ساتواں منطقہ : کوثر جمال
ساتواں منطقہ
ڈاکٹر کوثر جمال
ابھی کچھ دیر پہلے وہ یہیں میرے پاس تھی۔
شام اولین رات کے گلے میں باہیں ڈالے کب سے ہمیں دیکھ رہی تھی۔
بڑھتے اندھیرے نے مجھے کچھ یاد دلایا۔
روشنی کردوں؟” میں نے پوچھا۔
ہاں کر دو!” اس نے کہا۔
میں نے اٹھ کر شمع جلائی
“!روشنی کچھ بڑھا دو”
میں نے دوسری شمع جلائی۔
سب شمعیں جلا دو، سارے بلب، سب فانوس!” اس نے ایک بار پھر کہا۔
اب ہم آمنے سامنے کے صوفوں پر تیز روشنی کی پھوار تلے بیٹھے ہیں۔ میں اس کی نگاہوں کے حصار میں قید ہوں۔
“کیا دیکھ رہی ہو؟”
“فاصلہ۔”
کیا ہمارے بیچ فاصلہ آ گیا؟” میں پوچھتا ہوں۔
وہ تو ہمیشہ سے ہے۔ اس وقت بھی تھا جب ہم ایک تھے اور ایک نہیں تھے۔۔۔۔ اور اب بھی ہے جب ہم ایک نہیں ہیں اور ایک ہیں”۔
“تم ہمیشہ کی طرح اب بھی مکالمہ بول رہی ہو۔”
“کیا مکالموں میں سچ نہیں ہوتا؟”
“کیا فاصلہ ہی سچ ہے؟”
ہاں ۔۔۔۔ فاصلہ ہی سچ ہے ۔۔۔۔ مہربان سچ ۔۔۔ اسی نے تو ہماری محبت کو بچا لیا ۔۔۔۔ یہ نہ ہوتا تو ہماری محبت ایک بندھن کی قبر میں گل سڑ جاتی (یہ کہتے کہتے اس کی آنکھوں کے تالاب بھر گئے) ۔۔۔۔ فاصلہ نہ ہوتا تو جانے آج ہم ایک دوسرے کے لیے کیا ہوتے۔ شائد ہمیں ایک دوسرے سے وہ ان گنت شکائتیں ہوتیں جو شوہروں کو بیویوں اور بیویوں کو شوہروں سے ہو جاتی ہیں۔ میں تمھاری ہو جاتی تو شائد تم میرے ہو کر بھی میرے نہ رہتے۔ میں تمھارے گھر میں ہر وقت نظر آنے والی، حو اس کی گرفت میں آ جانے والی، ہر دوسری عورت جیسی ایک عام سی عورت ہو کے رہ جاتی۔
اور اب؟” میں پوچھتا ہوں۔
“اب میں تمھارے حواس کے ساتویں منطقے میں رہتی ہوں۔”
(بس اپنی انہی باتوں میں وہ میری ہر عورت سے الگ ہے!)
“کیا ہم رشتوں ناتوں کی اس جیتی جاگتی دنیا میں ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے؟”
“شائد نہیں۔”
آخر کیوں نہیں؟” میں سوال کرتا ہوں۔
اسی دنیا نے تو ہمارے لیے ساتواں منطقہ چنا۔ میں پانچویں عورت تھی اور مجھے پہلی چار عورتوں نے اپنی دنیا سے نکال باہر کیا۔
“یہ پہلی چار عورتیں کون تھیں؟”
“ماں، بہن، بیوی، بیٹی۔۔۔۔ جیتی جاگتی دنیا پر راج کرتی عورتیں۔”
“اور تم؟۔”
“میں پریمیکا ہوں۔۔۔ پانچویں عورت۔”
“اور میں کون ہوں؟”
“تم جانتے ہی ہو۔ بچوں جیسے سوال کیوں پوچھ رہے ہو؟”
پھر میں کسی فسوں میں گم اسی کے الفاظ دہرانے لگتا ہوں
میں پریمی ہوں ۔۔۔ پانچواں مرد ۔۔۔۔ اور مجھے پہلے چار مردوں ۔۔۔۔ باپ، بھائی، شوہر اوربیٹے نے اپنی دنیا سے نکال باہر کیا۔
وہ چاروں عورتیں میرے اندر تھیں۔” اس نے کہا
وہ چاروں مرد میرے اندر تھے۔” یہ میں نے کہا۔
اس کے لبوں پر تبسم ہے۔ میری آنکھوں میں مسکراہٹ۔ وہ مسکراتے ہوئے اتنی حسین کیوں ہو جاتی ہے۔ مجھے اس پر بے ساختہ پیار آ گیا ہے۔ میں اٹھ کر اسے بانہوں میں بھینچ لینا چاہتا ہوں، مگر یہ بھول گیا ہوں کہ وہ میرے حواس کے ساتویں منطقے میں رہتی ہے۔
اب تیز روشنی کی پھوار نے مجھے تھکا دیا ہے۔ میں اس سے پوچھتا ہوں:“روشنی کم کر دوں؟
“ہاں کر دو!”
میں کچھ شمعیں بجھا کر اپنی پسندیدہ غزلوں کی سی ڈی لگاتا ہوں۔ مغنیہ نے شاعر کے لفظوں میں اپنا دل رکھ دیا ہے۔
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
ہم دونوں ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہیں
“تم بھی تو کچھ باتیں کرو۔ جب سے آئی ہوں میں ہی بول رہی ہوں”
“میں چاہتا ہوں تم بولتی رہو۔ تمھاری باتوں سے جی کو قرار سا آ جاتا ہے۔”
“اب کیا بولوں؟”
“بس میرے ایک سوال کا جواب دے دو، سیدھا اور صحیح جواب۔”
“ہاں پوچھو”
“کیا تمھیں مجھ سے کبھی محبت تھی؟”
“اُفّ، تم ہر بار یہی سوال پوچھتے ہو۔ بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے”
“تم بات کو ہمیشہ کی طرح گھما رہی ہو۔ مجھے ہاں یا نہ میں جواب دو”
“ہاں ۔۔۔۔۔ تھی۔”
کب؟” میں ایک بار پھر کسی بچے کی طرح تجرید کو مجسم ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں۔
ذرا یاد کرنے دو ۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔ جب میری محبت نے تمھیں پہلا فون کیا تھا ۔۔۔۔۔” وہ مسکرائی۔
“اور ۔۔۔۔۔ ؟”
جب میں تنِ تنہا تم سے ملنے تمھارے شہر چلی آئی تھی ۔ اس رات پندھرویں کے چاند نے میرے ساتھ ساتھ سفر کیا تھا ۔۔۔۔ اس رات بس دو ہی تھے جو جاگ رہے تھے، ایک میں اور ایک چاند۔”
“اور ۔۔۔۔۔۔ ؟”
“جب ہم نے کوئنز گارڈن میں سہ پہر کو شام کیا تھا۔ ایک ساتھ باتیں کرکے۔”
“اور ۔۔۔۔۔؟”
“جب میں نے تمھیں پہلا خط لکھا تھا اور جواب میں تم نے ایک شعر لکھ بھیجا تھا:
سکونِ دل کو ضروری ہے لمس کی لذت
کہانیوں میں کہیں زندگی نہیں ملتی
“۔۔۔۔۔ مرد ہو نا، لمس کی گھمن گھیریوں میں رہتے ہو!۔”
میرے دل میں ایک خاموش احتجاج اٹھا۔ (تم عورتیں کتنی جھوٹی ہو۔ خواہش کی آندھیوں کو بکل میں چھپائے پھرتی ہو۔ لمس کی پہلی آنچ پر پگھل کے بوند بوند ہو جاتی ہو ۔۔۔۔ مگر پھر بھی ۔۔۔۔۔)“کچھ کہا تم نے؟” اُس کی متبسم آنکھوں نے پوچھا۔
اور مجھے ہمیشہ کی طرح یہ وہم ہوا کہ وہ میرے ذہن میں گھومتے خیال کو پکڑ کر مسکرائی ہے۔
کیا اب بھی تمھیں مجھ سے محبت ہے؟” میں گمان کے بھنور میں غوطے کھا رہا ہوں۔
“ہے کیوں نہیں۔ جتنی میں ہوں اتنی ہی وہ بھی ہے۔”
“کون؟”
کیا تم بھول گئے کہ تم نے کیا پوچھا تھا؟” ۔۔۔۔ اس کی نگاہوں میں شرارت اتر آئی ۔۔۔۔ “تم مجھ سے اتنے سوال کیوں پوچھ رہے ہو؟”
تمھیں جان جو نہیں سکا۔ تم سراپا راز ہو۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ تم نے جان بوجھ کر خود کو پہیلی بنا لیا ہے۔ شائد یہی وہ میدان ہے جہاں عورت بازی لے جاتی ہے ۔۔۔۔۔ عورت جب تک جسم ہے تو کتنی آسان ہے، ذہن بنتی ہے تو اتنی مشکل کیوں ہو جاتی ہے۔
عورت کو کون جان سکا ہے؟ اور وہ بھی پانچویں عورت۔” یہ کہتے کہتے اس نے اپنی نگاہوں کا رخ مجھ سے ہٹا کر کمرے کی بیرونی دیوار کی طرف کر لیا۔ جیسے دیوار سے پرے کچھ دیکھ رہی ہو۔
خاموشی دبے قدموں آئی اور ہمارے بیچ بیٹھ گئی۔ موسیقی تھم چکی تھی۔
آج کی رات یہیں ٹھیر جاؤ۔ گھر میں میرے سوا اور کوئی نہیں ہے۔” مجھے اس کے جانے کا دھڑکا سا لگا ہوا ہے۔
“کاش ایسا ہو سکتا۔ میرا چھوٹا بیٹا میری راہ دیکھتا ہو گاـ”
کبھی کبھی تم مجھے صاحباں لگتی ہو۔ جس نے اپنے بھائیوں کو بچانے کی کوشش میں مرزا کو مروا دیا تھا۔
میں نے تو تمھیں واپس زندگی کی طرف بھیج دیا۔ تمھاری بیوی ہے، بچے ہیں، نوکری رشتے ناطے ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے تو اپنی اور تمھاری محبت کو بچانے کے لیے” ۔۔۔۔۔
یہ کہتے کہتے آواز اس کے گلے میں گھٹ گئی اور آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ عورت کی نم آنکھوں میں اتنا حسن کہاں سے آ جاتا ہے۔ میرا بے اختیار جی چاہا کہ اس کے آنسوؤں کو ہونٹوں سے چن لوں اور میں بھول گیا کہ ۔۔۔۔۔
اچھا چھوڑو اس ذکر کو۔” وہ اشک آلود آنکھوں سے ہنس دی۔۔۔۔”تم بھی تو مجھے بتاؤ نا! وہ لمحے وہ گھڑیاں جب تم نے مجھے چاہا تھا”۔
اوہ وہ لمحے ۔۔۔۔ وہ بے انت، بےشمار لمحے ۔۔۔۔ ” یادوں کی حرارت میرے خون میں دوڑنے لگی۔
وہ شام جب جھیل کے کناروں پر جھکی گھاس میں اندھیرا چپکے چپکے اتر رہا تھا۔ جھیل کے پانی پر ڈوبتا سورج زعفران کی بارش کر چکا تھا۔ پھراچانک تیز ہوا چلنے لگی تھی۔ یکدم اندھیرا بڑھ گیا تھا۔ عناصر کتنے جوش میں تھے۔ بادل کی گرج، بجلی کی کڑک، ہوا کا شور، بارش کا زور، جھیل کے پانی میں طغیانی اور ان سب سے زیادہ میرے اندر کا طلاطم۔ اس لمحے مجھے اپنی محبت کا احساس ہوا تھا۔ وہ تم تھیں، ہاں وہ تم تھیں مجھے طوفان سے آشنا کرنے والی”۔۔۔۔
“اور۔۔۔۔؟”
اور جب ہم بے سبب گاڑی میں گھومتے ہوئے ان دیکھے راستوں پر جا نکلتے تھے۔ ہم چاہا کرتے تھے کہ راہیں انجانی ہوں اور چہرے ناشناسا۔ گلیاں، سڑکیں اور راستے کٹتے جاتے تھے مگر سفر جاری رہتا تھا اور تم کہا کرتی تھیں۔” ۔۔۔
‘یہ اجنبی راہیں مجھے بہت اچھی لگتی ہیں۔ جانے اگلے موڑ پہ کیا ہو جائے۔ اس سڑک کی حد سے پرے کون سا اسرار گھات لگائے بیٹھا ہو۔ رومان تمھاری نس نس میں تھا۔ اور اس سمے تم مجھے بس اپنے جیسی لگا کرتیں۔ میری عورت”۔
ہاں، پریم کا ایک ہی رنگ ہوتا ہے۔” پھر اس نے کچھ توقف کے بعد کہا: “تمھیں ان دنوں کی بہت سی باتیں یاد ہیں۔ میرا خیال تھا مرد کی یادداشت ایسی باتوں کے لیے کمزور ہوتی ہے”۔
وہ دن، ۔۔۔۔۔ وہ سارے دن، مجھے تم سے زیادہ یاد ہیں – میں نے کسی سرور میں ڈوبی آواز میں کہا۔
“مثلا؟”
مثلا۔ وہ دن جب ہم اَنجلی کے گھر میں تھے اور وہ کہیں گئی ہوئی تھی۔ تب ہم نے کچن میں مل کر کھانا بنایا تھا اور جب میں چائے کی پہلے سے گندی پیالیاں دھو رہا تھا تو تم نے کہا تھا: “مرد اگر عورت کا کام بانٹ لے تو پھر عورت کو کوئی کام بھی مشکل نہیں لگتا۔ جینا آسان اور بھلا لگنے لگتا ہے”۔
اور تم نے کہا تھا: ۔۔۔۔۔۔،” وہ یاد سے یاد ملاتے ہوئے بولی، “مردوں کو تو وہ عورتیں اچھی لگتی ہیں جو ان کے گھر کو جنت جیسا مکمل بنا دیں۔ اتنا مکمل کہ انگور کے دانے بھی خود بخود ٹوٹ کر ان کے منہ میں آ گریں”۔
اور یہ سن کر تم نے بہت سی بے رنگ باتیں کرتے ہوئے کہا تھا:”اسی لیے مردوں نے جنت اور حوریں بنائیں”۔
اس نے میری اس آخری بات پر چونک کر مجھے دیکھا۔ اس کی نگاہیں برہم تھیں۔
“یہ تم نے کیا کہا، بے رنگ باتیں، کون سی بے رنگ باتیں؟”
کچھ نہیں، میرا مطلب ہے، پیار کی باتوں میں دوسری باتیں آ جائیں تو وہ بے رنگ ہی ہوئیں نا۔” میں نے وضاحت کی
تم مردوں کا پیار! زندگی سے الگ تھلگ، بس ایک شبستان۔ ہم عورتوں کا پیار تو زندگی جتنا بڑا ہوتا ہے”۔
بہت شوق ہے، تم مجھے بھی ایسے مردوں میں۔؟ | generalize | تمھیں |
میں نے شکائت کی تو وہ ایک بار پھر پریمیکا کے سندر روپ میں آ گئی۔
اور کون سی بات یاد ہے تمھیں؟” اُسے میرے ساتھ یادوں کے پھول چننے میں مزہ آ رہا ہے۔
وہ رات۔۔۔۔۔ میرے فلیٹ میں ہم دونوں تھے۔ تم جانے پر بضد تھیں اور میں تمھیں کسی طرح جانے نہیں دے رہا تھا۔ میرا اصرار بڑھ رہا تھا۔ تمھاری گبھراہٹ اور غصے میں شدت آ رہی تھی۔ پھر تم ایک جھٹکے سے میرا ہاتھ چھڑوا کر کمرے سے باہر چلی گئی تھیں، تو اس لمحے مجھے مکمل تنہائی کا احساس ہوا تھا۔ اف تنہائی کا کیسا خوفناک احساس تھا۔
“لیکن میں واپس بھی تو آ گئی تھی۔”
ہاں کچھ دیر بعد جب تم واپس آئیں تو میں تمھاری طرف ہوں لپکا تھا جیسے کسی ڈوبنے والے کے ہاتھ کشتی کا کنارا آ جائے۔ تب مجھے موت سے گزر کر جینے کا تجربہ ہوا۔ مجھے اپنی مکمل نفی کے بعد پھر سے اثبات کی نوید ملی تھی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب مجھے اپنی زندگی میں تمھارے ناگزیر ہونے کا یقین ہو گیا تھا۔ تنہائی کا آسیب جب کمرے سے بھاگ گیا تو میں نے تم سے واپس آنے کی وجہ پوچھی تھی۔ تب تم نے مجھے ڈانتے ہوئے کہا تھا
جب کوئی لڑکی اِس طرح رات گئے روٹھ کر جاتی ہے تو پریمی اسے یوں اکیلے جانے نہیں دیتا۔ تمھیں میرا ذرا بھی خیال نہیں آیا تھا۔” اور جب میں تمھیں چھوڑنے کے لیے چپل پہن کر گرم کمرے سے باہر نکل رہا تھا تو تم نے مجھے میری جیکٹ دیتے ہوئے کہا تھا: “اسے پہن لو، تمھیں ٹھنڈ لگ جائے گی”۔
(تم عورتیں شروع دن سے ماؤں جیسی ہوتی ہو۔)
خاموشی کے کئی پہر گزر گئے۔
لگتا ہے ہم نے یادوں کے سب پھول چن لیے ہیں۔ اب میں پھر وہیں آگیا ہوں جہاں سے چلا تھا۔
تم میری دنیا سے کیوں نکل گئیں؟” میں نے اپنا سوال دہرایا
“بتا تو چکی ہوں۔”
“نہیں۔ میرا دل کہتا ہے تم نے ساری بات نہیں بتائی۔”
سچ ؟ تمھارا دل کہتا ہے ؟” وہ شرارت سے مسکرائی”
“کیوں؟ کیا میرے پاس دل نہیں ہے؟”
تمھارا دل تو میں لے چکی ہوں۔ وہ زور سے ہنسی، پھر ایک دم سنجیدہ ہو کر کہنے لگی: “تو بتا دوں؟
“یہی تو پوچھ رہا ہوں!۔”
اس بار اس کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی
ایک روز ہم دونوں ساتھ ساتھ جا رہے تھے، کسی بڑی شاہراہ پر۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ تمھاری رفتار میری رفتار سے مختلف تھی۔ پھر میں نے تمھاری آنکھوں میں جھانکا تو وہاں دو عورتوں کی پرچھائیاں لرز رہی تھیں۔ ایک میں تھی اور ایک وہ عورت جو مجھ سے تمھاری دنیا کی آخری عورت ہونے کا حق چھیننے والی تھی۔ میں نے آن کی آن میں تمھارے آئندہ زمانوں کو دیکھ لیا تھا، جہاں میں پوری نہیں آدھی تھی”۔
اس کی آنکھوں سے زخمی عورت کا غم و غصہ جھلکنے لگا۔ اس نے اپنی خود کلامی جیسی گفتگو جاری رکھی
میری جبلت نے اسی وقت اچانک ایک فیصلہ کیا۔ ۔۔۔۔ نہیں یہ فیصلہ میرے اندر کی چار عورتوں میں سے ایک نے کیا تھا، مر کر جینے کا فیصلہ۔ اور میں تم سے ہٹ کر شاہراہ سے نکلتی ایک گلی میں چلنے لگی۔ تم نے پیچھے مڑ کر مجھے دیکھا اور میرے پیچھے آنے لگے۔ میں نے قدم تیز کیے، تم نے تعاقب تیز کیا۔ اس روز سے میں چل رہی ہوں اور تم میرے تعاقب میں ہو۔ دیکھو میں تمھیں کہاں لے آئی ہوں۔ یہاں حواس کے اس ساتویں منطقے پر، یہاں اب صرف میرا راج ہے۔۔۔۔۔ صرف میرا”۔
اس نے کسی راجدہانی کی مغرور ملکہ کی طرح کہا۔
ہمارے آس پاس سناٹا شور مچا رہا ہے۔
تو اس طرح تم نے مجھے چھوڑ کر تنہائیاں مجھے دے دیں۔” میری آواز میں شِکستگی تھی۔
میں نے تمھیں تنہا نہیں کیا، تمھاری تنہائیوں کو آباد کر دیا۔” اُس کی آنکھوں میں چمک تھی۔
“تم تو سارے کریڈٹ اپنی جھولی میں بھر رہی ہو۔”
“میری جھولی ہو تو اسے بھروں، میں تو سب کچھ تمھارے نگر چھوڑ آئی۔”
اب اس کی آواز میں کسی ویرانے میں بھٹکتی ہوئی بے چین روح کا نوحہ تھا۔
اور میری آنکھوں میں رنجش کی سرخی اتر رہی ہے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ تم نے مجھ سے محبت نہیں کی تھی۔ تمھیں تو اپنے آپ سے محبت تھی۔ اگر تم سوہنی ہوتیں تو چناب کے طلاطم سے ڈر نہ جاتیں”۔
اور تم ۔۔۔۔۔ تم کہاں کے رانجھے ہو؟” اس نے خشمگیں نگاہوں سے مجھے دیکھا۔
تم بھی توعورتوں کے ہجوم میں اپنی عورت کی پہچان نہ کر سکے۔ تمھیں یہی بتانے کے لیے مجھے تمھاری دنیا سے نکلنا پڑا۔
“تو تم نے مجھے سزا دی؟”
“محبت میں کون کس کو سزا دیتا ہے؟ دونوں ہی گھائل ہوتے ہیں۔”
وہ ایک بار پھر میری بجائے کھوئی کھوئی نظروں سے دیواروں کے پار دیکھ رہی ہے۔
کئی زمانے گزر گئے۔
میں اس سے پوچھتا ہوں۔
“کیا تمھیں ڈر نہیں لگتا کہ میں تمھیں بھول جاؤں گا؟”
“میں ڈر کی دنیا سے بہت دور ہوں۔”
“پھر بھی؟”
“اگر میں تمھیں نہیں بھول پائی تو تم مجھے کیسے بھول سکتے ہو؟”
“یہ ضروری تو نہیں کہ تم نہ بھولو تو میں بھی تمھیں یاد رکھوں۔”
تم مجھے کبھی نہیں بھول پاؤ گے۔ یہ میں جانتی ہوں۔ یہ موت جتنا اٹل سچ ہے۔ مرد اس عورت کو کبھی نہیں بھول سکتا جس نے کبھی اس کی روح میں اجالا کیا ہو۔ جو اس کے ذہن کے ایوانوں میں اپنی آواز کی گونج چھوڑ آئے۔ جو اس کی ہو اور پھر کسی بے خبر لمحے میں اس کے ہاتھ سے چھوٹ کرکسی نامعلوم دنیا میں جا گرے۔
واہ! تم تو کہانیوں کی بات کر رہی ہو۔” میں نے اسے چڑانے کی کوشش کی۔
ہم سب کسی نہ کسی بڑی کہانی کے کردار ہی تو ہیں۔” اس نے گہری سانس لے کر کہا۔
لمحے تیزی سے بھاگ رہے ہیں۔ میرا دل میرے ہاتھوں سے نکلا جا رہا ہے۔
“سچ کہوں؟، تم نے میری دنیا سے نکل کر مجھے غریب کر دیا۔”
نہیں، میں نے ہماری دنیا سے نکل کر ہم دونوں کی محبت کو ہمیشگی دے دی۔ اب یہ تمھارے شعروں میں ڈھلے گی۔ میرے گیتوں میں لکھی جائے گی۔ اب یہ کہانی کی طرح امر ہے”۔
مدھم روشنی میں ، میں اس کے چہرے کو جی بھر کے دیکھتا ہوں۔
“تم آج بھی اتنی ہی حسین ہو، جتنی تب تھیں۔ وقت تمھارے حسن کا کچھ نہیں بگاڑ سکا”
تم مجھے پریمی کی آنکھ سے دیکھ رہے ہو ناں، اس لیے، محبت کی آنکھ میں زمانے ٹھہر جاتے ہیں”۔
چپ کی تانوں پر لمحوں کا رقص جاری ہے۔
لمس کی خواہش نے میرے دماغ میں دھواں بھر دیا ہے۔ وہ میرے سامنے بیٹھی ہے۔ اور بیچ میں صدیوں کی دوری ہے۔ روشنی بےجان ہے۔ وقت کی سانسیں رک رہی ہیں۔
شائد ہماری محبت میں کچھ کمی تھی۔
شائد ہمارے تصور ہماری حقیقتوں سے الگ تھے۔
شائد ۔۔۔۔۔ ہم اپنے اپنے گمان کے جزیروں میں بھٹک رہے ہیں۔
فون کی گھنٹی سکوت کو لہو لہان کر گئی۔ یہ میری بیوی کا فون ہو گا۔ وہ گلا کرے گی
آج آپ نے فون ہی نہیں کیا۔۔۔۔۔ ہم ایک دو روز میں واپس آ جائیں گے۔۔۔۔ آپ ٹھیک تو ہیں نا! ۔۔۔۔۔۔ماسی نے کھانا بنا دیا تھا ۔۔۔۔۔”؟
۔۔۔۔۔ میں فون نہ کر سکنے کا کوئی بہانہ بناؤں گا۔ بیویوں سے اسی طرح کی جھوٹی سچی باتیں ہوا کرتی ہیں۔
میں فون سن کر واپس آیا تو کمرے میں کوئی نہیں تھا۔ مجھے بتائے بغیر وہ جا چکی تھی۔ وہ ہمیشہ سے اسی طرح وقت اور دیواروں کی حد سے آزاد سفر کرتی ہے۔ اپنی مرضی سے چپکے سے چلی جاتی ہے اور پھر اسی طرح اچانک آ کر میری یاد کے ایوانوں میں دیے جلانے لگتی ہے۔
ساتواں منطقہ ”’ ہیلوسینیاشن کی بنیاد پر لکھی گئی پریم کہانی ھے۔۔ اب کیا کیا جائےکہ سارا رومینس کے گرد ہی تو گھومتا ھے۔۔ساری مائیکرو۔۔ میکرو اکنامکس اس سے آ کر جڑت کرتی ھے ۔۔ یہ سب کا مرکز جو ھوا۔۔ کوثر جمال کی لکھی یہ محبت کی ایک اچھی کہانی تھی