آخری سگنل ۔۔۔ سید صداقت حسین
آخری سگنل
سید صداقت حسین
میں انہیں کئی سال سے دیکھتا چلا آرہا تھا. وہ سانولی رنگت ، دبلے پتلےجسم اور میانہ قد و قامت رکھنے والے تین مردوں کی ایک ٹولی تھی- وہ لوگ شادی بیاہ اور خوشی کے دیگر مواقع پر ڈھول بجاتے تھے- میرے گھر کی جانب جانے والی دو رویہ سڑک پر ایک بڑے چوک میں فٹ پاتھ پر ڈیرہ جمائے بیٹھے نظر آتے-
آپ بھی اگر کسی بڑے شہر کے باسی ہیں تو آپ نے بھی ایسے ڈھولچی دیکھے ہوں گے- یہ مصروف شاہراہوں کے کنارے کسی ایسے چوک کے قریب اڈا بنالیتے ہیں جہاں ٹریفک سگنل ایستادہ ہوں – گاہے ڈھول بجاکر اور بسااوقات اس کی تال پرلڈی جھومرڈال کر اشارے پر رکی ہوئی گاڑیوں میں سوار لوگوں کو متوجہ کرتے ہیں – تاکہ وہ انہیں اپنی کسی تقریب یا شادی بیاہ کی رونق بڑھانے کے لئے ساتھ لے جائیں – یہی ان کا ذریعہ روزگار ہے-
میں جن ڈھولچیوں کا قصہ سنانا چاہ رہاہوں ان کی عمریں پچیس یا تیس برس کے لگ بھگ تھیں – وہ اپنے فن میں بڑی مہارت رکھتے تھے- ان کے ڈھول بہت خوبصورت اور سرخ، زرد اور سبز رنگوں سے مزین تھے اور سوت کی رنگدار رسیوں سے کسے اور پھمنوں سے سجے ہوئے تھے- وہ خود بھی خوشں رنگ کپڑے پہنتے- پیلاریشمی کرتا، سفیدشلوار اور سرپر گلابی پگڑ ۔ مجھے ان کی گلابی پگڑیاں کراچی کی گلابی شام کی طرح لگتیں- موسم گرما میں جب دن بھر سورج آسمان سے آگ برساتا تو شام کے وقت تیز ہوائیں چلتیں اور یوں ہماری شام گلابی ہوجاتی تھی ۔
گزشتہ چند برسوں سے شہر میں ٹریفک کی روانی بہتر بنانے کے لئے بڑی شاہراہوں اور سڑکوں کو سگنل فری کوریڈورز میں بدلنے کے منصوبوں پر نہایت سرعت سے عمل ہورہاتھا- جہاں جہاں چوک تھے وہاں اوور ہیڈ برج اور انڈرپاس تعمیر کیے جارہے تھے اور ٹریفک سگنل ہٹائے جارہے تھے- وہ ڈھولچی شکست خوردہ سپاہ کی طرح پسپا ہوکر اب میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر اس چوک اور آخری ٹریفک سگنل کے قریب آبیٹھے تھے جہاں تعمیری (یا ان کی دانست میں تخریبی) کام شروع ہونے میں چند ماہ باقی تھے—–
“کیسا محسوس کرتے ہو اس آخری سگنل پر” ؟ ایک روز میں نے گاڑی وہاں روک کر ان سے استفسار کیا- اس سوال پر ان کی کالی سیاہ متفکر آنکھیں نم ہوگئیں-
“صاحب جی! آپ ترقی پر خوش ہیں مگر اس سےہم جیسوں کی کمائی کے ٹھکانے تیزی سے ختم ہورہے ہیں ۔ آمدن سکڑنے سے ہم فاقے کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں -ہماری سانسیں رک رہی ہیں ۔ ہم بھیک نہیں مانگتے ۔صرف آپ جیسے مہربانوں کی خوشیوں میں اضافہ کرکے اپنا نظام چلاتےہیں ۔… “
میں نے ان کے چہرے پر چھائے تفکرات کے مہیب سائے پہلی بار دیکھے تھے۔ میں نے ان کی پریشانی پر تاسف کا اظہار کیا اور انہیں اپنی طرف سے کچھ کھلانے پلانے کی پیش کش کی جس پر انہوں نے ندامت سےسرجھکاکر نفی میں سرہلائے – وہ بلاشبہ بھوکے تھے مگر ان کی انا سلامت تھی – میں انہیں حوصلہ اور تسلی دے کر چلا آیا- بعد ازاں میں کافی دیر خود کو ملامت کرتا رہا کہ ان سے ایسا سوال کیا ہی کیوں تھا ۔
بعد میں بھی انھوں نے کبھی مجھے اپنی خدمت کا موقع نہیں دیا ۔
کبھی کبھی میں ان کے پاس رک کران کے ہاتھ سے چھڑی لی کر ڈھول پر تھاپ لگاتا تو وہ تینوں بے اختیار ہنستے…. رفتہ رفتہ انھوں نے مجھے بھی ڈھول بجانا سکھادیا تھا۔ تھوڑی ہی دنوں میں مجھ سے عمدہ ڈھول بجنے لگا۔ پھر ایک دھیمی مسکراہٹ اور اس خیال سے ڈھول کی چھڑی جھٹ سے ان کے ہاتھ میں پکڑائی کہ مبادا مجھے ڈھول بجاتا دیکھ کر سگنل پر رکی گاڑیوں میں سے کوئی شخص مجھ ہی سے نہ رجوع کرلے!
ان کی فکر و فاقہ سے ویران اور اندر دھنسی ہوئی حسرت ناک آنکھیں سگنل پر رکی گاڑیوں سے کسی حنائی ہاتھ کے اشارے کی منتظر رہتیں کہ کب کوئی ان کو اپنی جانب بلا کر کسی شادی میں ڈھول بجانے کے لئے کہے۔ کب دوسروں کی خوشیوں کی بدولت کچھ پیسہ پائی ان کے ہاتھ آئے اور وہ بھی اپنے افلاس زدہ گھروالوں کے شکم بھرسکیں ۔
شہر کی گلابی شاموں کو جو نظر لگی تو دسمبر کا آخری سورج دن ڈھلے اپنی تابناکی کھو بیٹھا اور شہر پر آخری نگاہ ڈال کر مغربی افق کے پار غروب ہو گیا.
نئے سال کی پہلی صبح کا اجالا پھیلتے ہی شہر کے آخری سگنل کی جگہ فلائی اوور اور انڈر پاس کی تعمیر شروع ہوئی تو بلاتعطل سال بھر جاری رہی – بالآخر دونوں پراجیکٹ مکمل ہوگئے.
اب پیلا کرتا سفید شلوار اور گلابی پگڑ پہنے تین ڈھولچی شہر کے کسی گھر اور شادی ہال کے باہر ڈھول بجاتے نظر نہیں آتے. سڑک کنارے کسی جگہ ڈھولک کی تھاپ سنائی نہیں دیتی -بس تیز رفتار گاڑیوں کے تیز ہارن سمع خراشی کرتے ہیں – اب لوگ آتشیں اسلحے سے ہوائی فائرنگ کرکے گولیوں کی تڑ تڑ سے خوشی مناتے ہیں جو اکثر کسی اور گھر میں ماتم کا باعث بن جاتی ہے –