بندھن کا بوجھ ۔۔۔ ثمینہ سیـد
بندھن کا بوجھ
ثمینہ سید
“اس سے پہلے کہ آپ ہمیں کہیں سیر کےلیے لے جاتے,یا ہمارے ساتھ باہر کی دنیا میں …کھلی فضا میں کہیں گھومتے پھرتے.یہ دن آگئے.اور اب……..آپ بھی اس قید کے ہاتھوں بے بس ہیں”
شفق نے مسکراتے ہوئے گہرا طنز کیا.تو حبیب احمد اسے گھور کررہ گئے.جزبز ہوتے اٹھے اور غصے سے بولے
“بچوں کے سامنے میری بےعزتی کرنے سے فرصت ملے تو ایک کپ چائے لاؤنج میں پہنچا دینا..اور ہاں ملازمہ کے ہاتھ بھیجنا.”
“جی اچھا” شفق نے شانے اچکائے.ان رویوں نے اسے بھی لاپرواہ بنا دیا تھا.وہ اس فینٹسی سے نکل آئی تھی کہ بیوی نہ چاہتے ہوئے بھی” ملازمہ “بنی رہے تو دل میں جگہ بنا ہی لے گی..کچھ دیر بیٹھی رہی بچوں کی کھلی کتابوں میں دلچسپی کی کوئی چیز ,کچھ نیا ڈھونڈنے کی کوشش کرتی رہی.کیونکہ پچھلے ایک سال سے یہی سب کچھ ہورہا تھا.وبا کے ہاتھوں قیدوبند کی صعوبتیں,آن لائن کلاسز,کھانے پکانے,بےوقت چائے اور طنزیہ بک بک.
کبھی کبھار سکول والوں کے پرزور اصرار پر شفق اور حبیب احمد کو سلیقے سے تیار ہوکر کمپیوٹر کے آگے بھی بیٹھنا پڑتا.والدین کی حیثیت سے بہت سی چیزیں سمجھنا پڑتیں اور کئی طرح کے سوالوں کے جواب دینا پڑتے.اسے ہمیشہ یاد رہتا کہ وہ خود بہت ذہین فطین طالبہ تھی.ہمیشہ پہلی پوزیشن پہ اسی کی اجارہ داری رہتی.یونیورسٹی میں بھی گولڈ میڈل سے نوازا گیا تھا.اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسکے ابا نے ہمیشہ اس کی پسند اور دل چسپی کو ترجیح دی تھی.ہمیشہ اسی کی منتخب کردہ سمت میں اسے چلنے دیا.ناصرف اس کا ساتھ دیتے پیسہ بھی لگاتے. لیکن نجانے کیوں نازنخرے اٹھانے والے یہی والدین بیٹیوں کی شادی کے وقت روایت پسند اور کٹھور بن جاتے ہیں.وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی ایم فل ,پی ایچ ڈی کے بعد شادی کرنے کا سوچنا چاہتی تھی .لیکن امی کو خدشوں کے ناگ ڈستے رہتے.لڑکی کی عمر زیادہ ہوجائے گی تو رشتہ نہیں ملے گا.,اسکی سوچ پکی ہو جائے گی تو ہماری نہیں سنے گی اور سب سے بڑھ کر تو امی کو شیطان کے شر سے خوف آتا رہتا.اکثر کہتیں
” شیطان انسان کے ساتھ ہی ہوتا ہے ہرپل نجانے کب حاوی ہوجائے.ہماری نانی کہتی تھی برائی اور بےراہروی تو قبر کی دیواروں تک پیچھا کرتی ہے.مرتے مرتے بھی گناہ سرزد ہوسکتا ہے.اور ہم پڑھنے کی آزادی دے کر لڑکیوں کو شتر بے مہار ہی کر چھوڑتے ہیں.”
“تو اللہ کا نام لے کے رشتہ ڈھونڈ بھلئیے لوکے….میری دھی رانی میرا فخر ہے ,مان ہے میرا.”ابا جی کہتے تو شفق کی آنکھیں بھر آتیں.
تب ان باتوں کے معنی سمجھ میں نہیں آتے تھے یہ خدشے یہ مان کے تالے عقل سے ماورا لگتے تھے لیکن اب……اب جب وہ بہت بڑے بزنس مین حبیب احمد کی بیوی بن چکی تھی.دو بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی.تو گاہے گاہے امی کی باتیں دل کے دروازوں پہ دستک دیتی رہتی تھیں.
“امی حق بجانب تھیں .لیکن شادی کرتے وقت بھی بیٹی کی پسند,عمر اور ذوق کا خیال رکھ لیتیں تو…..اچھا ہی ہوتا..”شفق اکثر کام نپٹاتے اسی طرح کے فقرے بڑبڑاتی رہتی تھی.
بچے سکول چلے جاتے اور میاں صاحب کروفر سے تیار ہوکر اپنے کام پہ چلے جاتے.اس کے سسرال والوں کےبہت بڑے مال میں کروڑوں روپے کی دکانیں اور بزنس تھے. اونچی سے اونچی اڑان.ایکدوسرے سے بڑی گاڑیاں,کئی کئی کنال پہ پھیلے گھر ,میک اپ زدہ چہرے,باہر کے کھانے اور دنیابھر میں گھومنے پھرنے کی آزادی.باہر سے پڑھ لکھ کے آئے نوجوان بھی اسی بزنس میں لگ جاتے.سب پہ دوکو چار کرنے کی دھن سوار تھی.کمی تھی تو محبت کی اور شدید کمی تھی تو ساتھ کی,تعلق میں خلوص کی.جو شفق جیسے مڈل کلاسیوں کا خاصا بڑا مسئلہ تھا. وہ چاہتی تھی حبیب احمد اسے اور دونوں بیٹیوں کو ساتھ لے کر دنیا دکھائیں.اکٹھے بیٹھ کے کھانا,پینا دیر تک باتیں کرنا اور اپنی مرضی کے پکوان بنانا جیسے عام سے اس کے خواب تھے.وہ مرد کے ساتھ کو حصار کی طرح اپنے گرد لپیٹننا چاہتی تھی.
لیکن ہر چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے نوکر تھے.کھانے کی ہدایات خانساماں کو دی جاتیں.حبیب احمد اکثر طنز کے تیر چلاتے رہتے.
“یہ مڈل کلاسیے شوق کہیں دفن کردو شفق بیگم .اسٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے آپ پر توجہ دو.اس گھر گر ہستی کی ,سگھڑاپے کی ضرورت نہیں ہے مجھے اور ہاں گاڑی خود چلانا سیکھو,پیسہ خرچ کرنے کے طریقوں پر غور کرو .وہ جو تمہاری ذہانت تھی ناں اس کی یہاں کسی کو بالکل بھی ضرورت نہیں ہے. زندگی کے ساتھ دوڑنا سیکھو تاکہ میری بچیوں کی اچھی تربیت کرسکو.فیشن اور ٹیکنالوجی کا دور ہے بی بی…رٹو پن اور ذہانت کے زعم میں رہنے کا نہیں”.
شفق نے اپنی اخلاقیات اور تربیت کے مطابق نجی زندگی کا آغاز کیا تھا,رشتوں کو بنانے اور نبھانے کی ہر کوشش کردیکھی تھی. لیکن یہاں سب اپنی مرضی اور اپنی پسند کے سانچوں میں ڈھلے ہوئے تھے.ہر کوئی دوسرے کو نیچا دکھانے کی سرتوڑ کوشش میں تھا.وہ کبھی ان سب کے ساتھ بھاگنے لگتی.شاپنگ,پارلرز,پارٹیاں,فیشن شوز,سوشل ورک..ہوٹلنگ سب کچھ کرتی اور کبھی تنہائی کے صحراؤں میں نکل جاتی.بےاعتنائی کے سر پٹ گھوڑے اس کی خاک اڑاتے.تو وہ گم ہوتے ہوتے گمراہ ہونے لگی.مضطرب روح کا چین ڈھونڈنے نکل پڑتی.
بےشمار طنزاور روکھے رویے شفق کی پوروں پہ جمتے جارہے تھے.گھر میں ہر طرح کا آرام اور سہولتیں تھیں جن کی وجہ سے ہر دیکھنے والی آنکھ شفق کو خوش قسمت کہتی.کوئی کیا حانے رشتے میں بلا کی گھٹن اور سرد مہری تھی.حبیب احمد تعلق کی انتہا پہ بھی اسے”ناشکری عورت”کہتے ہوئے الگ ہوتے.جو لمحے ان کو درکار ہوتے ان میں شفق پوری طرح انوالو ہو ہی نہیں پاتی تھی.انسان مشین بن کر ہر ضرورت پوری کرسکتا ہے.لیکن جذبے…..ان کی اپنی سرکشی ہے ,اپنی مرضی,اپنا ہی رچاؤ.ان پر زور زبردستی نہیں چلتی.اگر زبردستی کرنے کی کوشش کی جائے تو تعلق تڑک کر رہ جاتے ہیں اور منہ زور ہواؤں کی طرح مرضی کے رخ پہ نکل جاتے ہیں….. یہی شفق کے ساتھ ہورہا تھا. تمام پیسے والوں کی طرح اسے بھی ڈپریشن ہونے لگا,زبان درازی ہونے لگی.کچھ دن لمبی چپ چلتی اور باقی سارے دن دوبدو لڑائی چلتی رہتی.
اچانک زندگی نے پینترا ہی بدل لیا.روایتوں ,حکایتوں اور دوڑتی بھاگتی مشینوں کو سٹاپ لگ گیا.ایسی رکاوٹ….ایسا ٹھہراؤ جو انسان کی سوچ اور اندازے سے بہت اوپر تھا تو انسان کا کسمسانا,الجھنا, مضطرب ہونا لازم تھا.وقت نے مٹھی بند کرلی.زندگی کو اسٹیٹس کا ناچ نچانے والے خود ایک انوکھی ,ان چاہی تال پہ تھرکنے لگے.بےبسی انتہاؤں پہ تھی.ساری دنیا ہی ایک دم بے بس ہوگئی” وبا” کی مرضی کے مطابق روزوشب کی ترتیب بنائی جانے لگی.گھر آباد اور گلیاں ,بازار ویران ہونے لگے.
باہر کھلی فضا اور چور جگہوں میں پنپنے والے سچے جھوٹے رشتے دم توڑنے لگے تو گھروں میں قید سچے رشتوں میں ملاوٹ کرنے والے لوگ مرغِ بسمل بنے تڑپ رہے تھے. وبا زوروں پہ تھی اسے سائنس کی کوئی چال,گھناؤنی سازش کہا جاتا تو کبھی مذہب سے دوری کو وجہ گردان کر خوف وہراس پھیلایا جاتا. راتوں میں گھروں کی چھتوں پہ بےوقت اذانیں دے کر سمجھا جاتا کہ یوں روٹھے ہوئے رب کو منا لیں گے.وقت وبا کے چنگل میں جکڑا اڑیل پن دکھا رہا تھا .انسانوں کو دھڑا دھڑ موت نگل رہی تھی اور قبریں اگلنے لگی تھیں.شمشان گھاٹ اور قبرستانوں کی اراضی ناکافی لگنے لگی تو لاشیں دریاؤں میں بہائی جانے لگیں.ہر طرف سناٹا تھا.موت کا سناٹا .کسی صورت بھی کاروبارِ حیات ڈگر پہ نہیں آرہے تھے.اور بے نتھے بیل جیسے خود سر مرد ..مرضی کی مالک ہوچکی بیویوں کے سر پر سوار تھے.بیویاں بھی نوکروں کو فارغ کرکے خود ہرکام کرنے پہ مجبور تھیں ,ہر ایک کام سے بڑا اور صبرآزما کام دن رات کے تمام گھنٹے شوہروں کے مزاج کے مطابق چلنا تھا.بے شک راستے کھوٹے ہوچکے ہوں.دل نفرتوں سے اور منافقتوں سے بھر چکے ہوں.جذبے سرد بھی ہوچکے ہوں بستر گرم رکھنا تھا.
بہت ہی کم لوگ تھے جنہوں نے فاصلہ رکھنے کے دنوں میں فاصلے مٹائے ہوں اور محبت کی راہگزر پہ چل پڑے ہوں.ورنہ طلاقوں کی شرح زیادہ ہورہی تھی.آن لائن موٹیویٹرز اور ماہرِنفسیات رواج پارہے تھے.اسی اتار چڑھاؤ میں جذبوں سے ملمعے اتر رہے تھے.شوہر جو مہینہ بھر وضعدار بنے پھرتے رہتے تھے اب روز آپے سے باہر ہوجاتے.تو ایسے میں شفق کا حیران ہونا بنتا ہی تھا ناصرف حبیب صاحب کے محبت سے لبریز لہجے میں بلانے پہ حیران تھی وہ تو خود پر بھی حیران تھی .آج شام سے ہی مزاج میں چاہتوں کی ملاحت اتر رہی تھی . مسکرا مسکرا کر سج سنور رہی تھی .چال میں بھی مستی در آئی تھی.سمٹتے ہوئے فاصلے اسے خوش فہمیاں دے رہے تھے.اس نے بخوشی سمیٹ ڈالے.یا پھر کسی کی یاد نے بےحال کردیا تھا…ہجر نے ہرا دیا تھا. ایسے ہی بہکتے پل میں حبیب احمد نے اس کا ہاتھ تھاما تو وہ کسی معمول کی طرح چلتی گئی .مقابل کرم پہ خوش ضرور تھا لیکن بار بار چونک رہا تھا.انداز,ادائیں اسے زیربار کیے دے رہی تھیں.بیوی سے اکثر مرد ایسی محبت کی توقع نہیں کررہے ہوتے.شریف بنے رہتے ہیں تا کہ بیوی بھی حد میں اور اوقات میں رہے.لیکن اب اس وبا نے گھروں تک ہی محدود کردیا تھا تو رشتے ہی غنیمت لگ ریا تھے سارے چھل کپٹ دم توڑ رہے تھے.اصل چہرے چھپانے مشکل ہورہے تھے.
جب جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا تو حبیب احمد نے سخت سناٹے میں شفق کو دیوانگی سے چومتے ہوئے سرگوشی کی.
“یہ ہی مس کررہا تھا ….یہی سب ….شیلا مائی ڈئیر ……شیلااااااااا …..لویو ….سسکاری بھری آواز نے شفق کے حواس بحال کردئیے “
شفق نے آواز کی ٹوٹتی,لرزتی ,نشے میں ڈوبی بازگشت پہ خود کو گہرے سمندر میں گرتا محسوس کیا. ماحول کا سارا سحر ایک چھناکے سے ٹوٹ رہا تھاشور تھا….. بلا کا شور..لیکن موت جیسی چپ بھی تھی.سو بھید کھولتی زہریلی چپ ….وہ ایک طرف گرتی ہوئی دوہرے درد سے بےحال تھی …بالکنی سے آتی ہلکی سی روشنی میں اس اپنے …لیکن یکسر اجنبی شخص کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھ رہی تھی.
“یہ……” وہ” نہیں تھا”وہ بندھن کے بوجھ تلے دبی بری طرح کراہی.