بدصورت ۔۔۔ سارا احمد
بدصورت
سارااحمد
وہ کیوں نہ اسے یاد رکھتا- اس کی یاد کیڑوں کی طرح اس کے جسم پر رینگتی تھی- کسی دوسرے کا جسم سمجھ کر وہ بے رحمی سے ان کیڑوں کو کھینچ کر اتار پھینکنے کی کوشش کرتا مگر ان کے ڈنک اس کی جلد میں گڑھ چکے تھے-
پہلی ملاقات کے نشے کا سرور اسے کئی روز ہواؤں میں اڑاتا پھرا- وہ جب اس کے گھر سے نکلا تو اپنی گلی کا راستہ ہی بھول گیا- گلی ختم ہو گئی اور اس کو اپنا گھر نہ ملا- وہ توکرکٹ کھیلنے کے لیے کچھ لڑکے اپنے گھروں سے نکلے تو ان کی صورتیں دیکھ کر وہ چونکا اور اپنے گھر کی راہ لی-
آئینہ اس کے سامنے تھا اور اس آئینے کے ماتھے پر بھی ذومعنی شکنیں تھیں اور نظروں میں معنی خیز سوال- اب اس کے قدموں کو راستہ مل گیا تھا اور جب کوئی کام چُھپ کر کرنا ہو تو دن کو رات سمجھنا اور جاگتے لوگوں کو سویا دیکھنا مشکل نہیں رہ جاتا- دھوکے ہی تو ہیں دنیا میں- پاگل ہوشمندی کی باتیں کرتے ہیں اور ہوشمند اپنے چَھل سے دیوانگی کو سنگسار-
وہ منتظر کھڑا تھا- کرکٹ کی گیند اس کے دروازے کو لگی- دروازہ کھلا- نظروں کا پیغام پڑھا گیا اور وہ نپے تلے قدم اٹھاتا اندر چلا گیا-
وہ خود سپردگی کے ذائقے سے جوں جوں آشنا ہوتا گیا برتری کا احساس اس کی نس نس میں ایک میٹھے زہر کی طرح سرایت کرتا گیا-
وہ تھا کیا؟ کالا بھجنگ موٹے موٹے ہونٹ اور پھولی ہوئی ناک کے ساتھ سوکھا لمبا قلبوت-
چالیس کے پیٹے میں پہنچ کر اب اس کو کہیں سے بھی رشتہ ملنے کی امید نہیں رہی تھی- اپنی کمائی اپنی شادی شدہ بہنوں اور اپنے سے بڑے بھائی کے بچوں پر ہی خرچ کر کے راضی ہو جاتا تھا-
باپ تو مدت ہوئی اس جہان سے منہ موڑ چکا تھا- ماں کا لاڈلا تھا کہ ہو بہو ماں جیسا تھا- اس بیچاری نے بہت جتن کیے کہ کوئی نصیبوں جلی ہی اس کے آفتاب کی سیج سجا دے مگر قدرت کو شاید ابھی منظور ہی نہ تھا-
یہ نیا موڑ جو اس کے نفس کی نالی سے نکلا تھا- زندگی کو بے نام معنی دے گیا تھا- کیا وہ کوئی مینڈک تھا جو نالی میں چھپا رہتا اور پھر ایک ایسی جرس پر پھدک کر باہر نکل آتا کہ اگر نہ نکلا تو تیز پانی کا ریلا اسے بہا لے جائے گا-
” تو نے کبھی میرے چہرے کے بارے میں بات نہیں کی قربان….۔۔۔-“
آفتاب کے پاؤں جوتوں میں پھنس رہے تھے- اترتے بھی دقت سے تھے اور انہیں پہننا بھی ایک مشقت طلب کام تھا-
“جواب نہیں دیا؟ “
عاشی بستر کی چادر تہہ کرتے ہوئے ذرا تلخ ہو گئی-
“ٹھیک ہے….. -“
” کیا ٹھیک ہے….؟”
“آں…..جوتے اب ٹھیک ہیں- پہنتے وقت ہی تنگ کرتے ہیں- دو چار قدم چلنے کے بعد ٹھیک ہو جاتے ہیں-“
آفتاب جسے عاشی نے قربان نام دیا تھا اس کی دی ہوئی تنہائی میں جیتا تھا- وہ اب گھر جانے کی جلدی میں تھا- صرف پہلے دن اس نے عاشی کا چہرہ دیکھا تھا- آفتاب کی خواہش نظروں سے چہرے تک کی عمر سے گزر چکی تھی- محلے کا شریف آدمی تھا ہمیشہ گردن جھکا کر چلتا مبادا کسی کے چہرے پر اپنے لیے کوئی ایسی لکیر دیکھ لے جسے کمتری کا احساس اور گہرا کر دے-
گرمیوں کی دوپہریں آہستہ آہستہ اب ٹھنڈی ہونا شروع ہو گئی تھیں اور ان کا سونا پن بھی کم ہو رہا تھا- آفتاب دفتر سے گھر اور پھر کپڑے بدل کر اور کھانا کھا کر اس کی گلی کا چکر لگانا نہ بھولتا- کسی دن گلی خالی نہ بھی ملتی تو دانتوں میں خلال کرتا ترچھی نظروں سے اسے دروازے کی جھری میں سے دیکھتا ہوا گزر جاتا- دیکھنے والوں کو یہی محسوس ہوتا جیسے مسجد جانے کے لیے یہ مختصر راستہ اختیار کیا ہے- احتیاطاً اپنے ساتھ سفید ٹوپی بھی رکھتا اگر اذان آجاتی تو اس کے گھر کے سامنے سے گزرتے ہوئے بڑی عقیدت سے ٹوپی اپنے سَر پر جما لیتا-
اس دن وہ سچ مچ مسجد پہنچ گیا- جماعت نماز کے لیے تیار کھڑی تھی- وہ بھی تیسری صف میں شامل ہو گیا- رکوع وسجود کرتے ہوئے یہ بھی خیال نہ رہا کہ وضو نہیں بنایا لیکن اس دن کے بعد جب بھی اس گلی کا رُخ کیا باوضو گیا- وضو ٹوٹا بھی تو عاشی کے دامن پر-
ماں صدقے واری جارہی تھی کہ اس کی ایک پرانی سہیلی کی بیٹی کا رشتہ آفتاب کے لیے آیا تھا- لڑکی دودھ کی طرح سفید بس قد ذرا چھوٹا تھا مگر بہنوں کے بقول ذرا نہیں کافی چھوٹا تھا اور ایک بیٹے کی ماں بھی تھی تو ماشاءاللہ اپنے چھ فٹ کے بھائی کے لیے کیا یہ بیوہ بونی رہ گئی تھی-
” یہ میری شادی کا کارڈ ہے- “
“ہاں معلوم ہے-” عاشی نے میز پر پڑے اس کارڈ کو نظر انداز کر دیا-
” اچھا چلتا ہوں ……اماں کو بازار لے کر جانا ہے-“
“ہاں جاؤ، جوتے اتار کر پھر پہننا مشکل ہو جاتے ہیں-“
عاشی نے بے زاری سے کہا-
آفتاب نے ٹوپی سَر پر رکھی اور دروازے سے باہر جھانک کر اطمینان کرنے کے بعد مسجد کی طرف اپنے قدم بڑھا دیے- آج وہ دل سے مسجد جارہا تھا- کچھ آنسو اور سسکیاں اس کے سینے سے لگی تھیں-
عاشی کو کوئی فرق ہی نہیں پڑا تھا اس کا خیال تھا تھوڑا بگڑے گی، روئے گی اور اس کے کندھے سے لگ کر دو آنسو بہائے گی- الٹا وہ دعا مانگتے ہوئے رو رہا تھا- توبہ، ندامت، بے کلی……کیا تھا یہ سب؟ کسک سی کیوں بدن ادھیڑ رہی تھی…..؟
چندا کے ساتھ نکاح کرتے ہی آفتاب اس کے بچے کا باپ بھی بن گیا- سات سال کا لڑکا سیانا تھا نئی دادی کے ساتھ آرام سے سو گیا بلکہ سونے سے پہلے نئی دادی کو مُٹھیاں بھی بھر دیں اور انعام میں نئے غلاف والا تکیہ بھی اسے مل گیا اور وہ ایک نئی جگہ نئے رشتے اور نئی امید کے ساتھ مطمئن ہوگیا-
” کچھ تو تم نے سوچا ہی ہو گا اس نئی زندگی کے بارے میں؟”
آفتاب کے سوال پر چندا کا جھکا سَر کچھ اور نیچے ہو گیا اور وہ سمجھ گیا یہ عورت دیر سے کُھلے گی-
زندگی تو کنارے لگ گئی مگر اس کے اندر خانے کی اتھل پتھل کم نہ ہوئی- چندا کم گو تھی مگر اسے لگتا اس کا سارا وجود گونگا بہرا ہے اور اس کی آواز فقط اس کے پہلے شوہر کا بیٹا ہے-
اس کا اُڑا اُڑا سا جی پھر اسے عاشی کے دروازے پر لے گیا- دروازہ بند تھا- وہ واپس ہونے لگا تو دروازہ کھل گیا- بیڈ پر بٹھا کر عاشی نے پہلے کی طرح اسے گلاس میں پانی ڈال کر دیا اور خود ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گئی- پتہ نہیں وہ کیا سوچ کر اپنے جوتے اتارنے لگا-
“رہنے دو قربان-“
آفتاب کے تلوؤں میں شرمندگی کی ایک لہر دوڑ گئی- اس کی نظریں نیچی ہو گئیں- اس کا نام آفتاب تھا مگر وہ ہمیشہ کی طرح اسے اپنے دیے ہوئے نام سے پکار رہی تھی-
“تم نے کبھی میرا چہرہ نہیں دیکھا قربان- کبھی میری آنکھوں میں نہیں جھانکا؟”
آفتاب نے اپنی نظریں اٹھائیں- پورے چہرے پر چھوٹی چھوٹی سیاہ گلٹیاں تھیں جیسے جگہ جگہ سے چہرے کا گوشت ابھر کر مکئی کے دانے کے برابر جم گیا ہو- آنکھیں بے تاثر تھیں مگر ایک ٹک دیکھنے سے لگتا تھا ان میں غصے اور بغاوت کے جوار بھاٹے ہیں-
“اب نہ آنا قربان- اپنی توبہ کو وضو سے بچا ہوا پانی پلاتے رہنا-“
آفتاب نے پانی کا خالی گلاس میز پر رکھ دیا-
“تم بھی تو بدصورت ہو نا قربان- پھر تم نے مجھے کیوں سَر کٹی لاش سمجھ لیا؟”
عاشی نے حقارت سے کہا-
“گھبراؤ نہیں عاشی کبھی روتی نہیں- جب اس کا شوہر مرا تھا تب بھی نہ روئی اور جب اس کا باپ قربان بنا تھا تب بھی نہ مری-“
دروازے پر ہلکی سی دستک پر دونوں خاموش ہو گئے-
“کون…..؟
عاشی اٹھی تو وہ بھی اس کے ساتھ دروازے تک چلا آیا-
دستک دینے والا اندر داخل ہو چکا تھا- آفتاب اپنی گردن جھکائے باہر نکل گیا- اسے جیسے خبر تھی کہ وہ بھی کوئی اس جیسا بدصورت مرد ہی ہوگا- جیب سے سفید ٹوپی نکال کر اس نے اپنے سَر پر رکھ لی اور قدم مسجد کی طرف بڑھا دیے-