بپن چودھری کی یادداشت۔۔۔ ستیہ جیت رے
بپن چودھری کی یاد داشت
ستیہ جیت رے
بپِن چودھری ہر پیر وار، کام سے واپسی پر، نیو مارکیٹ میں کالی چرن کی دکان پر کتابیں خریدنے کے لیے رُکتے۔ انہیں جرم و سزا، بھوت پریت اور سنسنی خیز کہانیاں درکار ہوتیں۔ وہ اِن کی ایک وقت میں کم از کم پانچ کتابیں تو ضرور خریدتے تاکہ اُن کا پورا ہفتہ گزر جائے۔ وہ اکیلے رہتے اور لوگوں سے کم ہی گھلتے ملتے۔ ان کے بس چند ہی دوست تھے اور وہ فضول کی گپ شپ میں وقت ضائع کرنا ناپسند کرتے تھے۔ شام میں ان سے ملنے آنے والے جلدی جلدی کام کی بات کرتے اور چلے جاتے اور وہ، جو جانے کا نام ہی نہ لیتے، انہیں آٹھ بجے کے قریب بپِن بابو خود ہی بتا دیتے کہ ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق انہیں ساڑھے آٹھ بجے کھانا کھانا ہوتا ہے۔ کھانے کے بعد وہ آدھ گھنٹہ آرام کرتے اور پھر اپنی کسی ایک کتاب میں کھو جاتے۔ ان کا یہ معمول سال ہا سال سے قائم تھا اور اس میں کبھی تعطل نہ آیا تھا۔ آج ، کالی چرن کے ہاں بپِن بابو کو یہ احساس ہوا کہ نزدیک بیٹھا کوئی شخص انہیں گھور رہا ہے۔ انہوں نے مُڑ کر دیکھا تو ان کے سامنے گول چہرے والا ایک حلیم طبع شخص بیٹھا تھا۔ اُن کے دیکھنے پر وہ مسکرانے لگا۔ ”مجھے لگتا ہے کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔“ بپِن بابو کو الجھن محسوس ہوئی ۔ وہ اس شخص سے پہلے کبھی نہ ملے تھے اور اس شخص کا چہرہ بھی انہیں مانوس نہ لگا۔ ”آپ یقیناً ایک مصروف آدمی ہیں ور ہر وقت طرح طرح کے لوگوں سے ملتے رہتے ہیں۔“ ”کیا ہم پہلے کبھی مل چکے ہیں؟ “، بپِن بابو نے پوچھا۔ یہ سن کر وہ بندہ بہت حیران ہوا۔ ”ہم ایک بار پورے ہفتے کے لیے روز ملتے رہے ہیں۔ میں نے آپ کے لیے کار کا بندوبست کیا تھا جو آپ کو رانچی میں ’ہودرو‘ آبشار لے کر گئی تھی۔ یہ 1958 ء کی بات ہے ۔میرا نام پریمل گھوش ہے ۔“ ”رانچی ؟ “ بپِن بابو کو تب اندازہ ہوا کہ یہ وہ نہیں بلکہ وہ بندہ غلطی پر تھا۔ بپِن بابو تو کبھی رانچی گئے ہی نہ تھے۔ وہ کئی بار وہاں جانا چاہتے تھے لیکن کبھی جا نہیں پائے۔ وہ مسکرائے اور بولے، ” کیا آپ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں؟“ آدمی نے اَبرو چڑھائی ، اور زبان چبا کر بولا ؛ ” کیا میں آپ کو جانتا ہوں ؟ بپِن چوہدری کو کون نہیں جانتا ؟“ بپِن بابو نے اپنا رُخ کتابوں کی الماریوں کی طرف موڑا اور کہا؛ ” آپ ابھی بھی غلطی پر ہیں۔ بندے سے اکثر غلطی ہو ہی جاتی ہے۔ میں تو کبھی رانچی گیا ہی نہیں۔“ یہ سن کر بندے نے زوردار قہقہہ لگایا۔ ” مسٹر چو دھری آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں؟ ’ہودرو‘ میں آپ گر گئے تھے اور آپ کے گھٹنے پر چوٹ لگی تھی ۔ میں آپ کے لیے آیوڈین لایا تھا۔ میں نے آپ کے لیے ایک کار کا بندوبست کیا تھا تاکہ آپ اگلے روز ’نیتارہت‘ جا سکیں ، لیکن آپ گھٹنے میں درد کی وجہ سے جا نہیں سکے تھے۔ کیا آپ کو کچھ بھی یاد نہیں؟ اُس وقت آپ کا کوئی جاننے والا بھی رانچی میں تھا ، دنیش مُکرجی بابو۔ آپ ایک بنگلے میں ٹھہرے تھے۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ کو ہوٹلوں کا کھانا پسند نہیں اور آپ باورچی کے ہاتھ کے پکے کھانوں کو ترجیح دیں گے۔ مکرجی بابو اپنی بہن کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ آپ نے انسان کے چاند پر جانے کے حوالے سے بہت بحث بھی کی تھی ، یاد ہے ؟ میں آپ کو اور بھی بتاتا ہوں ؛ آپ جب بھی کہیں گھومنے پھرنے جاتے تو ہمیشہ کتابوں بھرا تھیلا اپنے ساتھ رکھتے۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں یا نہیں ؟“ بپِن بابو نے اپنی نظریں کتابوں پر ہی جمائے رکھیں اور آہستہ سے بولے؛ ” آپ 1958 ءکے کس مہینے کی بات کر رہے ہیں ؟“ آدمی بولا، ” درگاپوجا سے ذرا پہلے۔ ۔ ۔ اکتوبر کی ۔“ ”نہیں جناب۔“ ، بپِن بابو نے کہا ، میں نے سن 58 میں پوجا کا تہوار اپنے ایک دوست کے ساتھ کانپور میں منایا تھا ۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ آپ کا دن اچھا گزرے۔“ لیکن وہ شخص وہاں سے نہ گیا اور نہ ہی اس نے بولنا بند کیا ۔ ”بہت عجیب بات ہے۔ میں نے تو ایک شام آپ کے بنگلے کے برآمدے میں آپ کے ساتھ چائے بھی پی تھی، تب آپ نے اپنے خاندان کے بارے میں بہت سی باتیں بھی کی تھیں۔ آپ نے بتایا تھا کہ آپ کی کوئی اولاد نہیں اور یہ کہ آپ اپنی بیوی کو دس سال پہلے کھو چکے ہیں۔ آپ کا اکلوتا بھائی پاگل پنے کی حالت میں مرا تھا اور یہ کہ آپ اسی کارن رانچی کے دماغی امراض کا ہسپتال دیکھنے جانا نہیںچاہتے ۔ ۔ ۔“ بپِن بابو جب کتابوں کی قیمت ادا کرکے دکان سے نکل رہے تھے تو وہ آدمی تب بھی انہیں بے یقینی کے عالم میں حیرت سے دیکھ رہا تھا ۔ بپِن بابو کی کار لائٹ ہاﺅس سینما کے ساتھ’ برترم‘ گلی میں محفوظ پارکنگ میں کھڑی تھی ۔ وہ جب کار میں بیٹھ گئے تو انہوں نے ڈرائیور کو کہا ؛ ” سیتا رام ! گنگا کے ساتھ ساتھ گاڑی چلاﺅ ۔“ سٹرینڈ روڈ تک جاتے ہوئے بپِن بابو اس بات پر افسوس کرتے رہے کہ انہوں نے خوامخواہ اس مخل ہونے والے شخص کو اہمیت دی ۔ سوال ہی نہیں اٹھتا ۔ ۔ ۔ وہ تو کبھی رانچی گئے ہی نہ تھے ۔ یہ ممکن ہی نہ تھا اور ناقابل فہم بھی کہ وہ ایک ایسا واقعہ جو چھ سات سال پہلے کا ہو ، اسے بھول جائیں ۔ ان کی یادداشت مثالی تھی ۔ ہاں البتہ ۔ ۔ ۔ بپِن بابو کا دماغ الٹ جائے تو اور بات ہونی تھی ۔ یا یہ کہ اُن کا دماغ ٹھکانے نہ رہے ۔ لیکن ایسا کیسے ہو سکتا تھا ؟ وہ روز اپنے دفتر میں کام کرتے تھے ۔ یہ ایک بڑی فرم تھی اور ان کی نوکری ذمہ داری کی متقاضی تھی ۔ انہیں ایسی کسی بات کا علم نہ تھا جو ان سے غلط ہوئی ہو ، جس کے نتائج سنجیدہ ہو سکتے تھے ۔ ابھی آج ہی انہوں نے ایک اہم میٹنگ میں آدھ گھنٹہ بات کی تھی ۔ تاہم ۔ ۔ ۔ تاہم وہ بندہ ان کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا ۔ کیسے ؟ لگتا تھا جیسے اسے اندر کی باتوں کا بھی پتہ تھا ۔ کتابوں کا تھیلا ، بیوی کی موت ، بھائی کا پاگل ہونا ۔ ۔ ۔ اس کی غلطی بس ایک ہی تھی جو اس نے رانچی جانے کے بارے میں کی ۔ یہ غلطی نہیں تھی بلکہ جان بوجھ کر بولا گیا ایک جھوٹ تھا ۔ 1958 ء میں درگا پوجا کے دوران وہ کانپور میں اپنے دوست ہری داس باگچی کے ہاں تھے ۔ بپِن بابو اور تو کچھ کر نہیں سکتے تھے سوائے اس کہ وہ ہری داس کو لکھتے ۔ ۔ ۔ لیکن اسے لکھنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا ۔ بپِن بابو کو اچانک یاد آیا کہ ہری داس نے تو اپنا پتہ ہی نہ چھوڑا تھا ۔ لیکن ثبوت کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ اگر ایسا ہوتا کہ پولیس انہیں کسی جرم کے سلسلے میں پکڑنا چاہتی جو 1958 ء میں رانچی میں ہوا ہوتا تب شاید انہیں یہ ثابت کرنا ہوتا کہ وہ تو وہاں گئے ہی نہیں تھے ۔ وہ خود اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ رانچی نہیں گئے تھے ۔ ۔ ۔ اور یہ ایسے ہی تھا بس ۔ دریائی ہوا فرحت بخش تھی لیکن بپِن بابو کے دماغ پرہلکا سا بوجھ اور الجھن طاری رہی ۔’ ہیسٹنگ ‘ کے پاس جا کر بپِن بابو کو اچانک یہ خیال آیا کہ وہ پتلون اونچی کرکے اپنے گھٹنے کو تو دیکھیں ۔ وہاں زخم کا ایک انچ لمبا پرانا نشان تھا ۔ ان کے لیے یہ بتاناممکن نہ تھا کہ یہ زخم انہیں کب لگا تھا ۔ کیا ایسا نہیں تھا کہ لڑکپن میں وہ کبھی گرے ہوں اور ان کے گھٹنے پر چیرا آ گیا ہو ؟ انہوں نے ایسا کوئی واقعہ یاد کرنے کی کوشش کی ، لیکن انہیں کچھ یاد نہ آیا ۔ اور پھر بپِن بابو کو اچانک دنیش مکر جی کا خیال آیا ۔ اُس آدمی نے کہا تھا کہ دنیش بھی اس وقت رانچی میں تھا ۔ یقیناً یہ بہتر ہو گا کہ وہ اس سے پوچھیں ۔ وہ ’ بے نندن‘ سٹریٹ میں پاس ہی رہتا تھا ۔کیا خیال ہے کہ اس کے پاس ابھی چلا جائے ؟ لیکن اگر وہ واقعی رانچی نہیں گیا تھا تو دنیش کیا سوچے گا کہ بپِن بابو نے اس کی تصدیق کیوں کرنا چاہی ؟ وہ شاید یہ نتیجہ نکالے کہ بپِن بابو پاگل ہو رہا تھا ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ اس سے پوچھنا احمقانہ بات ہو گی ۔ اور انہیں پتہ تھا کہ دنیش کا طنزیہ رویہ کتنا بہیمانہ ہو سکتا تھا ۔ اپنے گھر کے ائیر کنڈیشنڈ لیونگ روم میں ٹھنڈے مشروب کے گھونٹ بھرتے ہوئے ، بپِن بابو نے پھر سے آرام محسوس کیا ۔ وہ آدمی کتنا بیہودہ تھا ۔ ۔ ۔ ! اس کو شاید اور کوئی کام ہی نہ تھا تبھی تو وہ دوسروں کے معاملات میں گھس رہا تھا ۔ رات کا کھانا کھا کر بپِن بابو نے نئی سنسنی خیز کتابوں میں سے ایک لی اور بستر میں گھس گئے اور نیو مارکیٹ والے بندے کے بارے میں سب کچھ بھول گئے ۔ اگلے روز ، دفتر میں بپِن بابو نے یہ نوٹ کیا کہ ہر گزرتے گھنٹے کے ساتھ گزرے کل ہوا ٹاکرا اُن کے دماغ پر زیادہ حاوی ہو رہا تھا ۔ اس بندے کے گول چہرے پر اس کی گول گول آنکھوں میں حیرت ، غیر یقینی کے عالم میں اُس کا کِھی کِھی کرکے ہنسنا ۔ ۔ ۔ اگر وہ بپِن بابو کی زندگی کی تفصیلات بارے اتنا کچھ جانتا تھا تو پھر وہ رانچی کی سیر کے بارے میں غلط کیسے ہو سکتا تھا ؟ دوپہر کے کھانے سے کچھ ہی پہلے ۔ ۔ ۔ ایک بجنے میں پانچ منٹ پر ۔ ۔ ۔ بپِن بابو مزید برداشت نہ کر پائے ۔ انہوں نے فون نمبروں والی کاپی کھولی ۔ انہیں دنیش مکر جی کو فون کرنا تھا ۔ یہی بہتر تھا کہ وہ یہ سوال فون پر ہی پوچھ لیں یوں اُن کے چہرے پر آئی خجالت تو ظاہر نہیں ہونی تھی ۔ دو ۔ تین ۔ پانچ ۔ چھ ۔ ایک ۔ چھ بپِن بابو نے نمبر گھمایا ۔ ” ہیلو ! کیا دنیش بول رہے ہیں ؟ میں بپِن بات کر رہا ہوں ۔“ ” اچھا ، اچھا ۔۔۔کیا نئی تازی ہے ؟“ ” میں صرف یہ جاننا چاہتا ہوں کہ کیا تمہیں ایسا کوئی واقعہ یاد ہے جو سن 58 میں پیش آیا ہو ۔“ 58 ؟ کیسا واقعہ؟“ ” کیا تم اس سال کولکتہ میں ہی تھے ، میرا مطلب ہے پورا سال ؟ یہ پہلی بات ہے جو میں تم سے جاننا چاہتا ہوں ۔“ ” ایک منٹ رکو ۔ ۔ ۔58 ۔ ۔ ۔ مجھے ذرا اپنی ڈائری دیکھ لینے دو ۔“ ایک منٹ کے لیے خاموشی طاری رہی ۔ بپِن بابو نے محسوس کیا کہ ان کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی تھی اور انہیں ہلکاسا پسینہ بھی آ رہا تھا ۔ ” ہیلو “ ” ہاں “ ” مجھے مل گیا ہے ۔ میں اُس برس دو بار کولکتہ سے باہر گیا تھا ۔“ ” کہاں؟“ ” ایک بار فروری میں ۔ ۔ ۔ نزدیک ہی ۔ ۔ ۔ کرشنا نگر اپنے بھتیجے کی شادی میں ۔ اور پھر ۔ ۔ ۔ لیکن تمہیں تو اس کے بارے میں پتہ ہی ہو گا جب میں رانچی گیا تھا ۔ تم بھی تو وہیں تھے ۔ بس یہی کچھ ہے ۔ لیکن یہ کھوج اور پوچھ گچھ کیوں اور کس واسطے ہے ؟“ ” نہیں ، میں تو بس یونہی جاننا چاہ رہا تھا ۔ ۔ ۔ خیر ، بہت شکریہ ۔“ بپِن بابو نے ریسیور نیچے پٹخا اور اپنے ہاتھوں میں سر پکڑ لیا ۔ انہیں لگ رہا تھا جیسے ان کا دماغ ہوا میں تیر رہا ہو ۔ ان کے جسم میں ایک کپکپی سی دوڑ گئی ۔ ان کے ٹفن بکس میں سینڈوچ تھے لیکن ان کا جی نہ کیا کہ وہ کھائیں ۔ ان کی بھوک مکمل طور پر مر چکی تھی ۔ کھانے کے وقت کے بعد بپِن بابو کو احساس ہوا کہ ان کے لیے ممکن نہ رہا تھا کہ وہ اپنے ڈیسک پر بیٹھے رہتے اور کام کرتے ۔ اس فرم میں پچیس سال کام کرنے کے دوران ، ان کے ساتھ پہلی دفعہ ایسا کچھ ہوا تھا ۔ ان کی ساکھ ایک ایسے فرض شناس کارکن کی تھی جو انتھک محنت کرتا تھا ۔ ان کے ماتحت کام کرنے والے ان سے متاثر تھے بلکہ ان پر رشک کرتے ۔ بدترین بحرانی حالات میں ، بلکہ گھمبیر ترین معاملات کا سامنا کرتے وقت بھی ، بپِن بابو ہمیشہ شانت رہتے اور آئے طوفان کو اِدھر اُدھر کر دیتے لیکن آج ان کا اپنا دماغ چکر کھا گیا تھا ۔ڈھائی بجے گھر واپس آ کر بپِن بابو نے خود کو اپنے سونے کے کمرے میں بند کر لیا اور بستر پر لیٹ کر اپنے حواس بحال کرنے کی کوشش کرنے لگے ۔ وہ جانتے تھے کہ اگر سر پر چوٹ لگے تو یہ ممکن تھا کہ بندے کی یادداشت چلی جائے لیکن انہوں نے کسی ایسے کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا کہ اسے اور تو سب کچھ یاد ہو اور وہ بس ایک مخصوص واقعہ بھول جائے ۔ ۔ ۔ وہ بھی ایسا جو زیادہ پرانا نہ ہو اور اہم بھی ہو ۔ انہیں رانچی جانے کی خواہش ہمیشہ رہی تھی لیکن وہاں جانا ، وہاں کچھ کرنا اور پھر یہ یاد نہ رکھنا مکمل طور پر ناممکن تھا ۔ سات بجے ، بپِن بابو کا نوکر آیا اور انہیں بتایا کہ سیٹھ گردھاری پرشاد آ چکے ہیں ۔ یہ گردھاری پرشاد ایک امیر بزنس مین ۔ ۔ ۔ اور ایک اہم شخصیت تھے ۔ وہ ملاقات کا وقت طے کرکے آئے تھے لیکن بپِن بابو خود کو بہت ہی نڈھال محسوس کر رہے تھے ۔ انہیں اپنے نوکر کو یہ کہنا پڑا کہ ان کے لیے تو بستر سے اٹھنا بھی محال تھا ۔ اہم لوگ جائیں بھاڑ میں ۔ ساڑھے سات بجے نوکر پھر آن دھمکا ۔ اس وقت بپِن بابو کی آنکھ لگی ہی تھی اور وہ ایک بھدا خواب دیکھ رہے تھے ، تبھی نوکر کی دستک نے انہیں جگا دیا تھا ۔” اب کی بار کون ہے ؟“، انہوں نے پوچھا ۔ ” جناب ، چُنی بابو ہیں ۔ کہتے ہیں کہ ضروری اور فوری کام ہے ۔“ بپِن بابو جانتے تھے کہ فوری کام کیا تھا ۔ چُنی لال ان کے بچپن کا دوست تھا ۔ حال ہی میں اس پر برا وقت آن پڑا تھا اور اس نے بپِن بابو کو نوکری دلانے کے لیے دِق کر رکھا تھا ۔ بپِن بابو اسے حیلے بہانے سے ٹالتے رہتے لیکن چُنی تھا کہ پھر چلا آتا تھا ۔ سالا لیچڑ کہیں کا ۔ بپِن بابو نے نوکر کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ وہ اُس سے اِس وقت تو کیا ، اگلے کئی ہفتے بھی نہیں مل سکتے ۔ لیکن جیسے ہی نوکر کمرے سے باہر نکلا ، انہیں سوجھا کہ چُنی کو شاید سن 58 میں رانچی جانے کے بارے میں کچھ یاد ہو ۔ اس سے پوچھنے میں کوئی ہرج نہیں ہو گا ۔ وہ اتر کر نیچے آئے ۔ چُنی جانے کے لیے اٹھ چکا تھا ۔ بپِن بابو کو دیکھ کر وہ مُڑا اور اس کی آنکھوں میں امید کی ایک کرن بھی چمکی ۔ بپِن بابو نے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کی بجائے سیدھی مطلب کی بات کی ۔ ” چُنی ، سنو ۔ ۔ ۔ میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں ۔ تمہاری یادداشت بہت اچھی ہے اور تم عرصہ دراز سے گاہے بگاہے مجھ سے ملتے رہے ہو ۔ اپنا دماغ ماضی کی طرف گھماﺅ اور مجھے بتاﺅ ۔ ۔ ۔ کیا میں سن 58 میں رانچی گیا تھا ؟“ چُنی بولا، ” 1958 ؟ یقیناً یہ 58 ہی ہو گا ۔یا شاید 1959 ؟“ ” تمہیں یقین ہے کہ میں رانچی گیا تھا ؟“ چُنی نے تشویش بھری حیرانی سے انہیں دیکھا ۔ ”تمہارا مطلب ہے کہ تمہیں شک ہے ۔ ۔ ۔ تم وہاں گئے ہی نہ تھے ؟“ ” کیا میں واقعی گیا تھا ؟ تمہیں صحیح طرح یاد ہے ؟“ چُنی کھڑا تھا ، وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور اس نے بپِن بابو کو دیر تک گھورتے رہنے کے بعد کہا ؛ ” بپِن کہیں تم منشیات تو استعمال نہیں کرنے لگے یا ایسا ہی کچھ ؟ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ ایسی چیزوں کے حوالے سے تمہاری شخصیت پر کوئی دھبہ نہیں ہے ۔ مجھے معلوم ہے ہماری دیرینہ دوستی تمہارے لیے زیادہ اہم نہیں ، لیکن تمہاری یادداشت تو کم از کم بہت اچھی رہی ہے ۔ تم یہ کیسے بھول سکتے ہو کہ تم رانچی گئے تھے ؟“ بپِن بابو نے چُنی کی حیرت بھری گُھوری سے پریشان ہو کر منہ پھیر لیا ۔ ” کیا تمہیں میری آخری نوکری یاد ہے ؟“ ، چُنی لال نے پوچھا ۔ ” یقیناً یاد ہے ۔ تم ایک ٹریول ایجنسی میں کام کرتے تھے ۔“ ” تمہیں یاد ہے یا یہ بھی یاد نہیں کہ یہ میں ہی تھا جس نے رانچی کے لیے تمہاری بُکنگ کروائی تھی ؟ میں ہی تو تمہیں سٹیشن پر چھوڑنے بھی گیا تھا ۔ تمہارے کمپارٹمنٹ میں ایک پنکھا کام نہیں کر رہا تھا ۔ ۔ ۔ میں نے الیکٹریشین کو بلوایا اور اسے ٹھیک کروایا تھا ۔ کیا تم سب کچھ بھول گئے ہو ؟ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے؟ جان لو تم مجھے ٹھیک حالت میں نہیں لگتے ۔“ بپِن بابو نے ٹھنڈی آہ بھری اور سر ہلایا ۔ ” میں شاید کچھ زیادہ ہی کام کرتا رہا ہوں ۔“ ، وہ بالآخر بولے ۔ ” یہی وجہ ہو سکتی ہے ۔مجھے کسی سپیشلِسٹ سے رجوع کرنا چاہیے ۔“ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ بپِن بابو کی حالت ہی تھی کہ چُنی لال نوکری کے حوالے سے کوئی بات کیے بغیر ہی لوٹ گیا ۔ پریش چند ایک نوجوان روشن آنکھوں اور تیکھی ناک والا فیزیشن تھا ۔ وہ بپِن بابو کی علامات کا حال سن کر سوچ میں پڑ گیا ۔ ” ڈاکٹر چند ، دیکھیں ۔“ ، بپِن بابو نے بےتابی سے کہا ، ” آپ کو میری اس خوفناک بیماری کا علاج کرنا ہو گا ۔ میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ یہ میرے کام پر کس بری طرح سے اثرانداز ہو رہی ہے ۔ اب تو طرح طرح کی دوائیاں سامنے آ چکی ہیں ، کیا ایسی کوئی دوائی نہیں جو اس طرح کی بیماری کورفع کر سکے ؟ اگر یہ یہاں نہیں ملتی تو میں اسے باہر سے بھی منگوانے کا بندوبست کر سکتا ہوں لیکن مجھے لازماً اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے ۔“ ڈاکٹر چند نے اپنا سر ہلایا ۔ ” چودھری صاحب ، آپ کو ایک بات بتاﺅں ۔ “ ، وہ بولا ، ” میں نے آپ جیسا کیس پہلے کبھی نہیں دیکھا ۔ سچ کہوں تو یہ میرے علم وتجربے سے بالکل باہر ہے لیکن میں آپ کو ایک مشورہ دیتا ہوں ۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ کارآمد ہو گا یا نہیں لیکن اس کو آزمانے میں کوئی ہرج نہیں ہے ۔ اس سے کوئی نقصان بھی نہیں ہو گا ۔“ بپِن بابو بے چینی سے آگے کی طرف جھکے ۔ ” جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں ۔“ ، ڈاکٹر چند نے کہا ، ” اور میرا خیال ہے کہ آپ بھی یہی سمجھتے ہیں ۔ ۔ ۔ آپ رانچی گئے تھے لیکن کسی انجانی وجہ کے تحت یہ سارا واقعہ آپ کے دماغ میں سے نکل گیا ہے ۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ ایک بار اور رانچی جائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہاں کے مقامات دیکھ کر آپ کو اپنے پچھلے چکر کی یاد آ جائے ۔ یہ ناممکن نہیں ہے بہرحال اس وقت تو میں آپ کو اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتا ۔ میں آپ کو فی ا لحال اعصاب مضبوط کرنے والا ٹانک اور ایک سکون کی دوائی لکھ کر دے رہا ہوں۔ نیند بہت ضروری ہے ورنہ یہ علامات اور بھی شدت اختیار کر سکتی ہیں۔“ یہ نیند کی گولی تھی یا ڈاکٹر کا مشورہ یا پھر دونوں ، بپِن بابو نے اگلی صبح خود کو بہتر پایا۔ انہوں نے ناشتہ کیا، اپنے دفتر فون کرکے کچھ ہدایات دیں اور پھر اسی شام کو رانچی روانگی کے لیے فرسٹ کلاس کی ٹکٹ خریدی۔ اگلی صبح جب وہ رانچی پہنچ کر ریل گاڑی سے اترے تو انہوں نے فوراً ہی یہ جان لیا کہ وہ یہاں پہلے کبھی نہیں آئے تھے۔ وہ سٹیشن سے باہر نکلے ، ایک ٹیکسی کرایے پر لی اور کچھ دیر شہر میں گھومتے رہے ۔ یہ بات واضح تھی کہ سڑکیں ، گلیاں ، عمارتیں ، ہوٹل ، بازار ، مورابدی پہاڑی اور سب کچھ ان کے لیے نامانوس تھا ۔ ۔ ۔ ان میں سے کوئی شے بھی انہیں زرہ بھر جانی پہچانی نہ لگی۔ کیا ’ہودرو‘ آبشار جانا مدد گار ثابت ہو گا، انہوں نے سوچا لیکن انہیں اس بات کا یقین نہ تھا لیکن وہ ساتھ ہی یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ پوری کوشش نہ کرنے کا احساس لے کر لوٹیں۔ انہوں نے، چنانچہ ایک کار لی اور دوپہر میں’ہودرو‘ کی طرف روانہ ہوئے۔ ’ہودرو ‘میں اسی سہ پہر ، سیر کو آئے ایک گروپ کے دو گجراتیوں نے بپِن بابو کو پانچ بجے، ایک بڑے پتھر کے پاس بیہوش پایا ۔ ۔ ۔ اور جب ان دو بھلے آدمیوں کی مدد سے بپِن بابو ہوش میں آئے تو پہلی بات جو اُن کے منہ سے نکلی وہ یہ تھی : ” میرا خاتمہ ہو چکا۔ اب کوئی امید باقی نہیں رہی۔“ بپِن بابو اگلی صبح ہی کولکتہ واپس آ گئے۔ انہوں نے یہ جان لیا تھا کہ ان کے لیے کوئی امید باقی نہیں رہی تھی۔ جلد ہی انہوں نے کام کرنے کی شکتی، اپنا اعتماد، اپنی صلاحیتیں اور اپنا دماغی توازن بلکہ سب کچھ کھو دینا تھا ۔ کیا ان کا انجام یہ ہونا تھا کہ وہ رانچی کے دماغی امراض کے ہسپتال میں جا کر پڑے رہیں؟ بپِن بابو اس سے زیادہ اور کچھ نہ سوچ سکے ۔ گھر واپس آ کر انہوں نے ڈاکٹر پریش چند کو فون کیا اور گھر بلایا ، پھر وہ نہائے اور سر پر برف کی تھیلی رکھے بستر میں لیٹ گئے۔ تبھی نوکر وہ خط ان کے پاس لایا جو کوئی بندہ لیٹربکس میں ڈال گیا تھا ۔ سبزی مائل اس لفافے پر ان کا نام سرخ روشنائی سے لکھا تھا۔ نام کے اوپر یہ بھی لکھا تھا ؛ ”فوری اور ذاتی“ اپنی حالت کے باوجود بپِن بابو کو لگا کہ انہیں یہ خط پڑھ لینا چاہیے۔ انہوں نے لفافہ پھاڑا اور خط باہر نکالا۔ اس میں یہ لکھا تھا: ڈئیر بپِن ! مجھے اس بات کا بالکل اندازہ نہ تھا کہ امارت تم میں اتنی تبدیلی لے آئے گی جو تم میں آ چکی ہے۔ کیایہ اتنا ہی مشکل تھا کہ تم ایک پرانے دوست کی مشکل وقت میں مدد کر سکتے؟ میرے پاس کچھ نہیں ہے اور میرے وسائل بہت ہی محدود ہیں۔ اگر کچھ ہے تو وہ میری قوت متخلیہ ہے، جس کا کچھ حصہ میں نے تمہارے سرد رویے اور پتھریلے برتاﺅ کا بدلہ لینے میں استعمال کیا ہے۔ نیو مارکیٹ میں جو بندہ تمہیں ملا وہ میرا ہمسایہ ہے۔ مجھ سے اس کا اچھا تعلق واسطہ ہے ۔ وہ ایک اچھا اداکار ہے جس نے وہ کردار ادا کیا جو میں نے اس کے لیے لکھا تھا ۔ دنیش مُکر جی بھی تمہارے بارے میں اچھے خیالات نہیں رکھتے اور تم سے نالاں ہیں، اسی لیے انہوں نے بھی میری مدد کی۔ رہا سوال تمہارے گھٹنے کی چوٹ کا، تم اب یقیناً یہ یاد کر سکو گے کہ 1939ء میں تم چندپال گھاٹ میں رسی پر سے گر گئے تھے۔ خیر ، تم اب پھر سے ٹھیک ہو جاﺅ گے ۔ میں نے ایک ناول لکھا ہے۔ ایک ناشر اسے چھاپنے کے لیے دیکھ رہا ہے۔ اگر اسے یہ پسند آ گیا تو اگلے چند ماہ میں یہ چھپ جائے گا۔ تمہارا ، چُنی لال جب ڈاکٹر چند آیا تو بپِن بابو نے کہا ؛” میں اب ٹھیک ہوں ۔ میں جب رانچی میں جیسے ہی ریل گاڑی سے اترا مجھے سب یاد آ گیا۔“ ”یہ تو ایک منفرد کیس ٹھہرا۔“ ، ڈاکٹر چند نے کہا۔ ”میں اس پر میڈیکل جرنل میں ضرور لکھوں گا۔“ ” اِس وقت میں نے جس وجہ سے آپ کو تکلیف دی ۔ ۔ ۔“ ، بپِن بابو بولے ، ”رانچی میں گر جانے کی وجہ سے میرے کولہے میں درد ہے ۔ کیا آپ مجھے درد ختم کرنے والی کوئی دوائی لکھ کر دے سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ “ [ یہ کہانی پہلی بار بنگالی میں 1963 ء میں شائع ہوئی تھی۔ اسے ستیہ جِت رے نے خود ہی انگریزی میں ڈھالا اور یہ” The Collected Short Stories by Satyajit Ray “میں شامل ہے۔ اسے پینگوئن رینڈم ہاﺅس، انڈیا نے 2012 ء میں شائع کیا تھا۔ اس کتاب میں ستیہ جِت رے کی کہانیوں کے اپنے ہی انگریزی قالبوں کے علاوہ مترجم ‘ گوپا مجمدار ‘ کے کیے ترجمے شامل ہیں۔ ستیہ جِت رے ستر برس کی عمر میں اپریل 1992 ء میں فوت ہوئے جبکہ ‘ گوپا مجمدار ‘ چونسٹھ برس کی عمر میں مئی 2020 ء میں فوت ہوئیں۔ ستیہ جِت رے کے بیٹے ‘ سیندپ رے ‘ نے اِس کہانی پر 1999 ء میں اکیس منٹ کی اک مختصر فلم بنگالی میں ہی بنائی تھی جو کہانی کے عین مطابق تھی بس 1958 ء کی جگہ سال 1995 ء کر دیا تھا ( اس کافلمی سکرپٹ بھی شاید اصلاً سیندپ رے کے والد کا ہی لکھا ہوا تھا اور موسیقی بھی انہی کی ترتیب دی ہوئی تھی۔ یہ فلم اچھے پرنٹ میں یو ٹیوب پر میسر ہے۔ ) سیندیپ رے خود اس وقت 67 برس کے ہیں اور بنگالی سینما میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ اب ستیہ جِت رے کے صد سالہ جنم دن کے حوالے سے نیٹ فلیکس نے ” Ray ” نام سے ستیہ جِت رے کی جن چار کہانیوں سے ماخوذ لگ بھگ گھنٹہ گھنٹہ بھر کی جو ویب فلمیں بنائی ہیں ان میں ایک اِس کہانی سے بھی ماخوذ ہے؛ اسے ‘ Forget Me Not ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اس سیریز کی پہلی فلم ہے ۔ اس کے ہدایت کار سریجِت مکھرجی ، راج کہانی / بیگم جان فیم ، ہیں۔ انہوں نے البتہ اصل کہانی سے بہت زیادہ انحراف کرتے ہوئے اپنی فلم میں ہم عصر زمانہ دکھاتے ہوئے نہ صرف رانچی کو اجنتا کے غاروں سے بدلا ہے بلکہ اصل کہانی کے برعکس، جس میں کوئی زنانہ کردار نہیں ہے، کافی سارے زنانہ کردار ڈالے ہیں اور اس میں ‘ اسپت راما نائیر ‘ (فلم کا ہیرو اصلاً کہانی کا بپِن بابو ) کے گرد ایک پراسرار عورت بھی لا کھڑی کی ہے جو اسے، اس کے اپنے شک کے جال میں باندھ دیتی ہے۔ اس فلم کی زبان ‘ فور لیٹر ‘ الفاظ سے یوں بھری ہے جیسے ہم عصر زمانے سے پہلے یہ الفاظ موجود ہی نہ رہے ہوں۔ ]