میں نہیں دوغلی ۔۔۔ ثمینہ سید
میں نہیں دوغلی
ثمینہ سید
’سرمد میں دانستہ پریشان نہیں ہوتی یہ پریشانیاں دکھ ،طعنے،اور منفی روئیے میری روح کو زخمی کر رہے ہیں ‘‘سحر نے انگلی کی پور سے آنکھ کا کو نا صاف کیا۔سرمد کرسی کھینچ کے قریب ہو بیٹھا۔
’’اب تو میں کھل کے ہنس بھی نہیں پاتی ،جب بہت کام تھے بہت ساری ذمہ داریاں تھیں تب بھی ایسی اوازاری نا تھی۔‘‘سحر کے سینے سے سرد آہ نکلی ۔
’’میری محبت کافی نہیں ہے کیا؟‘‘سرمد نے اس کے ہاتھ اپنے گرم مضبوط ہاتھوں میں دبائے’’ہر وقت ہر لمحہ تو میں تمہارے ساتھ ہوں‘‘۔
’’ہاں تم تو ساتھ ہو مگر میں بہت اکیلی پڑ گئی ہوں،سرمد اب مجھے تمہاری ضرورت تب محسوس ہوتی ہے جب تم میرے پاس نہیں آ سکتے۔جب میں اور امی اکیلے ہو جاتے ہیں ،جب مجھے خوف گھیر لیتا ہے
کہ امی کو کچھ ہو گیا تو۔۔۔۔‘‘سحر کی آواز میں لرزش بہت واضح تھی۔
’’اوہ جان یہ سب تمہارا وہم ہے ،ایسا کچھ نہیں ہو گا ‘‘سرمد نے طفل تسلی دی جو اسے خود بھی جھوٹ لگی۔
’’سرمد کبھی کبھی محبت کافی نہیں ہوتی وہ محبت جس کے لیئے ہم ترس رہے ہوتے ہیں ہمیں مل جائے تو پھر ساتھ بھی چاہیئے، قربت بھی، تحفظ بھی۔سچ مچ کا ساتھ ۔خوابوں سے گزارا نہیں ہوتا۔‘‘سحرجو سمجھانا چاہ رہی تھی سرمد جان بوجھ کے انجان بن رہا تھا۔لیکن آج سحر بھی فیصلہ کر کے بیٹھی تھی کہ بات ٹھکانے لگا ڈالے۔خاموش نظروں سے سرمد کو دیکھتی رہی اور وہ ڈھیٹ بنا مسکراتا رہا۔
’’ہم اپنے تعلق کو رشتہ کیوں نہیں بنا سکتے ؟ہم مکمل طور پہ آزاد اور خود مختار ہیں‘‘۔سحر سرمد کے بالکل خاموش چہرے پہ نگاہیں ٹکائے بیٹھی رہی۔وہ کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا پھر اٹھ گیا ’’چلتا ہوں یار میری زینی کو صبح بہت تیز بخار تھا اس کی ماں تو ڈاکٹر کے پاس بھی نہیں لے جا سکتی ،تمہیں تو پتہ ہے وہ میرے بغیر گھر سے قدم بھی نہیں نکالتی۔‘‘سرمد یہ کہتے ہوئے چلا بھی گیا۔دروازہ ہلتا رہا اور آج پہلی بار سحر کو لگا سرمد یہ جتا رہا تھا کہ اس کی بیوی کس قدر مشرقی ہے اور میں۔۔۔۔۔۔۔۔’’سرمد میں گھر سے باہر تو جاتی ہوں ،کما کے لاتی ہوں اپنا اور اپنے بہن بھائیوں کا پیٹ پالنا تھا،اب میرے اور امی کے سو خرچے ہیں کون اٹھائے کون مجھے کہے آج تم آرام کرو سحرمجھ سے لو ۔جو چاہئے۔‘‘
سحراسماعیل ایک کلرک کی بیٹی تھی اسے پولیس کی نوکری کا جنون تھا۔اسماعیل حیدر کی چار بیٹیاں ہی تھیں بیٹا نا ہونے کا روگ دونوں میاں بیوی کو اندر اندر کھا رہا تھا سحر کی نوکری کا پہلا دن تھا جب باپ کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ جانبر نا ہو سکا۔ بس اسی دن سے ساری ذمہ داریاں سحر کے کندھوں پہ آ پڑیں۔وہ لڑکوں جیسی بہادر تھی ایک موٹر سائیکل لے لی اور زندگی کے جہاد پہ نکل پڑی۔بہنوں کو چھوڑنا، لانا،ان کی خوشیاں غم،فکریں کرتے کرتے کسی لمحے سرمد بھی زندگی میں آ گیا۔سرمد انکم ٹیکس آفیسرتھا ایک کیس کے سلسلے میں سحرسے ملنے اس کے تھانے آیا اور پھر بہانے بہانے آتا رہا نجانے کب مردانہ سی عادات والی سحر دل میں اتر گئی تھی ۔سحر کو بھی سرمد کی توجہ بہت اچھی لگنے لگی دونوں میں دوستی کیا ہوئی زندگی جیسے آسان اور خوبصورت ہو گئی سحرکو اپنا آپ اچھا لگنے لگا وہ غیر محسوس طریقے سے نسوانیت سے بھرنے لگی پہننے اوڑھنے ،بننے سنورنے لگی۔ایک ایک بات سرمد کے ساتھ کر کے جیسے وہ ہلکی پھلکی ہو جاتی تھی۔وہ اکثر سرمد کی شدتوں کے جواب میں کہتی’’ بس میری چندذمہ داریاں پوری ہو لیں پھر ہم بھرپور زندگی گزاریں گے۔‘‘اور اب ۔۔۔اب تو ذمہ داریاں پوری ہو گئیں۔مگر وہ بھرپور زندگی کہاں ہے؟
’’تم ذرا سا ذہن پہ زور ڈالو تو یاد آئے گا تمہیں ہر وہ لمحہ۔۔۔ جب میں تڑپ رہا تھا کہ ہم صرف نکاح ہی کر لیتے ہیں ۔میرے گھر والوں کا منہ تو بند ہو جائے۔ مگر تمہاری ایک ہی رٹ تھی ذمہ داریاں ،ذمہ داریاں‘‘
سرمد جھنجھلا کے بولا ۔تو وہ پاس آ بیٹھی’’سرمد تب ممکن نہیں تھا تم تو مجھ سے پوری طرح واقف ہو ‘‘
’’میں تمہارے ساتھ ہوں یہ کافی نہیں ؟میں عمر بھر تمہارے ساتھ رہوں گا‘‘’’تم نے یہ کیسی ضد پکڑ لی ہے؟۔‘‘
’’سرمد مجھے تمہارا نام بھی چاہئے،مجھے رات دن کا ساتھ بھی چاہئے ‘‘۔
’’تمہارے کہنے پہ شادی کی تھی میں نے۔۔۔۔۔۔۔ اب کیا کروں؟۔‘‘سرمد نے ناصرف یاد دلایا اپنی بے بسی بھی دکھا دی۔
’’اب سرمد؟؟؟‘‘وہ سراپا سوال بنی ہوئی تھی
’’امی ابا کی وفات کے بعد بیوی بچوں کو ایک رات بھی گھر میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا میری روح تو تمہارے ساتھ ہے میری جان مگر وہ جو میری ذمہ داری ہیں ان کا کیا کروں؟ ‘‘سرمد نے لنگڑی لولی مجبوری پیش کی۔ اور آج پھر بات ادھوری چھوڑ کے اٹھ گیا۔
رات کا سناٹا گہرا ہو رہا تھا عجیب خوف سا فضا میں گھلا ہوا تھا۔اور امی کی ہائے ہائے سحر کے حواس معطل کر رہی تھی پھر نجانے کیا ہوا فضا میں سناٹا بڑھ گیا سحر سناٹے میں ڈوبتی ابھرتی رہی پھر سہمے سہمے قدموں سے ماں کے پاس چلی آئی ۔۔۔۔ ’’امی امی جان ن ن ن‘‘ سحر کا بہادر سا دل ڈوب گیا اس نے امی کی ناک کے آگے ہاتھ رکھ کے سانس محسوس کی پھر بجلی کی سی تیزی سے اٹھی اور ایک ۔۔دوسرے اور پھر تیسرے بہنوئی کو فون کر کر کے پاگل ہونے لگی کوئی فون اٹھا ہی نہیں رہا تھا وہ ہمت کر کے اٹھی اور امی کو سہارا دے کے باہر تک لائی گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال لے آئی۔آج تنہائی اور بے بسی کی حد ہو گئی وہ خوف سے تھر تھر کانپ رہی تھی ۔تبھی ڈاکٹر نے امی کے ہوش میں آنے کی اطلاع دی۔
یہ رات خوف بن کے دل میں جاگزیں ہو گئی تھی۔ اگلے کچھ دن وہ اسی خوف میں رہی ۔
خوف اور وحشت کے انہی دنوں میں جمشید گورایا نے سحر سعید کو پروپوز کر دیا۔وہ حیران تھی لوگ بات کرتے ہوئے کچھ بھی خیال نہیں کرتے ۔جمشید گورایاتحصیلدار تھا ساٹھ سال کا بوڑھا مگر صحتمند ، بڑھے ہوئے پیٹ والا شوقین مزاج سا مرد۔سحر سعید کو اچانک خود سے نفرت ہونے لگی ’’تو سحر سعید اب تیری یہ اوقات ہو گئی‘‘آفس میں گھومتے ہوئے اس نے خودکلامی کی۔
پھر چلا کر کانسٹیبل کو بلایا’’جا کر جمشید گورایاکو بتاؤ کہ میڈم نے کہا ہے آئندہ میرے آفس میں قدم رکھا تو جیل میں سڑتے نظر آؤ گے‘‘
وہ سب کو بڑے دھڑلے سے کہتی ’’شادی کرنا، مرد کی محکومی کرنا پسند ہی نہیں، مجھے تو حیرت ہوتی ہے عورتیں کسطرح مردوں کی جرابیں ،بنیانیں دھوتی ہیں،کپڑے استری کر کر کے ہینگرز بھر دیتی ہیں۔کھانے پکا پکا کر معدے کے ذریعے دل میں اترنا چاہتی ہیں جبکہ مرد کا دل تو صحرا کی طرح ہے پیاسا کا پیاسا جلتا۔۔تھل ۔۔۔۔۔۔جوسیراب ہو ہی نہیں پاتا جسے ہمیشہ نئی بارشوں کا انتظار رہتا ہے ۔ اور وہ پوری شدتوں سے ان نئی بارشوں میں بھیگنا چاہتا ہے ہمیشہ ہرموسم میں،عمر کے ہر سال میں اس کے ہونٹ خشک ہوجاتے ہیں۔مرد کے اندر تو محبت کی کسی ایک بارش کو جذب کر کے سیراب ہو جانے کا جذبہ ہے۔۔ ہی نہیں۔‘‘
وہ بڑے فخر سے کہتی ’’میں داسی نہیں بن سکتی ‘‘
مگر در حقیقت وہ پوری عورت تھی بے بس ،تمناؤں سے بھری ہوئی محبوب کی ایک جھلک کو تر ستی ہوئی ،اس کے اندر بھی مرد کی جرابوں اور بنیانوں کو سنبھال کے رکھنے والی حسرتیں روز روتی رہتیں۔مگر وہ اپنی مجبوریوں اور ذمہ داریوں کی وجہ سے یہ جملہ حقوق کسی کے نام کرکے اپنے کام نمٹانے میں لگ گئی ۔سب کام ختم ہو گئے تواب وہ سرمد کے لوٹ آنے کا انتظا ر کرنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتی تھی۔
سرمد کی محبت کی جگہ واہموں اور سناٹوں نے لے لی۔وہ کئی دن سے نہیں آ سکا تھا فون پہ کہہ دیتا ’’جان بہت بزی ہوں آج آنے کی کوشش کروں گا۔‘‘وہ آج ۔۔آٹھ دن سے نہیں آیا۔
’’آپ شادی کیوں نہیں کرتیں سحر‘‘شہباز رضی نے چیٹ کرتے ہوئے لکھا۔کچھ دیر خاموشی رہی پھر ابہر نے لکھا ’’جو پرپوز کرتے ہیں وہ زہر لگتے ہیں اور جو پرپوز نہیں کر پا رہا وہ مجبور ہے آپ کو میں نے بتایا تو تھا ‘‘
’’مرد کبھی مجبور نہیں ہوتا مس سحر جو خود کو مجبور کہتے ہیں وہ مخلص نہیں ہوتے اصل میں‘‘شہباز کی بات پہ سحرکا دل زور سے ہنسا ’’وہ انجان بندہ سمجھ گیا سحر تجھے سمجھ نا آئی‘‘
’’وہ مجھ سے محبت کرتا ہے،لیکن شادی ۔۔۔‘‘
’’اپنا فقرہ مکمل کریں کہ وہ دوسری شادی کرنے پہ تیار نہیں ‘‘شہباز نے آگہی کا ایک اور در وا کیا۔
’’ہماری محبت اس کی شادی سے بہت پہلے کی ہے ‘‘سحرنے خود کو تسلی دی۔’’اور مجھے شادی پسند بھی نہیں شہباز صاحب‘‘
’’آپ نے خود کو دوغلی زندگی گزارنے پہ مجبور کر رکھا ہے ورنہ آپ بھی بہت عام سی لڑکی ہیں خواب سجانے والی ،کمزور سی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور سہارے کے لئے مرد کے مضبوط بازوؤں کا انتظار کرنے والی ‘‘سحر نے پڑھا اور فوری طور پہ آف لائن ہو گئی۔
شہباز رضی سے کافی پرانی سلام دعا تھی شہباز کی بیوی دس سال پہلے وفات پا گئی تھی ایک بیٹا تھا جو ڈاکٹر بننے رشیا گیا ہوا تھا ۔شہباز اسلام آباد کے ایک آرمی کالج میں پروفیسر تھے سحرنے اپنے اور سرمد کے متعلق بتایا تھا اپنی بہنوں کی شادیوں اور سرمد کی مجبوریوں کے تذکرے بھی کئے تھے ۔’’پھر آج شہباز نے ایسے کیوں کہا کہ سرمد مخلص نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘ سحر نے کرسی کی پشت سے سر ٹکا لیا ۔۔نجانے کیوں آج آنکھوں میں سرمد کی دلکشی سے مسکراتی شبیہہ نہیں اتر سکی۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ کچھ لمحے بیجان سی پڑی رہی پھر ایک جھٹکے سے سیدھی ہو بیٹھی۔۔۔۔
’’آپ شادی کیوں نہیں کرتے‘‘سحر نے لکھاکچھ دیر خاموشی رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔دل نجانے کن واہموں میں ڈوب ابھر رہا تھا
’’مجھے انتظار تھا کہ آپ پرپوز کریں ۔۔ہاہاہاہاہا‘‘
آپ میرا مذاق اڑا رہے ہیں؟‘‘سحر بے حد شرمندہ ہوئی
’’نہیں میں بھی تنہائی سے تھک گیا ہوں ،مجھے آپ کا ساتھ چاہئے‘‘شہباز نے بے جھجھک لکھاتو سحر مزید کچھ کہے بغیر اپنا ایڈریس لکھ کے آف لائن ہو گئی وہ بھی تو تھک گئی تھی دوغلی زندگی گزارتے گزارتے۔۔۔۔۔