آخری جلسہ/آندرے گردشینکون/ستار طاہر
آخری جلسه
آندری گرد شینکون /ستار طاہر
پڑھتے ہوئے با شکوف نے اپنی ہو سے کہا :
جانتی ہو آج کیا دن ہے ۔ دیکھو دھوپ نکل آئی۔ میرے با ہر بیچنے کا انتظام کر دیا ؟؟
یہ مسکرائی ۔ وہ اچھے نین نقش کی تھی لیکن اس کا وزن بڑھتا جا رہا تھا اور خاصی بے ڈول ہو رہی تھی ۔ بڑھے بالکوف نے اپنے آپ سے گا:
مرد بڑا ظالم ہے۔ عورت کی خوبصورتی چھین لیتا ہے؟ ہاں ۔ باہر کرسی بچھادی ہے۔ کوئلے دہکا کر انگیٹھی گرم کر دی ہے اور کیا چاہے بایا ….. یں تو پھر مجھے سہارا دے کہ باہر لے چلو، آن یہ گھٹیا …. ششکا تیرا گھر دوال تو چلا گیا ہو گا؟
ہاں بابا ۔ بچے بھی اس کے ساتھ ہی گئے ہیں۔ ہونے بڑھے کو سہارا دے کہ بسترسے اٹھایا۔ پھر اسے سہارا دیتی مکان کے باہر لے آئی جہاں ایک بڑی کرسی بھی تھی اور اس کے سامنے ایک
انگیٹی میں کوئلے دہک رہے تھے۔
بابا بہت بوڑھا لیکن بہت بھاری ہو گیا ہے۔
ہونے دل میں کہا اور پھر سکراتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئی ۔…
با شکوف نے سامنے کھلے میدان کی طرف دیکھا۔ چند موگر کے فاصلے پر لوگ جمع ہو رہے تھے ۔یوم مٹی کا جلسہ ہونے والا تھا۔ اس جلسے میں شریک ہونے والے بہت سے مزدور اس کے جانے والے تھے۔ چار سال پہلے تک وہ بھی اس جلسے میں شریک ہوا کرتا تھایا جانا کہ اسے نیٹڑی سے ریٹائر ہوئے نو برسی ہو چکے تھے جوڑوں کے درد نے اسے کس کام کا نہ چھوڑا تھا۔ وہی ہڈیاں اور جوڑ جو کبھی اس کی بے پناہ طاقت کے ضامن تھے اب اس کا گور بن چکے تھے۔ سارا دن وہ بستر پر لٹا ادھر ادھرکی ہر طرح کی کتابیں پڑھتا رہتا۔ بیٹا فیکٹری چلا جاتا۔ پوتے سکول گھر میں وہ اور بہو رہ جاتے۔ بوست خدمت گزار تھی۔ اس نے بڑھے با شکون کو اپنی بیوی کی مقدمت بھی وہی تھی۔ باہر نکلن ختم ہو چکا تھا۔ہاں ہر برس یوم مئی کا جلسہ سنے کے لیے وہ باہر اگر بیٹھ جاتا۔ وہ جانتا تھا کہ یوں وہ اپنے ساتھیوں کی خوشیوں اور دکھوں میں شریک ہو جاتا ہے۔ پھر جلسے کے اختتام پر جلسہ کرنے والوں کو اس کی
ضرورت بھی تو پڑ جاتی تھی ….. ور مسکرانے لگا…..
اس نے ہاتھ کو حرکت دی ۔ اپنے بوسیدہ اور کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ جیب کے اندر ہی کو پک گنے لگا۔ گیارہ کو پک ….. اس نے
گفتی ختم کی۔
میاں پھر اپنے آپ سے کہا اس سے زیادہ ان کو کیا ضرورت پڑے گی۔
وہ مسکرانے گا۔ ہرسال ایساہی ہوا تھا۔ جب تم ہو جاتا ویسے کا نظام کرلے مال کیٹی کو پتہ پتا کہ در پیر اور رویوں کے کرانے کے لیے سن کے باس کچھ لیے آ پڑ گئے ہیں۔ پر وہ ایک دوسرے سے پیسے لگتے۔ چندہ کرتے اور یو ادائیگی کرتے تھے ۔ آٹھ نو برس پہلے جب بوڑھا بالکون یٹائر ہو چکا تھا یہی بات ہوئی تو اس نے سب کو روک کر کہا تھا
میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں۔ ملازمت سے بھی چینی ہو گی اپنے ساتھیوں کی جدوجہد گی، کی جدوجہد
میں علی حصہ نہیں لے سکتا۔ اس لیے اب میں اس جدو جہد میں اس طرح ہی حصہ نے سکتا ہوں کہ یوم مٹی کے بنے کے انتظامات تم کرد۔ جو رقم کم پڑے اس کی ادائیگی
میں کیا کروں گا۔
تب سے وہ پاپنا است ، آٹھ دس کو ایک دے کر یوم مئی کے جلے کے انعقاد می علی حصہ یا کرتا تھا۔
جلد شروع ہو چکا تھا۔ سینکڑوں مزدور دہاں بیٹھے تھے۔
طرح طرح کی نویوں اور گھنے سروں کا ایک انسانی سمندر دکھائی دے رہا تھا۔ بڑھا یا شکوف مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ میں کچھ کبھی بھی تھی۔ جون نے بیان پر رکھی ہیں ان میںسے بھی پیر کے رنگے ہیں ہم ما در این بنیں گے کیوں ہوجاتے ہیں؟ مرور تر از گار ہے تھے۔ وہ توجہ سے ترانہ سنتے ہوئے دل ہی دل میں وہ ترانہ گنگنانے لگا …. در جذباتی سا ہو رہا تھا۔
ترانے کے بعد ایک نوجوان مزد در تقریر کرنے لگا۔
بڑا جوش ہے بھی اس کی باتوں میں بوڑھے نے دل میں کہا۔ کون ہے یہ نیاید … چلو یہ فیکٹری ہی تو دنیا کی طرح ہے۔ کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے لیکن ….. اس کی باتوں میں ہوش ہی ہے۔ اس طرح تو ملے حل نہیں ہوتے۔ خیر جوانی کا جوش ہے ….. اس بھٹی
میں سے بیت کر لے گا تو کندن بن جائے گا۔ معقولیت ….: در بنا تو اس کی سفید مونچھیں پھڑ پھڑائیں۔
محتولیت …. کہاں ہے اس دنیا میں جہاں بھوکی ہو ۔ غربت ہو ….. وہاں معقولیت کا گزر کیسے ہو سکتا ہے ۔ سینے پر آخری مقر آگیا یہ اناطول تھا۔ سرخ می ناک جسے وہ بار بار چھونے اور سہلانے کا عادی تھا۔ نا طول ہے مزدوروں کا لیڈر ۔ بوڑھے نے اسے داد دی۔ کیا بنا ہوا آدمی ہے۔ کبھی سمجھوتہ نہیں کرتا ۔ لچک تو ہے ہی نہیں ۔ فولاد ہے فولاد
پڑھے باسکوف نے آنکھیں نیچے ہیں۔ ی میں عورت تھی ناول کی میری … مرگئی بے چاری … کتنی پک پھر یاں میں نے اس کو راغب کرنے کے لیے لی تھیں مگر کیسی
باد خاتمی داه… کیا حسینہ تھی … کیا وفا شعاری تھی ۔
بڑا پرانی یادوں کے نشے میں اونگھنے لگا ۔ تالیوں اور نعروں کا شور سن کر وہ چونکا۔
جلوہ ختم ہو گیا۔ لوگ جانے لگے تھے ۔ نعرے لگاتے ، ناچتے گاتے …
بہت سے لوگ اس کے پاس آئے اسے سام کیا۔ اس کا بھدی بھرا ہات لے کر انے گرم ہا تھوں میں سہلایا۔ کسی نے اس کے گھٹنے چھوٹے اور
کوئی پاس زمین پر بیٹھ گیا۔
و مسکرا تا رہا سوال اورال پوچھتا رہا اور انتظار کر تارا …..
ور جانتا تھا اب بلکہ کمیٹی والے حساب کتاب کر رہے ہوں گے۔ پھر ان میں سے کوئی ایک حسب روایت اس کے پاس لے گا۔ با بابا لتكون صاحب …. کچھ کو چیک کم ہو گئے ہیں. سات دل آٹھ دی . دی د کرلیے گئے ہیں۔ دو جیب میں ہاتھ ڈالے گا کوچک نکال کر انہں گی کردے دے گا۔
وہ شکریہ اداکر کے سلام کر کے پہلا سبائے گا۔
پڑھے یا شکوف نے اور کوٹ کی جیب سے سارے کو یک نکال کر پنی سٹھی میں لے لیے۔
بل کا میدان لال ہو چکاتھا۔ اپنی بڑھی نہیں پیا کرورا چین لوگو کو دیکھے یا بیٹے کے چھ جوڑے کھڑے تھے۔ وہ ان کی آواز
مین نہیں سکتا تھا ۔ اگر آواز اس تک پہنچ سکتی تو وہ سنتا کہ ایک کہ رہا تھا ۔ یسے تو پورے ہیں بک و کوچک نیچے بھی گئے ہیں۔
پیلو اچھا ہوا ۔ دوسرا مزد در بولا ” ہر سال یا با با شکوں کو تکلیف دیتے تھے ۔
مجھے اس سے پیسے لیتے بہت ندامت محسوس ہوتی تھی ۔ بے کار ہے ۔ بوڑھا ہے ۔ بیمار ہے …..ہم اس کی مو کرنے کی بجائے
الٹا اس سے …..
بھٹی وہ خود ایسا چاہتا تھا ۔ دوسرا بولا۔ اپنی خوشی سے دیتا تھا۔ اچھا بھئی تاریخ کرد فرینچر اور دریوں والے کو …..
ہاں ہاں ۔ یہیں اب ادائیگی کر دیتا ہوں :
بابا با سکون بیٹھا ہے ….. چلو اس سے مل آئیں۔
انہیں وہ مجھے گا کہ ہم اس سے پیسے لینے آئے ہیں۔ شام کول لیں گے ۔ ہاں ٹھیک ہے ۔ شام کو مل لیں گے ۔
بابا با شکوف دیکھتارہا۔ وہ ایک ایک کر کے اس کے پاس آنے بغیر چلے گئے۔ اب اس کی نگاہوں کے سامنے مال میدان پڑا تھا کرسیاں میزیں ، بیٹے کے تھے ، دریاں سب لاوی جا چکی تھیں اور اس کے سامنے گھوڑا گاڑی وہاں سے سامان اٹھاکر چلی گئیں۔ اسے یوں لگا جیسے اس کا سارا خون اس کے مرکی طرف تیزی سے پڑھنے لگا ہے۔ جیسے وہ الٹا بیٹا ہے بھرتا ہے. آگھیٹی کے کو ملے ٹھنڈے پڑ چکے تھے۔
تو انہیں میری ضرورت نہیں رہی۔ میں اپنے ساتھیوں کی جدوجہدمیں کسی طرح بھی شریک نہیں ہو گا .
اس کا بیٹا اور پوتے جلسے کے بعد جلوس کے ساتھ چلے گئے تھے۔ جب وہ واپس آئے تو بڑھے کا بھاری سرسینے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ بیٹے
نے آوازدی :
بابا چلو اب اندر چلیں “
اس کا ایک پور تا چپاتایا :
دیکھو کو پک زمین پر گرے ہیں ۔ کچھ اس کی مٹھی میں بھی موجود تھے۔
وہ مر چکا تھا …..
ہو، بیٹے اور پوتوں نے اسے مل کر ٹھایا ….. ہوں آنسو بہا رہی تھی ار دل میں کہ رہی تھی ؟
بلایا ….. بہت لو تکل ہو گیا …..