فرنس ۔۔۔ ستیہ جیت رے
فرِنس
ستیہ جیت رے
جینت کی طرف کچھ دیر تکتے رہنے کے بعد سوال کیے بغیر نہ رہ سکا، ’’آج توبہت مرامرا سا لگ رہا ہے؟ طبیعت خراب ہے کیا؟‘‘
جینت بچے کی طرح ہنس دیا اورکہا ، ’’نہ ! طبیعت خراب نہیں ہے بلکہ تازگی ہی محسوس کررہا ہوں۔ واقعی جگہ بہت اچھی ہے۔‘‘
’’تیری تو جانی پہچانی جگہ ہے۔ پہلے یہ معلوم نہ تھا کہ جگہ اتنی خوبصورت ہے؟‘‘
’’بھول ہی چکاتھا۔‘‘ جینت نے ایک لمبی سانس لی۔ ’’اتنے دنو ں کے بعد آہستہ آہستہ سب کچھ یاد آرہا ہے۔ بنگلہ پہلے جیسا ہی ہے۔ کمروں میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ فرنیچر بھی پرانے زمانے کا ہی ہے، جیسے بینت کی یہ میزاور کرسیاں۔‘‘
بیرا ٹرے میں چائے اور بسکٹ لے آیا۔ابھی صرف چار ہی بجے ہیں مگر دھوپ ڈھلنے لگی ہے۔ چائے دانی سے چائے انڈیلتے ہوے میں نے پوچھا ؟ ’’کتنے دنوں بعد یہاں آنا ہوا؟‘‘
جینت نے کہا ، ’’اکتیس سال کے بعد۔ اس وقت میں چھ سال کاتھا۔‘‘
ہم لوگ جس جگہ بیٹھے ہیں، وہ بوندی شہر کے سرکٹ ہاؤس کا باغیچہ ہے۔ آج صبح ہم لوگ یہاں پہنچے ہیں۔ جینت میرے بچپن کا دوست ہے ۔ ہم ایک ہی اسکول اور کالج میں ہم جماعت رہ چکے ہیں۔ آج کل وہ ایک اخبار میں نوکری کرتا ہے اور میں اسکول میں پڑھانے کا کام ۔ ہماری نوکرپیشہ زندگی الگ ہونے کے باوجود ہماری دوستی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ہم لوگوں نے بہت پہلے ہی راجستھان گھومنے کامنصوبہ بنایا تھا۔ دونوں کو ایک ساتھ چھٹی ملنے میں دقت ہورہی تھی، آج اتنے دنوں کے بعد یہ ممکن ہوا ہے۔ عموماً لوگ جب راجستھان آتے ہیں تو شروع میں جے پور ، چتّوڑ اور اُدے پور ہی دیکھتے ہیں، مگر جینت شروع سے ہی بوندی جانے پر زور دے رہاتھا۔ میں نے بھی اعتراض نہیں کیا کیونکہ بچپن میں میں نے رابندر ناتھ کی ’’بوندی کاقلعہ‘‘ نظم پڑھی تھی اور اس قلعے کو اتنے عرصے کے بعد دیکھنے کاموقع ملاتھا۔ زیادہ تر لوگ بوندی نہیں آتے، لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ یہاں دیکھنے کے لائق کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اُدے پور، جودھپور اور چتّوڑ کی اہمیت زیادہ ہے مگر خوبصورتی کے لحاظ سے بوندی کسی سے کم نہیں ہے۔
جینت نے جب بوندی کے بارے میں اتنا زور دیاتھا تو مجھے عجیب لگ رہاتھا۔ جب ٹرین سے آنے لگا تو اس کی وجہ معلوم ہوئی ۔ بچپن میں ایک بار وہ بوندی آچکا ہے، اس لیے اُن پرانی یادوں کے ساتھ نئے سرے سے ملنے کی خواہش اس کے دل میں شدت اختیار کررہی تھی۔ جینت کے والد امیداس گپتا آثار قدیمہ میں ملازم تھے، اس لیے انھیں بیچ بیچ میں تاریخی مقامات کا معائنہ کرنا پڑتا تھا۔ اسی سلسلے میں جینت بھی بوندی ہو آیا تھا۔
سرکٹ ہاؤس واقعی بہت ہی خوبصورت ہے۔ انگریزوں کے زمانے کا ہے، سو سال سے کم پرانا نہ ہوگا۔ ایک منزلہ عمارت، ٹائلوں کی چھاؤنی کی ہوئی ڈھال اور چھت، کمرے اونچے اونچے۔ اوپر کی طرف اسکائی لائٹ ہے جسے رسی کھینچ کر حسبِ منشا کھولا یابند کیاجاسکتا ہے۔ مشرق کی طرف برآمدہ ہے۔ اس کے سامنے وسیع احاطے کی کیاریوں میں گلاب کھلے ہوے ہیں۔ باغیچے کے پچھلے حصے میں کئی قسم کے بڑے بڑے پیڑ ہیں، جن پر ان گنت چڑیاں بیٹھی رہتی ہیں۔ طوطے بھی ہیں۔ مور کی آواز بھی بیچ بیچ میں سنائی دیتی ہے، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ وہ آواز احاطے کے باہر سے آتی ہے۔
ہم صبح پہنچنے کے ساتھ ہی ایک بار شہر کا چکر لگا چکے ہیں ۔ پہاڑ پر بوندی کامشہور قلعہ ہے۔ آج دور سے دیکھ رہے ہیں، کل ہم اندر جاکر دیکھیں گے۔ معلوم ہوتا ہے شہر میں بجلی کے کھمبے نہیں ہیں۔ ہم پرانے راجپوت زمانے میں چلے آئے ہیں۔سڑکیں پتھر کی بنی ہیں، مکانوں کے سامنے دو منزلے سے ٹنگے ہوے نقاشی کیے برآمدے ہیں۔ لکڑی کے دروازوں پربھی ماہر ہاتھوں سے نقاشی کی گئی ہے۔ دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ ہم مشینی تہذیب کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔
یہاں آنے پر میں نے غور کیا کہ جینت عام طور سے جتنی باتیں کرتا ہے نسبتاً یہاں کم باتیں کر رہا ہے۔ ہوسکتا ہے بہت سی پرانی یادیں اس کے دل میں واپس آرہی ہوں۔ بچپن کی کسی پرانی جگہ بہت دنوں کے بعد آنے سے دل اداس ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ اور جینت عام لوگوں سے کچھ زیادہ ہی جذباتی ہے، یہ بات سبھی کو معلوم ہے۔
چائے کی پیالی ہاتھ سے نیچے رکھ کر جینت نے کہا، ’’ معلوم ہے، شنکر، بہت ہی عجیب بات ہے۔ شروع میں جب یہاں آیا تھا تو ان کرسیوں پر میں پاؤں موڑ کر بابوصاحب کی طرح بیٹھا کرتا تھا۔ لگتا جیسے میں کسی تخت پر بیٹھا ہوا ہوں۔ اب دیکھ رہا ہوں، کرسیاں لمبائی چوڑائی میں بڑی نہیں ہیں اور دیکھنے میں بھی بہت معمولی ہیں۔ سامنے جو ڈرائنگ روم ہے، اس سے دگنا معلوم ہوتا تھا۔ اگر آج میں یہاں نہ آتا تو بچپن کے بہت سے مفروضے ویسے کے ویسے ہی بنے رہتے۔‘‘
میں نے کہا، ’’فطری بات ہے، بچپن میں ہم چھوٹے رہتے ہیں، اس کے مطابق آس پاس کی چیزیں بڑی لگتی ہیں۔ عمر کے ساتھ ساتھ ہم بڑھتے جاتے ہیں، مگر چیزیں تو بڑھتی نہیں۔‘‘
چائے ختم کر کے باغیچے میں چہل قدمی کرتے کرتے اچانک جینت چونک کر کھڑا ہوگیا اور بولا، ’’دیودارو…‘‘
اس کی بات سن کر حیران ہوکر میں نے اس کی طرف دیکھا۔
وہ پھرکہنے لگا، ’’دیودارو کا ایک پیڑ ادھر ہونا چاہیے تھا۔‘‘یہ کہہ کر وہ تیزی سے پیڑ پودوں کے بیچ سے ہوتا ہوا احاطے کے کونے کی طرف بڑھ گیا۔ اچانک جینت کو دیودارو کے ایک پیڑ کی یاد کیوں آگئی؟
چند لمحوں کے بعد جینت کی خوشی سے بھری ہوئی آواز سنائی دی، ’’ہے، اِٹس ہےئر! جہاں تھا ٹھیک وہیں…‘‘
میں نے آگے بڑھ کر کہا ، ’’اگر پیڑ رہا ہوگا تو وہ جس جگہ تھا وہیں ہوگا۔ پیڑ چہل قدمی نہیں کرتے۔‘‘
جینت نے ناراضگی سے سرہلاتے ہوے کہا، ’’وہیں ہے سے میرا مطلب یہ نہیں کہ پیڑ نے اپنی جگہ نہیں بدلی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ میں نے پیڑ کے جہاں ہونے کا اندازہ لگایاتھا، وہیں ہے۔‘‘
’’لیکن پیڑ کی بات تمھیں اچانک کیوں یاد آگئی؟‘‘
جینت کچھ دیر تک بھنویں سکوڑ ایک ٹک پیڑ کی طرف دیکھتا رہا، اس کے بعد آہستگی سے سر ہلا کر کہا، ’’وہ بات اب یاد نہیں آرہی ہے۔ کسی وجہ سے میں اس پیڑ کے پاس گیاتھا اور وہاں جاکر کچھ کہا تھا۔ ایک انگریز…‘‘
’’انگریز؟‘‘
’’نہ، کچھ بھی یاد نہیں آرہا ہے۔ یادداشت کا معاملہ واقعی بہت عجیب ہے۔‘‘
یہاں کا باورچی کھانااچھا پکاتا ہے۔رات میں ڈائننگ روم میں بیضوی میز پر بیٹھ کر جینت نے کھانا کھاتے ہوے کہا، ’’ان دنو ں جو باورچی تھا، اس کا نام دلاور تھا۔ اس کے بائیں گال پر ایک نشان تھا، چھری کا نشان۔ اور اس کی آنکھیں ہمیشہ اڑھُل کے پھول کی طرح لال رہتی تھیں۔ مگرکھانا بہت عمدہ پکاتا تھا۔‘‘
کھانا کھانے کے بعد جینت جب صوفے پربیٹھا تو آہستہ آہستہ اور بھی پرانی باتیں یاد آنے لگیں۔ اس کے والد کس صوفے پر بیٹھ کر تمباکو نوشی کر تے تھے، ماں کہاں بیٹھ کر سویٹر بنتی تھیں، میز پر کون کون سے رسالے رکھے رہتے تھےـ ساری باتیں اسے یاد آگئیں، اور اسی طرح اسے پُتلے کی بات بھی یاد آگئی۔ پتلے کا مطلب لڑکیوں کی گڑیا یا پُتلی نہیں۔ جینت کے ماما نے سوئٹزرلینڈ سے دس بارہ انچ لمبی سوئس لباس پہنے ایک بوڑھے کی مورتی اسے لاکر دی تھی۔ دیکھنے میں وہ ایک چھوٹے سے زندہ آدمی کی طرح لگتی تھی۔ اندر کوئی کل قبضہ نہیں تھا، مگر ہاتھ، پاؤں، انگلیاں اور کمر اس قسم کی بنی تھیں کہ حسب منشا اسے گھمایا پھرایا جاسکتا تھا۔ چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ تیرتی رہتی تھی۔ سر پر ایک چھوٹی سی سوئس پہاڑی ٹوپی تھی جس پر پر لگے ہوے تھے۔ اس کے علاوہ لباس میں بھی کوئی خامی نہیں تھی۔ بیلٹ، بٹن، پاکٹ ، کالر، موزہ، یہاں تک کہ جوتے کے بکسوئے میں بھی کوئی خامی نہیں تھی۔
پہلی بار جینت جب بوندی آیا تھا تو اس کے کچھ پہلے ہی اس کے ماما ولایت سے لوٹ آئے تھے اور انھوں نے جینت کو وہ پتلا دیا تھا۔ سوئٹزرلینڈ کے کسی گاؤں میں ایک بوڑھے سے انھوں نے وہ پتلا خریدا تھا۔بوڑھے نے کہا تھا کہ اس کا نام فرنس ہے اور اسی نام سے اسے پکارنا۔ دوسرے نام سے پکاریں گے تو جواب نہیں ملے گا۔
جینت نے کہا،’’ بچپن میں مجھے کتنے ہی کھلونے ملے تھے۔ ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے انھوں نے کوئی کمی نہیں رہنے دی تھی۔ مگر ماما نے جب مجھے فرنس دیا تو میں اپنے تمام کھلونوں کو بھول گیا۔ رات دن اسی کو لے کر پڑا رہتا ، یہاں تک کہ ایسا وقت آیا جب میں فرنس سے گھنٹوں بات چیت کرنے لگا۔ بات بے شک یک طرفہ رہتی تھی، مگر فرنس کے چہرے پر ایک ایسی ہنسی اور آنکھوں کی نظر میں ایک ایسا جذبہ رہتا تھا کہ مجھے محسوس ہوتا وہ میری بات سمجھ لیتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے ایسا بھی محسوس ہوتا کہ اگر میں بنگلہ کے بجاے جرمن زبان میں بات چیت کرسکتا تو بات چیت کا سلسلہ یک طرفہ نہ ہوکر دو طرفہ ہوتا۔ اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے وہ بچپنا اور پاگل پن تھا، مگر ان دنوں یہ بات میرے لیے بالکل حقیقت جیسی تھی۔ ماں اور بابو بھی منع کرتے تھے، مگر میں کسی بھی بات پر توجہ نہیں دیتاتھا۔ تب میں نے اسکول جانا شروع نہیں کیا تھا، اس لیے فرنس کو وقت نہ دے پانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘‘
اتنا کہہ کر جینت خاموش ہوگیا۔ گھڑی کی طرف دیکھنے پر پتاچلا کہ رات کے ساڑھے نو بج چکے ہیں۔ ہم سرکٹ ہاؤں کی بیٹھک میں لیمپ جلاکر بیٹھے تھے۔
میں نے پوچھا، ’’پُتلا کہاں چلا گیا؟‘‘ جینت اب بھی جیسے کچھ سوچ رہا تھا۔ جواب اتنی دیر کے بعد آیا کہ مجھے لگا اس نے کچھ سنا ہی نہیں۔
’’پتلے کوبوندی لے آیا تھا، یہاں آکر ٹوٹ گیا۔‘‘
’’ٹوٹ گیا؟ کیسے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
جینت نے ایک لمبی سانس لی اور کہا ، ’’ایک دن ہم باہربرآمدے میں بیٹھ کر چائے پی رہے تھے۔ پتلے کو بغل میں گھاس پر رکھ دیا ۔ پاس ہی بہت سے کتّے جمع ہوگئے تھے۔ تب میں جس عمر کا تھا مجھے چائے نہیں پینا چاہیے تھی مگر میں نے ضد کر کے چائے لے لی اور پینے لگا۔ چائے کی پیالی اچانک ترچھی ہوگئی اور تھوڑی سی گرم چائے میری پتلون پر گر گئی۔ بنگلے کے اندر جاکر میں نے پتلون بدلی اور اس کے بعد جب باہر آیا تو پتلے کو وہاں نہیں پایا۔ تلاش کرنے پر دیکھا تو معلوم ہوا سڑ ک پر دو کتے میرے فرنس کو لے کر کھیل رہے ہیں۔ چونکہ وہ بہت مضبوط چیز تھی اس لیے پھٹ کر دو ٹکڑوں میں نہیں بٹی۔لیکن اس کا چہرہ مسخ ہوگیا اور کپڑا پھٹ گیا۔ یعنی میرے لیے فرنس کا کوئی وجود ہی نہ رہا۔ہی واز ڈیڈ۔‘‘
’’اس کے بعد؟‘‘ جینت کی کہانی مجھے بے حد دلچسپ لگ رہی تھی۔
’’اس کے بعد کیا؟ رسوم کے مطابق فرنس کی تدفین کردی گئی۔‘‘
’’ اس کامطلب؟‘‘
’’اس دیودارو کے نیچے اسے دفنا دیا گیا۔ آرزو تھی، تابوت کا انتظام کروں کیونکہ ولایتی آدمی تھانا! کوئی بکسا ہوتا تو بھی کام چل جاتا۔ بہت ڈھونڈنے اور تلاش کرنے پر بھی کچھ نہ ملا۔ اس لیے آخرکار اسی طرح دفنا دیا۔‘‘
اتنی دیر کے بعد دیودارو کے پیڑ کا راز میرے سامنے کھل سکا۔
دس بجے ہم سونے چلے گئے۔
ایک خاصے بڑے بیڈروم میں الگ الگ پلنگوں پر ہمارے بستر بچھے تھے۔ کلکتہ میں پیدل چلنے کی عادت نہیں تھی۔ ایک تو یوں بھی تھکاوٹ محسوس ہورہی تھی اور اس پر ڈنلپ پِلو سر کے نیچے رکھتے ہی دس منٹ کے اندر نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔
رات کافی ہوچکی تھی، معلوم نہیں کس چیز کی آواز سے نیند ٹوٹ گئی۔ بغل کی طرف مڑنے پر جینت کو بستر پر بیٹھے ہوے دیکھا۔ اس کی بغل میں ٹیبل لیمپ جل رہا تھا۔ اس کی روشنی میں جینت کے چہرے پر گھبراہٹ نظر آرہی تھی۔ میں نے پوچھا، ’’کیا ہوا؟ طبیعت خراب ہے کیا؟ ‘‘
اس بات کا جواب نہ دے کر جینت ایک دوسرا ہی سوال پوچھ بیٹھا، ’’سرکٹ ہاؤس میں بلی یا چوہے کے قبیل کی کوئی چیز ہے؟‘‘
میں نے کہا ، ’’اگر ہے تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ مگر تم ایسا کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’سینے پر چڑھ کر کوئی چیز چلی گئی اور اسی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی۔‘‘
میں نے کہا، ’’چوہا عام طور سے نالی سے آتا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ چوہا پلنگ پر چڑھتا ہے یا نہیں۔‘‘
جینت نے کہا ،’ ’اس کے پہلے بھی ایک بار میری نیندٹوٹ چکی ہے۔ تب کھڑکی سے کھچ کھچ کی سی آواز آرہی تھی۔‘‘
’’اگر کھڑکی سے آواز آئی ہے تو زیادہ امکان بلی کے ہی ہوسکتے ہیں۔‘‘
’’مگر…‘‘
جینت کے دل سے وہم دور نہیں ہورہا ہے۔ میں نے کہا، ’’روشنی کرنے پر کسی چیز پر نظر نہیں پڑی؟‘‘
’’نہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ آنکھ کھلتے ہی بتی نہیں جلائی تھی۔ شروع میں چونک اٹھا، سچ کہوں تو تھوڑا تھوڑا ڈر بھی لگ رہا تھا۔ روشنی جلانے کے بعد کسی چیز پر نگاہ نہیں پڑی۔‘‘
’’اس کا مطلب یہ کہ اگر کوئی چیز کمرے کے اندر آئی ہوگی تو وہ کمرے کے اندر ہی ہوگی، دروازہ جب کہ بند ہے…‘‘
میں فوراً بستر سے نیچے اتر آیا اور گھر کے ہر کونے میں، پلنگ کے نیچے، سوٹ کیس کے پیچھے، ہر طرف تلاش کیا۔ کہیں کچھ نہ تھا۔باتھ روم کے کواڑ کھلے ہوے تھے۔ میں اس کے اندر بھی تلاش کرنے گیا۔ تبھی جینت نے آہستگی سے مجھے پکارا:
’’شنکر!‘‘
میں کمرے کے اندر لوٹ آیا۔ دیکھا،جینت اپنی رضائی کے سفید غلاف کی طرف دیکھ رہا ہے۔ میں جب اس کے پاس گیا تو اس نے رضائی کے ایک حصے کو روشنی کی طرف بڑھا کر کہا، ’’دیکھو تو، یہ کیاہے؟‘‘
میں نے جب جھک کر کپڑے کی طرف دیکھا تو اس پر ہلکے کتھئی رنگ کے گول گول نشانات دکھائی دیے۔ میں نے کہا، ’’بلی کے پنجے کے نشان ہوسکتے ہیں۔‘‘
جینت کچھ نہیں بولا۔ پتا نہیں کیوں وہ بے حدفکر مند ہوگیا تھا۔ رات کے ڈھائی بج رہے تھے۔ اتنی کم نیند سے میری تھکاوٹ دور نہیں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کل دن بھر چکر لگانا ہے۔ لہٰذا یہ کہہ کر کہ میں برابر میں ہی ہوں، ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے، اور یہ نشان پہلے کے بھی ہوسکتے ہیں، میں نے اسے دلاسا دیا اور بتی بجھا کر دوبارہ لیٹ گیا۔ مجھے اس بات کابالکل شبہ نہیں تھاکہ جینت نے جو کچھ کہا ہے وہ حقیقت ہے؛ شاید اس نے ایک خواب دیکھا ہے ۔ بوندی آنے پر اسے پرانی باتیں یاد آگئی ہیں اور وہ ذہنی تناؤ میں ہے۔ اسی وجہ سے بلی کے چلنے کا خواب دیکھا ہوگا۔
رات میں اگر کوئی اور واقعہ پیش آیا ہو تو اس بارے میں مجھے کوئی علم نہیں۔ جینت نے بھی صبح اٹھنے کے بعد کسی نئے تجربے کے بارے میں نہیں بتایا۔ مگر ہاں، دیکھنے سے ایسامعلوم ہوتا ہے کہ وہ رات ٹھیک سے سویا نہیں ہے۔ میں نے دل ہی دل میں طے کیا کہ میرے پاس جو نیند کی ٹکیہ ہے ، آج رات سونے سے پہلے وہ جینت کو کھلا دوں گا۔
اپنے پلان کے مطابق ہم ناشتہ کر کے نو بجے بوندی کا قلعہ دیکھنے چلے گئے۔ گاڑی کاانتظام پہلے ہی کرلیاتھا۔ قلعہ پہنچتے پہنچتے ساڑھے دس بج گئے۔
یہاں آنے پر بھی جینت کو بچپن کی ساری باتیں یاد آنے لگیں ۔ خوش قسمتی سے پتلے سے ان کا کوئی رشتہ نہیں تھا۔ سچ کہوں، جینت کی حرکات دیکھ کر لگ رہا تھا وہ پتلے کی بات بھول چکا ہے۔ وہ ایک ایک چیز کو دیکھتا ہے اور چلا اٹھتا ہے،’’ گیٹ کے اوپر وہی ہاتھی ہے! یہ وہی چاندی کا پلنگ اور تخت ہے! دیوار پر یہ تصویر بھی بالکل وہی ہے!‘‘
مگر ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد جوش کم ہونے لگا۔ میں اتنا محو تھا کہ شروع میں اسے سمجھ نہ سکا۔ میں ایک لمبی کوٹھری میں چہل قدمی کر رہا تھا اور چھت کے جھاڑ فانوسوں کودیکھ رہا تھا کہ تبھی مجھے خیال آیا، جینت میرے آس پاس نہیں ہے۔ وہ کہاں گیا؟
ہمارے ساتھ ایک گائیڈ تھا۔ اس نے کہا، ’’بابو باہر چھت کی طرف گئے ہیں۔‘‘
دربان گھر دیکھ کر جب میں باہر آیا تو جینت کوتھوڑی دور پر ، چھت کی دوسری طرف، دیوار کے پاس بے چین سا کھڑا پایا۔ وہ اتنا زیادہ فکر مندتھا کہ جب میں اس کی بغل میں جاکر کھڑا ہوا تو اسے احساس تک نہ ہوا۔ آخر جب میں نے نام لے کر اسے پکارا تو وہ چونک گیا۔ میں نے پوچھا، ’’تجھے کیا ہوا ہے؟ سچ سچ بتا۔ اتنی خوبصورت جگہ آکر بھی تو چپ چاپ منھ سی کر پڑا رہے گا تو یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوگا۔‘‘
جینت نے اتنا ہی کہا ، ’’مجھے جو دیکھنا تھا دیکھ چکا ہوں، پھر اب…‘‘
میں تنہا ہوتا تو ضرور ہی کچھ دیر تک رکتا، مگر جینت کا موڈ دیکھ کر سرکٹ ہاؤس لوٹنا ہی طے کیا۔
پہاڑ پر جو راستہ بنا ہوا ہے وہ شہر کی طرف چلا گیا ہے۔ ہم دونوں چپ چاپ گاڑی کے پچھلے حصے میں بیٹھ گئے۔ جینت کو میں نے سگریٹ پیش کی مگر اس نے نہیں پی۔ اس کے اندر ایک عجیب بے چینی تھی جو اس کے ہاتھوں کی حرکت سے ظاہر ہورہی تھی۔ کبھی وہ کھڑکی پر ہاتھ رکھتا ہے، کبھی گود میں، پھر انگلیوں کو چٹخاتا ہے یا ناخن کودانت سے کاٹتا ہے۔ جینت ایک سنجیدہ انسان ہے۔ اسے چھٹپٹاتے ہوے دیکھ کر میں بھی بے چینی محسوس کر رہا تھا۔
دس منٹ تک جب یہ سلسلہ جاری رہا تو میں چپ نہ رہ سکا۔ میں نے کہا، ’’اپنی پریشانی کی وجہ مجھے بتادے تو ہوسکتا ہے تیرا کچھ بھلا ہوجائے۔‘‘
جینت نے سرہلاکر کہا، ’’کہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، کیونکہ کہوں گا تو تو یقین نہیں کرے گا۔‘‘
’’یقین نہ بھی ہو، مگر اس موضوع پر تجھ سے رائے مشورہ تو کر ہی سکتا ہوں۔‘‘
’’کل رات فرنس ہمارے کمرے میں آیا تھا۔ رضائی پر فرنس کے پیروں کے نشان تھے۔ ‘‘
اس بات پر جینت کے کندھوں کو جھنجھوڑنے کے سوامجھے کچھ دوسرا کام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ جس کے دماغ میں ایک عجیب وہم گھر کر گیا ہے،کیا اسے کچھ کہہ کر سمجھایا جاسکتا ہے؟ پھر بھی میں نے کہا، ’’تو نے اپنی آنکھوں سے تو کچھ نہیں دیکھا تھا؟‘‘
’’نہیں، مگر اتنی بات ضرور ہے کہ میرے سینے پر جو چیز چل رہی تھی وہ چار پیروں کی نہ ہوکر دو پیروں والی تھی، یہ بات میں صاف صاف سمجھ رہا تھا۔‘‘
سرکٹ ہاؤس کے پاس آکر گاڑی سے اترتے وقت میں نے طے کیا کہ جینت کو اعصابی طاقت والے ٹانک قسم کی کوئی چیز دوں گا۔ صرف نیند کی ٹکیہ سے کام نہیں چلے گا۔ بچپن کی ایک دھندلی سی یاد سینتیس سالہ جوان کو اتنا پریشان کردے گی، یہ کسی بھی حالت میں نہیں ہونے دینا چاہیے۔
کمرے کے اندر آنے پر میں نے جینت سے کہا، ’’بارہ بج چکے ہیں۔ اب نہا لینا چاہیے۔‘‘
جینت نے کہا، ’’پہلے تو نہالے،‘‘ اور وہ پلنگ پر لیٹ گیا۔
نہاتے ہوے میرے دماغ میں ایک خیال آیا۔ جینت کو اصلی حالت میں لانے کایہی طریقہ ہے۔
مجھے جو خیال آیا وہ یہ کہ اگر پتلے کو کسی خاص جگہ دفنایا گیا ہے اور اگر اسے وہ خاص جگہ معلوم ہے تو اس جگہ کی مٹی کھودنے پر پتلا چاہے پہلے جیسی حالت میں نہ ملے مگر اس کاتھوڑابہت حصہ تو مل ہی جائے گا۔ کپڑے لتّے زمین کے نیچے تیس سال کے بعدنہیں رہ سکتے ہیں، مگر دھات کی چیزیں جیسے فرنس کے بیلٹ کا بکسوا ، کوٹ کے پیتل کے بٹن اگر برقرار ہوں تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ جینت کو اگر دکھایا جائے کہ اس کے لاڈلے پتلے کی صرف یہی چیزیں بچی ہوئی ہیں اور باقی سب مٹی میں سما گئی ہیں تو ممکن ہے کہ یہ واہیات خیال اس کے دل سے دور ہوجائے۔ اگر ایسانہ کیا گیا تو وہ پھر رات ایک عجیب خواب دیکھے گا اور صبح جاگنے پر کہے گا کہ فرنس میری چھاتی پر چل رہا تھا۔ اس طرح کہیں اس کا دماغ نہ خراب ہوجائے۔
یہ بات جب میں نے جینت کو بتائی تو اسے میرا خیال اچھا لگا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا ، ’’کھودے گا کون؟ کدال کہاں ملے گی؟‘‘
میں نے ہنس کر کہا، ’’جب اتنا بڑاباغیچہ ہے تو مالی بھی ضرور ہوگا ہی اور مالی رہنے کامطلب ہے کدال بھی ہے۔ اسے ہم کچھ بخشش دیں تو وہ میدان کی تھوڑی سی مٹی کھودنے میں آناکانی نہیں کرے گا۔‘‘
جینت فوراً راضی ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے بھی کچھ نہ کہا۔ ایک دو بار جب ڈانٹ پلائی تو وہ نہا دھو آیا۔ کھانے کا شوقین آدمی ہونے پربھی دوپہر میں دو عدد روٹی اور گوشت کے شوربے کے سوا اس نے کچھ نہیں کھایا۔ کھاناکھانے کے بعد ہم دونوں باغیچے کی طرف کے برآمدے کی کرسی پر بیٹھ گئے۔ ہم دونوں کے سوا سرکٹ ہاؤس میں کوئی نہیں ہے۔ دوپہر میں بھی سناٹا چھایا ہوا ہے۔ داہنی طرف روڑے بچھے راستے کے کنارے ایک گل مہر کے درخت پر کئی بندر بیٹھے ہیں۔
بیچ بیچ میں ان کی ہپ ہپ آواز سنائی دیتی ہے۔
تین بجنے پر ایک پگڑی والا آدمی ہاتھ میں جھاڑی لیے باغیچے میں آیا۔ عمردراز آدمی ہے۔ بال، مونچھیں اور بھنویں سفید ہوچکی ہیں۔
’’تم کہوگے یا میں کہوں؟‘‘
جینت کے سوال پر میں نے دلاسے کے انداز میں ہاتھ اٹھاکر اشارہ کیا اور کرسی چھوڑ کر سیدھا مالی کے پاس چلا گیا۔
مٹی کھودنے کی فرمائش پر مالی نے شروع میں میری طرف مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔ میں سمجھ گیا۔ اس کے سوال ’’کاہے بابو؟‘‘ پر میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر شیریں آواز میں کہاکہ وہ اگر نہ جان سکے تو حرج ہی کیا ہے؟ ’’پانچ روپے بخشش دوں گا ، جو کہہ رہا ہوں، وہ کردو۔‘‘
یہ بات سن کر مالی نہ صرف راضی ہوگیا، بلکہ دانت نکال کر سلامی بھی دی اور ایسے اظہار کیا جیسے وہ ہمارا زر خرید غلام ہو۔
برآمدے میں بیٹھے جینت کو میں نے ہاتھ کے اشارے سے بلایا۔ وہ کرسی چھوڑ کر میرے پاس چلا آیا۔ قریب آنے پر دیکھا غیر فطری طور پر بجھا ہوا سا ہے۔ مجھے امید ہے کہ کھودنے کے بعد پتلے کاتھوڑابہت حصہ ضرورملے گا۔
اس درمیان مالی کدال لے آیا اور ہم تینوں دیودارو کے درخت کی طرف جانے لگے۔
پیڑ کے تنے کے تقریباً ڈیڑھ ہاتھ دور ایک مقام کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوے جینت نے کہا، ’’یہیں۔‘‘
’’ٹھیک سے یاد ہے نا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ جینت نے کہا کچھ نہیں، صرف سر کوایک بار ہلاکر ہامی بھری۔ ’’کتنا نیچے دفنایاتھا؟ایک فٹ تو ہوگا ہی۔‘‘
مالی بے جھجھک اس جگہ کو کھودنے لگا۔ آدمی شوقین معلوم ہوتا ہے۔ کھودتے کھودتے پوچھنے لگا کہ زمین کے نیچے دھن اور دولت ہے یا نہیں، اور اگر ہے تو اسے حصہ ملے گایا نہیں ؟ یہ بات سن کر میں تو ہنس دیا مگر جینت کے چہرے پر ہنسی کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔ اکتوبر میں بوندی میں گرمی نہیں پڑتی ہے مگر جینت کے کالر کا نچلا حصہ بھیگ گیا ہے۔ وہ ایک ٹک زمین کی طرف دیکھ رہا ہے۔ مالی کدال چلائے جارہاہے ۔ پتلے کاکوئی نشان ابھی تک کیوں نہیں نظر آیا ہے؟
ایک مور کی تیز آواز سن کر میں نے اپنا سر گھمایا۔ تبھی اسی وقت جینت کے گلے سے ایک عجیب سی آواز نکلی اوراسی پل میری آنکھ اس طرف چلی گئی۔ اس کی آنکھیں حیرت سے باہر نکل آئیں۔ دوسرے ہی لمحے اس نے اپنے کانپتے ہاتھ کو آہستہ سے بڑھاکر اپنی شہادت کی انگلی سے گڈھے کی طرف اشارہ کیا ۔ اس کی انگلی بھی کانپ رہی ہے۔
اس کے بعد ایک عجیب، خشک اور خوفزدہ آواز میں اس نے کہا ، ’’وہ کیا چیز ہے؟‘‘
مالی کے ہاتھ سے کدال زمین پر گر پڑی۔ زمین کی طرف غور کرنے پر جو منظر میں نے دیکھا اس کی وجہ سے ڈر، حیرت اور بے یقینی کے عالم میں میرے چہرے پر بھی ہوائیاں اڑنے لگیں۔
دیکھا گڈھے کے اندر خاک سے بھرا ہوا دس بارہ انچ کا ایک مکمل ہڈیوں کاڈھانچہ ہاتھ پیر پھیلائے چت پڑا ہوا ہے۔