بی بی ۔۔۔ ثمینہ سیـد
بی بی
ثمینہ سید
درگاہ عورتوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی وہ سب چہ میگوئیوں میں مصروف تھیں ایک عورت نے کہا؛
’’بڑی پہنچ والی ہے بی بی، ماشاء اللہ، جس کے سر پہ ہاتھ رکھ دے اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ دس سال تک میں اولاد کی نعمت کو ترستی رہی تھی پھر کسی نے بی بی کا بتایا تو چلی آئی بہت روئی بہت ہی زیادہ فریاد کی بی بی نے نگاہ اٹھا کر دیکھا اور وہی لمحہ تھا شاید جب رب تعالیٰ نے میری سن لی، بی بی نے سرخ انگارہ آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی اور بس سنی گئی مجھ غریب کی۔‘‘ موٹے موٹے سونے کے کنگن پہنے وضع دار سی عورت کہہ رہی تھی
پھر کوئی دوسری بولی؛ ’’بی بی سر پہ ہاتھ رکھ دے تو مانو رحمت کا سایہ ہو گیا، بخت ہی بدل جاتے ہیں۔‘‘
’’یہ تو بنجر ویران علاقہ تھا۔ بی بی نے اس علاقے میں ڈیرے لگائے تو زرہ زرہ سونے کا ہو گیا۔ زمین میں اناج اگنے لگا اور آبادی بڑھتی سے بڑھتی گئی۔‘‘
’’ اللہ لوک ہے بالکل میری بی بی، جان نہ روپے کا لوبھ، نہ کپڑے جوتی کا ہوش۔‘‘ فاطمہ اماں نے آنکھ بھر کر کہا، وہ تیس سالوں سے یہاں تھی۔ بی بی کی غلام اورمجاور بن کر رہ رہی تھی۔
’’کچھ خاص نیک روحیں ہوتی ہیں جن کے ہاتھ میں اللہ پاک نے مسیحائی رکھی ہوتی ہے۔ بس وہ دوسروں کے درد چنتے ہیں اور آسودہ رہتے ہیں۔” کوئی پڑھی لکھی مہذب عورت تبصرہ کر رہی تھی اور بی بی کی آنکھیں چھم چھم برسنے لگیں۔
کبھی کبھار یہ ساون کی جھڑی لگ پڑتی تو وہ لمبا سا گھونگھٹ کھینچ لیتیں جس کا مطلب تھا سب بی بی کو تنہا چھوڑ دیں۔ سب جانتی تھیں۔ سر جھکائے نکل جاتیں اوربی بی گھنٹوں ہچکیوں سے روئے چلی جاتیں۔ من میں آسودگی کب تھی۔ بس اضطراب تھا، جسے وہ تھپک تھپک کر سلاتیں۔
اور یہ اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملانے والی عورتیں زخموں سے کھرنڈ اتار دیتیں ۔وہ کیسی مسیحا تھی، ہر کسی کے درد کی دوا ہو جاتی اس کی نگاہ اٹھانے سے، معجزے ہوا کرتے ہیں تو وہ اس معصوم زیبی کو کیوں نہ بچا سکی اور وہ زیبی تو سراسر خود فریبی میں مبتلا تھی اپنے حسن، حسب نسب اور چار بھائیوں سے ملنے والے ڈھیروں پیار نے اسے عجیب سحر بخشتا تھا وہ کوئی اپسرا لگتی، موہنی سی صورت بنا کر لاڈ سے بولتی تو مقابل کا دل بے مول اسیر ہو جاتا، اتنا سجنے سنورے کا شوق تھا کہ اس نے سات نسلوں کے پڑے زیورات نکال نکال کر پہنے، تڑوائے، نئے بنوائے، نجانے کتنے ہی گم کئے مگر مجال ہے کوئی ذرا سا ڈانٹ بھی دے۔ قیمتی چیزیں خاک میں رل جاتیں الٹا اسی کے لاڈ ہوتے۔
’’ تو پریشان نہ ہو میں اور لے دوں گا۔‘‘ ایک بھائی کہتا تو دوسرا اس سے آگے، تیسرا گاڑی نکال کر اسے لے جاتا اور وہ ڈھیروں الم غلم شاپنگ کر لاتی۔ کیا کھویا تھا یہ یاد ہی نہ رہتا۔ بھابھیاں ایک سے بڑھ کر ایک ناز اٹھاتیں۔ چھوٹے بھیا کی شادی کے ہنگامے گھر میں ہلچل مچائے ہوئے تھے۔ روشنیاں ہی روشنیاں، خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ روز کپڑے خریدے جاتے اور زیورات کا ایک سے ایک نیا ڈیزائن لئے جوہری چلا آتا۔ گھنٹوں دوزانو بیٹھا رہتا۔ بیبیوں کے فیصلوں کے انتظار میں۔
جب بارات لے کر ’’رحمان ولاز‘‘ سے نکلے تو نجانے کتنی آنکھیں رشک سے دنگ رہ گئیں۔
رسمیں ہو رہی تھیں، دودھ پلائی، جوتا چرائی، پھر گانوں کی بولیاں جو چھڑیں تو دیر تک لڑکے لڑکیوں کا مقابلہ چلا۔ وہیں تو تھا وہ جو بڑھ بڑھ کر شرارتیں کر رہا تھا۔ زیبی کو لگا سارے ماحول میں ساری رونقوں میں کوئی خاص روپہلا رنگ ا تر آیا ہو۔
’’جانے اس کی آنکھیں بولتی تھیں یا صرف مجھے لگتی تھیں۔‘‘ وہ آئینے میں خود کو دیکھ کے شرمیلی سی مسکان سے بڑبڑائی۔
وہ گھر آ کر بہت بے چین تھی اسی وقت بانو اور فریدہ کو بلا بھیجا اور دل کا حال سنا ڈالا۔ سہیلیاں تو جیسے اس کے اقرار کے انتظار میں تھیں۔ چھیڑ چھیڑ کے ناک میں دم کر دیا۔ گھر میں چھوٹی بھابھی آ گئیں رونقیں بھی چلتی رہیں ۔ سناٹا بڑھ گیا من میں۔ کچھ سمجھ نہ آتی کہ اس کے بارے میں کس سے بات کرے؟ گرمیوں کی دوپہریں زیبی کا دل جلانے لگیں کچھ سوجھتا ہی نہ تھا کہ یہ تقدیر کا کیسا مذاق تھا سب لاڈ پیار کرتے مگر وہ بجھتی جا رہی تھی۔
شادی کی تصویریں آئیں تو دنگ رہ گئی۔ اس کی تصویر بھی تھی۔ زیبی نے کانپتے ہاتھوں سے البم سے تصویر چرا لی اور ہانپتی سانسوں کے ساتھ کمرے میں چلی آئی۔
دیر تک نظروں میں اس کی وجاہتیں اتارتی رہی۔ ’’چھوٹی بھابھی سے پوچھوں کون ہے یہ؟‘‘ وہ دھیرے سے مسکائی اور تصویر کو دیکھنے لگی۔
تبھی فون کی بیل بجی تو وہ قریب چلی آئی۔ تصویر کو تکیے کے نیچے رکھ کر رسیور اٹھایا۔ ’’ہیلو‘‘۔
’’ہیلو آپ زیب بول رہی ہیں ناں۔‘‘ وہ اتنی بے تابی سے بولا کہ زیبی کی آنکھیں برس پڑیں بمشکل بولی، ’’جی‘‘۔
’’میں احسن ملک، ہم آپ کے بھائی اسد چشتی صاحب کی شادی میں ملے تھے ناں، یاد ہے آپ کو؟ میں آپ کی بھابھی کے بھائی فرازکا بیسٹ فرینڈ ہوں۔‘‘
’’میں جانتی ہوں تمہیں میرا روم روم کانپ رہا ہے تمہاری آوازکے جادو سے‘‘ زیبی نے کہنا چاہا مگر لاج نے زبان بندی کر دی۔
’’آپ زیب ہی ہو ناں، کچھ تو بولو، میں نے بہت مشکل سے آپ کا نمبر لیا۔ ایک لمحہ ایک پل بھی فراموش نہیں کر سکا۔ میں اس موم کی مورت کو کاجل سے بھری آنکھیں، میرون لہنگا اور لمبے سلکی بال، یقین کرو میرے دل کو گرہیں لگا گئے ہیں۔ ایک پل بھی چین نہیں۔‘‘
زیبی نے بے اختیار اپنے بالوں کو چھوا اور پھر ایک میٹھی سی مسکراہٹ لبوں سے چپک کر رہ گئی۔ اس نے جلدی سے ریسیور رکھ دیا۔ کچھ بھی نہ بول پائی۔ سانسیں بھی تو ہموار کرنا تھیں۔ وہ گول گول چکروں میں گھومتی جا رہی تھی۔ کچھ دنوں بعد پھر اس کا فون آ گیا۔ وہ بولتا رہا۔ اپنے دل کی داستانیں سناتا چلاجاتا۔ وہ مسکراتی رہتی اور رسیور رکھ دیتی۔ ’’ایک لمحے کی اتنی یادیں بنا لیں۔ پاگل ہے بالکل‘‘۔ زیبی نے سر جھٹکا۔ محبتوں کو اظہار کے خزانے کیا ملے، من کے اندر آسودگی اتر آئی۔ وہ پہلے کی طرح مہکتی پھرتی اور پھر احسن ملک کی محبتوں کو پذیرائی دے ڈالی۔
’’احسن میں بھی آپ سے بہت محبت کرتی ہوں شاید عشق، دیوانگی۔ سوچا ہی نہیں میں نے کہ کوئی ہمیں جدا بھی کر سکتا ہے۔ ویسے میرے گھر والے تو مجھ پہ جان دیتے ہیں۔ انکار کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔”
“اور اگر آگئی تو؟” احسن کا لہجہ لرزا تو زیبی کھلکھلا کر ہنسنے لگی۔ ’’نہیں احسن میرے بھائی میری کوئی بات نہیں ٹالتے ویسے بھی گھر میں میری شادی کا ذکر چل رہا ہے۔ جب میں تمہارا نام لوں گی تو ساری مشکل ہی آسان ہو جائے گی۔‘‘ وہ پورے یقین سے بولی۔
مگر احسن مطمئن نہیں تھا۔ فراز نے اسے بتایا تھا اپنے خاندان کے متعلق، وہ لوگ رشتوں کے معاملے میں سب سے زیادہ اہمیت ذات پات کو دیتے ہیں۔ ’’اور اگر ایسا ہی ہے تو میری محبتیں تو راکھ کا ڈھیر ثابت ہوں گی۔ ایک پل میں وہ مجھ جیسے شہزادے کو اچھوت بنا ڈالیں گے اور زیب کو تو ما رہی ڈالیں گے۔‘‘ اس کی انگلیوں میں سگریٹ کانپا او ر راکھ کے ذرے گود میں آ گرے۔
زیبی نے اپنے آنچل میں احسن ملک کی تصویر چھپا لی اور بھابھیوں کے پاس چلی آئی۔ بڑی بھابھی کو تیل کی بوتل پکڑائی تو وہ مسکرا کر سیدھی ہو بیٹھیں اور لگانے لگیں۔ وہ چاروں مل کے کوئی مووی دیکھ رہی تھیں۔ زیب کو تو بس اپنے دل کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جو بے تحاشا بدتمیزی پہ اترا ہوا تھا اس نے دھیرے سے آنچل سے تصویر نکالی اور چھوٹی بھابھی کی طرف بڑھا دی۔ ’’یہ میں نے چرائی تھی‘‘ وہ معصومیت سے بولی۔ زارا بھابی نے مسکراتے ہوئے پکڑی اور پھر ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ عجیب وحشت سے زیبی کو گھور رہی تھیں۔ ’’سوری بھابھی، مگر مجبوری تھی۔‘‘ وہ منمنائی۔
بڑی بھابھی نے آگے ہو کے دیکھا۔ پھر تصویر پہ نظر پڑی تو زیبی کو لگا کہ ان کی انگلیاں اس کے سر پہ چلتیں ٹھٹھک گئیں ہیں۔ وہ حیران اور معصوم نظروں سے دیکھ رہی تھی کہ تصویر چھوٹی سے منجھلی اور پھر زینت بھابھی کی طرف بڑھائی جا رہی تھی۔ سب کے رنگ متغیر ہو گئے۔ بڑی بھابھی نے اس کا بازو کھینچ کر رخ اپنی طرف کیا۔ ’’کیوں چرائی تھی۔‘‘ ان کی آواز متوقع اندیشوں سے کانپ رہی تھی۔
’’بھابھی، ایک تصویر ہی تو ہے۔‘‘ وہ مسکرائی مگر کمرے میں غیر معمولی سناٹا چھا گیا، شازیہ بھابھی نے ٹی وی بند کر دیا۔ کمرے کی کنڈی بھی چڑھا دی۔ چاروں اس کے اردگرد آ بیٹھیں۔ ’’کیا ہو گیا ہے لیڈیز، ایک تصویر ہی تو ہے، اتنی خوفناک شکلیں کیوں بنا رہی ہیں جیسے اس کی سزا کم از کم پھانسی ہے۔‘‘
’’تم بتاؤ کیوں چرائی تھی، مذاق کی بات نہیں ہے سزا پھانسی بھی ہو سکتی ہے۔ ‘‘ زارا بھابھی بولیں۔
’’تو‘‘ وہ چیخ پڑی۔ ’’محبت کرتی ہوں میں اس سے۔‘‘
’’خدا خیر کرے، دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں پگلی چپ کر، بھائی مار ڈالیں گے تجھے۔‘‘ بڑی بھابھی بولی سب سکتے میں تھیں۔ زارا نے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے۔ ’’زیبی تجھے ان کے مزاج کا تو پتہ ہے ناں، خود سے بڑھ کر تو کوئی دِکھتا ہی نہیں انہیں۔ ہر فقرے میں بولتے ہیں وہ فلاں نیچ ذات فلاں کمی کمین۔ زیبی تیرے ساتھ ساتھ مجھے اور احسن کو بھی مار ڈالیں گے تیرے بھیا۔‘‘
’’بھابھی پلیز، آپ تو زیادہ ہی خوف و ہراس پھیلا رہی ہیں، میرے بھائی مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں اور پھر دادو بھی آنے والے ہیں وہ میری خوشی کی خاطر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‘‘
وہ اٹھی اور لگائی ہوئی کنڈی کھول کر کمرے سے باہر آ گئی۔ سیدھی لالہ جی کے کمرے میں چلی آئی اور لاڈ سے ان کے پیروں کے پاس بیٹھ گئی۔ ’’او گڑیا یہاں نہ بیٹھ ادھر آ چندا میرے پاس۔‘‘ وہ کتاب بند کر کے اس کی طرف متوجہ ہوئے مگر وہ بیٹھی رہی۔ ’’مجھے یہیں بیٹھنے دیں اور بتائیں کیا آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں؟‘‘
’’او جگر ہے تو ہمارا، دل کا ٹکڑا، جھلیے یہ کیا سوال تھا۔ ‘‘ لالہ جی کے بولنے سے پہلے ہی اسد بھائی اندر آتے ہوئے بولے ۔
تو وہ اٹھلا کر کھڑی ہو گئی۔
’’آپ ہمارے بغیر جی سکتے ہیں؟‘‘
’’ناں بالکل نہیں‘‘ لالہ جی نے اٹھ کر اسے ساتھ لگایا تو وہ اور بھی خوش ہو کر بولی۔ ’’آپ ہماری کوئی خواہش ٹال سکتے ہیں؟‘‘
’’او ناں بابا، بالکل نہیں، چاہے تو کسی کی جان ہی مانگے۔‘‘
’’ہائے میرے پیارے بھیا‘‘ وہ اسد بھائی کی طرف آئی اور زارا بھابھی کے ہاتھ سے کھینچ کے لائی تصویر ان کے آگے کر دی۔
’’یہ احسن ملک، آرمی آفیسر، آپ کی اکلوتی، لاڈی بہن کی محبت، زندگی اور شاید موت بھی۔‘‘ وہ جونہی سنجیدہ ہوئی، کمرے میں موت جیسی خاموشی تھی۔ لالہ جی گرنے والے انداز میں صوفے پر ڈھے گئے اور اسد بھائی کی آنکھیں یک لخت رنگ بدلنے لگیں۔
’’جاؤ یہاں سے‘‘ و ہ زورسے دھاڑے تو جیسے زیبی کے قدموں تلے کی زمین کانپ گئی وہ بھاگتی ہوئی نکل گئی اور زارو قطار رونے لگی۔ پھر بھابھیوں کو بلایا گیا۔ ’’رحمان ولاز‘‘ میں گویا بھونچال آ گیا ایک سے بڑھ کر ا یک چییخ چلا رہا تھا اور جوش سے پاگل ہو رہا تھا۔ چھوٹے علی احمد چشتی نے تو بیوی کو تھپڑ دے مارا۔ ’’تم لوگ کہاں مر گئی تھیں جب یہ سارا ڈرامہ ہوتا رہا۔‘‘
پھر انہوں نے احسن کو ڈیرے پہ بلا کر خوب ڈرایا دھمکایا۔ اس کا گھر بار جلا ڈالنے تک کی دھمکی دی گئی۔ وہ چپ چاپ سنتا رہا اور جاتے جاتے بولا۔ ’’آپ کوشش تو کریں لالہ جی شاید کوئی درمیانی راستہ نکل آئے اور دو زندگیاں برباد ہونے سے بچ جائیں ورنہ جو چاہے کریں مار ڈالیں مجھے۔ جلا کر ختم کر دیں۔ میرا خاندان بے شک۔۔۔۔۔ مگر یاد رکھیں خوش تو آپ بھی نہیں رہ سکتے۔ ہماری محبت روحوں کا رشتہ ہے آپ کی دھمکیوں سے ختم نہ ہو سکے گی۔‘‘ وہ چلا گیا اور زیبی کے بھائی جلتے، تلملاتے لوٹ آئے، وہ حیران تھی بالکل حیرت زدہ کہ یہ اس کے پیارے بھائی ہیں جنہیں اس سے محبت کا بہت دعویٰ تھا اور اب دنوں سے پتہ ہی نہیں کہ میں زندہ ہوں یا مر گئی۔ اس کی آنکھوں کے دریا سیلابوں کی زد میں تھے۔
آنسو رکتے ہی نہ تھے بالکل نحیف و نزار ہو گئی تبھی دادو چلے آئے۔ وہ بھی اپنے کمرے سے نکل آئی۔
’’آخری کوشش کرنے میں کیا حرج ہے زیبی ، شاید دادو تیرا بھرم رکھ لیں۔‘‘ وہ چلی آئی دامن پھیلانے مگر اندر کا تو منظر ہی بدل گیا تھا۔ دادو بھائیوں پہ چلا رہے تھے اور پھر بھابھیوں کی طرف مڑے۔ ’’جاؤ تم لوگ اور انتظامات کرو، ہم ابھی احسن کی طرف پیغام بھجواتے ہیں۔ کسی نے جرات کیسے کی میری زیبی کا دل دکھانے کی۔ سات نسلوں میں اکلوتی بیٹی ہے میری زیبی، جو مانگے اسے ملنا چاہیے بس۔ بہو بیگم گھر میں خوشیاں اور روشنیاں کر دو کیسی سوگوار یت پھیلائی ہوئی ہے۔‘‘ وہ تیزی سے باہر کی طرف بڑھیں دروازے میں بت بنی زیبی کو بڑی بھابھی نے اپنے بازو کے حصار میں لے لیا اور ڈرائنگ روم میں آ کر سب بیٹھ گئیں۔ زیبی اب بھی حیران تھی وہ سب خوفزدہ تھیں، خوش نہیں تھیں۔
’’زیبی اس فیصلے کے پیچھے کچھ اور ہے، میرا دل دہل رہا ہے۔‘‘ بڑی بھابھی نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا مگر وہ دور ہٹی۔
’’دادو بہت نائس ہیں وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں آپ لوگ وہم نہ کریں پلیز۔‘‘
زیبی نے ان کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے مگر لفظ کانپ رہے تھے۔ بدن میں لہو کی روانی مرتعش سی تھی۔ ’’خوش ہونے کی کوشش کریں شائد کچھ بھی برا نہ ہوا۔‘‘ رونقیں ’رحمان ولاز‘ میں پوری سج دھج سے اتر آئیں۔ شادی کی تاریخ طے کر دی گئی۔ احسن کے گھر والوں کو بے تحاشہ عزت دی جا رہی تھی ۔ احسن سے اپنے رویوں کی معافی مانگی گئی۔ گھر میں ڈھولک سج گئی اور پھر احسن روز اپنی بے تابیوں کا امرت اس کی سماعتوں میں گھولتا۔ زیبی تو تقدیر کی اس کایا پلٹ پہ بہت خوش تھی بالکل اپنے اردگرد سے بے نیاز آنے والے وقت کی سحر طرازیوں میں گم اس کی ہتھیلیوں پہ مہندی ایسی رچی کہ سکھیاں رشک کرنے لگیں۔ بھابھیاں چوم چوم کر دعائیں دیتیں تو وہ شکر گزار نظروں سے آسمان کی طرف دیکھنے لگتی۔
’’بارات چل پڑی ہے وہاں سے، ان لوگوں نے ادھر ہوٹل میں ٹھہرنا ہے اور دلہے راجہ کا اصرار رہے کہ وہ ہوٹل سے ہمارے گھر تک گھوڑے پہ آئیں گے۔‘‘ لالہ جی فون بند کر کے مڑے اور سب کو بتا رہے تھے۔ قہقہے فضا میں بکھرے۔ شرم و حیا نے زیبی کے گالوں کو گلال کر دیا۔ چھب ہی نرالی تھی اس کی آج، زیوروں کے بوجھ سے سیدھی ہی نہ ہو پا رہی تھی۔
سکھیوں نے آئینہ دکھایا تو آنکھیں اپنا روپ دیکھ کے ششدر رہ گئیں۔ محبت نے کیسے اندر باہر روشنی کردی تھی اور محبت میں فتح کا احساس، محبوب کو پا لینے کا نشہ اس کے اعصاب کو مست کر رہا تھا۔ تبھی کوئی بھاگتا ہوا آیا اور سارا سحر ٹوٹ گیا۔
’’دلہا کو گولی لگی ہے، بہت سے باراتی بھی زخمی ہوئے ہیں، کہیں سے گولیوں کی بوچھاڑ ہی ہو گئی۔‘‘ لالہ جی اور دادو نے چھاتی پیٹ ڈالی۔
’’ہائے ہماری لاڈلی کی خوشیاں۔‘‘
’’ہائے ہماری بچی کا سہاگ۔‘‘
’’ہم اجڑ گئے برباد ہو گئے۔‘‘
اور زیبی تو پل بھر میں پتھر ہو گئی۔ احسن کا وجود سرد پڑنے سے بھی پہلے مرگئی مگر یہ موت زیادہ اذیت ناک تھی اس کی سماعتیں بحال تھیں سب کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی شادی والا گھر ماتم کدہ بن گیا۔ بھابھیاں اس سے لپٹ لپٹ کر رو رہی تھیں۔
’’زیبی تیری خوشیاں خالص نہیں تھیں۔ ہمیں تو پہلے ہی دھڑکا تھا ان بہروپیوں پہ ذرا بھی یقین نہیں تھا۔ میری بچی تو بھروسہ میں ماری گئی۔‘‘ بڑی بھابھی اسے ساتھ لگائے چلا رہی تھیں کوئی زیور اتار رہا تھا کوئی چوڑیاں توڑنے میں مصروف مگر وہ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کے پتھر وجود نے سنا، دادو کہہ رہے تھے۔ ’’میرے احسن کی قبر یہیں بنوانا ہمارے گاؤں میں۔‘‘
پھر بھی پتھر وجود میں حرکت ہی نہ ہوئی وہ ویسی ہی ساکت تھی۔
نجانے کتنے دن بیت گئے، کتنے مہینے، رحمان ولا میں پھر رونقیں جاگ اٹھیں۔ پھر قہقہے پھر خوشیاں، اس کے ساکت وجود میں تو حرکت تب ہوئی جب کچھ ہاتھ اس کی طرف بڑھنے لگے شاید اسے سجانے کے لیے۔ وہ انہیں ہٹا کر اٹھی اپنی سفید چادر میں پورا وجود لپیٹا اور گھِسٹ گھِسٹ کر چلتی باہر آ گئی۔ سب انتظامات میں مصروف تھے وہ چلتی گئی۔ قدم کسی شناسا راستے کی طرف جا رہے تھے وہ گھِسٹتی گھِسٹتی چلی آئی اور قبر پر ڈھے گئی۔ قبر کو بازؤں کے حصار میں لے کر وہ روئی تو ساری کائنات کانپ اٹھی۔ وہ خاک اٹھا اٹھا کر اپنے سر میں ڈال رہی تھی۔ سب آ گئے اسے کھینچتے رہے، اٹھاتے رہے۔ دادو چیخ چیخ کر واسطے دیتے رہے مگر وہ ہلی نہیں قبر کے گرد بازو لپیٹے بس روتی رہی، چلاتی رہی، سب آئے، بہت بار آئے پھر فاطمہ کو اس کی حفاظت کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
وہ چادر کا گھونگھٹ نکالے بیٹھی رہتی، قرآن پاک پڑھتی یا پھر چیخ چیخ کر روتی رہتی۔ چند دنوں میں اسے حجرہ بنا دیا گیا۔ لالہ جی ساری فیملی کو لے کر گاؤں چھوڑ گئے اور زیبی کا نام بھی اس کے وجود کی طرح مٹ گیا۔ اس کے اطراف میں عقیدت مندوں کا رش بڑھتا گیا۔ نجانے کیوں سب کو یقین تھا ’’بی بی‘‘ کی دعا معجزوں کا موجب ہے۔
’’نجانے کیوں کوئی معجزہ میری زندگی میں رونما نہ ہوسکا، نجانے کیوں میں زیبی کو نہ بچا سکی۔‘‘ وہ بڑبڑائیں اور پھر زور زور سے پڑھنے لگیں؛ قلت حیلت انت و سیلتی ادرکنی یا رسول اللہ
وہ زور زور سے پڑھتی جاتی اور آسودگی من میں اترتی جاتی۔