔
تاریک کمرے کے ایک کونے سے اسی دم آواز آئی ۔
بس اتنی ہی ہمت تھی ۔
اور اس نے کروٹ بدل کر جو اس طرف دیکھا تو اس کی چیخ نکل گئی۔
وہ خود وہاں کھڑا تھا ۔۔۔۔ بس۔۔۔ ذرا چہرے میں تبدیلی واقع ہو چکی تھی ۔ صاف چہرے اور بدن پر اب
لمبے لمبے بال تھے اور لمبا چہرہ اور لمبوترا ہوکر تھوتنی میں بدل چکا تھا۔ یہ میں ہوں ۔
کیا یہ میں ہوں ۔ ؟
میں نہیں یہ میں نہیں ہو سکتا۔
ہاں ہاں میں ہی ہوں۔
نہیں۔
ہاں ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔ ہاں
اور ساتھ ہی اک فلک شگاف قہقہ کمرے میں پھیل گیا۔
یہ میں ہوں۔ ہاں ، ہاں ، ہاں یہ میں ہوں ۔
اور ڈگڈگی کی تال پر ناک پڑی نکیل نے اسے ناچنے پر مجبور کر دیا۔
ہاں ، ہاں ، ہاں ۔
اوسیکل چلدی تیری ۔ اور پہیہ چلدا تیرا
اوسیکل اوسیکل
چلدی جلدی چلدی –
اور دھاڑتے ہوئے اس نے نکیل تڑوائی اور بستر پر ٹوٹ پڑا۔ مگر یہاں اب دھرا ہی کیا تھا۔ وہ تو کرسی پر بیٹھا تھا اور خود ہی پاؤں بھی چاٹ رہا تھا۔ اس نے چاہا کہ اسے کندھے پر ڈال کر غار میں لے جائے کہ چھت میں لٹکی ہوئی چمگا دڑ اس پر جھپٹی تواس کی دونوں آنکھیں خود بخود بند ہوگئیں۔ اور بازوں میں سوئیاں سی اترتی محسوس ہوئیں اور جسم مفلوج سا ہونے لگا۔ اس پر غنودگی طاری ہوگئی
مگر جب آنکھ کھلی تو جھریوں بھرا چہرہ اسے پروں کے پیچھے سے جھانکتا نظر آیا۔ اس نے اپنا منہ خون میں رنگے ہوئے پروں سے چھپارکھا تھا
ایکا کی کھڑکی سے شور داخل ہوا اور ساتھ ہی دوسرے فلیٹ سے اک چہرہ ابھرا۔ مگر لمحہ بہ لمحہ وہ چہرہ گم ہوتا گیا اور بڑی بڑی آنکھیں وہاں سے سفر کرتی ہوئی اس کھڑکی پر آ بیٹھیں۔
تم ۔۔۔۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مسحور سا اس کی طرف بڑھا ہی تھا کہ پیچھے سے کتے کے بھونکے کی آواز آئی جو بتدریج تیر غراتی آواز میں بدل گئی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا تووہ دروازے میں کھڑا تھا ۔
وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ تو۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خود ہی تھا۔
تم نہیں جاؤ گے۔ تمہارا راستہ وہ نہیں یہ ہے۔
اور پھر وہ بند دروازے کے پیچھے گم ہو گیا۔
مگر کھڑکی سے دم بدم آوازمیں شدید تر ہوتی جارہی تھیں ۔
ہرا سمندر گوپی چندر
بول میری مچھلی کتنا پانی
کتنا پانی ۔۔۔۔۔ کتنا پانی
ہرا سمندر۔۔۔۔۔۔۔ ہرا سمندر
ایکا یکی اس کے ہونٹ بڑھنے شروع ہو گئے۔ اور بڑھتے ہوئے اپنی کھڑکی سے اتر ے اور سڑک سے ہوتے ہوئے اس فلیٹ میں کھڑکی ہی کے راستے اتر ے اور بستر پر پہنچ گئے کہ ایکا ایکی سڑک پر چیختی چلاتی دیہاتن گزری ۔
اس کے ہونٹ جڑ ہی سے کٹ گئے اور وہ بے تحاشہ پکار اٹھا ۔۔۔۔۔۔۔ “ماں “
مگر دوسرے ثانیہ میں ہی اس کی آواز غراہٹ میں بدل گئی ۔
وہ ہونٹوں سے بے نیازغیض و غضب سے لبریز اٹھا۔ اس کے دانتوں میں تناؤ آگیا۔ جسم کے سارے بال کھڑے ہو گئے اور وہ دم پھلائے بستر پر پڑے سیاہ سانپ پر ٹوٹ پڑا کہ اچانک زور زور سے دروازہ بجنے لگا۔ اور اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دروازے کی چٹخنی گرا کر دروازہ کھولا تو تیز ہوا نے اسے اندر دھکیل دیا ۔ بارش اسی تیزی سے ہو رہی تھی۔ اور وہ دوبارہ دروازہ بند کر کے جمائی لیتے ہوئے غسل خانے میں جاگھسا۔ شیو کرتے ہوئے اس نے کئی بار اپنے چہرے کو دیکھا اور پھر اس کے ہمرا ہی وہی الفاظ آ موجود ہوئے
۔
سٹنڈرڈ —- مورال ——- مقصد-
” منی آرڈر دیر سے پہنچا تو میں سمجھی خدا نخواستہ تم ————-“