بوسیدہ اوراق کی کہانی ۔۔۔ سارا احمد
بوسیدہ اوراق کی کہانی
سارا احمد
وہ اس لڑکی کی قبر پر کھڑا اس کے ہونے کے احساس کو جی رہا تھا- وہ حقیقت جانتا تھا مگر خود کو یہ یقین دلارہا تھا کہ وہ بھی اس کی موجودگی کو محسوس کر رہی تھی- وہاں اسے کہانی سنانے نہیں آیا تھا- فقط ایک خط اس کے ہاتھوں میں لرز رہا تھا
کتبے پر لڑکی کا نام رابیل لکھا تھا- اس کے جینے کی مدت صرف بیس برس اور تین ماہ رہی تھی- اس کے دنیا میں آنے اور جانے کی تاریخ کتبے پر درج تھی-
یہ خط ا سے گھر کے تہہ خانے کی ایک دیمک زدہ الماری سے ملا- وہاں موجود بوسیدہ اوراق کے پلندے میں سے یہ خط پھسل کر اس کے قدموں میں یوں گر پڑا جیسے کوئی مقرر شدہ لمحہ انتظار کی قید سے آزاد ہوا ہو-
اس نے پوری رات اور اگلا دن اس خط کے ساتھ گزارا تھا- بیسیوں بار اور کبھی با آواز بلند پڑھا تھا- تشنگی تھی کہ مٹتی ہی نہیں تھی- وہ خط ہر بار کسی بات تصویر آئینے میں ڈھلتا اور پھر اس کے حروف کرچی ہوکر اس کی انگلیوں کی پوروں میں چبھنے لگتے- ان لمحات میں جائے اور سگریٹ کے علاوہ اس کی طلب صرف پانی کے چند گھونٹ تھے- اس کا ارادہ نہیں تھا لیکن نہ جانے کیوں وہ اس بوسیدہ کاغذ کے ٹکڑے کو نکال لایا-
اسے کل رات نئے گھر میں نیند بھی ٹھیک سے نہیں آئی- بیوی بچوں نے ایک ہفتے بعد یہاں آنا تھا- گرمیوں کی چھٹیوں میں اس کا گھر بدلنے کا فیصلہ درست ثابت ہوا- وہ تسلی سے گھر کی مرمت وغیرہ سے فارغ ہو سکتا تھا- مکان مالکہ ایک سن رسیدہ خاتون تھیں مناسب کرایہ میں باقی کے امور اسے خود ہی نمٹانے تھے–
مکان مالکہ کی رہائش- بالائی منزل پر تھی اس کو اپنے گھر میں چند ایسے نفوس کا ساتھ چاہیے تھا جواپنے حصے کا تھوڑا سا وقت دے کر اس کی تھوڑی سی تنہائی بانٹ لیں- اتنا وقت کہ اس کی باتیں جب بیس سے اکیس جملوں تک جا پہنچیں تو وہ اس کے پاس سے اٹھ جائیں – وہ کوئی شکایت نہیں کرے گی چاہے ان کے بچے اس کے باغیچےسے پھول توڑ کر ان سےگلدستہ بنایئں یا کھیلنے کے لیے باغیچے میں- پسندیدہ کونا منتخب کر لیں – اسے چند گھڑیوں کے لیے ایک ایسا وجود چاہیے تھا خیالوں اور خوابوں سے باہر کی دنیا میں- اسی کا ہو-
حبس زدہ گرمیوں کی لمبی دوپہر ڈھل کر اب شام میں داخل ہورہی تھی- وہ قبر کے کتبے پر اپنی نظریں مرکوز کیے کافی دیر سے ساکت کھڑا تھا- اس کے آس پاس کوئی ذی نفس ہوتا تو اسے بتاتا اس نے کتنی دیر تک اپنی پلکیں نہیں جھپکی تھیں- وہ ابھی تک عمر کی اس بند گلی میں تھا جہاں سے آرزوئیں اس کی مٹھی میں سے نکل کربسیط کائنات میں پھیلنا چاہتی تھیں- اس نے ہمیشہ یہ دعا مانگی تھی کہ دنیا کی ہر آنکھ کا خواب پورا ہو اور تعبیریں کبھی مرد عورت کے خوابوں میں تفریق نہ کرسکیں-
1 ایک رابیل نام کی لڑکی نے نہ جانے کن زمانوں میں یہ خط لکھا تھا- اس نے کسیلی سی مسکراہٹ سے کتبے سے اپنی نگاہیں ہٹا لیں۔ وہ گہری چپ کی زمین پر اپنے اندراس خط کی عبارت دہرانے لگا-
” اے رو پہلے خیال ! تیرا وطن میرا دل ہے اور میرا دل کسی ان دیکھی دنیا میں ایک نامعلوم جزیرہ ہے- اس جزیرے پر انسان نہیں بستے، خیال آباد ہیں- ان کے خیموں کی قطاروں کے سامنے روشن قندیلیں سر شام جلنے لگتی ہیں- مجھے ایک خیال سے الفت ہو چلی ہے- ایسی الفت جو کسی دوشیزہ کے شفق آمیز عارض میں نہاں ہوتی ہے- ایسی الفت کہ میں دن میں کئی بار کھڑکی تک چلی آتی ہوں اور پھر خزاں رسیدہ شجر کی اداسی کے سایے لیے واپس شام کی دہلیز پر کھڑی ہو جاتی ہوں مجھے اپنے خیمے کا پتہ بتلا دے جس میں تو آباد ہے- میں تیری آنکھوں کے نور سے اپنی راتیں روشن کرنا چاہتی ہوں- میں کچی نیند سے جاگ کر تمہارا چہرہ دیکھنا چاہتی ہوں جب تم مجھےتھپکی دے کر سلا دیتے ہو- میں صدیوں سے سوئی ہوں- خیال اب مجھے جگا دے–
صرف تمہاری
رابیل۔”
وہ ایک خوشنما پھول کے تصور جیسی تھی- اس کی خوشبو برسوں کی تھکن کے باوجود اسکے مشام جاں میں اتر رہی تھی- زمانے ہی جدا تھے ورنہ روحیں ہم شناس تھیں- وہ جو کوئی بھی تھی اب مر چکی تھی اور اس کی قبر کے سرہانے سنگ مرمر کے کتبے پر لکھے ہندسوں میں موت کی کہانی تھی- وہ اس خط کو لیےمکان کے اندر چلا آیا- زندگی کی کہانی کی تلاش اسے مکان مالکہ کے پاس لے آئی- وہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا تو اسے پتہ چلا کہ وہ اسے ہی کھڑکی کے شیشوں کے پار سے دیکھ رہی تھی– اس کے باغیچے کے ایک کونے میں بنی قبر یہاں سے صاف دکھائی دیتی تھی- وہ قبر سرخ سفید اور آتشیں پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی -ادھ کھلے دروازے کے پٹ سے لگ کر اس نے اپنی سانسیں درست کیں اور پھر دستک کے لیے اپنا ہاتھ بڑھایا- ہاتھ فضا ہی میں معلق رہ گیا اور ہوا دستک کی آواز سے بے نیاز دم سادھے رہی۔ –
“اندر آ جایئے—-!!” ۔ گھٹن زدہ ماحول کے روزن سے ایک مترنم آواز ابھری-
وہ جوتے باہرہی اتار کر ننگے پاؤں قالین پر چلتے ہوئے مکان مالکہ کے قریب پہنچ کر کھڑکی میں کھڑا ہو گیا- ڈھلتے دن کی ماند ہوتی روشنی اونچے پیڑون کی چوٹیوں پر اپنا بھرم قائم رکھے تھی- باغیچے کی وہ ایک قبر کیا دنیا کی ساری قبریں اور ساری موتیں اس وقت ان سے دور تھیں۔
” باغیچے کے اس کونے میں وہ قبر کس کی ہے ؟”
مکان مالکہ جس سے وہ دوسری بار مخاطب ہوا تھا اس سوال پر آہستہ آہستہ چھڑی کے سہارے چلتی ہوئی اپنی مسہری پر آ کر بیٹھ گئی- لکڑی کی چھڑی کے سنہری دستےپر اس کے لرزیدہ ہاتھوں کی گرفت مضبوط تھی- اس کے چہرے پر راستوں کی طرح لکیریں بناتی جھریاں اس کی آنکھوں سے جھانکتی حسرتوں سے گہری تھیں۔
“وہ رابی کی قبر ہے-” مکان مالکہ کی آواز میں کپکپاہٹ تھی جیسے وقت کے آئینے پر کوئی ناخنوں سے خراشیں ڈالتا ہو–
“آپ کی فیملی کب تک آ جائے گی”؟
وہ موضوع بدلنا چاہتی تھی— شاید اسے کچھ دیر کسی اور میں جینا تھا–
جی ان شاءاللہ ایک ہفتے بعد وہ سب یہاں ہوں گے ہمارے ساتھ۔
بچوں کے ذکر پر اس کی کسیلی مسکراہٹ بھی میٹھی ہوگی جیسے ہوا میں چھپا کوئی ٹھنڈک بھرا جھونکا اس کی پسینے سے بھیگی قمیض معطر کر گیا ہو–
“یہ اپنے پاس رکھ لیں”
– اسے اس وقت یہی مناسب لگاکہ یہ خط رابیل کے کسی وارث کے سپرد کر دینا چاہیے
مکان مالکہ نے اس سے پانی کا گلاس مانگا جو اسی کمرے کے ایک کونے میں رکھے ڈسپنسر سے اس نے اسے بھر کر دیا-
” رابیل اس قبر میں اتارنے سے پہلے ہی مار دی گئی تھی”
وہ مسہری کے سامنے صوفے پر بیٹھ گیا- ایر کولر کے شور میں یہ جملہ کمرے کے در و دیوار سے لپٹ کر اس کی سماعتوں کو بے یقینی سے ہمکنار کر گیا- وہ پوچھنا چاہتا تھا- وہ ساری کہانی جاننا چاہتا تھاوہ زندگی کو ماضی میں ا زندہ دیکھنے کا متمنی تھا- وہ زندگی کو حال کے ایک لمحے میں واپس بلانے کا طلبگار تھا- اسی دوران مغرب کی اذانیں میناروں سے بلند ہونے لگیں- اس سمے اسے وقت ٹھہر کر پیچھے پلٹنے کی تگ و دو کرتا ہوا محسوس ہوتا مگر ایک پتھر کی سل جیسے دل سے سرک جاتی ہے، وقت کا یہ پل بھی بہہ جاتا- قطرہ قطرہ بنتے لمحوں کے کتنے ہی دریا ماضی اور حال میں حائل ہو جاتے–
“ہم پھر ملیں گے”
وہ مکان مالکہ کی چھڑی پرکھدے پنکھڑیوں کے ڈیزائن میں اپنے کئی سوال ادھورے چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوا- اس وقت گویائی سے محروم خادمہ کمرے میں داخل ہو چکی تھی- اس خادمہ کی گندمی رنگت میں ذرا سی سرخی ملا کر اوراس کی گندھی ہوئی لمبی سیاہ چوٹی میں سفید موتیے کے پھول پرو کردیوار پر کسی سنہرے فریم میں قید کرنے کو جی چاہتا تھا- اسے رابیل کا خیال آیا- وہ کیسی ہوگی-؟ مکان مالکہ اوررابیل کی کوئی تصویر کمرے کی دیواروں پر نہیں تھی- سب کچھ اندر تھا، دل کے اندر یا پھر کہیں بوسیدہ اوراق میں-
“تم وہ ہو جو بنا آہٹ کچی نینوں کے خوابوں کو لمس دیتے ہو- زلف پریشان کے پیچ و خم میں تعبیروں کی سانسیں رکھتے ہو تو صبح کی پہلی کرن خوشبووں میں مہکتی ہوئی دن کے ماتھے پر امید بھرا بوسہ ثبت کرتی ہے۔ ” –
وہ رات دیر تک سگریٹ سلگائے جاگتا رہا- اپنے گرد الماری سے نکالے ہوئے بوسیدہ اوراق پھیلائے دھویئں کے مرغولے اڑاتا رہا- ان پر لکھی عبارتوں میں موت و حیات کی ماہ و سال کی آہٹیں شمار کرتا رہا- وہ اس یقین پر صبح کی پہلی کرن کا انتظار کرتا رہا کہ شاید ان میں سے کسی ورق پر وہ بھی غیر دانستہ لکھ دیا گیا ہو- اس جیسا ہو بہو کوئی خیال زمانوں کی اوٹ سے جھانکتا ہو-
– وہ دیر تک جاگتا رہا اور پھر نہ جانے کب سو گیا اس کے خواب کا دورانیہ بس اتنا ہی تھا کہ پلک جھپکتے ہی اپنے گاؤں کو جانے والے راستوں میں سے کسی ایک کو ڈھونڈتا ہوابھٹک گیا- اس کی جب آنکھ کھلی تو عمروں کی مسافت سے اس کا جوڑ جوڑ ٹوٹتا رہا تھا- چڑھتے دن کی چبھتی دھوپ میں وہ گھر کے ضروری کاموں سے باہر چلا گیا– ناشتہ اس نے باہر کیا- دوپہر یونہی بھاگ دوڑ میں نکل گئی- واپسی پر بیوی بچوں سے فون پر تسلی سے بات چیت کی- بیوی کو یہاں کی صورتحال سے آگاہ کیا- اس کی بیٹی اسے دیر تک اپنا رات کا ایک خواب سناتی رہی- وہاں سے پریوں کے دیس کی باتیں کرتی رہی جہان صرف پھول اور تتلیاں تھیں- وہ مسکراتا رہا- وہ بھی اسے اپنے آنگن کی پری کہتا تھا -بیٹا چھوٹا تھا -اس نے فون پر اسے ہمیشہ کی طرح شکایت کی کہ وہ اس سے زیادہ آپی سے محبت کرتا تھا- اس نے گاؤں ان کے دودھیال جو سامان بھیجا تھا اس میں آپی کی چیزیں زیادہ تھی– محبت تو اسے سب سے تھی- اپنے ماں باپ اور تین چھوٹے بھائیوں سے اور اپنی بیوی سے بھی- گھر میں سب سے بات کرکے وہ ہلکا پھلکا ہو گیا جیسے پیڑ پر بور لگا ہو–
شام کو تازہ دم ہوکر وہ غسل خانے سے نکلا تو وہی خادمہ دروازے پر نظر جھکائے ا سے کھانے پر بلانے کے لئے منتظر تھی- اس کی اوڑھنی کی کناروں کی لیس اسکی آنکھوں پر چلمن بن کر گری ہوئی تھی- اسے ہر بار دیکھنے پر لگتا جیسے کوئی گھر کا راستہ کھو کر اب اپنے ہی اندر آشیانہ بنا کر بیٹھ گیا ہو- کون تھا اس کی زندگی میں جس نے اسے بے حیثیت کر دیا تھا– قسم دے کر اس کی گویائی چھین لی تھی- اس نے رات اس کے بڑبڑانے کی آواز سنی تھی- کوارٹر اور اس کے کمرے کا فاصلہ خاموشیوں نے مختصر کر دیا تھا- وہ اگر اس وقت اپنے خواب سے باہر نکل سکتا تو ضرور اس کے کوارٹر جاکر راز کو راز ہی رہنے کی تلقین کرتا-
وہ اسے کچھ بتانا چاہتا تھا مگر وہاں سے ایک ان کا پیغام دے کر جا چکی تھی-
اوپر والی منزل کے مرکزی ہال میں وہ پندرہ منٹ میں پہنچ گیا- دیوار سے دیوار تک بچھے قالین پر بنے تیندوے کے عکس کے عین اوپر کھانے کی میز پر کھانا چن دیا گیا تھا- مکان مالکہ اس کا انتظار کر رہی تھی– خادمہ اس کی آمد پر جگ سے گلاسوں میں پانی ڈالنے لگی-
آپ اوپر میرے ساتھ ہیں کھانا کھائیے، جب تک نیچے مرمت وغیرہ کا کام مکمل نہیں ہو جات-ا
مکان مالکہ کے خوشگوار موڈ کو دیکھتے ہوئے وہ بھی مسکرا کر اپنی پلیٹ پر جھک گیا- خادمہ نے اس کی پلیٹ بنا دی تھی- وہ خود کو دیوار پرٹنگے کیلنڈر کی کوئی تاریخ جاننے لگا تھا اور کوئی چپکے سے وقت رفتہ کو آواز دے رہا تھا-
“تم اپنی کہانی میں کتنے سنگدل ہو-“
وہ اس سوال اور بدلے ہوئے لہجے پرچونک گیا کہ وہ کس حد تک بوسیدہ اوراق کی کہانی سے مماثل تھا-
“آپ یہاں تنہا رہتی ہیں اس خادمہ کے ساتھ جوگونگی ہرگز نہیں ہے۔۔۔۔!!”
” ہاں یہ گونگی ہے مگر خوابوں میں بے بس ہو کر بڑبڑانے لگتی ہے- ہم اسی بات پر چیختے چلاتے ہیں جن پر زور کھلی آنکھوں سے نہیں چلتا-“
انہوں نے کھانا ختم کرلیا تو خادمہ نظریں جھکائے میز سے برتن اٹھائے لگی– جب تک چائے نہ آجاتی اسے رابی کی موت کی کہانی سننا تھی لیکن پہلے مکان مالکہ کے سوال کا جواب دینا ضروری تھا- وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اپنی کہانی کہاں سے شروع کرے اپنا دفاع کرتے ہوئے خود کو بے قصور ثابت کرے- اس کا مرد ہونا ہی قصور تھا- عارفہ بچپن سے اس کے ساتھ تھی- بچپن کا ساتھی اگر جوانی تک ساتھ نبھا جائے تو مانو بچپن کبھی جاتا ہی نہیں مگر جوانی مرد و عورت دونوں پر ایک جیسے ہی خواب لے کر آتی ہے- وہ ایم اے بی اے کرنے کے جنون اور اچھی نوکری کے خواب سینچتا بہت آگےنکل گیا- بچپن میں نے کب کہا تھا کہ تھما رہے گا دنوں، مہینوں اور سالوں میں گزر گیا-
میں نے اگر کہیں غلطی کی یا سنگدل ہوا تو صرف ایک مقام پر جب میری بچپن کی منگیتر رات کی خاموشی میں دریا کے کنارے چپ کر مجھ سے ملنے آتی تھی- عارفہ کی آنکھوں کے خواب رسم و رواج سے بڑے تھے- خوابوں کو یہ ادراک نہیں ہوتا کہ ا نہیں کن آنکھوں پر سجنا ہے اور کن پر نہیں- وہ تو خواہشوں کے اسیر ہوتے ہیں- وہ کسی بڑے شہر کے کالج میں داخلہ لینا چاہتی تھی- میں چپ رہا کیونکہ ماں نہ مانتی- برادری میں لڑکیوں کو میٹرک کے بعد شہر پڑھنے کی اجازت نہ تھی- میرے لیے سارے راستے کھلے تھے مگر مجھے دل تک جانے کا راستہ نہ ملا– اس نے صرف اتنی سی بات پر ناتا توڑ دیا کیونکہ اس کا ساتھ کسی نے نہیں دیا تھا-
– اتنا کہہ کر وہ خاموش ہو گیا- اسکے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن سارے خواب بکھر کر دریا کی آغوش میں پناہ لے لیں گے– اس محبت نے نہ وقت دیا اور نہ ہی مہلت- خادمہ نے ان کے درمیان چائے لا کر رکھ دی-
“ماضی کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہو”– مکان مالکہ شاید اپنی کہانی کا آغاز چاہ رہی تھی
– “نہیں ——- بچے ہو جائیں توبوجھ ہلکا ہو جاتا ہے- ایک بار بچپن پھر آپ کے ساتھ رہنے آجاتا ہے آپ کو یقین آجاتا ہے کہ آپ بھی کبھی معصوم تھے-“-
اس نے دیکھا مکان مالکہ کی آنکھوں کے کونے بھیگے ہوئے تھے- اس کے ہاتھ میں پکڑے چائے کے کب کی لرزش سے بس وہ اتنا جان پایا کہ وہ اسے سنگدل مان چکی تھی-
– چائے کو گھونٹ گھونٹ اندر اتارتے ہوئے ایک بوسیدہ ورق اس کے سامنے کھل گیا
“زندگی اب رات سے مہیب لگنے لگی ہے– کہانی میں شہزادی سوتی رہ جائے گی اور کوئی اسے جگانے نہیں آئے گا اسے مارنے کو دو ہاتھ پڑھتے ہیں مگر وہ اسے کیوں مارنا چاہتے ہیں- وہ تو پہلے ہی لوگ خوف سے آنکھیں موندے لیٹی ہے-“
کل رات اس کے بستر پر ایسے کتنے ورق بکھرے پڑے تھے اس کے ہاتھوں کو حوصلہ نہ ہوا کہ پوری داستان پڑھے بغیر انہیں پھر کہیں دفن کر دے–
– “رابی کیسے مری تھی ؟” اس نے دوبارہ سوال پوچھا تو اپنی ہی آواز پر گمان گزرا کہ وہ نہیں کوئی اور بول رہا ہے-
ماں باپ کی حادثاتی موت کے بعد رابی کے سوتیلے بھائی نے جایئداد کے لالچ میں اسے پاگل ثابت کردیا– رابی جب پاگل خانے کی قید سے رہائی پا کر نکلی تو اپنی قبر دیکھ کر حیران رہ گئی اس کی آدھی عمر اس قبر میں دفنتھی اور باقی آدھی پاگل خانے کی دیواروں پر لکھ دی گئی تھی– وہ جب قید کی گئی تھی تب اس کی عمر تھی ٹھیک بیس برس اورتین ماہ تھی-“
مکان مالک بولتے بولتے تھک گئی تھی- ذرا دیر تھم کے جب وہ گویا ہوئی تو وہ اس کے قریب ہوگیا–
“جانتے ہو تمہیں کیوں یہ سب بتا رہی ہوں– اب سے پہلے کبھی کسی کرایہ دار نے تہہ خانے کی الماری نہیں کھولی تھی-گرد آلود چہرہ اور بوسیدہ اوراق سے کسے دلچسپی ہو سکتی ہے- یہ زندہ انسانوں کے کتبے ہیں– رکو یہ رابی کا خط تم سنبھال لو-” وہ چھڑی کا سہارا لے کر اٹھ کھڑی ہوئی- خادمہ نے آگے بڑھ کر اس کو بازو سے تھام لیا- وہ اب تک چپ تھی-
“یہ لڑکی سات برس کی تھی—اسے صرف اتنا یاد ہے کہ اس کے منہ پر کسی نے زور سے ہاتھ رکھ کر اس کی آواز بند کر دی تھی تب سے بولنے سے ڈرتی ہے– اس کے باپ نے اس گھر کی حفاظت میں بہت کچھ گنوایا ۔ وفاداری ہر رشتے پر سبقت لے گئی–
– خادمہ اب بھی چپ تھی۔ مکان مالکہ نے تکیے کے نیچے سے خط نکال کر اسے تھما دیا– اسے لگا وقت شاید اب پیچھے جانے کی ضد نہ کرے۔ وقت شرمسار تھا انسان اور کہانیاں نہیں۔
“یہ مت پوچھنا ظالموں کا کیا بنا– ظالم یہیں زندہ ہیں- مظلوم ہیں قبروں میں جا سوئے-” مکان مالکہ نے اکھڑی ہوئی سانسوں سے یہ الفاظ ادا کیےاور مسہری پر لیٹ کر آنکھیں موند لیں-
ایک ہفتے بعد وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر نئے گھر آگیا– اس نے رابیل کا خط دریا کی لہروں کے سپرد کر دیا تھا۔ عارفہ کی عمر بھی تب ٹھیک بیس برس اور تین ماہ تھی۔ !!!